سیاسی کایا پلٹ
امر جلیل
آپ ذہنی طور پرتیار ہیں نا ایک دودھ میں دھلے صاف ستھرے سیاسی ماحول اور سیاسی نظامم کے لیے؟ ایسا معتبر سیاسی نظام آیا ہی چاہتا ہے۔ آپ اسے محسوس کرسکتےہیں۔ آپ کے آس پاس ہی کھڑا ہوا ہے۔ جراثیم سے پاک سیاسی نظام کے آنے کے بعد پاکستان کی کایا پلٹ جائے گی۔ اعلیٰ افسران سے لے کر چپراسیوں تک کوئی شخص رشوت نہیں لے گا۔ سفارشوں کے لیے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہوگی سب کام قابلیت پر ہونگے۔ میرٹ کے بغیر کسی کی دال نہیں گلے گی۔ محکموں میں اعلیٰ اسامیوں تک پہنچنے کے چور دروازے بند کر دیے جائیں گے۔ اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے نت نئے طریقے متعارف کروائے جائیں گے۔ سیاسی کنبوں کے چنگل سے پاکستان کو نکالنے کے لیے موروثی سیاست کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ ساس، بہو، سمدھی، سسر، مامے، چاچے کی سیاست نہیں چلے گی۔
انگریز کی کہاوت ہے کہ برے سے برے شخص میں اچھے اوصاف ہوتے ہیں۔ اور اچھے سے اچھے آدمی میں کچھ بری باتیں بھی ہوتی ہیں۔ مطلب یہ کہ کوئی شخص مکمل طور پر اچھا یا مکمل طور پر برا نہیں ہوتا۔ مگر ہم چونکہ انگریز کے دیرینہ دشمن ہیں اس لیے ہم انگریز کی کسی کہاوت وغیرہ کو قبول نہیں کرتے۔ ہم برے آدمی کو مکمل طور پر برا اور اچھے آدمی کو مکمل طور پر اچھا سمجھتے ہیں۔ ڈکٹیٹر مشرف نے اسمبلی ممبر بننے کے لیے ممبر کے پڑھے لکھے ہونے کی شرط لگائی تھی۔
اسمبلی ارکان کا بنیادی کام قانون سازی ہے۔ اس لیے اسمبلی ممبر کا پڑھا لکھا ہونا لازمی ہے۔ جراثیم سے پاک سیاسی نظام میں صرف جعلی ڈگریوں سے کام نہیں چلے گا۔ اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے کے بعد ارکان کو پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں بیٹھنا پڑے گا۔ اچھی اسمبلی سے اچھی حکومت بنتی ہے۔ اسمبلی ارکان کو قوانین سمجھنے اور قوانین بنانے کی تربیت دی جائے گی۔
پچھلی کتھا میں، میں عرض کرچکا ہوں کہ صاف ستھرے سیاسی نظام کے تحت ووٹ دینے والوں کے حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ دینے والوں کو مکمل اختیار دیاجائے گا کہ وہ جس امیدوار کو ووٹ دے کر اسمبلی کا ممبر بناتے ہیں، اس ممبر کی مایوس کن کارکردگی دیکھتے ہوئے وہ اپنا ووٹ واپس لے کر، اس ممبر کو اسمبلی سے خارج بھی کرسکیں گے۔ اس کی جگہ کسی فعال شخص کوووٹ دے کر اسمبلی بھیج سکیں گے۔ اپنے علاقے میں ترقیاتی کام کروانے کے لیے اسمبلی ممبران کو کروڑوں روپے دیے جاتے ہیں۔
کئی ممبران دھیلے کا ترقیاتی کام نہیں کرواتے اور کروڑوں کے فنڈ ہضم کرجاتے ہیں۔ ووٹ دینے والے ایسے ممبران کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنا ووٹ واپس لے کران کو فارغ کرنے کا قانونی حق رکھیں گے۔ وہ اپنے ممبر سے کارکردگی کے حوالے سے پوچھ گچھ کابھی حق رکھیں گے۔ یہ حقوق بے وجہ نہیں ہیں۔ آپ جب کسی کو اپنے ہاں ملازم رکھتے ہیں تب اسے آپ تنخواہ دیتے ہیں۔ اس کے کام پر نظر رکھتے ہیں۔ اس کے کام سے اگر آپ مطمئن نہیں ہوتے تو اس کو فارغ کردیتے ہیں۔
