سرسید تحریک، تہذیب الاخلاق کے آئینہ میں
صغیر افراہیم، مدیر تہذیب الاخلاق، پروفیسر، شعبۂ اردو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ۔
انیسویں صدی کے نصف اول کازمانہ ہے ہندوستان کے تاریخی منظر نامہ پر نظر ڈالیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ سرسید احمد خاں نے اپنی انفرادی جدوجہد سے ’تاریخ سرکشی بجنور‘ اور ’اسبابِ بغاوتِ ہند‘ کے ذریعے سیاسی اور سماجی افکار ونظریات کی کشاکش کے مابین مُفاہمت کے امکانی جتن کیے۔ ان کے علاوہ اپنی دیگر تحریروں میں انھوں نے بد دلی، بیزاری،بے اعتمادی و شبہات کو رفع کرتے ہوئے انگریزی حکومت اور ہندوستانی رعایا کے مابین گفت وشنید کے دروازے بھی وا کیے۔ ۱۸۵۹ء میں انھوں نے نہ صرف یہ کہ مرادآباد میں حکومت برطانیہ کے ملازمت کے دوران ایک مدرسہ قائم کیا بلکہ اسی طرح ۱۸۶۴ء میں غازی آباد میں پھر ایک اور مدرسہ قائم کرتے ہوئے اسی شہر میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی اور اس کے اغراض ومقاصد کے پیش نظر ۱۸۶۶ء میں ملازمت کے سبب علی گڑھ میں اسے منتقل کرتے ہوئے اخبار سائنٹفک سوسائٹی بھی جاری کیا۔انگلستان کے سفر سے واپسی کے بعد ۱۸۷۰ء میں تہذیب الاخلاق جاری کیا۔یہ رسالہ جرأت مندانہ اظہار کا اعلان نامہ تھا۔ یہ محمڈن سوشل ریفارمر کی حیثیت سے علی گڑھ تحریک کا بھی ترجمان بنا ۔
’تہذیب الاخلاق‘ کی اشاعت کے ۱۴۷ برس بیت چکے ہیں۔ کسی بھی علمی، تہذیبی اور ثقافتی جریدے کے لیے یہ طویل مدت قابلِ فخر ہے۔ اس کا پہلا شمارہ مدرسۃ العلوم کے قائم ہونے سے پانچ سال قبل ۲۴؍دسمبر ۱۸۷۰ء کوعیدالفطر کے مبارک موقع پرشائع ہوا تھا، پہلے شمارہ میں ہی سرسید احمد خاں نے اس کے اغراض ومقاصد حسب ذیل لفظوں میں واضح کردیے تھے۔
’’۔۔۔ بذریعہ اس پرچے کے جہاں تک ہم سے ہوسکے ان کے دین دنیا کی بھلائی میں کوشش کریں اور جو نقصان ہم میں ہیں گو ہم کو نہ دکھائی دیتے ہوں مگر غیر قومیں ان کو بخوبی دیکھتی ہیں، ان سے اُن کو مطلع کریں اور جو عمدہ باتیں اُن میں ہیں، ان میں ترقی کرنے کی اُن کورغبت دلاویں‘‘۔
’تہذیب الاخلاق‘ نے سرسید کی وفات تک اپنے ارتقائی سفر کے تین ادوار طے کیے ہیں۔ اس کا پہلا دور (۲۴؍دسمبر ۱۸۷۰ء -۲۰؍ستمبر ۱۸۷۶ء) چھ برسوں پر مشتمل ہے۔ ۱۰۸ شماروں اور ۲۵۲ مضامین پر مبنی یہ دور تہذیب الاخلاق کا بے حد اہم دور کہلاتاہے۔ ۲۴؍مئی ۱۸۷۵ء کو مدرسۃ العلوم کے افتتاح کے بعد سرسید کی تمام توجہ درس و تدریس پر مرکوز ہوئی تو رفتہ رفتہ اِس کی اشاعت رُک رُک کرہونے لگی۔ ۲۳؍اپریل ۱۸۷۹ء سے یہ جریدہ پھر منظر عام پر آنے لگااور ۲۸؍جولائی ۱۸۸۱ء تک شائع ہوتا رہا۔ تقریباً سوا دو سال کی مدت کے دوران میں ۶۷ اہم مضامین شائع ہوئے۔ مصروفیات کی بنا پر اشاعت میں پھر رخنہ پڑا مگر ڈپٹی نذیر احمد کے مسلسل اصرار اور کوششوں سے تیسری مرتبہ ۱۷؍اپریل ۱۸۹۴ء کو ’تہذیب الاخلاق‘ جاری ہوا، اور ۳؍فروری ۱۸۹۷ء تک پابندی سے نکلتا رہا۔ تین سال سے زیادہ عرصہ پر محیط یہ دور۳۶ شماروں اور ۱۵۴ مضامین پر مشتمل ہے۔ سرسید کے انتقال (۲۷؍مارچ ۱۸۹۸ء) کے بعد اِس کی امتیازی حیثیت ختم ہوگئی۔ البتہ عنایت اللہ، محسن الملک اور وحید الدین سلیم کی سرپرستی میں انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں ضم ہونے کے ساتھ ’تہذیب الاخلاق‘ ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۷ء تک کسی نہ کسی شکل میں اپنی پہچان قائم رکھنے کے جتن کرتا رہا۔
