سیاسی حرکیات کا فہم
خورشید ندیم
کیا آپ نے مولانا حسین احمد مدنی کی خود نوشت سوانح ”نقشِ حیات‘‘ پڑھی ہے؟ کیا مولانا ابوالکلام آزاد کی (India Wins Freedom) آپ کی نظر سے گزری ہے؟ کیا آپ کو مولانا عبداللہ لغاری کے قلم سے نکلی ہوئی ”مولانا عبیداللہ سندھی کی سرگزشتِ کابل‘‘ کے مطالعے کا موقع ملا ہے؟ ان سوالات سے خدانخواستہ آپ کا امتحان لینا مقصود نہیں۔ مقصد کچھ اور ہے، جس کا ذکر میں چند سطروں کے بعد کروں گا۔
مولانا ابوالکلام آزاد جب ہندوستان کے علمی و سیاسی افق پر نمودار ہوئے تو ان کے جاہ و جلال کا رنگ ہی کچھ اور تھا۔ مسلمانوں نے جانا کہ کوئی ان کی عظمتِ رفتہ کو آواز دے رہا ہے۔ انہیں خیال ہوا کہ قرنِ اوّل کا کوئی ہیرو کتابوں کے اوراق سے نکل کر، ان کی آنکھوں کے سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔ ‘ہندوستان میں حکومت ِالہیہ کا قیام‘… کیا شاندار نعرہ تھا جو اہلِ اسلام کے کانوں سے ٹکرایا اور ان کی سماعتوں کو مسحور کر گیا۔ اہلِ علم نے محسوس کیا کہ ابن تیمیہ اور صلاح الدین ایوبی ایک قالب میں ڈھل گئے ہیں۔ شیخ الہند جیسے رجلِ رشید نے گمان کیا کہ وہ امامِ وقت آ گیا ہے جس کا انتظار تھا۔
یہ منظر مگر تادیر قائم نہ رہ سکا۔ چند برس بعد، امامِ وقت کو لوگوں نے دیکھا کہ گاندھی جی کے مقتدی بن چکے ہیں۔ حکومتِ الہیہ کا نعرہ اب ان کی لغت میں شامل نہیں تھا۔ اب وہ ہندوستان کی آزادی کی بات کر رہے تھے۔ ان کے خیال میں آزادی کے لیے لازم تھا کہ ہندوستان کے لوگ بدیشی حکمرانوں کے خلاف ایک قوم بن جائیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس کا نوحہ لکھا اور مولانا آزاد کے انقلابِ حال کو بیسویں صدی کی سب سے بڑی ٹریجڈی قرار دیا۔ پھر آگے بڑھ کر خود حکومتِ الہیہ کا پرچم تھام لیا۔ آج اس پرچم کو جناب سراج الحق کے ہاتھ میں دیکھتا ہوں تو فیض صاحب یاد آتے ہیں:
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا عَلم ہے
مو لانا آزاد نے غوروفکرکا ایک نیا زاویۂ نظر متعارف کرایا۔ یہ مذہب کی نگاہ سے تاریخ اور سیاست کا مطالعہ تھا۔ اِس نے ایک مذہبی رومانیت پیدا کی۔ لوگوں نے گمان کیا کہ آج اگر ماضی کے کرداروں کا احیا ہو جائے تو خلافتِ راشدہ کو ایک بار پھر مشہود کیا جا سکتا ہے۔ یہ تاریخ کا ایک ما بعدالطبیعیاتی مطالعہ تھا۔ اس میں مذہبی لٹریچر سے استشہاد کرتے ہوئے یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کا قانون جس طرح انبیا اور رسولوں کے باب میں روبعمل ہوا، اسی طرح غیر رسولوں کے معاملے میں بھی کارفرما ہو سکتا ہے۔ ملی شاعروں کے ہاں تو یہ اسلوب موجود رہا ہے کہ شاعری کی اساس ہی رومان اور مبالغہ ہے۔ جیسے اگر فضائے بدر پیدا ہو جائے تو فرشتے آج بھی نصرت کے لیے اتر سکتے ہیں۔ اب مولانا آزاد کے زیر اثر، یہ شاعری علمی مقدمہ بن گئی۔
اس کے برخلاف مطالعہء تاریخ کا ایک دوسرا اسلوب سر سید کے زیرِ اثر پروان چڑھا۔ یہ تاریخ کا غیر مذہبی یا درست تر الفاظ میں غیر نظریاتی مطالعہ تھا۔ اس میں سیاسی یا سماجی واقعات کو اُسی طرح دیکھا جاتا ہے جیسے وہ وقوع پذیر ہوئے۔ اس اسلوب میں تاریخ کو کسی ما بعدالطبیعیاتی عمل کے بجائے علت و معلول کے تعلق سے سمجھا جاتا ہے۔ یوں تاریخ کو غیر جذباتی اور جدید علمی پیرائے میں جاننے کا رجحان پیدا ہوا۔ ہمارے ہاں اگرچہ ابن خلدون نے اس اسلوب کی بنا رکھی‘ لیکن یہ ایک علمی روایت نہیں بن سکی۔ اگر ہم برِصغیر میں مسلم اقتدار کے زوال کو سمجھنا چاہیں تو اس کا ایک تجزیہ ہمیں مولانا آزاد کے ہاں ملے گا اور دوسرا سر سید کے ہاں۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ روایتی علما نے، اپنے عہد کی سیاست کو، سر سید ہی کے اسلوب میں سمجھا۔ یہ سیاست کا ایک غیر جذباتی اور غیر مذہبی مطالعہ ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی کی ‘نقشِ حیات‘ دیکھیے تو وہ اپنے عہد کی سیاست کا غیرمذہبی جائزہ لیتے ہیں۔ یہی معاملہ مولانا سندھی کا ہے۔ وہ سیاسی واقعات کو کسی ایسے تصورِ تاریخ کے تحت نہیں دیکھتے جو مذہب سے ماخوذ ہے۔ چونکہ ہماری مذہبی روایت پر شاہ ولی اللہ کے گہرے اثرات ہیں اس لیے میرا تاثر ہے کہ سیاست کے فہم کا یہ انداز بھی وہیں سے آیا ہے۔ میں مولانا فضل الرحمٰن کو اسی روایت کا آدمی سمجھتا ہوں۔ اگر ہم اس روایت سے واقفیت پیدا کر سکیں تو ان کی سیاست کو جاننا آسان ہو جاتا ہے۔