جب آپ ووٹ دے کر کسی کو اسمبلی کاممبر بنواتے ہیں تب سے آپ کے بنیادی حقوق شروع ہوجاتے ہیں۔ آپ کے ووٹ سے ایم پی اے یا ایم این اے بننے والے کو عام ملازموں کی طرح سرکاری خزانے سے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ سرکار ممبر کی کارکردگی پر نظر نہیں رکھتی ۔ سرکار نے یہ حق آپ کودے دیا ہے۔ وہ ممبر اسمبلی میں آپ کی نمائندگی کرتا ہے۔ آپ کے علاقے میں ترقیاتی کام کرواتا ہے۔ وہ ہر لحاظ سے آپ کا ملازم ہوتا ہے۔ ناقص کارکردگی کی وجہ سے آپ اپنا ووٹ واپس لے کر اس کو فارغ کرسکتے ہیں۔ vote of no confidence آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ وہ آپ کا ملازم ہوتا ہے۔ آپ اس کو ملازمت سے نکال سکتے ہیں۔ ایسے حیرت انگیز حقوق آپ کو نئے پاک صاف سیاسی نظام کے تحت ملنے والے ہیں۔
جراثیم سے پاک، ملاوٹ سے پاک سیاسی نظام میں قانون ساز اسمبلیوں کو فعال بنانے کے لیےسائنس ٹیکنالوجی، تعلیم ، صحت، صنعت وحرفت کے شعبوں میں ماہر اشخاص کو ووٹ دینے والے منتخب کرنے کے بعد اسمبلی کا ممبر بناطسکیں گے۔ مثلاً کسی یونیورسٹی میں اقتصادیات Economics کے پروفیسر کوآپ ووٹ دے کر اسمبلی کا ممبر بنا سکیں گے۔ قوانین کے مطابق پروفیسر صاحب اسمبلی میں یونیورسٹی کی طرف سے deputation پر ہوںگے۔ اسمبلی کی مدت یعنی میعاد پوری ہوجانے کے بعد وہ واپس جا کر یونیورسٹی میں اقتصادیات پڑھا رہے ہونگے۔ اسی طرح صحت، سائنس، تعلیم، کے شعبوں سے ذہین لوگ اسمبلی ممبر بن سکیں گے۔
یاد رہے کہ اچھی اسمبلی سے اچھی حکومت بنتی ہے۔ وڈیرے،چوہدری، خان اور سردار پاکستان نہیں چلاسکتے۔ ا ن کی سترسا لہ کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ اسمبلی ارکان سے حلف لیاجاتا ہے۔ ستر برس سے ایک ہی نوعیت کا حلف لیاجاتا ہے۔ ملاوٹ سے پاک خالص سیاسی نظام میں حلف میں اضافہ کیاجائے گا۔ ارکان اسمبلی سے حلف لیا جائے گا کہ جب کبھی وہ بیمار پڑیں گے تب علاج اپنے علاقے کے اسی اسپتال سے کروائیں گے جس اسپتال سے ان کوووٹ دینے والے علاج کرواتے ہیں۔
اسمبلی ارکان یعنی ایم این اے اور ایم پی اے کے بچے علاقے کے انہیں اسکولوں میں پڑھیں گے جن اسکولوں میں ان کو ووٹ دینے والوں کے بچے پڑھتے ہیں۔ وہ وہی پانی پئیں گے جو پانی ان کو ووٹ دینے والے پیتے ہیں۔ وہ وہی کھانا کھائیں گے جو کھانا ان کو ووٹ دینے والے کھاتے ہیں۔ وہ وہی لباس پہنیں گے جو لباس ان کو ووٹ دینے والے پہنتے ہیں۔ جب اسمبلی اجلاس نہیں ہو رہے ہونگے تب اسمبلی ارکان اپنے اپنے علاقے میں جا کر رہیں گے جہاں سے ووٹ لے کر وہ اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں۔
ایک اہم قدم! ایک دیکھا بھالا آدمی آپ کے ووٹ کے بل بوتے پر اسمبلی کا ممبر بننے کے بعد جھکنا بھول جاتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ جو جھکتے نہیں وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس لیے جراثیم اور ملاوٹ سے پاک سیاسی نظام کے تحت ارکان اسمبلی میں جھکنے کی عادت ڈالنے کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں داخل ہونے اور اجلاس کے بعد باہر جانے والے دروازے چھوٹے کر دیے جائیں گے، تاکہ وہ جھک کر اسمبلی میں داخل ہوں اور جھک کراسمبلی سے باہر جائیں۔