سید جو کام کرتا تھا
از، نصیر احمد
اس سید میں واقعی بہت خوبیاں تھیں۔ سب سے بڑی خوبی تو ارد گرد ہونے والے واقعات کے اسباب کی تفہیم تھی۔ وہ چاہتے تو کوئی خوش کن واہمہ دل میں جگا لیتے اور زندگی بھر اس واہمے کا تحفظ کرتے رہتے۔ زیادہ تر زندگیاں واہموں میں ہی گزر جاتی ہیں اور واہموں کے سہارے اچھی بھی گزر جاتی ہیں۔ اور ابتلا میں تو واہمے حقائق سے زیادہ تسلی دیتے ہیں۔
سر سید بھی مسئلے کی جڑ نظر انداز کر کے کمپنی بہادر کی ریشہ دوانیوں، سازشوں، عیاریوں اور فریب کاریوں میں ہندوستانیوں کے زوال کا اسباب ڈھونڈ لیتے اور کسی مسیحا یا نجات دہندہ کی آرزو سے اپنی زندگی آباد کر لیتے مگر وہ حقائق سے رو گردانی نہیں کر سکے کہ ہندوستان میں صرف کمپنی بہادر ہی نہیں سازشیں کر رہی تھی، ہندوستانی حکمران بھی سازشوں کے ہنر سے بخوبی آگاہ تھے۔
سر سید جان گئے تھے کہ ہندوستان میں کمپنی بہادر اور بعد میں تاج برطانیہ کے راج کی اصل وجہ ہندوستانیوں کی جہالت تھی اور جہالت کا مداوا انگریزوں سے علوم سیکھنے سے ہی کیا جا سکتا تھا۔ اور یہ علوم حاصل کرنے کے لیے ہندوستانیوں کو زندگی، علم اور ثقافت میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنی پڑیں گی کیونکہ علوم کے فروغ کے لیے ایک معاشی، سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی نظام قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
سر سید چونکہ مسلمان تھے اور کافی کٹر قسم کے وہابی مسلمان، اس لیے انھیں مسلمانوں کی ذرا زیادہ فکر تھی جو کہ ایک نارمل سی بات ہے۔ اس لیے انھوں نے جہالت سے دوری اور ثقافت میں تبدیلی کے حوالے سے اپنے کام کا آغاز کیا اور جتنا عرصہ زندہ رہے اسی کام میں مصروف رہے۔لیکن مسلمانوں سے زیادہ وابستگی کے باوجود ان کے تعلیمی اور فلاحی اداروں میں ہندوستان کی ساری قوموں کے لوگ موجود رہے۔
ان کی کاوشوں کے نتیجے میں مسلمان رئیسوں میں جدید علوم کی ایک تحریک شروع ہوئی اور اس تحریک کے برطانوی ہندوستان میں مقیم مسلمانوں کو کافی فائدے ہوئے۔ پاکستانیوں کے لیے سب سے بڑا فائدہ تو قائد اعظم محمد علی جناح ہیں جنھوں نے مسلمانوں کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حقوق کے لیے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کی جدو جہد کی۔
لیکن قائد اعظم اور ان کے ساتھی پاکستان کے قیام کا مطلب اقلیت دشمنی یا انسانیت دشمنی میں نہ دیکھتے تھے اور نہ ہی وہ اسلام کی تعبیر اقلیت دشمنی اور انسانیت دشمنی کے پیرائے میں کرتے تھے۔ ہمارے ہاں یہ جو اسلام کے نام پر اقلیت و انسانیت دشمنی رائج ہو گئی ہے اس کا بانیان پاکستان کے وژن سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ یہ تو چند پڑھے لکھوں کی کارستانی ہے جو بیسویں صدی میں کاملیت پرستی کے عروج سے بہت زیادہ متاثر ہو گئے تھے اور کاملیت پرستی کی نوعیت، مقاصد اور نتائج کا تجزیہ نہیں کر سکے تھے۔
کاملیت پرستوں کی مسلسل کامیابی کے نتیجے میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بات پھر وہیں پہنچ گئی ہے جہاں سر سید نے چھوڑی تھی۔ اصل مسئلہ تو جہالت ہے اور جہالت کی دوری کے لیے زندگی کے بارے میں تصورات اور ان تصورات پر مبنی ثقافتی نظام میں بڑے پییمانے پر تبدیلی کی ابھی تک وہی ضرورت ہے جو سر سید کے زمانے میں موجود تھی۔
