خاموش جدائی

Jawad Husnain Bashar

خاموش جدائی

کہانی از، جواد حسنین بشر

اُس نے واٹس ایپ (WhatsApp) اور فیس بُک سے بور ہو کر موبائل ایک طرف پٹخ دیا اور گہری سانس لیتے ہوئے نیم دراز سے پورا دراز ہوتا چلا گیا۔ کمبل نے اس کی رانوں سے اس کی گردن تک کا فاصلہ طے کر لیا لیکن نیند سے اس کی آنکھوں کی دُوری کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

اگر چِہ تھکن اُس کے بدن پر حاوی تھی اور دفتر میں گھنٹوں کمپیوٹر پر کام کرتے رہنے سے روز کی طرح آج بھی اس کے دماغ اور آنکھوں پر بڑھتے ہوئے شدید درد کی مستقل کیفیت بر قرار تھی۔

پر وہ سو نہیں پا رہا تھا۔

اُس نے آنکھیں بند کیں اور ذہن کے سپِل ویز (spill ways) کھول دیے اور سوچ کے دھاروں کو بہنے کے لیے آزاد کر دیا۔

وہ اپنی امی سے یہ بات کیسے پوچھے ؟

نہ جانے وہ کیا سوچیں گی؟

وہ تو مجھے پاگل سمجھیں گی… یک وہ ہی کیا…  اگر کوئی بھی میرے ذہن میں پنپ رہی انوکھی سوچوں سے واقف ہو گا تو بلا شک و شبہ مجھے پاگلوں کا سردار سمجھنے لگے گا۔

’’اُف! ہو! تم اتنے لوجیکل (logical) کب سے ہو گئے؟‘‘

اُس نے ایک دم سے بُڑ بُڑاتے اور مُنھ بناتے ہوئے بے ڈھنگے پن سے کروٹ بدلی اور سر کو بازوؤں میں دبا لیا۔ جیسے اپنے ذہن کے سپِل ویز (spill ways) کو بند کرنا چاہتا ہو تا کہ سوچ کے دھاروں کے بہاؤ کا سلسلہ کٹ جائے۔

وہ پھر سے بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

اس کی بیوی کئی دنوں سے میکے میں تھی اور وہ کمرے میں اکیلا تھا۔

اس نے پھر سے موبائل اٹھا لیا اور وہ اپلیکیشن (application) اوپن (open) کی جس کی وجہ سے وہ پچھلے کئی روز سے تکلیف میں تھا۔

دل میں بسے موروثی تقدس اور اَن دیکھے ثواب کے حصول کی خاطر اس نے وہ اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ (download) توکر لی تھی لیکن غلطی سے کئی بار اسے اوپن کر کے مقدس کتاب کے ترجمہ شدہ کچھ حصے بھی پڑھ ڈالے تھے۔ لیکن یہ غلطی تو اس کے دل دماغ کے لیے ایک بھیانک سا رخ اختیار کر گئی تھی۔

وہ حد سے زیادہ لوجیکل قسم کی سوچ کا انسان تو نہیں تھا، لیکن بات اتنی واضح، صاف اور ویلڈ (valid) تھی کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سوچ میں پڑتا چلا گیا۔ اس پر اس کی اپنے دوست سے ہوئی ایک دن پہلے کی گفتگو نے گویا جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔

اس کے دوست نے اسے بتایا تھا کہ وہ جس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے اس کا رشتہ اس کے والدین نے زبر دستی کہیں اور طے کر دیا ہے۔

اپنے دوست کی بات سن کر اس کے ذہن میں مقدس کتاب کے وہ دو ٹوک الفاظ پھر سے تازہ ہو گئے تھے جنہوں نے اس کے ذہن میں ہلچل مچا رکھی تھی۔


مزید ملاحظہ کیجیے: محلے کی کہانیاں (نجیب محفوظ)   ترجمہ، منیر فیاض


یوں تو اُس نے بھی جبر کے تحت کئی ایسے کام کیے تھے جو اسے نا پسند تھے یا پھر جن سے وہ کراہت یا بے زاری محسوس کرتا تھا۔ لیکن ایسے کیے گئے کاموں کے جائز یا نا جائز ہونے کے بارے میں اسے کبھی خیال تک نہیں آیا تھا۔

نہ ہی معاشرے میں جبر کے مظاہر پر اس کی خصوصی تَوَجُّہ کبھی رہی تھی۔

البتہ اس کی بیوی نے کچھ عرصہ پہلے کافی بحث بَل کہ لڑائی کے بعد اس سے عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک مقامی تنظیم میں شمولیت کی اجازت لی تھی۔

اس کی بیوی تو اکثر ایسے ہی موضوعات پر باتیں کرتی۔ پسند کی شادی پر تو وہ کچھ زیادہ ہی زور دیتی۔