سیاست کے غیر مذہبی مطالعے کا یہ مطلب نہیں کہ سیاست کو ایک غیر اخلاقی عمل سمجھ لیا جائے۔ اخلاقیات کا تعلق سیاست دان سے ہے، سیاسی حرکیات سے نہیں ہے۔ سیاسی واقعات کا جائزہ لیتے وقت، ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ اصلاً ایک غیر مذہبی عمل ہے یا یوں کہیے کہ اقدار سے بے نیاز عمل ہے۔ اس کا مطالعہ اس اعتراف کی روشنی میں ہو گا تو ہم درست نتائج تک پہنچ پائیں گے۔ ہم سیاست کو نہیں، اہلِ سیاست کو اقدار کا پابند بنا سکتے ہیں۔
جن کے نزدیک سیاست ایک مذہبی یا ما بعدالطبیعیاتی عمل ہے، انہوں نے اسی حوالے سے تاریخ اور سیاست کو سمجھنا چاہا۔ یہ ایک غیر منطقی تصور تھا جس کی روشنی میں کسی نتیجہ خیز اور قابلِ عمل سیاسی حکمتِ عملی کی تشکیل ناممکن تھی۔ یہ زبانِ حال سے اسی بات کا اعتراف تھا جس نے مولانا آزاد کو حکومتِ الہیہ کے علم بردار سے جنگِ آزادی کا ایک سپاہی بنا دیا۔ یہ کوئی ٹریجڈی نہیں، تاریخ کا جبر تھا۔ مولانا آزاد کو اندازہ ہو گیا کہ حکومتِ الہیہ کا قیام ایک رومانوی تصور ہے۔ خود مولانا مودودی بھی اسی جبر کا شکار ہوئے۔ ‘تفہیمات‘ میں حکمتِ عملی کے مباحث پڑھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا دراصل اسی مخمصے میں مبتلا تھے لیکن انہوں نے مولانا آزاد کی طرح اس سے نکلنے کی کوشش نہیں کی۔ آج سب حجاب اٹھ چکے۔ آج سیاست کو سیاست سمجھ کر کیا جا رہا ہے اس لیے سراج الحق صاحب کو حکمتِ عملی کا وہ مسئلہ درپیش نہیں جس کا سامنا مولانا مودودی کو تھا۔
کوئی اس کا اعتراف کرے یا نہ کرے، امرِ واقعہ یہ ہے کہ برصغیر کے جدید مسلم اندازِ فکر پر اب بھی مولانا آزاد کے ابتدائی عہد کا غلبہ ہے۔ آج بھی سیاسی راہنماؤں کو جب لوگ سماجی سیاق و سباق سے الگ کرکے، ایک مثالی سطح پر رکھتے ہیں تو یہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اِسی اندازِ نظر کا اثر ہے۔ اس لیے جب ان کے سامنے سیاست کا مطالعہ، سیاسی حرکیات کے تحت کیا جاتا ہے تو وہ اسے اخلاقیات کے پیمانے پر ناپنا شروع کر دیتے ہیں۔ چونکہ اب یہ لاشعور کا حصہ بن چکا ہے، اس لیے کوئی اس اندازِ فکر کا جائزہ لینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اگر کوئی توجہ دلانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا اپنا اخلاقی وجود مشتبہ ہو جاتا ہے۔
میں جب یہ لکھتا ہوں کہ آج کے دور میں فلاں کو سیاسی عصبیت حاصل ہے اور اس کے خلاف قانون اس طرح متحرک نہیں ہو سکتا جیسے عام آدمی کے خلاف روبعمل آتا ہے تو اس بات کو سیاسی حرکیات کے بجائے اخلاقی یا مذہبی پیمانے پر پرکھا جاتا ہے۔ یوں خلطِ مبحث پیدا ہوتا ہے اور بات کی درست تفہیم نہیں ہو سکتی۔
یہی وہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے میں نے اس کالم کی ابتدا میں بعض سوالات اٹھائے تھے۔ اگر ہم ان بزرگوں کی یہ کتب پڑھیں تو ہمیں یہ سمجھ آئے گا کہ روایتی علما نے مسلم لیگ کے مقابلے میں کانگرس کا ساتھ کیوں دیا اور اپنی للہیت، عبادت گزاری اور تقویٰ کے باوجود، انہوں نے ایک ایسے ملک کے قیام کی مخالفت کیوں کی جو اسلام کے نام پر وجود میں آ رہا تھا۔ اس کے بعد اگر میرا تجزیہ بھی درست سیاق سباق میں سمجھا جا سکے تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔ ورنہ میرے حصے کا دشنام تو بہرحال ہے ہی۔
بشکریہ: روزنامہ دنیا