اس کاملیت پرستی کے زیر اثر مذہب یا قوم کے نام پر بے رحم آمریتیں، حکمرانوں اور حکمرانوں کے حواریوں کے لیے تو موافق ہے کہ اتنی بڑی آبادیوں کے ذریعے وہ دنیا کو بلیک میل کر سکتے ہیں لیکن اس میں مسلمانوں اور دوسروں کا کچھ بھلا نہیں ہے کیونکہ کاملیت پرستی کے بنیادی تصورات ہی جاہلانہ ہیں اس لیے سائنسی علوم کے فروغ کا کاملیت پرستی ڈھونگ بھی کر لے، تب بھی علوم میں اس کی کامیابی کا معیار آزادوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔لیکن مسلمان آمروں کی حکومتوں میں تو یہ ڈھونگ بھی نہیں کیا جاتا۔بس معدنی وسائل کی فروخت اور عالمی طاقتوں کی سر پرستی پر ہی یہ آمریتیں اکتفا کرتی ہیں۔
اب آپ دلربا کہیں یا ڈائن سائنسی اور معاشرتی علوم میں کامیبابی کا معیار جمہوریت سے وابستہ ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر سے ہی دنیا کی ممتاز جمہوریتوں میں معاشرتی علوم جیسے معیشت، سیاست، معاشرہ دانی کا روشن خیالی اور سائنسی علوم سے تعلق کچھ کم ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں دنیا کی ممتاز جمہوریتیں رنگ برنگی حماقتیں کرتی رہتی ہیں ۔ ایک حماقت معیشت پر آرا اور آرزو کو عقیدے کا درجہ دینا ہے جس کے نتیجے میں کاروباریوں کا معلومات اور فیصلہ سازی میں اثر رسوخ بہت بڑھ گیا ہے جس کے نتیجے میں جمہوریت اور عوامی فلاح بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ اور اگر ان جمہوریتوں پر کاروباریوں کا قبضہ بڑھتا گیا تو عالمی گفتگو نسل پرستی، بنیاد پرستی ،ثقافت پرستی ، آمریت پسندی ، اقلیت دشمنی اور کاملیت پرستی کی طرف گامزن رہے گی اور دیگر علوم بھی اس زوال کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔
سر سید کا دوسرا کارنامہ ہندوستان کے مسلمانوں اور انگریزوں میں بہتر تعلقات کی کوشش ہے۔ اور ان کی یہ کوشش مسلمانوں کی بقا کے لیے بہت ضروری تھی۔ اور اس کوشش کے نتائج مسلم لیگ کے قیام، جنگ عظیم دوم میں ناٹزی ازم اور فاشزم کے خلاف آل انڈیا مسلم لیگ کا سٹینڈ، قیام پاکستان اور سرد جنگ میں پاکستان کے امریکہ کی طرف جھکاؤ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ سیدھی سی بات تھی کہ انگریز تعلیم یافتہ تھے اور تعلیم کے حصول کے لیے تعلیم یافتہ کی قربت درکار ہوتی ہے۔ دوسرے برطانوی حکمران تھے اور حکمرانوں سے اچھے تعلقات معاشی، سیاسی اور معاشرتی حقوق تک رسائی کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔
سر سید اور آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنما قائد اعظم کی تفہیم دانائی اور روشن خیالی پر مبنی تھی۔ پاکستان میں آمریت پسندی اور کاملیت پرستی کی اسیری کے باعث ہم دانائی اور روشن خیالی برقرار نہ رکھ سکے جس کے باعث ہم اپنی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور مسلسل غم زدہ اور الم رسیدہ نسلوں کا اضافہ کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہم نے مذہبی، ثقافتی، سیاسی جنون کا رستہ اختیار کر لیا ہے اور اب تو دنیا بھی کچھ ہمارے جیسی ہوتی جا رہی ہے، اس لیے ہمارے لیے خرد مندی اور مشکل ہو گئی ہے۔
جو بات ہم نے جمہوریت، خرد افروزی، عوامی فلاح اور انسانی حقوق کے عروج کے زمانے میں نہیں سنی وہ ان خوبیوں کے زوال کے زمانے میں کہاں سنیں گے؟ بلکہ ہم تو شفیق الرحمٰن کی حکومت آپا کی طرح یہی کہیں گے کہ ‘ہمیں تو پہلے ہی پتا تھا’۔
