سر سید کا رفیق اور تعلیمِ نسواں کا نقیب : الطاف حسین حالیؔ
ڈاکٹر سیما صغیر
شعبۂ اردو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
انیسویں صدی کے ہندوستانی بالخصوص مسلم معاشرے میں جو تبدیلی آرہی تھی اُس میں رفقائے سر سید کی انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی جانب بھی توجہ دی۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اصلاحِ معاشرت کی کوئی بھی کوشش تعلیمِ نسواں کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی ہے۔ علی گڑھ تحریک سے وابستہ افراد میں ڈپٹی نذیر احمد، الطاف حسین حالی،شبلی نعمانی اور نواب سلطان جہاں بیگم نے کوشش کی کہ خواتین بدلے ہوئے نظام کے تقاضوں کے تحت نئے تصورات سے واقف ہوں۔ طبقۂ نسواں میں تعلیم کی بیداری کے لیے ان جلیل القدر شخصیات نے ادب کی دونوں اصناف نثر و نظم سے مفید کام لیا۔
رفقائے سر سیدنے مسائلِ تہذیب و تمدن اور زبان و ادب کی طرح خواتین کے مسائل بھی اپنی تحریروں کے ذریعے قارئین کے سامنے رکھے۔ اس کے لیے انھوں نے محض ہمدردانہ رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ ان کی زبوں حالی کو دور کرنے کے امکانی جتن بھی کیے۔ نذیر احمد نے پہلی بار سماجی مسائل کو موضوع بناتے ہوئے خواتین کی کسمپرسی کو فوقیت دی اور انھیں جدید علم و ہنر سے مالا مال کرنے کی کوشش کی۔ نواب سلطان جہاں بیگم نے نہ صرف تحریر و تقریر کے ذریعے خواتین کے سماجی وقار و مرتبہ اور تعلیم و تربیت کی طرف توجہ مبذول کی بلکہ عملی اقدام بھی کیے۔ شبلی نعمانی جو سلطان جہاں بیگم سے بھی بے حد متاثر تھے ، انھوں نے تعلیمِ نسواں کو فروغ دینے میں تعاون کیا۔
ان سبھی نے افسانوی اور غیر افسانوی نثردونوں کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔ بیان اور اندازِ بیان سبھی کا تقریباً ایک سا یعنی ناصحانہ اور اصلاحی رہا۔ یہاں محض حالیؔ کا ذکر مقصود ہے جنھوں نے جدید تعلیم اور تربیت پر دسترس کے لیے پہلی بار خواتین کا انتخاب کیا اور روشن خیالی کے فروغ کے لیے نثرمیں ’’مجالس النساء‘‘ خلق کی تو ان کی شاعری میں’’مناجاتِ بیوہ‘‘، ’’چُپ کی داد‘‘ اور ’’بیٹیوں کی نسبت‘‘ جیسے فن پارے تعلیمِ نسواں کے محرک ہیں۔انھوں نے یہ تخلیقات اپنے، یا اپنے اہل و عیال کی ضرورت کے پیش نظر خلق نہیں کیں بلکہ ان کا مقصد قوم کی بچیوں اور عورتوں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا تھا۔صالحہ عابد حسین ’’مجالس النساء‘‘ کے مقدمے میں رقم طراز ہیں:
’’حالی کے دل میں عورتوں کا بڑا احترام تھااور ان کی تعلیم ،تربیت اور بھلائی کی گہری فکر تھی۔ اور اس کا بڑا دکھ تھا کہ عورت کو مردوں نے علم کی روشنی سے محروم رکھا ہے۔ اس احساس کی پہلی جھلک ’مجالس النساء‘ میں نظر آتی ہے۔ بعد میں یہی درد ’’چُپ کی داد‘‘ میں ڈھل کر سامنے آیا۔ حالیؔ کی کوششیں صرف قلم تک محدود نہ رہیں۔ انھوں نے اپنے خاندان، محلے اور اپنے وطن پانی پت میں لڑکیوں کی تعلیم کو رواج دیا۔‘‘
