سیاہی
افسانہ از، زبیر فیصل عباسی
پہلے پہل تو لوگ یہ سمجھتے رہے کہ ٹی وی چینلوں کے ہاتھ کوئی نیا ڈرامہ آ گیا لیکن رفتہ رفتہ اس کے شواہد ناقابلِ تردید ہوتے جا رہے ہیں۔ گذشتہ دو ماہ سے تقریباً تمام چینل یہ دکھا رہے ہیں کہ ملک میں رائج درسی کتب اور ان کی معاون کتابوں سے جو لفظ مدہم ہو رہے تھے اب مٹتے جا رہے ہیں۔ پہلے بڑے شہروں اور اب تو چھوٹے چھوٹے قصبوں سے بھی یہی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ ٹی وی سکرین پر ٹِکرز چل رہے ہیں اور سوشل میڈیا بھی اسی طرح کے پیغامات سے بھرا پڑا ہے۔ کل میرے ایک بے تکلف دوست مجھے فون پر بتا رہے تھے کہ “کُجھ تصویریں جو منے دیکھیں وہ تو یوں لگے ہیں کہ کسی کتاب کی نہ ہوویں بلکہ سفید صفحوں والے رجسٹر کی ہوویں جن پر آج تک کچھ لکھا ہی نہیں کسی حرام خور نے۔”
جس سے ملیں ہر شخص یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کیا کر رہی ہے؟ لگتا ہے جیسے جیسے پریشانی بڑھتی جا رہی ہے لوگ یہ سوال زیادہ پوچھنے لگے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ جب لوگ پریشانی میں نہ ہوں تو پوچھتے ہیں کہ حکومت کاروبارِ زندگی میں دخل کیوں دیتی ہے لیکن اگر مشکل میں ہوں تو اسی حکومت کو اندھا اور بہرا ہونے کےطعنے دینے لگتے ہیں۔ انسان شاید ہے اسی طرح کا خودغرض، مطلب پرست سا۔
لیکن بہرحال اب تو یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ پچھلے ایک دو ماہ سے حکومتی اداروں میں بھی بے چینی پھیل گئی ہے۔ وزارتِ تعلیم سے یہ فرمان جاری ہو گیا ہے کہ تمام درسی کتابیں چھاپنے والوں کے پرنٹنگ پریس سیل کر دیے جائیں تاکہ یہ دیکھا جائے کہ ان کی مشینیں درست کام کر بھی رہی ہیں یا نہیں؟ کیا ان کی سیاہی اور کاغذ مطلوبہ معیارکو پورا کرتے ہیں؟ وزارتِ تعلیم نے مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتی سرپرستی میں چلنے والی سائنسی لیبارٹری کو بھی لکھا ہے کہ وہ سیاہی اور کاغذ کے نمونے چیک کر کے بتائیں کہ کیا پبلیشرز کسی دھوکا بازی میں ملوث تو نہیں۔
چند دن پہلے میرے ایک ساتھی ڈپٹی سیکریٹری نے اپنی موٹی شیشوں والی عینک کے پیچھے چھپی ہوئی آنکھیں مٹکاتے ہوئے بتایا کہ اب تو خفیہ ادارے بھی حرکت میں آ گئے ہیں اور وہ بھیس بدل کر مختلف دکانداروں اور سکولوں میں جا کر کتابیں ٹٹول ٹٹول کر دیکھ رہے ہیں۔ کہنے لگے کہ ایک رپورٹ جو خفیہ کے اہلکاروں نے اپنے سربراہ کے سامنے رکھی وہ یہ ہے کہ جو کتابیں ڈبوں میں بند ہیں وہ تو پڑھی جا سکتی ہیں اور پہلی نظر میں ٹھیک ٹھاک لگتی ہیں لیکن ایک دفعہ کوئی ان کو دیکھ لے تو اس کے بعد سیاہی مدہم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اور ایسی مدہم ہوتی ہے کہ کتابوں کی ڈائریاں بن جاتی ہیں۔ ”تو کیا پتا چل گیا کہ یہ کرتوت کون گھول رہا ہے؟ میں نے پوچھا۔ کہنے لگے، ”یہ کام تو جھوٹ پکڑنے والی مشین ہی کر سکتی ہے ہمارے خفیہ اداروں میں اتنی سکت کہاں۔” اس جواب پر میں نے تو خاموشی کو ہی اپنا بہترین محافظ پایا اور نماز کے بہانے کمرے سے نکل گیا۔
سوشل میڈیا کی سن لیں۔ میرے ایک دوست نے ایک وٹس ایپ پیغام ویڈیو کی شکل میں بھیجا جس میں ایک بڑی عمر کی خاتون کہہ رہی تھیں کہ ”یہ بھڑوے سارے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ ہمیں چوتیا بنا رہے ہیں سالے حرام خور۔ بچوں کی گانڈ دھونے کے پیسے نہیں ہم ان دلوں سے بچوں کی نئی کتابیں کیسے خریدیں۔” میں نے تو جلدی سے یہ ویڈیو بند کر دی مبادہ کوئی کلرک سن کر سیکریٹری صاحب کو مزید مرچ مصالحے لگا کر جا بتائے کہ اس دفتر میں کیا گالم گلوچ چل رہی ہے۔ ادھر ٹی وی دیکھیں تو لگتا ہے کہ صحافی اور اینکر حضرات نے تو خیر کاروباری لوگوں کے نقصِ ایمان اور لالچ کو سنجیدہ موضوع بنا لیا ہے۔ روزانہ اس موضوع پر ٹاک شوز بھی ہو رہے ہیں۔ مختلف تجزیہ کاروں کو بلا کر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ آخر یہ لفظ کیوں مٹ رہے ہیں؟ معلوم ہوتا ہے کہ ایک غالب اکثریت کی رائے میں یہ کاروباری لوگوں کی نا جائز منافع خوری کی چالیں ہیں تاکہ لوگ نئی کتابیں بار بار خریدیں۔ لیکن جہاں دیدہ قسم کے ”دفاعی“ تجزیہ کار جن میں ایک لمبی ناک والے سوٹڈ بوٹڈ صاحب تو اسے ہر چینل پر اسے ایک دشمن ملک کی چال بھی بتا رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے ”دشمن کے پاس قومی سوچ اور قومی دھارے کو تباہ کرنے کی بہت سے حربے ہوتے ہیں۔ ان میں اس ایک حربہ تعلیمی نظام کو تباہ کرنا بھی ہے۔ ہمارے ساتھ بس یہی ہو رہا ہے۔” کچھ مذہبی رجحان رکھنے والے تجزیہ کار جو بلند آواز سے دقیق اردو بولتے ہیں ان کی دانست میں تو چونکہ دنیاوی علم غیر اہم ہے اس لیے یہ ایک قدرتی عمل ہے جس کے ذریعے غیبی طاقت تمام دنیاوی الفاظ کو درسی کتب سے مٹا رہی ہے۔ اس امرِ ربّی میں کسی انسان کا رتی برابر ہاتھ نہیں ہے۔ واللہ واعلم بالصواب۔
ویسے یہ دینی دنیاوی علم والا نقطۂ نظر اچانک پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے واضح اور دل چسپ مشاہدات موجود ہیں۔جیسا کہ مدارس میں پڑھائے جانے والی کتابیں اور لکھے جانے والے تعویز ابھی تک اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی۔ ”اے دیکھ لو، ساڈی مسجد میں تاں سب کاغت ٹھیک ہیں گے“، ایک مضافاتی علاقے کی رپورٹ میں کسی مقامی مسجد کا متولی ایک چینل کے رپورٹر ے بات کر رہا تھا۔ حقیقت ہے کہ مذہبی اداروں میں سیاہی کا مسئلہ تو شاید نہیں بلکہ صرف ایک مشکل ہے کہ ان کے دیے ہوئے تعویز اب زیادہ اثر نہیں کرتے اور مذہبی کتابوں کو سمجھنے اور سجھانے والے اساتذہ کی تعداد خطرناک حد تک کم پڑ گئی ہے۔ تعویزوں کے تیر بہ ہدف نہ رہنے کی وجہ سے پیروں کے مریدین تو پریشان ہیں ہی لیکن وہ احباب جن کو ”محبوب قدموں میں“ چاییے ان کی دال اب گلتی نظر نہیں آ رہی۔ کچھ احباب کے محبوب تو باوجود ٹوٹکوں اور دیگر چلہ جات کے تعلیم اور نوکری میں زیادہ دل چسپی لینے لگے ہیں۔ ان کو ”پرنس“ کے خطوط اور وٹس ایپ میسجز سے کچھ زیادہ سروکار نہیں رہا۔ میرے پیر و مرشد کا تو کہنا ہے کہ ”کوئی ایک مشکل ہو تو انسان بات بھی کرے یہاں تو ہر طرف ہی خدا سے دشمنی ہو رہی ہے۔ رب بچائے ایسے وقتوں سے”۔ لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بہرصورت ہر فرقے کے مذہبی مدرسوں میں پڑھنے اور پڑھانے والے خوش ہیں۔ ان کے لیے سیاہی اور کتابوں سے متعلق کوئی بڑا مسئلہ کھڑا ہی نہیں ہوا سوائے اثر انگیزی کے۔ یہ بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں زندگی میں آپ کو بے شمار لوگ مل جاتے ہیں جو دھوکا کھانا چاہتے ہوں۔ ابا مرحوم فرمایا کرتے تھے تھے کہ لوگوں کی ضروریات need اور لالچ greed ہی انہیں دھوکے دلواتے ہیں۔
اس سارے مسئلے میں دل چسپی کا کچھ اور سامان بھی ہے۔ کل اخبار میں بھی پڑھا اور کچھ دوستوں کے ویٹس ایپ پر پیغامات سے بھی معلوم ہوا کہ وہ غیر ملکی درسی کتب جو جامعات میں پڑھائی جا رہی تھیں وہ ابھی بھی درست حالت میں موجود ہیں اور لوگ انہیں پڑھ سکتے ہیں۔ میری بیٹی جو اے لیول کا امتحان دے رہی ہے اس نے بھی کسی لفظ کے مٹنے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ تو اس کا مطلب مجھے تو یہ سمجھ آیا کہ جدید ترین کتب جو چند سکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں اور وہ انٹر نیٹ وغیرہ پر موجود ہیں، وہ پڑھی بھی جا سکتی ہیں۔ میں نے خود تو ابھی اسے استعمال کر کے نہیں دیکھا لیکن جو دوست بتاتے ہیں وہ درست ہی کہتے ہوں گے۔ ویسے بھی میرے دفتر میں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہی ہے۔ گھنتوں انتظار کے بعد اخبار ایک ایک صفحہ کر کے سامنے آتا ہے۔
