آئیڈیا فار جسٹس، اگر سَر گنگا رام جنت نہیں جاتے تو…؟
از، پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد
اخذ و ترجمہ، عرفانہ یاسر
پندرہ فروری 2018 کو مجھے گورنمنٹ کالج ساہی وال کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر اخلاق حسین کی دعوت پر، پنجاب لوک سجاگ سے وابستہ میرے دوست شفیق بٹ اور زکریا خان کے تعاون سے گورنمنٹ کالج ساہی وال جانے کا موقع ملا۔
گورنمنٹ کالج ساہی وال سنہ 1946 میں گورنمنٹ کالج منٹگمری کے نام سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس موقع پر مجھے سنہ 1947 میں پنجاب کی تقسیم پر بات کرنا تھی۔
تقسیمِ ہند سے پہلے منٹگمری کے نام سے جانا جانے والا قصبہ ان تین جدید قصبوں میں شامل تھا جس کا نہری اور بیراج سسٹم برطانیہ نے وضع کیا تھا جس نے مغربی پنجاب کے نیم صحرائی علاقے کو پورے ہندوستان کے ذخیرۂِ اناج میں بدل کر رکھ دیا تھا۔
اس سلسلے میں دوسرے دو علاقے لائل پور(فیصل آباد ) اور سرگودھا تھے۔ ایک وقت تھا جب بڑی تعداد میں ہندو اور سکھ مسلمانوں کے ساتھ اس علاقے میں رہتے تھے۔
ساہی وال اور اس کے ارد گرد علاقوں کا ایک اہم تاریخی واقعہ اسی برس کے سردار رائے احمد خان کھرل کی انگریزوں کے خلاف جد و جہد تھی جنھوں نے پنجاب کے اس حصے کے برطانیہ کے ساتھ الحاق پر مزاحمت پیش کی تھی۔
کھرل، وٹو اور کچھ دوسرے قبائل اس علاقے میں جنگلی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ یہ قبائل مال مویشی پالنے والوں کا گروہ تھے جن کی برطانوی نہری نظام کے نتیجے میں سامنے آنے والی زرعی آباد کاری نے اکھاڑ پچھاڑ کر دی تھی۔ جس کے نتیجے میں1857 میں ایک لمبی گوریلا جنگ لڑی گئی۔ احمد خان کھرل گرفتار ہو گئے اور ان کا سر قلم کر دیا گیا۔
احمد خان کھرل کے پیرو کاروں نے رد عمل کی کار روائی کرتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر بارکیلے کو پکڑا اور انھیں قتل کر دیا۔ کچھ لوگوں کا ہیرو دوسروں کے لیے ولن ہو سکتا ہے، تاریخ کے اس پہلو کو سمجھنے کے لیے اس قتل سے بہتر واقعہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
میں واپس ساہی وال میں دیے گئے آئیڈیا فار جسٹس لیکچر کی طرف آتا ہوں۔ بڑی تعداد میں طلباء اور اساتذہ نے اس لیکچر میں شرکت کی۔ سٹیج پر میرے ساتھ پولیٹکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر گورایا تشریف فرما تھے اور میرے پاس ایک گھنٹے کا وقت تھا جس میں مجھے پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے تین مراحل پر بات کرنی تھی۔
پہلا مرحلہ مارچ 1947 کا تھا جو دو ہفتے جاری رہا جس میں لاہور، امرتسر، ملتان اور لاہور فرقہ وارانہ فسادات کے عذاب سے گزرے تھے۔
دوسرا مرحلہ وہ تھا جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 24 مارچ کو وائسرے کا چارج سنبھالا اور ریڈ کلف لائن کے مطابق پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔
تیسرا مرحلہ 15 اگست سے 31 دسمبر 1947 تک تھا جس میں دونوں نوزائیدہ ممالک کی انتظامیہ اقلیتوں سے نجات حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ ایک اقلیت بھارتی مشرقی پنجاب کے ساٹھ مسلمان تھے اور دوسری اقلیت پاکستانی مغربی پنجاب کے 54 لاکھ ہندواور سکھ تھے۔
میں نے اپنے آئیڈیا فار جسٹس میں کچھ سچی کہانیاں سنائیں جو مجھے نے اپنے تحقیقی مطالعے کے دوران سننے کو ملی تھیں۔ ان میں سے ایک کہانی ایک چار سال کی لڑکی کی تھی جو سنہ 1947 میں مشرقی پنجاب کے ضلع روپر میں اپنی ماں سے الگ ہو گئی۔
ہزاروں مسلمان جن میں سے زیادہ تر گجر شامل تھے اس دوران قتل کر دیے گئے، اور کچھ بچ گئے جو پاکستان زندہ پہنچ گئے۔ تاہم وہ چھوٹی لڑکی زندہ بچ گئی جو لاشوں کے بیچ کھڑی تھی۔ ان کو ایک سکھ عورت ایک ایسے سکھ کے پاس لے آئیں جو لوگوں کو مارنے میں شامل رہے تھے۔