فروغِ تعلیمِ نسواں کا یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر سمیع اختر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’مولانا حالیؔ کی اجتماعی شاعری کا ایک اہم عنصر ہندوستانی معاشرے میں از روئے انسانیت اور از روئے شریعت عورتوں کے جائز دینی، انسانی اور معاشرتی حقوق کی بازیابی کے لیے عملی جدو جہد ہے۔ مولانا حالیؔ ہندوستانی معاشرے میں عورتوں پر ہونے والے مظالم اور زیادتیوں سے بے حد رنجیدہ اور کبیدہ خاطر تھے۔ ان کا یہ درد ان کی نظم ’’چُپ کی داد‘‘، ’’مناجاۃ بیوہ‘‘ اور ’’بیٹیوں کی نسبت‘‘ میں پوری طرح نمایاں نظر آتا ہے۔‘‘ (تہذیب الاخلاق، حالی نمبر۲۰۱۴ء ، ص۳۶)
اِن تینوں نظموں میں حالیؔ نے ہمارے معاشرے میں رائج تباہ کن رسوم کے توسط سے خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو نہایت موثر انداز میں اُجاگر کیا ہے۔مثلاً اُس عہد میں والدین کے لیے شادی کا مرحلہ بھی کسی بڑے مرحلے سے کم نہیں تھا۔ تناؤ آج بھی ختم نہیں ہوا ہے مگر انیسویں صدی کے مسلم معاشرے میں مہذب سسرال اور با کردار شوہر کے انتخاب کو حالیؔ نے ’’بیٹیوں کی نسبت‘‘ میں خوبی سے پیش کیا ہے۔ وہ نظم کا اختتام اِن اشعار پر کرتے ہیں
جاہلیّت میں تو تھی ایک یہی آفت کہ وہاں
گاڑ دی جاتی تھی بس خاک میں تنہا دختر
ساتھ بیٹی کے مگر اب پدر و مادر بھی
زندہ در گور صدا رہتے ہیں اور خستہ جگر
اپنا اور بیٹیوں کا جب کہ نہ سوچیں انجام
جاہلیّت سے کہیں ہے وہ زمانہ بد تر
مختلف تاویلوں سے یہ باور کرایا ہے کہ جب قوم کی اصلاح اور نئی نسل کی تربیت کا انحصار خواتین پر ہے تو پھر اُن کے ساتھ ظلم اور زیادتی کیوں؟ سنتِ نبوی پر عمل کرنے والی قوم حضرت خدیجہ سے سبق لینے کے بجائے ’بیوہ‘ کو مسائل و مصائب میں مبتلا کیوں کرتی ہے؟’’مناجات بیوہ‘‘ میں حالیؔ نے حمدیہ طرز کا سہارا لے کر کم سن بیوہ کی درد بھری کہانی کو بیان کیا ہے اور وہ بھی خود اُس کی زبانی۔ابتداءً اللہ کی بزرگی اور عظمت کو پیش کیا گیا ہے پھر بدلتے ہوئے زمانے کے نشیب و فراز کے ساتھ بیوہ کا دل گداز قصہ ہے
جس دُکھیا پر پڑے یہ بپتا
کر اُسے تو پیوند زمیں کا
یا عورت کو پہلے بُلا لے
یا دونوں کو ساتھ اُٹھا لے
یا یہ مٹا دے رِیت جہاں کی
جس سے گئی ہے پِریت یہاں کی
قوم سے تو یہ رِیت چُھڑا دے
بندیوں کی بیڑی یہ تُڑا دے
رنج اور دُکھ قبضے میں ہے تیرے
چین اور سُکھ قبضے میں ہے تیرے
مالک رام اپنے مضمون ’’حالیؔ ہندوستانی ادب کے معمار‘‘میں اِس نظم پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’انھوں نے کمسن بیوہ کے دکھوں کو محسوس کرکے دل نشیں اور شیریں الفاظ میں ’مناجاتِ بیوہ‘ لکھی۔وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے عورتوں کی مظلومیت کے خلاف آواز اٹھائی اور سماج کو یقین دلایا ہے۔ اس نظم میں کمسن بیوہ کی درد ناک داستان جس نے اپنے شوہر کو کھو دیا تھا،بیان کی گئی ہے۔ یہ بیوہ سماج کے ایسے بندھنوں میں جکڑی ہوئی تھی کہ اس کا باہر نکلنا ناممکن تھا۔ حالیؔ نے اس کے خلاف آواز بلند کی ہے۔‘‘(ص،۴۲)
اس موثر نظم کااندازِ تخاطب سادہ، صاف ستھرا مگر ذہن کو جھنجھوڑ دینے والا ہے۔زبان اُس طبقے کی روز مرہ کی زبان ہے جس کو ایک بد قسمت عورت اپنی بپتا سنا رہی ہے۔