میں آپ کو بتاتا چلوں کہ چند سر پھرے دانشور جو سیاسی معاشیات میں دل چسپی رکھتے ہیں اور بائیں بازو کی سیاست کرتے ہیں انہوں نے تو واضح بتا دیا ہے کہ یہ مسئلہ دراصل طبقاتی کشمکش کا بدلتا ہوا جدید انداز ہے۔ میں نے ایک انگریزی اخبار میں کالم پڑھا جس میں ایک کلین شیو اور گھنگریالے بالوں والے تجزیہ نگار نے لکھا تھا کہ ”مہنگے سکول والوں نے سستے سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں رائج درسی کتب کو خراب کر کے رکھ دیا ہے۔ چونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ محروم طبقات کو زیورِ تعلیم سے مزید محروم کیا جا رہا ہے اس لیے اس استحصال کے خلاف ایک منظم آواز اٹھانے کی شدید ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ طبقاتی نظامِ تعلیم کا خاتمہ کر کے تمام لوگوں کو ایک ہی نظامِ تعلیم بہم پہنچائے۔” میں چند دن پہلے شام کو ایک بڑھیا قسم کی کافی شاپ میں ایک دوست کیساتھ بیٹھا تھا کہ محسوس ہوا جیسے ساتھ والی میز پر کچھ لوگ اپنے فیس بک پیج اور اس پر آنے والے لائکس کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں۔ میں نے کان اس طرف لگائے اور مجھے کن اکھیوں سے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ خوش شکل قسم کے نوجوان لڑکیاں لڑکے، جینز اور کرتوں میں ملبوس ہیں۔ اور یہ کہ کافی زور و شور سے اس مسئلہ کے حل کے لیے کیمپین چلا رہے ہیں۔
”یہ سب بہانے بازیاں ان گھٹیا کمینے سرمایہ داروں کی ہیں۔“
”میں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ غریب بچوں کو ان کی کتابوں سے محروم کرنے کا مقصد ان کو سکولوں سے فارغ کروا کر فیکٹریوں میں لگانا ہے تاکہ سستی مشقت لی جا سکے۔“
”جی ہاں یہی طریقہ ہے جسے یہ دلّے سرمایہ دار استعمال کرتے ہیں اور منافع کماتے ہیں۔ یہ غریب کی تنگ دستی اور ضروریات کو حد درجہ exploit کرتے ہیں تاکہ تسلط بھی برقرار رہے، غریب کو دھیرے دھیرے میٹھا زہر بھی ملتا رہے تاکہ یہ اس کا خون نچوڑتے رہیں۔“
”مسئلہ یہ ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ ریاست بھی اس گند میں شامل لگتی ہے۔ یہ کتے غریب کی کھال بھی ادھیڑ کر کھا جائیں اگر انہیں معاشی مفادات روک کر نہ رکھیں۔“
”ہمیں جلد کارنر میٹنگز بلانی چاہییں اور کامریڈ حیدر سے بات کر کے سٹڈی سرکل کو بھی متحرک کرنا ہو گا۔ بہتر تو یہ ہے کہ بائیں بازو کی تمام جماعتیں اکٹھی ہو کر ان چے لوگوں کے خلاف جدوجہد کریں۔“
”مگر کیسے کامریڈ ۔۔۔۔ آج تک تو یہ کبھی ۔۔۔۔۔؟“
مزید ملاحظہ کیجیے: پین دی سری کا مغز، علامتی کہانی از، آدم شیر
یہ گفتگو ابھی جاری تھی کہ میرے گھڑی پر سات بجے کا الارم بج گیا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ میں نے اپنی بیٹی کو ٹیوشن سینٹر سے لینا ہے۔ میں سر جھکا کر کافی شاپ سے باہر کی طرف چل پڑا۔ لیکن راستے میں ڈرائیو کرتے ہوئےسوچتا رہا کہ نہ جانے کیوں بائیں بازو والوں کے اس تجزیے کو بڑے ٹی وی چینلز اور نہ کسی بڑی اخبار نے اس قابل سمجھا ہے کہ اس پر مسلسل آواز بلند کی جائے۔ حتیٰ کہ ایک جیسے جدید نصاب پر کوئی سیر حاصل گفتگو، کوئی جملہ معترضہ کہیں سننے کو نہیں ملا۔ کیا کہہ سکتے ہیں شاید یہی کہ مصروف ادارے، مصروف لوگ!
