سیاسی نظریات سے عاری انتخابات یا چُنیوں کی جنگ
از، ملک تنویر احمد
تحریک پاکستان کے رہنما اور قائد اعظم کے قریبی رفیق راجہ غضنفرعلی خان قیامِ پاکستان کی جد و جہد میں شامل ہونے سے پہلے جب متحدہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے انتخابات میں کھڑے ہوئے تو ان کا حلقۂِ انتخاب اس وقت جہلم، راولپنڈی اور گجرات کے ضلعوں پر مشتمل تھا۔ راجہ صاحب راجپوت تھے اور ان کے مقابلے میں تین اور امید وار تھے جن میں گجرات کے چوہدری بہاول بخش جاٹ برداری کے با اثر رکن تھے۔
باقی دو امید واروں میں ایک بیرسٹر پیر تاج الدین تھے جو لاہور کے مسلم سوشل حلقوں کا ایک معروف نام تھے اور دوسرے سردار اشرف خان تھے۔ یہ سنہ 1923 کا زمانہ تھا۔ راجہ صاحب کو ان کے دوستوں نے الیکشن میں دھکیلا تھا۔ وہ قانون کی ڈگری کے امتحان میں فیل ہو گئے تھے۔ ایک با اثر خاندان کا چشم و چراغ ہونے کے ناتے ان کے دوستوں نے اصرار کیا کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں۔ راجہ صاحب نے لنگوٹ کَسّا اور انتخابی معرکے میں کو د پڑے۔
ووٹ طلبی کی مہم کے سلسلے میں راجہ صاحب اور ان کے حامیوں کو معلوم ہوا کہ چوہدری بہاول بخش نے جاٹ برادری کے ووٹوں کے حصول کے لیے ایک نیا طریقہ اپنایا ہے۔ وہ جاٹوں کے کسی گاؤں میں جاتے تو دو تین چُنیاں (دوپٹے) ساتھ لے جاتے اور گاؤں کی دو تین لڑکیوں کے سر کو ان دوپٹوں سے ڈھانپ دیتے۔ ایک پرانی قبائلی رسم کے مطابق یہ اس بات کی علامت تھی کہ دوپٹا پہنانے والوں کو ان لڑکیوں کو بیٹی بنا لیا ہے اور ان کی عزت و ناموس کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے سر پر لے لی ہے۔ اس طریقے سے چوہدری بہاول بخش گاؤں والوں کی لڑکیوں کو بیٹی بنا کر ووٹ پکے کر رہے تھے۔
راجہ غضنفرعلی خان راجپوت تھے لیکن ان کی نزدیکی قرابت داری جاٹوں سے تھی۔ یہ حالات راجہ صاحب کے علم میں آئے تو انہوں نے بھی اپنے ساتھ زنانہ دوپٹے لیے اور گاؤں کی لڑکیوں کے سر ان دوپٹوں سے ڈھانپ کر ووٹوں کی حصول کے لیے جُت گئے۔
دونوں امیدواروں کے اس عمل سے اس انتخابی جنگ نے کسی حد تک ’’چُنیوں کی جنگ‘‘ کی صورت اختیار کر لی۔ راجہ غضنفر علی بیان کرتے ہیں کہ اس انتخاب سے انہیں یہ تجربہ حاصل ہوا کہ پنجاب کے دیہات میں ووٹ صرف دو وجوہات کی بِناء پر ملتے ہیں۔ ایک ذاتی و خاندانی مراسم کی بنیاد پر اوردوسرا برادری کی بنیاد پر۔
مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان سیاسی شعور کے لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ہندو ووٹر کسی حد تک نظریے اور جماعت کے کھونٹے سے بندھے ہوئے تھے۔ راجہ صاحب کے حلقے میں سب سے زیادہ تعلیم اور سیاسی شعور پیرتاج الدین کا تھا لیکن انتخابات ہار گئے۔
تقریباً ایک صدی قبل کے انتخابات میں جو عوامل کارِ فرما تھے بد قسمتی سے پاکستان بننے کے ستر برسوں بعد بھی یہ عوامل پورے زور و شور سے جاری ہیں۔ جو ’’چنیوں کی جنگ‘‘ وہ آج نئے صورتوں میں ڈھل چکی ہے جس میں آج بھی سیاسی نظریے کی ہار ہوتی ہے۔
ستر برسوں میں سے چالیس برس تک آمریتوں کے سائے میں گزارنے کے بعد جمہوری ادوار کے جو بچے کھچے برس رہے اس میں نظریے کے بَل بُوتے کی بجائے سیاسی شُعبدہ بازی اور روایتی سیاست ہمیشہ فتح سے ہم کِنار ہوتی رہی ہے۔ اب یہ اسی روایتی سیاست کی کامیابی ہی ہے کہ آج عمران خان ان روایتی سیاست دانوں کی اپنی پارٹی میں شمولیت کو نہایت بودے اور پُھسپھُسے طریقوں سے جواز فراہم کرتا نظر آتا ہے کو عشروں سے انتخابی سیاست میں سر گرم ہیں اور شاید آج پاکستان میں پائی جانے والی خرابیوں میں وہ بھی شریکِ جرم رہے ہیں۔