’’چُپ کی داد‘‘ میں عورت کی مکمل شخصیت کا احاطہ کرتے ہوئے اُس کی فطری صفات کا ذکر کیا ہے۔ اُس کی محبت و مروت، شرم و حیا، صبر و رضا کی تعریف کرتے ہوئے، قدر و منزلت اور بلندئ درجات کو بھی موضوعِ بحث بنایا ہے۔ مذکورہ نظم میں معاشرے کے سامنے آئینہ رکھتے ہوئے حالیؔ سوال قائم کرتے ہیں کہ جب دنیا کی زینت اور قوموں کی عزت خاتونِ خانہ سے ہے تو پھر اُس پر جور و جفا کیوں؟ علم و ہنر کے دروازے اُس پر مختصر اور محدود کیوں کر دیے گئے
جو عِلم مردوں کے لیے سمجھا گیا آبِ حیات
ٹھہرا تمھارے حق میں وہ زہرِ ہلاہل سر بسر
نتیجتاً
عِلم و ہنر سے رفتہ رفتہ ہو گئیں مایوس تم
سمجھا لیا دل کو کہ ہم خود عِلم کے قابل نہ تھیں
سمجھانے بجھانے کا کام معاشرے نے اس طرح کیا کہ
جب تک جیو تم عِلم و دانش سے رہو محروم یاں
آئی ہو جیسی بے خبر ، ویسی ہی جاؤ بے خبر
حالیؔ نے انتہائی حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے وہ بات کہہ دی جو اُن سے پہلے شاید ہی کسی نے اِس قدر بیباکی سے کہی ہو
دُنیا کے دانا اور حکیم اس خوف سے لرزاں تھے سب
تم پر مُبادہ عِلم کی پڑ جائے پرچھائیں کہیں
ایسا نہ ہو مرد اور عورت میں رہے باقی نہ فرق
تعلیم پاکر آدمی بننا تمھیں زیبا نہیں
’’چُپ کی داد‘‘ کا طریقہ حالیؔ نے انوکھا نکالا
آخر تمھاری چُپ دلوں میں اہلِ دل کے چُبھ گئی
سچ ہے کہ چُپ کی داد آخر بے ملے رہتی نہیں
نظم کے آخر میں وہ قاری کو مژدہ سناتے ہیں
جو حق کے جانب دار ہیں بس ان کے بیڑے پار ہیں
بھوپال کی جانب سے یہ ہاتف کی آواز آئی ہے
ہے جو مُہم درپیش ، دستِ غیب ہے اس میں نہاں
تائید حق کا ہے نشاں امدادِ سلطانِ جہاں
حالیؔ نے بیدارئ نسواں کی جو شمع ۱۸۸۴ء میں ’’مناجاتِ بیوہ‘‘ کی شکل میں روشن کی تھی یہ اُسی کا نتیجہ تھا کہ اُسی سال دہلی سے عورتوں کی تعلیم و تربیت کے پیشِ نظر ’’اخبار النساء‘‘ جاری ہوا۔ دو سال بعد ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ جلسے میں شعبۂ تعلیمِ نسواں کا قیام عمل میں آیا اور مولوی ممتاز علی اس کے پہلے سکریٹری مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۲ء میں جب شیخ محمد عبداللہ کانفرنس کے سکریٹری بنائے گئے تو حالیؔ نے بے حد مسرت کا اظہار کیا۔ حالیؔ کے مشورہ سے ایم۔ اے۔ او۔ کالج کے رسالہ ’’علی گڑھ منتھلی‘‘ نومبر ۱۹۰۳ء کا شمارہ ’’ہم اور ہماری خواتین‘‘ کے لیے مخصوص کیا گیا۔’’تہذیبِ نسواں‘‘ اور رسالہ ’’خاتون‘‘ کے محرک بھی الطاف حسین حالیؔ ہیں۔ اِس کا اعتراف مولوی ممتاز علی اور شیخ محمد عبداللہ دونوں نے کیا ہے۔ ۱۹۰۵ء میں شائع ہونے والی اُن کی یہ نظم ’’چُپ کی داد‘‘ رسالہ ’’خاتون‘‘ میں ادارتی نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی۔ خصوصی توجہ اِس جانب چاہتی ہوں کہ مذکورہ نظم کے اختتام میں نواب سلطان جہاں بیگم کا جو دانستہ ذکر آیا ہے وہ اسی لیے کہ بیگم سلطان جہاں اُس عہد میں تحریکِ نسواں کی سب سے بڑی سر پرست تھیں۔