اس کے ذہن میں اٹھنے والا نکتہ بڑھتے پھیلتے ایک دائرہ بن چکا تھا اور اس دائرے میں اسے خود اپنا آپ بھی اجنبی بَل کہ نا جائز سا لگنے لگا تھا۔

ہر بار وہ اپلیکیشن کھلتی تو ذہن کے بند سپِل ویز (spill ways) بھی جیسے کھل سے جاتے۔ سوچ کے دھارے بہنے لگتے۔ نت نئے نکتوں کا جیسے ڈھیر لگ جاتا۔

لیکن ان نکتوں میں سے ایک نکتہ اس کے دل و دماغ پر کچھ زیادہ ہی حاوی ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ اس کی امی تھیں۔

اس نے اپنی امی کو ہمیشہ گُھٹی گُھٹی سی اور کھنچی کھنچی سی رہنے والی خاتون پایا تھا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے شوہر سے بھی تکلف سے پیش آتی تھیں۔

وہ پہلی بار اپنے والدین کے بارے میں اس طرح کی باتیں سوچ رہا تھا۔ کچھ دنوں سے سوچتے سوچتے اس پر جیسے انکشاف ہوا تھا کہ وہ تو بچپن سے ا ب تک دو اجنبیوں کے ساتھ رہتا آیا ہے۔

ایک اس کی امی، ایک اس کے ابو، ایک چھت تلے دو اجنبی، ایک جائز رشتے میں بندھے؛ پھر بھی اجنبی۔

رشتہ بھی، اجنبیت بھی، جہاں رشتہ ہو وہاں اجنبیت کا کیا کام؟

اس کا گھر بھی جیسے خاموش جدائی کا مسکن ہے ہر دوسرے گھر کی طرح۔

وہ سوچے چلاجا رہا تھا۔

آخر اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنی امی سے پوچھے گا تا کہ اس نے جو کچھ محسوس کیا ہے اس کی تصدیق ہو سکے۔

صبح ہوتے ہی وہ اپنی امی کے سامنے موجود تھا۔ اس نے امی کو غور سے دیکھا۔ ان کا چہرہ اور بدن ساٹھویں برس کی گزر گاہ تھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح جھول جھول جھوم جھوم کر مقدس کتاب کی تلاوت میں محو تھیں۔

اس نے جھجکتے ڈرتے امی کو متوَجُّہ کرتے ہوئے بات چھیڑی۔ امی ہفتہ وار عبادت کی تقریر میں پیشوا اکثر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ مقدس کتاب کا ہر لفظ حکم اور قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ ہے ناں امی؟

اس کی امی نے سَر ہلانے پر اِکتِفا کیا اور اس کے چہرے پر مقدس پھونک پھیلانے لگیں۔ وہ پھر بولا۔

امی آپ کی شادی پسند سے ہوئی تھی؟

اس کی امی اس کا غیر متوقُّع سوال سن کر جھولتے جھولتے رک گئیں۔ گویا اَن دیکھے بازوؤں نے آندھی میں جھولتے، شاخیں پٹختے درخت کو مضبوطی سے پکڑ کر ساکت کر دیا ہو۔

وہ اپنی امی کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا اور اندر ہی اندر خود کو کوسنے لگا۔ اس کی امی نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ ان کے چہرے کے عضلات اندر کی طرف کھنچ گئے تھے جیسے کچھ ضبط کر رہی ہوں۔ وہ کیا ضبط کر رہی ہیں؟ اس نے سوچا۔

شاید غصہ یا پھر آنسو؟

کچھ دیر بعد اس کی امی نے آنکھیں کھولیں، اسے ایسے دیکھا گویا وہ کسی اجنبی کو دیکھ رہی ہوں اور پھر اس کے چہرے کو ہاتھوں میں تھام کر ماتھے کو چُوم کے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔

اسے ایسا لگا جیسے وہ لا شعوری اور خود ساختہ موروثی جبر کے ہاتھوں پیدا ہونے والا ایک نا جائز بچہ ہے جسے یہ تسلی بھرا احساس دلانے کے لیے کہ وہ نا جائز نہیں ہے کسی نے اپنے سینے میں چھپا لیا ہے۔

وہ اپنی امی کے سینے میں مُنھ چھپائے، اپنے بالوں پر ایک مجبور عورت کی آنکھوں سے ٹپکتے نمکین پانی کے قطروں کا لمس محسوس کرتے ہوئے سوچے جا رہا تھا کہ اس کی بیوی نے یہی تنظیم کیوں جائن کی؟ وہ یہی باتیں کیوں کرتی ہے؟ اُس نے اپنے ذہن کے سپِل ویز (spill way) پوری طرح کھول دیے۔