*****
اب یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی برائے تعلیم کو یہ ذمہ داری سونپ دی جائے کہ وہ سرکاری اداروں اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں کیساتھ ملکر کھوج لگائیں کہ آخر درسی کتابوں سے سیاہی کیوں مٹنے لگی ہے۔ کل ہی ایک حکومتی ترجمان کالا چشمہ لگا کر ایک پریس کانفرنس کر رہے تھے کہ حکومت اس مسئلہ کے حل میں نہایت سنجیدہ ہے اور کچھ بین الاقوامی اداروں نے مدد کی پیشکش بھی کی ہے۔ لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ صحافی ان سے سوال سیاہی اور کتب کے متعلق کم اور موجودہ سیاسی محاذ آرائی سے متعلق زیادہ کر رہے تھے۔ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں سوائے آپ ہی کی طرح حیران ہونے کے اور شاید اپنا ماتھا پیٹنے کے۔
****
بحثیت چشم دید گواہ میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ کچھ دنوں سے پارلیمانی کمیٹی نے اپنا کام شروع کر دیا ہے اور ملک میں موجود چند غیر ملکی امدادی اداروں نے رقوم بھی مختص کر دی ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے پہلا اجلاس اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ہوا جس کا انتظام غیر سرکاری تنظیموں کے ایک گروپ نے کیا۔ دھواں دار اور کچھ علمی نوعیت کی تقریروں والے اس اجلاس میں تقریباً سو لوگ شریک ہوئے جن میں اکثریت غیر سرکاری تنظیموں کے ملازمین کی تھی لیکن کچھ سیاستدان اور دانشور بھی تشریف لائے۔ حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر ضروری سمجھا گیا کہ مزید غیر ملکی اداروں سے مالی معاونت کے بارے میں رابطہ کیا جائے اور اس طرح کے اجلاس دیگر شہروں میں بھی کیے جائیں اور لوگوں کی رائے معلوم کی جائے۔ ایک خاتون جن کے بال سرمئی رنگ اختیار کر چکے ہیں ان کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ situation analysis یا موجودہ صورتحال پر ایک عدد تحقیقی رپورٹ لکھیں جس کے لیے ایک باقاعدہ معاہدہ تنظیم برائے ترقی کیساتھ کیا جائے۔ یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ہر تنظیم اپنا ایک فوکل پرسن نامزد کر دے تاکہ رابطوں میں آسانی ہو۔سرمئی بالوں والی خاتون نے اُن پر کیے جانے والے اعتماد کا شکریہ ادا کیا اور دو ریسرچ اسسٹنٹ ساتھ دینے کی درخواست کی جو موقعہ پر ہی منظور کر لی گئی۔ “چونکہ معاملہ تمام معاشرے کا ہے اس لیے ایک لڑکی اور ایک لڑکا اس کام کے لیے رکھنا ضروری ہے تا کہ دونوں اصنافِ جنس کی نمائندگی ہو“، سرمئی بالوں والی خاتون نے شمولیت پر زور دیتے ہوئے مزید روشنی ڈالی۔
کرسئِ صدارت پر موجود نیلے انگریزی سوٹ اور سرخ ٹائی لگائے ایک تنظیم کے سربراہ نے جو تنظیموں کے اس گروہ کے کواڈینٹر بھی تھے، انہوں نےسرمئی بالوں والی محقق کی مدد کے لیے فرمایا کہ ”ہماری تنظیم کے پاس بہت سارے سی وی موجود ہیں ان میں سے آپ اپنی مرضی کے لوگ چن لیں۔” محقق خاتون نے جواب دیا کہ ”اس طرح تو دیر ہو جائے گی آپ دو جاننے والے لوگ میرے ساتھ کر دیں تاکہ میں آج سے ہی کام اسٹارٹ کر دوں اور کوئی دیر نہ ہوئے۔” بات معقول تھی اس لیے جلد اتفاق کر لیا گیا۔ میں اور آپ جانتے ہیں کہ اس طرح کے اجلاس اگلے اجلاس کی تاریخ طے کیے بغیر ختم نہیں ہوتے۔ سو اس بار بھی یہی ہوا۔ اجلاس ختم ہو گیا اور تین ہفتے بعد کی تاریخ اگلے اجلاس کے لیے رکھ دی گئی۔