عمران خان کا تبدیلی کا نعرہ جو روایتی سیاست کے مُہروں کے خلاف بلند ہوا تھا وہ شکست خوردگی اور ہزیمت سے دو چار ہو کر اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ سیاست میں کسی جوہری تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کے بیانیے اس قدر کمزور اور ضعیف نکلیں کہ اپنے نظریے کی صداقت و حقانیت سے زیادہ انہیں “قابل انتخاب” (electables) پر اعتماد ہو جائے تو تبدیلی کے ایسے علم بردار کا اس سفید جھوٹ پر محاسبہ ہونا چاہیے۔
ذوالفقار علی بھٹو ہماری سیاسی تاریخ کا ایسا نام ہے جس نے سَتّر کے انتخابات ’’قابل انتخاب‘‘ عناصر کی مدد کے بغیر بھاری اکثریت سے جیتے تھے۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے کہ روایتی سیاست کے مُہروں کے لیے اپنی جماعت کے دروازے وا کر دیے تھے۔
مزید دیکھیے: چور، ٹھگ اور ڈاکو
سنہ 1977 کے انتخابات میں انہوں نے معرکہ جیت لیا لیکن دھاندلی کے الزامات کے بعد جب مارشل لاء لگا اور بھٹو صاحب پھانسی کے پھندے پر جھول گئے تو ان عناصر نے اڑان بھر کر دوسرے ٹھکانے تلاش کر لیے۔ ضیاء آمریت کا جبر اور ظلم سہنے کے لیے پی پی پی کا عام اور غریب کار کن بچ گیا ۔عمران خان نے اس غلطی کا ارتکاب تو اقتدار میں آنے سے پہلے ہی کر ڈالا۔
آنے والے انتخابات میں کون فتح سے ہم کِنار ہوتا ہے اور کون شکست سے دو چار یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اس سے پہلے سیاسی نظریات شکست کھا کر ایک کنارے میں پڑے ’’نیرنگئِ سیاست دوراں‘‘ دیکھ کر حیرت زدہ ہیں۔
پی پی پی جو اس وقت اپنے زوال پذیر جماعت ہے پاکستان کی سیاست کے پاور بیس پنجاب سے تقریباً اس کا صفایا ہو چکا ہے۔ جب وہ اپنے سیاسی نظریات سے دست بردار ہو کر روایتی سیاست کا حامل جماعت بنی اور بیڈ گورنینس کے نئے ریکارڈ قائم کیے تو اس کا تنزلی کی کھائی میں گرنا نوشتۂِ دیوار بن گیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز روزِ اوّل سے ایک روایتی سیاسی جماعت ہے۔
میاں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد اس نے ایک سیاسی نظریے کو اپنایا اور ’’ووٹ کے تقدس‘‘ کی مہم کو اپنا نظریہ بنایا ہے لیکن بد عنوانی کے الزامات نے اس کی سیاسی قیادت کے دامن کو اس طرح آلودہ کیا ہوا ہے کہ ان کے سیاسی نظریے پر یقین کرنے سے پہلے ان کی بد عنوانی کی ہو ش رُبا داستانیں نگاہوں کے سامنے آجاتی ہیں۔
اگلے ماہ منعقد ہونے والے انتخابات روایتی سیاست کی حامل تین جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان فیصلہ کریں گے کہ اقتدار کا ہُما کس کے سر پر بیٹھے گا۔ تینوں جماعتیں سیاسی نظریات کی بجائے انہی ناموں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں جن کے خاندان ستر برسوں سے انتخابی سیاست میں سر گرم ہو کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ اگلے انتخابات بد قسمتی سے سیاسی نظریات کی درمیان پنجہ آزمائی سے قطعی طور پر پاک ہوں گے جو پاکستان کی سیاست کے لیے کسی المیے سے کم نہیں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.