حصولِ آزادی کی جدوجہد، اور پھر تقسیم ملک کے کرب کے نتیجے میں بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں ’سوشل ریفارم‘ کی ضرورت نے تہذیب الاخلاق کی یادتازہ کردی، ساتھ ہی اس کی اشاعتِ نو کا احساس بھی۔ ماضی میں سرسید کو مالی مجبوریاں رہی ہوں، کالج کی ذمہ داریاں یا پھر تفسیر کو پورا کرنے کی عُجلت، رسالہ کے بند ہونے اور پھر سے نکلنے کا سلسلہ نوآبادیاتی نظام میں جاری رہا، مگر آزاد ہند کے جمہوری ماحول میں حالات بدلے ہوئے تھے۔ لہٰذا جدید تقاضوں کے تئیں فروری ۱۹۸۲ء سے مذکورہ رسالہ نئے عزم وارادے کے ساتھ منظر عام پر آیا ۔ کل بھی یہ رسالہ تجارتی نقطہ نظر یا ذاتی مفاد ومنفعت کی خاطر نہیں نکالا گیا تھا،آج بھی اس کے پیش نظر اجتماعی مفاد اور بے لوث خدمت کا جذبہ ہے ۔جدید سہولیات سے مُزیّن یہ رسالہ پابندی سے نکل رہا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ خلوص نیتی اور جوش وخروش قاری اور قلم کار دونوں میں برقرار ہے؟ جو سرسید کے زمانے میں تھا۔شاید جواب نفی میں ہو۔ اگر ایسا ہے تو آخر کیوں؟
سرسید کی دو صد سالہ تقریبات کے سلسلہ میں جو اقدامات پیش نظر ہیں اور ان میں سے بہ طور ایک قدم مذکورہ مجلہ کا جو خاص نمبر عنقریب منظر عام پر آرہا ہے ان شاء اللہ یہ نمبر نہ صرف ماضی کی بازیافت ہوگا بلکہ اس امر کا بھی احساس دلائے گا کہ سرسید کی تفہیم کی راہ پہلے کے مقابلے میں مزید کشادہ ہوئی ہے ۔ماضی میں بھی اِس رسالہ کی اشاعتِ اوّل کے زمانے میں پر ۲۴؍ مئی ۱۸۷۵ء کو علی گڑھ میں اس کا جشن منایا گیا تھا۔ اس جشن کے تعلق سے مذکورہ رسالہ کی جلد۳، شمارہ نمبر۱ کے اداریہ میں سرسید احمد خاں لکھتے ہیں:
’’سقراط کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اُس نے فلسفے کو آسمان سے اُتارا اور انسانوں میں بسایا مگر میں اپنی نسبت صرف اتنا ہی کہلانا چاہتا ہوں کہ میں نے فلسفے کو مدرسوں، مکتبوں اور کتب خانوں کی کوٹھریوں سے نکالا اور جلسوں اور چائے وقہوہ پینے کی مجلسوں تک پھیلایا اور ہر ایک کے دل میں بسایا‘‘۔ (۱۱؍مارچ ۱۸۷۲ء،ص:۱)
ایم.اے. او. کالج کو عملی شکل دینے میں مردِ آہن سرسید ایسے مصروف ہوئے کہ تہذیب الاخلاق کی اشاعت معرضِ التوا میں پڑگئی ۔ تقریباً چار سال بعد اس کی اہمیت وافادیت کا احساس ہوا تو ۲۳؍اپریل ۱۸۷۹ء کو تہذیب الاخلاق کا دوبارہ سلسلہ جاری کیا گیا۔ ایک سال سات ماہ بعد عدیم الفرصتی کی بنا پرپھر رخنہ پڑا۔ وقفہ طویل ہونے لگا تو سرسید کے رفیق دیرینہ ڈپٹی نذیر احمد نے صورتِ حال کو سمجھتے ہوئے کہا:
’’بے شک محمڈن کالج تہذیب الاخلاق کے عمدہ ترین نتائج میں ہے بلکہ اگر کالج کو تہذیب کی غرض و غایت کہا جائے تو بھی کچھ بے جا نہیں، مگر ہے تو آخر کار تہذیب الاخلاق کا طفیلی…‘‘۔ (شمارہ:۱، جلد:۱، ص:۳، اپریل ۱۸۹۴ء)
انشاء پرداز، خطیب اور عالِم دین ڈپٹی نذیر احمد کی تحریک پر تیسری بار۷؍اپریل ۱۸۹۴ء سے ۳ ؍فروری ۱۸۹۷ء تک پابندی سے یہ رسالہ شائع ہوتا رہا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مذکورہ رسالہ نے نہ صرف معاشرہ کی اصلاح اور تعلیمی سوچ میں نمایاں تبدیلی پیدا کی بلکہ جدید علوم وفنون اور انگریزی کی افادیت کو اُجاگر کرنے میں بھی اس نے نمایاں کردارادا کیا۔
انیسویں صدی کے شماروں کو سامنے رکھیں تو پہلے دور میں انشائیہ نما مضامین ہیں جن میں ہندوستان کا مقابلہ یورپ سے کرتے ہوئے مخلصانہ مشورے دئیے گئے ہیں خصوصاً مذہبی، سماجی اور تعلیمی معاملات پر۔ دوسرے دور میں معاشرتی، تمدنی، اصلاحی، تحقیقی اور تنقیدی مضامین ہیں جن میں اکثر کا انداز تمثیلی مگر خطیبانہ ہے۔ تیسرادور ۳۶ شماروں اور ۱۵۴ مضامین پر مشتمل ہے۔ بیش تر مضامین مذہبی، تفسیری اور تعلیمی ہیں ۔ کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ مجلہ:
۱۔بُغض وعناد، نفرت وحقارت کو ختم کرنے کا ایک وسیلہ ثابت ہوا۔
۲۔جلد ہی یہ جریدہ قلم کے آزادانہ استعمال اور نڈر ہوکر حقائق کو پیش کرنے کانمونہ قرار پایا۔
۳۔ اِس میں نو آبادیاتی نظام کی خوبیاں ہی نہیں مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی موثر کہانیاں بھی ہیں، ایسی کہانیاں جو قدیم تاریخ کی بازیافت کرتی ہیں۔
۴۔ یہ مجلہ شکوہ وشکایت ہی نہیں، حق تلفیوں اور نا انصافیوں کا بھی بے باکانہ اظہار کرتاہے۔
۵۔ برمحل اظہار کے ساتھ طرف داری اور غلط فہمی کو واضح کرنے کاوسیلہ بنتاہے۔
۶۔ جدید علوم وفنون سے واقف کراتے ہوئے قدیم تہذیب وتمدن کانگہبان بن کر اُبھرتاہے۔
۷۔ فلسفہ، منطق، سائنس اور روزگار کی زبان کا علمبردار ثابت ہوتاہے۔
۸۔ ہندوستانیوں کے بدلتے ہوئے خیالات اور دلی جذبات کی منھ بولتی ہوئی تصویر قرار پاتاہے۔
۹۔ تغیر وتبدل کے ساتھ افہام وتفہیم کے ذریعے باہمی تعلقات کو مربوط ومستحکم بنانے کا مؤثِّر حربہ ثابت ہوتاہے۔
۱۰۔ نثری پیراہن کی شناخت اور اُس کے مختلف رنگوں کامحافظ ثابت ہوتاہے۔
ملک وقوم کے بہی خواہوں اور دانش وروں کے لیے ۲۷؍مارچ ۱۸۹۸ء، اتوار کی رات علی گڑھ کی مشہور کوٹھی ’دارالانس‘ میں جو واقعہ پیش آیا وہ عظیم سانحہ تھا۔ سید والا گہر کی رِحلت ایم.اے.او. کالج کی ترقی اور فروغ کے عمل میں بڑی رُکاوٹ بن سکتی تھی لیکن ان کے رفقا اور بہی خواہانِ ملک وملت نے اپنی تمام تکالیف، دشواریوں اور پریشانیوں کے باوجود ان کے نصب العین کو تقویت بخشتے ہوئے کالج کو مستحکم کرنے میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کردیں۔