جب لوگ ہوٹل سے باہر نکل رہے تھے تو نیلے سوٹ والے صاحب، سرمئی بالوں والی خاتون اور ایک سرکاری افسر جن کی کمر میں کچھ بل تھا اور وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر چل رہے تھےکے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ خاتون نے کہا کہ چلیں چائے پیتے ہیں اور کچھ مزید بات چیت بھی کر لیں گے۔ ہوٹل کی لابی کے دائیں کونے کی جانب کافی کی میز اور صوفہ سیٹ لگا تھا وہاں سب بیٹھ گئے اور چائے منگوا لی گئی۔ سیاہی اور کتب کی پیچیدہ صورتحال پر غور کرتے ہوئے اسسٹنٹ کے متعلق بتایا گیا کہ ایک تو محکمہ تعلیم کے سیکریٹری کی بیٹی ہیں جو کنگز کالج لندن سے پڑھ کر آئی ہیں اور دوسرے نیلے سوٹ والے صاحب کے بھتیجے ہیں جو ایک مقامی یونیورسٹی سے ایم بی اے کر کے فارغ ہوئے ہیں اور وہ اپنا کچھ وقت اس تحقیق کے لیے دے سکتے ہیں۔ تینوں نے اتفاق کیا کہ اس طرح سرکار سے بھی رابطہ رہے گا اور دیگر شہروں میں موجود چھوٹی تنظیموں سے بھی اچھا اور کارآمد رابطہ ہو سکے گا۔فیصلہ ہوا کہ تین لوگوں کی یہ ٹیم بین الاقوامی معیار کے مطابق مشاہرے پر کام شروع کر دے۔ میرے پاس آخری اطلاع آنے تک یہی معلوم ہوا ہے کہ سماجی رابطہ کاری زوروں پر ہے اور تمام ادارے اس میں پوری دل چسپی لے رہے ہیں۔
****
ایک طرف تو معاشرے میں بے چینی ہے لیکن سکولوں میں صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اساتذہ اور طالبِ علموں کے پاس کتابیں نہیں اور ششماہی امتحان سر پر آ گئے ہیں۔ شہروں بلکہ دور دراز کے علاقوں میں بھی اساتذہ اور طالبِ علموں نے نظر ٹیسٹ کروا لی ہے۔ اچھا ہی ہوا یہ ٹیسٹ ہو گئے بہت سوں کے بارے میں پتہ چل گیا ہے کہ ان کی نظر کمزور ہے اور چشمہ لگانے کی ضرورت ہے اور یہ کہ کچھ لوگ کلر بلائنڈ بھی ہیں۔ ممکن ہے کہ عینک کے استعمال سے کچھ افراد کی زندگی اور تعلیمی میدان میں کارکردگی بہتر ہو جائے۔ چلیں ہر مشکل کسی نئے مثبت قدم کی طرف لیجا سکتی ہے اور ایسا ہی ہوا۔ لیکن اپنی پیٹھ بچانے کے لیے ہرمسئلہ کا کوئی نہ کوئی جواب ہمارے یہاں موجود ضرور ہوتا ہی ہے خواہ وہ کتنا ہی عجیب اور منفرد کیوں نہ ہو۔ ”ہمارے لیے تو یہ سیاہی مٹ جانا کوئی بڑا مسئلہ ہی نہیں، ہمیں تو یہ سلیبس پڑھاتے ہوئے تقریباً دس سال ہو گئے ہیں اور یہ کتابیں زبانی یاد ہیں“، پچھلے اتوار کی اخبار میں میں نے ایک فیچر پڑھا جس میں ایک استاد صاحب کا یہ بیان درج کیا گیا تھا۔ جماعت کے بچوں کیساتھ موصوف کی ایک تصویر بھی دی گئی تھی جس میں یہ استاد کم اور ہاتھ میں کوڑا نما چھڑی پکڑے جلاد زیادہ لگ رہے تھے۔ یہ فیچر پڑھ کر میرا ذہن اپنے ایک پرانے ماہرِ بشریات دوست کی طرف چلا گیا جو اکثر کہا کرتا تھا کہ ہمارا رہن سہن اور دانشوری سنی سنائی تحقیق اور سینہ بہ سینہ علم پر مبنی ہے۔ ہمیں کسی لکھائی وغیرہ سے دل چسپی نہیں ہے۔ شاید وہ درست ہی کہتا تھا۔
سکولوں میں تحقیقاتی ٹیم جس کی قیادت سرمئی بالوں والی خاتون کر رہی ہیں انہوں نے پچھلے اجلاس میں بتایا ہے کہ درسی کتب تبدیل ہی نہیں کی جاتیں اور نہ ہی ان کی معاون کتابوں کو بدلنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سیکریٹری کی بیٹی نے اپنی آستینیں اوپر چڑھاتے ہوئے نیم انگریزی زدہ اردو میں کہا کہ ”ہمیں تو یہ لگا کہ جب تک ہمارے لرننگ اوبجیکٹو یعنی تعلیمی مقاصد تبدیل نہیں ہوتے، نصاب، کتاب، یا استاد تبدیل کرنے کا کوئی فائدہ ہو بھی نہیں سکتا۔” اس بات پر حاضرین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کچھ نے ہلکی پھلکی سی تالیاں بھی بجا ڈالیں۔ لیکن ایک اور اہم نقطہ جس کی نشان دہی کی گئی وہ یہ کہ قومی اور صوبائی دارلحکومتوں میں سیاہی اور کتابوں کا مسئلہ جتنا بڑا سمجھا جا رہا تھا وہ دور دراز کے علاقوں میں اس طرح موجود نہیں تھا۔ وہاں کے لوگوں کو فکر تھی تو کسی اور چیز کی۔ ان کے لیے یہ سوال زیادہ اہم تھا کہ کہیں جو سیاہی ان کے سرٹیفیکیٹ اور اسناد پر موجود ہےاس کے مٹنے کے امکانات تو نہیں؟ کہیں انہیں دوبارہ سے کلرکوں اور ان کے کارندوں کو پیسے دے کر یہ اسناد وغیرہ تو نہیں لینی پڑیں گی۔
