سر سید کی مستقبل شناسی
از، معراج رعنا
ہم لاکھ کوشش کریں تو بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ برِ صغیر میں مسلم نشاۃ الثانیہ کا آغاز سر سید احمد خان (1817.1898) کے ظہور کے بعد ہوتا ہے۔ 1857 سے قبل سر سید کا ذہن بھی اُن مسلم اذہان سے مختلف نظرنہیں آتا جو رجعت پسند واقع ہوئے تھے۔ چونکہ سر سید بھی دوسرے مسلم اشرافیہ طبقے کی طرح ہند اسلامی تہذیب کے پر وردہ تھے ۔اس لیے وہ بھی عام مسلم اشراف کی طرح مغلیہ اقدار کو اپنی شناخت کی بنیاد تسلیم کرتے تھے۔
شائد یہی وجہ تھی کہ1847 میں اُنھوں نے آثار الصنادید جیسی تحقیقی نوعیت کی ایک جامع و مانع تاریخی کتاب لکھی۔ چار جلدوں پر مشتمل اس کتاب سے جہاں ایک طرف سر سید کی تاریخی اور تہذیبی فراست نمایاں ہوتی ہے وہیں یہ کتاب ہند اسلامی تاریخ سازی یعنی Islamic Historiography Indo کا سنگِ بنیاد بھی ثابت ہوئی۔ سرسید کی یہ کتاب محض دہلی کے قدیم کتبات کی تفصیلات نہیں بلکہ مسلم صوفیہ ،شاعر، درویش اور علماء کی فکر و دانش کی تشکیلِ جدید بھی ہے۔
جب یہ کتاب اشاعت پذیر ہوئی تو سر سید کا یہ تحقیقی کارنامہ حد درجہ نظرِ تحسین سے دیکھا گیا، اور اُنھیں ایک مورخ کے طور پر قبول کیا جانے لگا۔ اس کتاب کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ1855 میں جب سر سید بجنور میں صدر امین کے منصب پر فائز تھے تو اُنھوں نے ابو الفضل کی آئینِ اکبری کی تدوین کی تھی۔ سر سید نے جب اس کتاب پر غالب سے تقریظ لکھنے کی استدعا کی تو غالب نے فارسی میں ایک منظوم تقریظ لکھ تو دی لیکن سر سید کی اس تدوین کو پسند نہیں کیا۔اور اُنھیں یہ مشورہ بھی دیا کہ جو اس کتاب میں ہیں وہ پُرانی باتیں ہیں۔
یہی نہیں بلکہ غالب نے سر سید کو انگریزی تہذیب اور اُس کی لائی ہوئی نعمتوں سے فیضیاب ہونے کی تلقین بھی کی۔غالب کی یہ بات شائد سر سید کو پسند نہ آئی۔اس لیے اُنھوں نے غالب کی تقریظ کو شاملِ کتاب نہ کیا۔ تقریظ کو شاملِ کتاب نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ غالب نے سرسید کو جو تلقین کی تھی یہ اُسی کی منظوم شکل تھی۔ یعنی یہ کہ اُس تقریظ میں انگریزی تہذیب اور اُس کی لائی گئی سائنسی نعمتوں کا قصیدہ پڑھاگیا تھا۔ لیکن اٹھارہ سو ستاون کی خوں آشامیوں نے جس شدت کے ساتھ ہند اسلامی تہذیب و ثقافت پر ضرب لگائی اُس سے سر سید کے نظامِ فکر میں ایک بڑا انتشار پیدا ہو گیا۔
عدم تحفظ،غیر یقینیت،عقائد کی پامالی اور تشکیک کی ملی جلی فضا میں اُن کے سوچنے کا انداز بدلا ۔نئی تہذیب اور نئی حکومت سے مکالمہ استوار کرنا اُن کے نزدیک ایک اہم کام ٹھہرا۔ لہٰذا غالب نے اُنھیں جو مشورہ دیا تھا،وہ اُس سے لاشعوری طور پر خود کو اب ہم آہنگ کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے۔ یہیں سے سر سید اپنی قوم کا تجزیہ شروع کرتے ہیں۔ اپنی دور اندیشی کی رہنمائی میں وہ مسلم قوم کی زبوں حالی کے اصل اسباب تلاش کرتے ہیں۔ جس کا انسداد اُنھیں جدید سائنسی تعلیم کے حصول میں نظر آیا۔ اسی اغراض سے سر سید 1859میں مراد آباد میں گلشن اسکول کی بنیاد رکھی۔ جس کی پانچ رکنی مجلسِ منتظمہ میں تین مسلمان اور دو ہندو شامل تھے۔ سر سید کی اس کوشش سے اُن پر تنگ نظری کا لگایا جانے والا الزام آج بے سروپا معلوم ہوتا ہے۔