ان کی معتزلیوں جیسی مذہب کی تفسیر کے نتیجے میں بہت ہنگامے برپا ہوئے لیکن معتزلیوں کی تفسیر سے آپ جتنا مرضی اختلاف کریں، اس نے مسلمانوں میں خرد پسندی کا ایک رجحان پیدا کیا جس کے نتیجے میں وسطی زمانوں میں ایک محدود پیمانے پر مسلمانوں میں فلسفے اور سائنس جیسے موضوعات پر بہت سارا کام ہوا جس سے یورپ کے عالم، فلسفی اور سائنسدان احیائے علوم اور ریفارمیشن کے زمانوں میں مستفید ہوئے۔
ہمارا کہنے کا مطلب ہے کہ علم، خرد اور معاشرتی ترقی کا زندگی کے بارے میں تصورات سے ایک گہرا تعلق ہے اور ان تصورات میں اصلاح سازی کی دیگر مذاہب کی طرح مسلمانوں میں ایک روایت موجود تھی اور سر سید اپنے کام میں مذہبی تصورات کی اصلاح کرنے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے زمانے میں رائج تصورات مسلمانوں کی دنیاوی فلاح میں رکاوٹ تھے۔ اور سائنسی اور معاشرتی علوم کی راہ میں رکاوٹ بنی مذہب کی تعبیریں انسانی فلاح و بہبود کے رستے بھی بند کر دیتی ہیں۔ اور سر سید یہ رستے کھولنے کے لیے کچھ نیا کر رہے تھے۔
اور اس کوشش کے صلے میں انھیں کافر، مرتد، زندیق، گمراہ، نیچری، کرشٹان کہا گیا۔ ان کے خلاف فتوے آنے لگے۔ ایک صاحب تو سر سید کے خلاف فتوی لینے حج کے موقع پر مکہ بھی پہنچ گئے۔ اور سر سید کہنے لگے کہ میں کیسا کافر ہوں کہ جس کا کفر لوگوں کو حاجی بنا دیتا ہے۔
امت کا پیارا بننے کے لیے مولوی نذیر احمد ابن الوقت جیسے ناول لکھنے لگے جس میں سر سید کی منفی عکاسی کی گئی ہے۔ حالانکہ مولوی نذیر اپنی تعبیر کے مطابق سود کو بھی جائز سمجھتے تھے، لیکن سر سید کے خلاف ایک زمانہ تھا تو مولوی صاحب نے سوچا کہ دوچار پتھر وہ بھی پھینک دیں، کار ثواب ہے۔ اکبر الہ آبادی کہ سر سید سے حسد میں مبتلا تھے وہ بھی امت کے رکھوالے بن گئے اور سر سید کے خلاف طنزیہ رباعیاں لکھنے لگے۔ جب سر سید فوت ہوئے تو اکبر الہ آبادی کو کچھ رحم آ گیا اور انھوں نے اس بات کا اعتراف کر لیا کہ سید کام کرتا تھا۔
سر سید کی بنیادی تفہیم اب بھی درست ہے کہ مسلمانوں کو ایک اچھی زندگی کے حصول کے لیے عقل، خرد، سائنس کی طرف بڑھنا ہو گا اور عقل، خرد اور سائنس میں ترقی کے لیے ایک ایسا سیاسی نظام اختیار کرنا ہو گا جو عقل، خرد اور سائنس کا تحفظ کرے۔ جمہوریت عقل، خرد، سائنس اور انسانی فلاح کی سب سے بہتر محافظ ہے اور ان اوصاف پر مبنی نظام کے لیے آزادی لازمی ہے جس کی جمہوریت سب سے بہتر ضمانت ہے۔
دوسرا تعلیم کے حصول کے لیے تعلیم یافتہ قوموں سے اچھے تعلقات رکھنا پڑیں گے۔ اب کفر، الحاد، استعمار، سامراج اور اس سے بھی زیادہ تند وتیز گفتگو اچھے تعلقات کے قیام میں اتنی مددگار ثابت نہیں ہوتی۔ ہاں اپنے تو بڑی داد دیتے ہیں لیکن تعلیم کے حصول کا بنیادی مقصد بری طرح مجروح ہوتا ہے۔
تیسرے مذہب کی وہ تعبیریں جو مذہب اور سیاست کی دوری کی دانائی تسلیم کر لیں اور تعلیم، صحت، انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں ان تعبیروں پر تو کام کرنے کی مسلمانوں کو ابھی تک ضرورت ہے۔
اس سب کے علاوہ بھی سید جو کام کرتا تھا اس سید میں بہت خوبیاں اور کچھ خامیاں بھی تھیں، لیکن ان کو اصل مسئلے کی تفہیم تھی اور ان کے پاس مسئلے کے حل کا لائحہِ عمل بھی تھا اور جن لوگوں نے ان کی راہ اختیار کی وہ اپنے لیے قوم کے لیے اور انسانیت کے لیے اچھے ہی ثابت ہوئے۔