اجلاس کے دوران چائے کے وقفہ میں تحقیقاتی ٹیم کے ممبران میرے ساتھ کھڑے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ مجھے لگا کہ تحقیقاتی ٹیم کے لیے عام لوگوں کی یہ باتیں بہت محظوظ کرتی ہیں اور وہ شام کو جب اکٹھے بیٹھتے ہیں تو ان کا خواب مزا لیتے ہیں۔ نیلے سوٹ والے صاحب کا بھتیجا ہاتھوں پر ہاتھ مار کر ہنس رہا تھا کہ میں نے تو ایک مقامی کالج میں چند لڑکیوں کو اپنا فون نمبر بھی دے دیا کہ اگر کوئی مشکل آئے تو میں حاضر ہوں میں آپ کی مشکل حل کروا دوں گا۔ ”ایسا ہونا کچھ بھی نہیں، بس ذرا نمبر شمبر ٹانک آیا ہوں“ وہ ہنستے ہوئے بولا۔
اس اجلاس میں عبوری تحقیقی رپورٹ کو منظور کر لیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ اس کو اس ہفتہ فائنل کر کے اسے پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کر دی جائے۔
****
تو جناب اس تحقیقاتی ٹیم کے کام مکمل ہونے میں اب باقی چند ہی دن رہ گئے ہیں اس لیے اب جلدی جلدی مزید فیلڈ نوٹس کو اکٹھا کیا جا رہا ہے اور مشاہدات کی ترتیب اور درجہ بندی بنائی جا رہی ہے تاکہ تجزیہ زیادہ ہمہ گیر ہو۔ لیکن میڈیا والوں نے چونکہ ایک نئی سے نئی بات نکالنی ہوتی ہے اور ایک نیا سکینڈل یا ایک نیا حادثہ منظرِ عام پر لانا ہوتا ہے تو انہوں نے تحقیقاتی ٹیم کے روزمرہ کے کاموں کی تفصیل سے بڑھ کر ان کے آپس کے معاملات پر بحث بھی شروع کر دی ہے۔
اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ چند اخبارات اور ان کے ٹی وی چینلوں نے کیسی کمال تفتیشی صحافت کی مشق کی ہے۔ ایک صحافی جو جعلی ادویات، گٹکا اور گدھے کے گوشت کی فروخت پر سے پردہ اٹھا کر شہرت کما چکے انہوں نے تحقیقاتی ٹیم کا بھیس بدل پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ اس کا خیال یہ تھا کہ چونکہ اس تحقیقاتی ٹیم کی مالی معاونت ایک بین الاقوامی ترقیاتی ادارے نے کی ہے اس لیے اس میں اس ادارے کا یا کسی اور ملک کا کوئی مفاد چھپا ہو گا۔ دشمن کی سازش والا مفروضہ تو ”کھرا سچ“ بن کر عام ہو ہی چکا تھا اس کے لیے بس اب کوئی ثبوت درکار تھا تاکہ اس مفروضہ کو درست ثابت کیا جا سکے اور تحقیق کے پسِ پردہ ”کھلے تضاد“ کی نشاندہی ہو سکے۔
کچھ چینل تو ابھی بھی سیاہی اور کتابوں کی عدم فراہمی پر مبنی چھوٹے چھوٹے کلپ چلا رہے ہیں اور معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں لیکن اکثر چینل اس معاملے کو پیچیدہ بنا کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر پچھلے ہفتے ہی پانی سے کار چلانے کا ناٹک کرنے والے ایک ڈپلومہ ہولڈر کو سائنسدان بنا کر دکھانے والے ایک سمارٹ اینکر نے آج مذہبی سیاسی جماعت کے ایک سابق لیڈر کا انٹرویو کیا اور اندازہ لگایا کہ کون کونسے ملک اس کاروائی میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ جواب سیدھا لیکن دل چسپ تھا۔ لیڈر نے اپنی جناح کیپ بائیں ہاتھ سے سیدھی کرتے ہوئے دایاں ہاتھ سامنے ڈیسک پر رکھا اور آنکھیں مٹکا کر بولے، ”آپ یہ دیکھیں کہ اس عمل کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہو گا۔” انہوں نے سیاہی اور کاغذ بنانے والے ممالک کے نام لیے اور تعداد گنوائی۔ ان کے ساتھ ہمارے ملک کے گذشتہ ادوار میں تعلقات کا ذکر کیا اور تین ملکوں کا گٹھ جوڑ قرار دیا۔ اس سازش کو بے نقاب کرنے کے بعد کچھ کاغذ ہوا میں لہرائے اور کہا کہ ” ادارہ برائے انسانیت کی اس رپورٹ کو دیکھیں کہ اور کون کون سے دیگر اسلامی ملک اسی منحوس سازش کا شکار نظر آتے ہیں۔ یہ سازش تمام عالمِ اسلام کے خلاف لگتی ہے۔” یہ بات سُن کر سمارٹ اینکر کی معاون خاتون اینکر کے چہرے پر کسی کا راز جان کر پیدا ہونے والی خوشی جیسی کیفیت امڈ آئی۔ انہوں نے ماتھے کے اوپر سے اپنا سکارف سیدھا کرنا شروع کر دیا۔ میں نے اس طرح کی گفتگو کثرت سے سُن رکھی تھی اس لیے میں نے جانوروں اور پرندوں والے چینل دیکھنے کو ترجیح دی۔