لیکن سر سید کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ثابت ہواجب اُنھوں نے 1875 میں مشرقی اتر پردیش کے ضلع علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج،جو مدرسۃ العلوم کا بتدیج ارتقاء تھا، قائم کیا۔ دیکھا جائے تو یہ محض ایک کالج نہیں تھا بلکہ مسلم قوم کی فکرِ جدید کا منبع بھی تھا۔ یہیں سے سر سید نے مسلمانوں کو پہلی بار یہ فکری ہدایت دی کہ وہ نظامِ کہنہ کے بر عکس انگریزی حکومت کے وفادار ہوں۔اُن کی اس اپیل کی انڈین نیشنل کانگریس نے شدت سے مخالفت کی ،اور یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی کہ سر سید کی اس کوشش سے آزادیِ ہند کی تحریک کے کمزور پڑنے اور نو آبادیاتی نظام کے مزید مستحکم ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ جب سر سید سائنسی تعلیم کے فروغ کے لیے فعال ہوئے تو اُن کوخود اپنی قوم کے لوگوں کی تنقید بھی برداشت کرنی پڑی۔
ہماری قو م کے وہ افراد جو ماضی کے طلسم میں گرفتار تھے،سر سید کے اس عملِ علم پر متعدد سوالات کھڑے کر دیے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے سر سید غارتگرِ دین اور اورینٹل کالج کفر کی آماجگاہ قرار دے دیا گیا۔اس منزل پر پہنچ کر وہ د ل برد اشتہ نہیں ہوئے بلکہ مخالفین کی تنقید اُن کے عزائم کو اور پختہ کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔ سر سید کی زندگی میں ایک اور بڑا موڑ اُس وقت آیا جب ولیم میور نے Life of Muhammad نام کی ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب میور نے 1861میں اُس وقت لکھی جب وہ North Westren Province کے گورنر جنرل تھے۔اس کتاب میں اُنھوں نے رسمِ غلامی،کثیر الازدواجیت اور طلاق جیسے تین اسلامی نکات پر اعتراضات کیے تھے۔
سر سید اس کتاب کا جواب لکھنے کی غرض سے انگلستان گئے۔اپنی تمام تر معاشی پریشانیوں کے باوجود ایک سال کے وقفے میں اس کا جواب خطباتِ احمدیہ کے نام سے لکھا اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی کرایا۔ اُن کے اس طرزِعمل سے دو بڑے فائدے ہوئے۔ پہلا تو یہ کہ اُنھیں انگلستان جانے اور وہاں کے نظامِ تعلیم کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا تجربہ حاصل ہوا۔ اور دوسرا یہ کہ ولیم میور سر سید کی خطباتِ احمدیہ سے ایک حد تک متفق ہو گئے۔ جس کا نتیجہ بعد ازاں یہ نکلا کہ اُن کی سر سید سے اس قدر رفاقت بڑھی کہ اُنھوں نے اورینٹل کالج کے لیے خاصی انتظامی اور معاشی امداد مہیا کیں۔ کالج کے بنیادی مقصد میں جدید سائنسی تعلیم کے حصول کے وسیلے سے مسلمانوں میں از سرِ نو تعقلی ذہن سازی کرنی تھی۔
سائنٹیفک مزاج کو فروغ دینا اور دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم کی استدلالی بنیاد کو مضبوط کرنا اس کالج کے دیگر مقاصد تھے۔ اس نوع کی ذہن سازی کی ابتدا سر سید نے اُس وقت کی تھی جب وہ غازی پور میں مقیم تھے۔ 1864 میں اُنھوں نے یہیں پہلی بار سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی تھی۔ جو بعد میں اُن کی منتقلی کے بعد علی گڑھ منتقل ہو گئی۔اس ادارے کابنیادی وظیفہ انگریزی اور یورپی زبانوں میں لکھی گئی تعلیمی اور تکنیکی کتابوں کا ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ کرانا تھا۔لہٰذا سائنٹیفک سوسائٹی کے زیرِ نگرانی مختلف علوم و فنوں کی 27معیاری کتابوں کے ترجمے کیے گئے۔ جس میں اکثریت مولوی چراغ علی کے ترجموں کی ہے۔سر سید نے جب باقاعدہ طور پر اپنی تعلیمی فکرکی ترویج شروع کی تو اُن کے مخالفین کا ایک گروہ بھی سر گرمِ عمل ہوگیا۔ جس میں اکثریت مسلم مولویوں کی تھی۔ ان مولویوں کے نزدیک او ر محمڈن اینگلواور ینٹل کالج قوم کو علومِ جدیدہ سے آراستہ کرنے کا مرکز نہیں بلکہ نوجوان مسلمانوں کو عسائی بنانے کا ذریعہ تھا۔ سر سید پر حملہ کرنے والوں میں کانپور کے مولوی امداد علی کا نام سرِ فہرست ہے۔