وقت گواہ ہے کہ اپنے رہنما کے فوت ہوجانے کے بعد حقائق اورصورتِ حال پر نظر رکھنے والے پُرخلوص حضرات نے باوجود تمام دشواریوں کے ناگُزیر حالات سے نکلنے کے لیے فضا کو ہموار کیا۔ پریشانیوں کے باوجود عملی جدوجہد کو جاری رکھا۔ اس طرح وہ علی گڑھ تحریک جوجدید علوم وفنون کے حصول اور تہذیب وتربیت کے فروغ کے لیے وجود میں آئی تھی منزلِ مقصود کی جانب گامزن ہوگئی اور اس دوران کئی مرحلوں سے گزرتے ہوئے اُس نے ۱۹۲۰ء میں مسلم یونیورسٹی کادرجہ حاصل کرلیا۔ پھر زمانے نے دیکھا ہے کہ عزت ووقار، تحفظ وشناخت اور مقام ومرتبہ کی تگُ ودَو کے ساتھ سرسید کاقائم کردہ ادارہ دن دونی رات چوگنی ترقی کرتار ہاہے۔
وقت کے ساتھ قدریں بدلی ہیں۔ ہم آپ بھی بدلے ہیں لیکن یہ سب اُسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، اُنھیں بزرگوں کے ہم جانشین ہیں پھر قول وفعل اور فکر وعمل میں تضاد کیوں؟ سو ڈیڑھ سو برس میں ہی ہمارے مزاج، عادات و اطوار اتنے کیوں بدلے ہوئے نظر آتے ہیں؟ غور کریں توآج بھی ہم سب کے دلوں میں وہی جذبۂ خلوص، وہی احساسِ عظمتِ رفتہ اور وہی سعادت مندی موجود ہے، رگوں میں وہی خون دوڑ رہا ہے۔ قرب وجوار کی تکلیف دہ صورتِ حال پر اب بھی بے قرار ہوجاتے ہیں تو کیاغوروفکر کے اب اُتنے مواقع میسر نہیں یا ہم اِس حد تک بے حس ہوچکے ہیں کہ اُن پر بہت دیر تک توجہ نہیں دے پاتے ہیں۔ یا پھر ہم پر ہمارے اپنے مفاد اِس حد تک غالب آچکے ہیں کہ فلاح وبہبود کے جذبے سے ہمارے قلوب خالی ہوگئے ہیں ۔غفلت اور بے پروائی کو درگزر کرتے ہوئے اُس جذبۂ خلوص کو اُبھارنے اور صحیح سمت میں موڑنے کی ضرورت ہے۔ سوتے خشک نہیں ہوئے ہیں اُنھیں کُریدنے، اُجاگر کرنے کے لیے نیک نیتی اور خلوص لازم ہے جو مصلحت یامفاد کی بنا پر پسِ پُشت چلے گئے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ۱۸۵۷ء کی حشر سامانیوں، اندرونی خلفشار اور صدمے سے اُبھرنے کے لیے سرسید اور رفقائے سرسید نے کئی منصوبے تیار کیے تھے۔ محض کاغذ یا ذہن پر ہی نہیں بلکہ یکسوئی سے اُن نقوش پر دل جمعی سے انھوں نے کام کیا، کامیابی نے ان کے قدم چُومے، عصر حاضر میں فضا اور ماحول کو اپنے مطابق ڈھالنے کے لیے مختلف وسائل میسّر ہیں۔ ہم آپ چاہیں توآج بھی رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ کا وہی بنیادی کردارہوسکتا ہے کیوں کہ یہ رسالہ اپنے قیام کے وقت سے لے کر آج تک نئی نسل کے اندر علمی اور سائنسی ذہن کو فروغ دینے اور سماجی بیداری پیدا کرنے میں معاون رہا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ کل اس کی بات آسانی سے دلوں اور گھروں تک پہنچ جاتی تھی کیوں کہ اردو کادائرہ بہت وسیع تھا مگر اب وہ دائرہ سمٹ کر بے حد محدود ہوگیا ہے۔ لہٰذا یہ دہری محنت کا وقت ہے۔ اردو کے حلقے کو وسیع ہی نہیں اُسے اس جانب راغب بھی کرنا ہے اور پھر اُن تک مؤثِر انداز میں سرسید اور رفقائے سرسید کی بات بھی پہنچانی ہے۔ کام مشکل ہے ناممکن نہیں۔ اس توقع کے ساتھ کہ موجودہ تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی مسائل کا حل سرسید تحریک ہی سے ممکن ہے کیوں کہ اِس کا نظامِ تعلیم مثبت فکر میں ممدومعاون رہا ہے۔