نثر میں حالیؔ نے تعلیمِ نسواں کے موضوع کو ’’مجالس النساء‘‘ کے توسط سے پیش کیا ہے۔ یہ شاہکار تخلیق حالیؔ نے مدرسۃ العلوم کے قائم ہونے سے ایک سال قبل لاہور کے قیام کے دوران لکھی تھی۔ اس کتاب میں پیش کیے گئے خواتین کی تعلیم و تربیت اور بچوں کی نگہداشت و پرورش کے مثبت اور تعمیری اندازِ فکر کو بہت سراہا گیا۔ ڈائریکٹر سررشتۂ تعلیم نے اسے نصاب میں شامل کیا۔ گورنر جنرل نے چار سو روپیے کا انعام دیا۔ یہ کتاب نہ صرف مشرقی تہذیب و تمدن کی غماز ہوئی بلکہ مغربی افکار و نظریات کے اثرات کا عکس پیش کرنے میں بھی معاون ہوئی۔’’مجالس النساء‘‘ میں پست ہمتی کے بجائے حوصلہ مندی اور منافرت کے بجائے مصالحت کو اختیار کرنے کی تلقین ملتی ہے۔ حالیؔ کی اِس تصنیف نے واضح کردیا کہ آنے والا زمانہ جدید علوم و فنون کا ہے اور اس کے فروغ میں نصف آبادی سے گُریز ممکن نہیں ہے۔
اپنے وقت کے اِس نصیحت نامہ میں ہر عہد میں ترقی کا تصور پوشیدہ ہے۔ اسی لیے حالیؔ کی یہ نثری تصنیف عصرِ حاضر کے قاری کو بھی متاثر کیے بغیر نہیں رہتی ہے۔دو حصوں پر مشتمل ’’مجالس النساء‘‘ کے نو (۹)ابواب ہیں جنھیں مجالس کا نام دیا گیا ہے۔ ایک حصہ ماں اور بیٹی کے گرد گھومتا ہے تو دوسرے حصے میں بیٹے اور ماں کی کشمکش ہے۔مرکزی کردار زبیدہ ہے جسے اس کے والد خواجہ فضیل نے علم و ہنر سے آراستہ کیا ہے۔ شادی کے بعد وہ اپنے شوہر امجد علی اور بیٹے سید عباس کی ذمہ داری نبھاتی ہے۔ تین سال کی عمر میں ہی سید عباس سایۂ پدری سے محروم ہو جاتا ہے اور بیوہ زبیدہ اپنے بیٹے کو معاشرے کے سامنے ایک صحت مند، روشن خیال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔حالیؔ نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ تربیت اسے اپنے روشن خیال والدین سے ملی ہے جس کی دورِ حاضر میں اشد ضرورت ہے۔
ابتدائی چار مجلسوں میں یہ نکتہ اُجاگر کیا گیا ہے کہ ماں اگر ذی شعور، سلیقہ مند اور صاحبِ علم ہو تو وہ بچوں میں علم کا ذوق و شوق بھر دیتی ہے، عقل و شعور سے کام لینے کا ہنر سکھا دیتی ہے اور اِس عمل کے لیے کوئی روایتی طریقۂ کار استعمال کرنا ضروری نہیں بس وقت کی نزاکت کو سمجھنا لازم ہے۔بقیہ چار مجلسوں میں لڑکے اور لڑکی کی تخصیص و تمیز کو ختم کرتے ہوئے علم و ہنر کے فوائد کو اِس طرح بیان کیا ہے کہ نئے خیالات کو قبول کیے بغیر ترقی کی راہوں پر بآسانی آگے بڑھنا آسان نہیں ہوگا۔
زبیدہ بیگم کے علاوہ مذکورہ ادب پارے میں پانچ اور متحرک کردار، محمودہ بیگم، آتوجی (اُستانی) ، مریم زمانی، سید امجدعلی اور سید
عباس کے ہیں۔ پہلی مجلس میں آتوجی کے ساتھ محمودہ بیگم اور اُس کی ماں مریم زمانی کی حالاتِ حاضرہ پر گفتگو ہے۔ دوسری مجلس میں توہمات، عقائد اور رسم و رواج پر آتوجی کا بیان ہے۔ تیسری، چوتھی اور پانچویں مجلس میں زبیدہ خاتون اور اُن کے بیٹے سید عباس کے حصولِ علم اور نظامِ تعلیم پر مدلل جوابات ہیں۔چھٹی مجلس میں آتوجی، مریم زمانی اور بڑی بیگم کا مِلا جُلا ردِ عمل ہے۔ اِس حصے میں سید امجد علی کا وصیت نامہ خاصہ اہم ہے کیوں کہ تینوں مجلسیں وصیت نامے کے عمل اور ردِ عمل سے براہ راست وابستہ ہیں۔
قصہ کے رائج بیانیہ سے الگ ہٹ کر مکالماتی انداز میں خواتین کی جو محفل سجائی گئی ہے اس میں بے تکلف گفتگو کا واضح انداز ہے۔
