اب خاموشی بولے گی
از، ڈاکٹر عبدالواجد تبسم
انسان حیوان ناطق ہے اور اسی کی بدولت ہر وقت بولتے رہنا، مافی الضمیر کا اظہار کرنا اس کے وجود کا لازمی جز ہے۔ اس گویائی کی طاقت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب آپ کسی ایسے کو دیکھتے ہیں کہ جو اس قوت سے محروم ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی صلاحیت کی بدولت وہ آنکھ کھولنے سے تا دمِ مرگ پتا نہیں کس کس انداز سے اظہار کر تا رہتا ہے اور اپنے نامۂِ اعمال کے دفتر کے دفتر سیاہ کرتا رہتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ جو بولتا ہے وہی صحیح ہے اور مخاطب کو بھی اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ جیسے وہ سمجھ رہا ہے، دیکھ رہا ہے یا پھر بول رہا ہے۔
حالانکہ ایسا بھی نہیں جو سوچنے، محسوس کرنےاور جاننے کی سطح اس کی ہے ضروری بھی نہیں کہ وہ درست ہو یا سامع کی سمجھ کے مطابق ہویا اس سے باہر ہو یا اس طرح ہو بھی نہیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق گفتگو کرو مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی سمجھ اور دانست کے مطابق گفتگو کرتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ آیا یہ دوسروں کی دانست میں بھی درست ہوگی کہ نہیں اور اگر وہ نہیں ہے تو پھر گفتگو کا ایسا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ اسے نا تمامی کی طرف لانا ناممکن ہے۔اور پھر الجھاؤ، بدگمانی اور نہ جانے کون کون سے خدشات جنم لینے لگتے ہیں اور زندگی اچھا خاصا روگ بن جاتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالواجد تبسم کی ایک روزن پر شائع شدہ دیگر تحریریں
میں اکثر اسی بات پر سوچتا ہوں کہ آیا دوسروں کو سمجھاتے رہنا یا سمجھتے رہنا یا ہر وقت کے خدشات یا بدگمانیاں پالے رکھنا نہ صرف آپ کی زندگی کو بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی الجھائے رکھتا ہے تو کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ بھروسا کرنا سیکھ لیا جائے کہ جو جیسا کہہ رہا ہے ویسا ہی ہے اگر نہیں ہے تو وقت خود ثابت کر دے گا کہ کون سی بات کھری تھی یا کھوٹی۔ انسان پھر جھوٹ بول کے، جھوٹی شان کے لیے، جھوٹی وضع کے لیے، ذرا سی منفعت کے لیے جھوٹ بول دیتا ہے مگر وقت کسی کا برہم نہیں رکھتا وہ خود بتا دیتا ہے کہ اس کے تول میں جب آؤ گے تو رائی کے دانے برابر بھی کم تر ہوگے تو وقت کی رو سے نکل جاؤ گے اور ایسے گم نام ہو جاؤ گے کہ تمہارا نام تک نہیں ہوگا کیوں وقت تو وقت ہے اس نے کوئی ایسا لبادہ نہیں اوڑھ رکھا کہ جب اترے گا تو اس کی حقیقت سامنے آجائے گی۔
وہ تو جیسا ہے ویسا ہی ہے اور اس کا تو کوئی روپ بھی نہیں۔ اس کی رو میں جو آتا ہے اس کے سارے لبادے خود ہی اتر جایا کرتے ہیں اور پھر اسے کسی لباس کی ضرورت نہیں ہوتی اورنہ کوئی لباس اس کی بر ہنگی کو ڈھانپ سکتا ہے۔ زمانے کی تاریخ بھی یہ بتاتی ہے کہ کل تک جو جھوٹ تھا، وقت نے ثابت کر دیا کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا سچ تھا اور جو کل تک سچ تھا وقت کی رو میں آکر جھوٹ ہو گیا۔ اس لیے ضروری ہے کہ کسی کو سمجھاتے رہنا، یا سمجھتے رہنا وقت کا زیاں ہے۔
اس مسئلے پر کافی سوچتا تھا اور الجھتا تھا کہ لوگ اس طرح کی رائے کیوں دیتے ہیں، جب کہ ضروری نہیں کہ کوئی ایسا ہو۔ میں نے ایک دوست سے کہا کہ مجھے تم ہی اس مسئلے کا حل بتاؤ تو کہا دیکھو کسی کو سمجھتے یا سمجھاتے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا بھی آپ کی بات کو سمجھ رہا ہو، اگر وہ نہیں سمجھ رہا تو خواہ مخواہ الجھونہیں۔ بلکہ خاموشی، لاتعلقی اور صبر سے کام لو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے میں نے کہا بات تو پتے کی تم نے کیوں کہ بعض اوقات خاموش ہو جانا، چپ سادھ لینا اور سب کچھ جاننے کے باوجود خاموشی اختیار کر لینا، بولنے کی وہ اعلیٰ سطح ہے کہ جہاں وہ خود گفتگو بن جاتی ہےاور بے زبانی زبان ہوجاتی ہے مگر یہ بھی نہیں کہ کوئی بات ہو اسے دل میں رکھے رکھے خاموشی اختیار کر لو اگرچہ یہ بھی اظہار کا ایک قرینہ ہے کیوں کہ دل کے اظہار کےلطیف جذبے اگر دل ہی میں دم توڑ دیں تو انسانی صفات کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔
وقت یہ بھی ثابت کر دے گا کہ کسی کے دل میں کیا تھا اگر وہ جذبہ صادق تھا تو وہ بھی سامنے آجائے گا اور پھر کس کوکچھ کہنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئےگی کیوں کہ قدر یں وہی زندہ رہتی ہیں جو دل ہی میں ٹوٹ جائیں۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اظہارکر دو اور اگر پھر بھی کوئی نہیں مانتا تو پھر رُسوائے زمانہ ہونے کی بجائے خاموشی اختیار کر لو، کیوں کہ اگر بات صدق کی حامل ہو تو خود کو منوا لیتی ہے اور اگر اس میں رائی برابر کھوٹ ہوگی تو وقت کے میزان میں ٹھہر نہیں سکے گی۔
مزید ملاحظہ کیجیے: علم کا مقام ذہن ہے
سوچتا ہوں کہ خاموشی کے اور بھی بہت سے فائدے ہیں چپ سادھ لینا، تنہا ہو جاتا، بھی ایک ایسا ہی اظہار رہے کہ جسے کسی قرینے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی اور دوسرے خاموشی اور تنہائی میں جو لطف ہے وہ بولنے میں نہیں۔ خاموش رہنے سےآپ کی سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں زیادہ کام کرنا شروع کر دیتی ہیں اور جذبات کا غلبہ جو آپ کی صلاحیتوں کو مفلوج کر دیتا ہے وہ خاموش رہنے سے آہستہ آہستہ خود ہی غائب ہو جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی کے تصورات اور خواب جو زندگی کا اثاثہ ہیں وہ لوٹ کر آنے لگتے ہیں اور ان میں رہنے میں جو لطف ہے کہ جو کسی کےقرب میں نہیں ہو سکتا بلکہ یہ وہ کیفیت کہ جہاں خاموشی خود بولتی ہے اور دوسرے بھی آپ کو بولنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آخر کچھ تو بولوکیوں چپ ہو، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ تمہاری خاموشی کے پس پردہ کیا راز ہے اور اگر آپ پھر بھی خاموش ہیں تو یہ از خود دوسروں کو اذیت میں مبتلا کر دے گا اور اگر آپ بولیں گے دوسرے سننے پر مجبور… ۔