سیاس نامہ
از، معصوم رضوی
سیاست ہر پاکستانیوں کا محبوب ترین موضوع ہے، ایک لمحے کے لیے سیاست کو زندگی سے نکال دیں سوچیں پھر کیا ہو گا، مجھے تو لگتا ہے ذھنی کرفیو نافذ ہو جائے گا، دکانیں، چائے کے ہوٹل، نائی، سبزی اور گوشت فروش سکتے کا شکار ہو جائیں گے۔ شادی، بیاہ، ولیمہ، سوئم، چہلم، سالگرہ، حتیٰ کہ تدفین کے اجتماع تک سونے پڑ جائیں، نہ کوئی بات چیت، نہ گرما گرمی، کوئی موضوع ہی نہیں ہو گا۔ سیاست پاکستانیوں کو محبوب ترین موضوع ہے نہ ہو تو میڈیا کا کیا بنے گا، چلیں اخبارات تو صفحات کم کرنے کی قدرت رکھتے ہیں مگر چوبیس گھنٹوں کو تو کم نہیں کیا جا سکتا، کیا کیا جتن کرنے پڑیں گے نیوز چینلز کا پیٹ بھرنے کے لیے، ٹرین میں بیٹھے مسافر جی آیا نوں کے بعد ٹکر ٹکر ایک دوسرے کی جانب دیکھتے گم سم بیٹھے رہینگے، ہوٹل، بازار، چوک سنسان ہو جائیں گے۔آپ مانیں یا نہ مانیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ سیاسی مباحث پاکستان کے لیے binding force کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سیاست پاکستانی معاشرے میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اس کے بغیر زندگی کا تصور محال نظر آتا ہے، قبر میں پاؤں دھرے بزرگ ہوں یا میٹرک کا طالب علم، ڈرائیور ہو یا صنعت کار، حتیٰ کہ بھکاری تک ایسا سیاسی تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ اینکرز شرما جائیں۔
قیام پاکستان کے بعد تو عوام کو ہوش ہی نہ تھا ریاست کے خواب کو تعبیر میں ڈھلنے کا عزم اور جدوجہد، مگر سیاست پر کوئی خاص توجہ نہ تھی، قائد اعظم اور قائد ملت کے بعد تو وزارت عطمیٰ کی ایسی میوزیکل چیئر کھیلی گئی ہے 9 سالوں میں 6 وزیر اعظم ، پھر بالاخر اسکندر مرزا کے کاندھوں پر چڑھ کر 60 کی دہائی میں جنرل ایوب خان نے راج سنگھاسن سنبھالا سو آج تک عسکریات اور جمہوریت کی آنکھ مچولی جاری ہے، خیر یہ علیحدہ موضوع ہے بہرحال ایوب دور حکومت میں تو سیاست عوام کے لیے شجر ممنوعہ رہی، یہ بھٹو صاحب تھے جو 70 کی دھائی میں سیاست کو ایوانوں سے نکال کر میدانوں میں لائے، بس پھر گلی کوچوں میں سیاست کا سکہ ایسا چلا کہ بھٹو صاحب بھی حیران رہ گئے، عوام احسان فراموش ہرگز نہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی آج بھی بھٹو کی کمائی کھا رہی ہے، بہرحال بات تھی سیاسی مباحث کی، تو جتنی سیاسی بحث پاکستان میں ہوتی ہے شاید ہی کرہِ ارض پر کسی ملک کے نصیب میں ہو، سیاست کے بغیر پاکستانیوں کو زندگی ادھوری ہے حالانکہ سیاست نے نہ اب تک کچھ دیا ہے اور نہ ہی آئندہ کوئی امید ہے، بقول راحت اندوری
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
نیوز چینلز نے چھپڑ پھاڑ کر سیاست کو فروغ دیا ہے کہ اب عوام بھی بتا سکتے ہیں کہ کون سا اینکر کس کے حق می بولے گا اور کون سا تجزیہ کار کس کو گالی دے گا۔ رہی بات صحافت کی تو حضور سیاست کب کا صحافت کو نگل چکی۔ ایسے ایسے جید اینکر اور تجزیہ کار موجود ہیں جو ون ٹو ون ملاقات کا ایک ایک حرف، پیشانی کی پڑی تیوریوں اور چائے میں چینی کے چمچوں کی تعداد تک بتا دیتے ہیں۔ اخباری صحافی اور کالم نگار بھی اسی سے استفادہ فرماتے ہیں۔ رات کو ہر نیوز چینل پر سیاسی نوٹنکی کی محفل جمتی ہے، سیاسی رہنمایوں اور ماہرین کی مثال ایسے ہوتی ہے کہ ادھر ڈوبے، ادھر نکلے، بعض اوقات تو ایک ہی مہمان پرائم ٹائم کے تین، تین پروگرام بھگتا دیتا ہے بلکہ وقفے میں فون پر چوتھے چینل کو بیپر تک دے ڈالتا ہے۔ ہر چینل ایک ہی جیسے موضوع پر ایک ہی جیسے مہمانوں کے ساتھ منفرد پروگرام دکھا رہا ہوتا ہے، ہوشیار تجزیہ کار ایک آدھ کوٹ یا دو ٹائیاں اضافی رکھتے ہیں تاکہ کہ خیالات میں نہ سہی ویژول میں تو فرق نظر آئے، بعض سیاسی قائدین کو ٹیلیویژن کا ناسٹروڈیمس کہا جاتا ہے، بس فرق یہ ہے کہ ناسٹروڈیمس کی نوے فیصد پیشگوئیاں سچ ثابت ہوئیں اور ان کی غلطیوں کی تعداد بھی کچھ ایسی ہے، اگر کسی پروگرام میں چاروں مہمان ایک ساتھ چیخنے لگیں تو سمجھیں پروگرام ہٹ، اور کہیں مہمان شو چھوڑ کر اٹھ جائے تو کیا کہنے، نوبت گالی گلوچ تک پہنچ جائے تو سوشل میڈیا بھی لے اڑتا ہے ایسے دُرِ نایاب کو، مگر جناب کیا کیا جائے کہ یہی وقت ہوتا ہے ڈراموں کا تو جس گھر میں مردوں کا راج ہے وہاں سیاسی پروگرام اور جہاں خواتین کی حکمرانی ہے وہاں ڈرامے چلتے ہیں، نتیجہ اور لطف دونوں کا لگ بھگ یکساں ہے۔
رہی بات عوام کی تو جہاں چار بندے جمع ہوئے شروع ہو گئی سیاست پر بحث، قصائی، نائی، بینک، سرکاری دفتر، ملٹی نیشنل کوئی اس مرغوب موضوع سے خالی نہیں، نائی کی زبان قینجی سے زیادہ تیزی کے ساتھ سیاسی قائدین کی حجامت بناتی ہے تو قصائی کا بغدا بھی کچھ پیچھے نہیں رہتا، ہر گلی کوچے میں سیاسی ماہرین کی بھر مار ہے، ایسا ایسا سیاسی ماہر پڑا ہے کہ بس، یقین نہ آئے تو شادی، ولیمے کی تقریبات میں بطور خاموش مبصر جائزہ لیں، کیا گھمسان کی رن پڑتا ہے، لگتا ہے کہ تمام سیاسی قائدین ان حضرات سے مشورے پر چل رہے ہیں، ایسے ایسے نجی راز اور الزامات ان محفلوں میں منکشف ہوتے ہیں کہ ملزم خود حیران رہ جائے، معاملہ شادی اور ولیمے کی تقریبات تک محدود نہیں، رسم قل، ہو چہلم ، عقیقہ یا کوئی اور محفل، ایسے تمام مقامات جہاں چار افراد جمع ہو جائیں، سیاسی الف لیلہ شروع ہو جاتی ہے۔
آخر میں کوئی بڑا بوڑھا یہ سارے انڈے اسٹیبلشمنٹ کی گود میں ڈال دیتا ہے جہاں یہ سب سیاسی مقلدین مشترکہ کلمات ناگفتنی پر متفق ہو جاتے ہیں، ایسے دنگل ہر گلی کوچے اور ٹی وی اسکرینز پر روزانہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی تو شان ہی نرالی ہے، یہاں سیاسی چہل پہل ہر دم عروج پر ہوتی ہے، سیاسی لطیفے، کثیفے، کارٹون، اسکینڈل، تجربات، تجزیات، تعلقات اور جانے کیا کیا کچھ، فیس بک، انسٹا گرام، واٹس ایپ اور ٹوئٹر چھکا چھک بھرا ہوا ہے، لگتا ہے کہ پاکستان میں سیاست کے سوا اور کوئی مسئلہ ہی نہیں، خیر یہ سچ بھی ہے۔ اب سیاسی اعلانات کے لیے جلسوں کی ضرورت نہیں پڑتی، بس ایک ٹوئٹ کافی ہے دھڑا دھڑ بریکنگ نیوز کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں تو سوشل میڈیا پر اس قدر تگڑی ہیں کہ ذرا ان پر تنقید کریں آبا پرستار اجداد کی قبریں تک کھود ڈالتے ہیں۔ ملکی سیاست کا تو مزہ ہی اور ہے مگر کبھی کبھار بین الاقوامی سیاست پر بھی ہاتھ صاف کیا جاتا ہے، ٹرمپ کی گستاخیاں، پیوٹن کی مکاریاں، ارددوان کی پالیسیاں، عراق اور شام کی جنگ، ایسے ایسے نادر خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ سی این این اور بی بی سی کے عالمی ماہرین دانتوں تلے انگلیاں داب لیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر ماشااللہ 352 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں 342 نشستیں ہیں جن میں سے 272 پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ پورا ملک سیاستدان بن چکا ہے، دودھ والا دودھ میں پانی ملائے تو اسے ملاوٹ نہیں سیاست کہتا ہے، ملازمت کے لیے سفارش، جھوٹے حلف نامے، میرٹ کا قتل، رشوت ستانی، گھپلے سب سیاست ہے، اپنی آسانی کے لیے اسے عوامی سیاست کہہ لیں جو ہم آپ سب کر رہے ہیں، باقی رہی بات سیاسی اور غیر سیاسی حکمرانوں کی تو یہ بڑے کھلاڑی ہیں، ان کا کھیل ستر سال سے چل رہا ہے اور ہمیں ہوش نہ آیا تو آئندہ بھی چلتا رہے گا. حمایت علی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
اس شہر خفتگاں میں کوئی تو اذان دے
ایسا نہ ہو زمیں کا جواب آسمان دے