منظر اور پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے سوال و جواب کے توسط سے ایک باقاعدہ پلاٹ ترتیب دیا گیا ہے اور ہر حصے میں اس کا خیال رکھا گیا ہے کہ یہ بات قاری کے ذہن نشین ہوتی جائے کہ ماں پر بچے کی پرورش ، نگہداشت اور تعلیم و تربیت کا دارومدار ہے۔لہٰذا اُس کا ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند ہونا ضروری ہے۔ یہ تاکید بھی ہے کہ وہ محض شفقت اور محبت کا ہی اظہار نہ کرے بلکہ ایک جراح اور معلمہ کے فرائض انجام دیتے ہوئے اس میں سختی برتنے کی بھی صلاحیت ہو۔مکالمہ کے ذریعہ مباحث کو اٹھانے کی روایت مغرب میں مکالماتِ افلاطون سے چلی آرہی ہے۔ مشرق میں بھی صوفیاء کے ملفوظات میں گفتگو اور تمثیل کے وسائل سے تصوّف کے نکات بیان کیے گئے ہیں۔ حالیؔ کی یہ کاوش عام زندگی کے گھریلو معاملات کو موضوع بنا کر ان کی اہمیت واضح کرتی ہے۔
خواتین کو بدلتے ہوئے زمانے کا احساس دلانے کے لیے حالیؔ نے سادہ، سلیس، رواں اور دلکش زبان کا استعمال کیا ہے جب کہ ان کے ہم عصر ڈپٹی نذیر احمد اسی موضوع پر دہلی اور نواحِ دہلی کی ٹکسالی زبان ، روز مرہ، محاورے اور کہاوتیں استعمال کرتے ہیں جو آج کچھ اجنبی محسوس ہوتے ہیں مگر یہ اجنبیت حالیؔ کے ہاں نہیں ہے۔چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’میں پانچ برس کی تھی جب اماں جان نے مجھے استانی جی کے سپر دکیا۔ اتنی بات تو مجھے یاد ہے ۔ساتویں برس تک میں ان سے فقط قرآن شریف پڑھتی رہی۔ اس میں پانچ چھ سپارے میں نے یاد کر لیے۔ ابھی پڑھنے لکھنے کی کسی نے زیادہ تاکید مجھ پر نہیں کی تھی۔‘‘ (ص۔۳۶)
’’میرے نزدیک بچے کو علم پڑھانا اور کڑوی دوا پلانی برابر ہے، اسی لیے جب تک وہ علم کے فائدوں کو نہ سمجھے اس کو تعلیم بھی اسی طرح دینی چاہیے جس طرح گھٹّی کو تھوڑی تھوڑی کرکے پلاتے ہیں اور جس وقت اس کا جی پڑھنے لکھنے سے گھبرانے لگے تو کھیل کود میں اس کا دل بہلانا چاہیے۔‘‘ (ص،۱۱۹)
کردار نگاری کے اعتبار سے دیکھیں تو زبیدہ اور عباس کے کردار خاصے متحرک ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ بے جان وصیت نامہ بھی فعال نظر آتا ہے۔ دراصل حالیؔ کا بُنیادی مقصد بھی یہی تھا۔ اسی لیے یہ کردار علم و ہنر کی اہمیت اور افادیت کے لیے نمونے کے طور پر پیش کیے گئے ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ نئی نسل کو بلندیوں پر پہنچانے میں ماں کے کردار کو مرکزیت حاصل ہے۔
حالیؔ نے محض’’ مجالس النساء‘‘ میں ہی نہیں’’مناجاتِ بیوہ‘‘،’’ چُپ کی داد‘‘ اور ’’بیٹیوں کی نسبت‘‘ کو خلق کرتے ہوئے کڑوی ، کسیلی اور پیچیدہ باتوں کو بھی سیدھے سادے انداز میں بیان کیا ہے جو براہِ راست دل پر اثر کرتا ہے۔اصلاحی موضوع کا انتخاب کرنے کے باوجود ان فن پاروں میں جدّت پیدا کی ہے۔ واقعات کو اس خوش اسلوبی سے برتا ہے کہ دورِ حاضر میں بھی ان کی معنویت بر قرار ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود حالیؔ کی یہ تخلیقات خصوصاً ’’مجالس النساء‘‘ آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے۔ عصر حاضر میں ان تصنیفات کی مقبولیت یہ ثبوت مہیا کرتی ہے کہ علی گڑھ تحریک نے تعلیمِ نسواں پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