جب سکھ نے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا تو ان کے اندر ہم دردی اور انسانیت جاگ گئی۔ انھوں نے اس بچی کو گود لے لیا۔ بعد میں بڑے ہونے پر اس لڑکی کی شادی کر دی گئی۔ جب 2005 میں اس لڑکی سے میری ملاقات ہوئی تو وہ بچوں اور پوتوں سمیت دادی بن چکی تھیں۔
ان کے سکھ باپ نے اس کا نام نصیب کور رکھا تھا۔ اس لڑکی کو گود لینے کے بعد سکھ کے کاروبار میں بڑی ترقی ہوئی حتیٰ کہ ان کے ہاں شادی کے اتنے سالوں بعد دو بچوں کی پیدائش بھی ہوئی۔
چھوٹی بچی کی ماں جو کہ پاکستان آ گئی تھیں، ہر سال ننکانہ صاحب جاتی اور وہاں پوچھتیں کہ ان میں سے کوئی روپر گاؤں سے آیا ہے۔ آخرِ کار ایک دن ان کی ملاقات ان خاتون سے ہو گئی جنھوں نے ان کی بیٹی کو بچایا تھا اور پھر ایک سکھ کے حوالے کر دیا تھا، جنھوں نے اس کی بیٹی کو گود لے لیا۔
اس کے بعد انھوں نے اسلام آباد میں ہندوستانی ہائی کمیشن سے ویزے کے لیے رجوع کیا اور کسی نے ان پر ترس کھا کر انھیں ویزہ دے دیا۔
نصیب کور نے مجھے بتایا کہ سنہ 1991 میں کسی نے میرے دروازے پر دستک دی اور میں نے ایک بوڑھی، جانی پہچانی عورت کو 45 سال بعد دیکھا۔
آخرِ کار ماں اور بیٹی کی ملاقات ہو گئی۔ ماں ایک پکی مسلمان تھی جو دن میں پانچ بار نماز پڑھتی تھیں جب کہ بیٹی ایک سکھ تھی۔ اس وقت نصیب کور کو پتا چلا کہ ان کا مسلمان نام عظمت بی بی ہے۔
نصیب کور نے مجھے بتایا کہ وہ اب سکھ مذہب میں سکون میں ہیں۔ اس بات کی وجہ سے ماں اور بیٹی میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا کیوں کہ دونوں خاندانوں نے ایک دوسرے کے مذہب کو کھلے دل سے تسلیم کر لیا۔
پروفیسر اورنگ زیب جو کہ خود سیاسیات کے استاد رہے، اب ریٹائر ہو گئے ہیں، انھوں نے مجھ سے ایک سوال پوچھا، کیا نصیب کور جو کہ 1947 میں حادثاتی طور پر سکھ بن گئی جنت میں جائیں گی؟
مجھے نہیں پتا عالمِ دین اس بات کا کیا جواب دیتے لیکن میں نے کہا کہ ہم بَہ طور استاد ان طلباء کو اچھے نمبر دیتے ہیں جوبہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔ صرف میرٹ کی بنیاد پر ہمیں نمبر دینے چاہییں۔
گنگا رام جو کہ ہندو تھے انھوں نے پنجاب کے لوگوں کے لیے ہسپتال، سکول، کالج، سڑکیں، اور بہت کچھ بنایا اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ میرے مقابلے میں جنت میں جانے کے زیادہ مستحق سر گنگا رام ہیں۔ اگر وہ جنت میں اس لیے نہیں جا سکتے کہ وہ ہندو تھے تو میں جہنم میں جانا پسند کروں گا کیوں کہ اصل انصاف یہ ہے۔
اس بات پر مسلسل تالیوں کی آواز نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ میں اس بات کا قائل ہو گیا کہ لوگ درست فیصلے کر سکتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج ساہی وال کے طلباء اور فیکلٹی کو سلام۔
میں امید کرتا ہوں کہ میرا آئیڈیا فار جسٹس ایک دن اس دنیا میں بغیر کسی تعصب کے ایک دوسرے سے برتاؤ کرنے کی بنیاد بنے گا۔ موت کے بعد کیا ہو گا یہ البتہ بھید رہے گا۔
اس مضمون کا انگریزی متن بَہ عنوان An Idea of Justice ڈیلی ٹائمز پاکستان میں 18 فروری 2018 کو شائع ہوا۔ ایک روزن نے اس کا ترجمہ پیش کیا ہے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے مواد کو کسی اور جگہ شائع کرنے والے لوگ اور ادارے اس کا مناسب انداز میں حوالہ اور کریڈٹ دینے کی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، ورنہ تو چور کا آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بھی دوسروں کو چور کہنے کا ہمارے یہاں چلن ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.