جس چینل نے تحقیقاتی ٹیم کو اندر سے ہلا کر کے رکھ دیا وہ سب سے تکھا نکلا۔ انہوں نے وڈیو کلپ نشر کیے کہ کس طرح نیلے سوٹ والے افسر کا بھتیجا اور سیکریڑی کی بیٹی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر شہروں کے مضافات کی ایک کمیونٹی میں گھوم رہے تھے۔ یہ بھی دکھایا کہ رات کو یہ اکٹھے بیٹھ کر بے حیائی پھیلاتے ہیں اور مختلف سکولوں میں جا کر طالبِ علموں کی سوچ کو پراگندہ بھی کرتے ہیں۔ لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ کس طرح تحقیق کی آڑ میں لوگوں کے اخلاق تباہ و برباد کیے جا رہے ہیں۔ اس چینل نے سب کچھ سکرپٹ کو مطابق کیا اور سکرین کے کونے پر چھوٹا سا لکھ دیا reenactment یعنی یہ اصل نہیں بلکہ اصل کی ڈرامائی تشکیل ہے۔ اس انگریزی کے لفظ کو سمجھے عام لوگوں کی بلا۔ مشکوک حقیقت کھل چکی ہے اور تحقیق کے نتائیج کو ماننے یا نہ ماننے پر رائے تقسیم کی جا چکی ہے۔
خدا جھوٹ نہ بلوائے کچھ تصاویر تو سوشل میڈیا پر بھی آ گئیں ہیں جن سے اس ٹیم کے ”اصل مشن“ کا پتا چلتا ہے۔ درسی کتب کے الفاظ کا مدہم ہونا اور تعلیمی نظام کا تلپٹ ہو جانا اب ذرا پیچھے چلا گیا ہے اور ایک نیا حادثہ سامنے آ چکا ہے۔ گو کہ نیلے سوٹ والے افسر کا بھتیجا اور سیکریڑی کی بیٹی چند دن کے لیے پریشان ہوئے لیکن انہوں نے کونسا اس ملک میں رہنا ہے۔ اگلے مہینے سیکریٹری کی بیٹی واپس لندن پی ایچ ڈی کے لیے چلی جائے گی اور بھتیجا صاحب نے سیر سپاٹے کے لیے مشرقِ وسطیٰ چلے جانا ہے اور پھر وہاں سے امریکہ تاکہ وہاں کی ایک بڑی یونیورسٹی سے ایک اور ماسٹرز شروع کر سکے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں اصل لعنت غریب ہونا ہے باقی تو سب کچھ انسان بھگت بھگتا ہی لیتا ہے۔ باقی رہا شک تو سیانے کہہ گئے ہیں کہ جن نکل جاتا ہے شک نہیں جاتا۔ اور میں کسی شک میں پڑنا ہی نہیں چاہتا۔
****
لیکن دوستو میں آپ کو بتا دوں کہ پچھلے ایک ہفتے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو گئی ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بہت سے اجلاس ہو چکے ہیں اور اس تحقیقی رپورٹ کو تفصیل سے پرکھا جا چکا ہے۔ سرکار کی سرپرستی میں چلنے والی لیبارٹری نے ابھی تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کی جس کی وجہ ٹیسٹ کے لیے درکار کیمیاوی مواد کی عدم دستیابی بتائی گئی ہے ۔
آخر کار حکومت کی خاطر خواہ محنت اور دیگر اداروں کی مشاورت سے ایک نامور غیر ملکی نو مسلم محقق کو دریافت کیا گیا ہے جو تحقیقاتی رپورٹ کو پڑھ کر مناسب تجاویز دے گا تاکہ یہ مسئلہ حل ہو سکے۔ کیونکہ محض مسلم ہونا کافی نہیں ہے اس لیے عمل کو پر اثر بنانے کے لیے ایک نو مسلم اور غیر ملکی کا چناؤ کیا گیا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ہمارے سماج میں غیر مسلم ہونا تو بالکل بھی قابلِ بھروسہ نہیں رہنے دیتا بلکہ اس کے ساتھ کچھ زندگی کا مزا کرکرا کرنے والے الزامات بھی لگ جاتے ہیں۔ بس یہی ہمارا سماجی چلن بن گیا ہے تو اب اس کا ذکر کرنے کا بھی کیا فائدہ۔
تو ہوا اب یوں ہے کہ ان نو مسلم ڈاکٹر حسن فریڈرک نےپالیمانی کمیٹی کیساتھ آخری اجلاس میں بڑی پر اثر تقریر کی، کہنے لگے ”جناب ہر سیاہی کا موت کی طرح ایک وقت معین ہے۔ یہ سیاہی ممکن ہے کچھ وقت تک نظر آتی رہے لیکن اس میں سے اثر نکل جاتا ہے اور کبھی کبھی یہ سفوف بن کر بکھر جاتی ہے۔ بالکل ایسی دوائی کی طرح جس کی مدتِ استعمال ختم ہو گئی ہو۔ اور مزید یہ کہ وہ اکثر ضرر رساں بھی ہو جاتی ہے۔” ہم حیران ہوئے کہ ڈاکٹر حسن کہتا ہے کہ علم بھی ایسی ہی ایک دوائی ہے۔ یہ بے اثر ہو جاتا ہے اور نئے حالات میں پرانا علم خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کو مسلسل نئی تحقیق اور نئی کتابیں چاہییں۔ کہتا ہے کہ سائنسی طرز پر نئی تحقیقات اور نیا علم ہی اس مسئلے کا مستقل حل ہے۔ کمال سوچتا اور بولتا ہے یہ بندہ بھی۔ میرے ساتھ موٹے شیشوں والی عینک لگائے بیٹھے ڈپٹی سیکریٹری نے مجھے کونی مارتے ہوئے پنجابی میں کہا کہ ”او سازشاں پھڑن والے عالم کتھے جان گے ہن؟” میں نے ہلکی سی آنکھ ماری اور کہا ”اوتھے ای جتھے سارے جاندے نیں۔”