مولوی امداد علی نے غلط طریقِ کار سے چالیس مولویوں کی معاونت کے نتیجے میں سر سید پر کفر کا فتویٰ حاصل کر لیا تھا۔ اختلاف کے ابتدائی عہد میں مولوی نذیر احمدبھی موجود تھے لیکن بعد میں وہ اُن کے ہم نوا بن گئے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سر سید کی جتنی توقیر ہوئی اُس سے کہیں زیاد ہ اُن کی تحقیر کی گئی۔ اُن پر بہت سارے الزامات تاریخ کے دل سوز باب ہیں۔ سر سید پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ وہ انگریزی تہذیب کے اسیر ہو چکے ہیں۔نو آبادیاتی نظام کی پر ستش میں وہ اتنے مستغرق ہو گئے کہ مسلمانوں کو سیاست سے الگ تھلگ رہنے بات کرنے لگے۔ یہ سچ تو ہے کہ سر سید انگریزی تہذیب کے شیفتہ تھے لیکن اس کے معنی یہ قطعی نہیں کہ وہ اُس تہذیب کی کوری تقلید میں اپنی اور اپنی قوم کی خودی سے پوری طرح بے نیاز ہو گئے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ آگرہ دربار میں اُسی طرح شرکت کرتے جس طرح دوسرے ہندوستانیوں نے شرکت کی تھی۔ 1867 میں منعقد ہونے والا آگرہ دربار اس لیے قابلِ ذکر ہے کہ اس میں سر سید کو انگریزی حکومت سے تمغہ موصول ہونا تھا۔
لیکن چونکہ اس تقریب میں ہندوستانیوں کے لیے پیچھے کی نشستیں مخصوص کی گئی تھیں،اس لیے سر سید نے اُس میں شرکت نہیں کی۔ بعد میں انگریزی حکومت نے میرٹھ کے کمیشنر مسٹر ولیم کے ہاتھوں اُنھیں یہ تمغہ علی گڑھ کے ریلوے اسٹیشن پر دینے کی ہدایت دی جسے سر سید نے قبول کر لیا۔جہاں تک مسلمانوں کو سیاست سے تائب رکھنے کی بات تھی وہ بھی سر سید کی دور اندیشی اور دانشوری کی ایک عمدہ مثال تھی۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ستاون کی حشر سامانیوں کے منفی اثرات سب سے زیادہ مسلمانوں پر مرتب ہوئے تھے۔ جان کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی معاشی ساخت قابلِ رحم حد تک تباہ کر دی گئی تھی۔ اس لیے سر سید مسلمانوں کی معاشی زبوں حالی کو خوش حالی میں متبدل کرنے کی واحد سبیل جدید تعلیم کا حصول سمجھتے تھے۔ یعنی یہ کہ معاشی استحکام سے ہی ایوانِ اقتدار میں مسلمانوں کو مناسب جگہ مل سکتی ہے۔
اُن کے اس نظریے کی عملی صورت اُس وقت نمایاں ہوئی جب دنیا 1929 سے 1932 میں ایک بڑے بحران سے گزرتی ہے۔اس اقتصادی مندی سے بنگال بھی مستثنیٰ نہ تھا۔تاہم کریہ جاتی آمدنی یعنی Rentier Income پر زندگی بسر کرنے والے والے بنگالی اشراف(بھدرلوک) کی معاشی حالت کمزور ہونے لگتی ہے اور متوسط کسان جو بیشتر مسلمان تھے ،تیزی کے ساتھ خوشحال ہونے لگتے ہیں کہ ایک بڑے آکال کے پیشِ نظر انگریزی حکومت نے کسانوں کے قرض معاف کر دیے تھے۔
چونکہ اُس زمانے میں حقِ رائے دہی کے اختیار کا انحصار اقتصادی بنیادوں پر تھا ۔ لہٰذا 1937میں جب بنگال پریسیڈینسی کا انتخاب ہوتا ہے تو اس میں 54 نشستیں کانگریس اور 36نشستیں فضل الحق کی کرشک پرجا پارٹی کو ملتی ہیں۔ کل ہند مسلم لیگ کے سیاسی تعاون سے ٖفضل الحق کی پارٹی حکومت بنا لیتی ہے۔ یہ پہلا انتخاب تھا جس کے نتیجے میں فضل الحق بنگال پریسیڈینسی کے پہلے مسلم وزیرِ اعظم بنتے ہیں۔ اس مثال سے ہمیں اس نتیجے پر پہنچنے میں بہت آسانی ہو جاتی ہے کہ سر سید اپنے زمانے کے ساتھ ساتھ آنے والے زمانے سے بھی خوب آگاہ تھے۔