فی الحال ڈاکٹر حسن فریڈرک نے اس مسئلہ کے فوری حل کے لیے جرمنی سے ایک سپرے منگوایا ہے جو انہوں نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد ایجاد کیا تھا۔ اس سپرے کی وجہ سے سیاہی اور کاغذ کی مدت کچھ عرصہ کے لیے بڑھ جاتی ہے۔ کہہ لیجئے کوئی چھ ماہ سے ایک سال تک۔ میں کل ان کے پاس ایک فائل منظوری کے لیے لے کر گیا تو سیکرٹری صاحب بتا رہے تھے کہ ”سپرے ایک مجرب نسخہ ہے جو جرمن کتابوں پر آزمایا جا چکا ہے اور اس کے حوصلہ افزا نتائج نکلے تھے۔ لفظ کچھ دیر کے لیے واپس ٓا گئے اور پڑھے جانے کے قابل ہو گئے۔” محکمہ تعلیم بڑی تیزی سے یہ سپرے ضلعوں کی سطح پر فراہم کر رہا ہے اور مصدقہ اطلاع ہے کہ درسی کتب تیزی سے بحال بھی ہو رہی ہیں۔
اب ان چھ ماہ میں کیا کیا جائے؟ یہ ایک سوال ہے جس پر بند کمروں میں بحث جاری ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ پرانے علم کے بوسیدہ ہونے سے پہلے نیا علم اس کی جگہ لے لے؟ ایسا کیا کیا جائے کہ معروف بین الاقوامی ادارے اس علم کی فراہمی میں ہمارے ملک کی کچھ مدد کر سکیں اور ان پر شک و شبہات کو کم کیا جا سکے؟ ایسا کیا کیا جائے کہ مقامی لوگ خود سے مشاہدے اور تجربے کے ذریعے علم پیدا کریں اور اسے نصاب کا حصہ بنائیں اور اس میں نئے سے نئے تحقیقی مواد کا اضافہ بھی کرتے جائیں؟ لیکن بقول ڈاکٹر حسن ”سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ جدید سائینسی طرزِ فکر کو اپنا سکتا ہے یا اپنانا چاہتا ہے؟“
اس مسئلے پر کل غیر سرکاری تنظیموں کے اجلاس میں تو ایک خوش گفتار قسم کے ڈاکٹر صاحب جو اکثر ٹی وی پر شاید صرف ہمارا ضمیر جگانے آتے ہیں کہہ رہے تھے کہ ”یہ مسئلہ سیاہی اور کتابوں کا نہیں بلکہ ہمارے طرزِ فکر کا ہے۔ یہ سیاہی اور کاغذ ہمارے دماغ ہی میں کہیں موجود ہیں۔ یہ ڈاکٹر تو واپس چلا جائے گا، ہمیں کیا کرنا ہے یہ ہم نے ہی سوچنا ہے۔” اب ان ڈاکٹر صاحب کو کون سمجھائے کہ جس قوم نے پچھلے کئی سو سال سے ایک سوئی ایجاد نہ کی ہو، جس کے استادوں کی ایک غالب اکثریت ایک سال میں دو سو صفحوں کی کتاب نہ پڑھ سکے، جس کے معالج دوائی کی بجائے تعویز دیتے ہوں، کیا اس قوم کے مُردوں نے قبروں میں بیٹھ کر سوچنا ہے؟
لگتابھی یہی ہے کہ ان سوالوں جوابوں سے کسی اخبار یا چینل کو کوئی خاص دل چسپی نہیں ہے۔ موجودہ سیاسی حکومت سے کچھ ریاستی ادارے ناراض ہو گئے ہیں اور وزیروں مشیروں کے مستعفی ہونے کی خبریں اہم ہو گئی ہیں۔ ایک سیاسی جماعت نے سڑکوں پر احتجاج کا پروگرام بنا لیا ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں پھر سے مذہب کی آڑ میں متحرک ہو گئی ہیں، کچھ عرصہ میں الیکشن بھی ہونے ہیں اور ایک فلمی ستارہ، جن کے کولہوں کے ابھار اور پتلی کمر والی تصویرنے انٹر نیٹ توڑ دیا تھا یعنی (break the Internet) کیا تھا، نے شادی کرنے کے فیصلے کو موخر کر دیا ہے۔ وہ ممکنہ شادی کی تاریخ کا اعلان چند روز میں کریں گی جس کا ہم بے چینی سے انتظار کریں گے۔
****
چھ ماہ ختم ہونے میں ایک دن باقی ہے۔ مجھے جلدی ہے اس لیے جانے کی اجازت دیں کیونکہ میں نے ابھی پارلیمانی کمیٹی برائےتعلیم کے ہنگامی اجلاس کے لیے دفتر سے نکلنا ہے تاکہ سیاہی اور کتابوں ۔۔۔۔۔ !
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.