خوش رہنے کے ذینی ہنر، از برٹرینڈ رسل
ترجمہ از، غلامِ شبیر
جان ور مطمئن دکھائی دیتے ہیں بہ شرط یہ کہ وہ تن درست اور شکم سیر ہوں۔ انسان بھی مطمئن دکھائی دینا چاہتے ہیں۔ پر وہ اس جدید دنیا میں اپنے بہت سے معاملات میں مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ اگر آپ غم زدہ ہیں، تو آپ شاید یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں گے کہ آپ اس دنیا میں غیر معمولی نہیں ہیں۔ اگر آپ خوش و خرم، مطمئن ہیں تو اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ کے کتنے دوست ہیں اور جب آپ اپنے دوستوں کا جائزہ لیں تو اپنے آپ کو چہرے پڑھنے کا فن سکھائیں۔ خود کو ان لوگوں کے مزاج کے مطابق بنائیں جن سے آپ ایک عام دن میں ملتے ہیں
بل کہ کہتے ہیں:
میں جس آ دمی سے ملتا ہوں اس کے چہرے پر ایک داغ کا مشاہدہ کرتا ہوں؛ افسردگی کے داغ کا، غم کے داغ کا
عام آدمی کی ایسی عدم طمانیت اسے کئی طرح سے گھیرے ہوئے ہے، جس کا مشاہدہ آپ کو ہر جگہ ملے گا۔ مثال کے طور پر فرض کریں کہ آپ نیویارک میں ہیں، جو ایک جدید شہر ہے؛ وہاں کسی مصروف گلی میں کھڑے ہو جائیں، یا ہفتے کے آخر میں کسی شارِع عام پر یا شام کے وقت رقص گاہوں کا رخ کریں؛ ان پُر ہجوم جگہوں پر اپنی ذات سے باہر آئیں اور یکے بعد دیگرے اجنبیوں کی ذات کو محسوس کریں۔
آپ دیکھیں گے کہ لوگوں کے اس ہجوم میں ہر ایک کی اپنی پریشانی ہے۔ اس وقت لوگوں کے ہجوم میں آپ کو اضطراب، ضرورت سے زیادہ ارتکاز، بد ہضمی، جدوجہد کے باوجود کسی چیز میں دل چسپی کا فقدان، کھیل کے لیے عدم دل چسپی، اپنے ساتھی انسانوں سے بے رخی نظر آئے گی۔ ہفتے کے آخر میں ایک شارعِ عام پر آپ کو ایسے مرد اور عورتیں ملیں گے جو آپ کو بہت مطمئن دکھائی دیں گے، اور ان میں سے کچھ بہت امیر، لطف اندوزی کی تلاش میں مصروف نظر آئیں گے۔
وہ اس طمانیت کا تعاقب یک ساں رفتار سے چلنے والی ایک گاڑی میں بیٹھ کر کرتے ہیں۔ گاڑیاں اس قدر ہیں کہ سڑک دیکھنا نا ممکن ہے۔ اس دوران سڑک کے ایک جانب دیکھنا حادثے کا باعث بن سکتا ہے۔ گاڑیوں کے مسافر دوسری گزرتی گاڑیوں کو دیکھنے کی خواہش میں مگن ہیں، پر اس بِھیڑ کی وجہ سے اپنے اس شوق کو پورا نہیں کر سکتے اور جب کبھی یہ گزرتی گاڑیاں ان کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہیں، جیسا کہ کبھی کبھار ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو خود گاڑی نہیں چلا رہے ہوتے، تو ان پر بوریت چھا جاتی ہے اور وہ افسردگی کا شکار نظر آتے ہیں۔
ایک لحاظ سے کاروں سے بھرے رنگ بہ رنگے لوگوں کا ایسا نظارہ حقیقی لطف کا منظر نظر آئے گا، لیکن ایسا بے ترتیب رویہ عام طور پر کسی مصیبت کا باعث بنے گا، جو بالآخر کار حادثے کی وجہ بن کر معاملہ پولیس کے ہاتھ لگ جائے گا: عام طور پر چھٹی کے دن ایسا کرنا غیر قانونی ہے۔
ہم جنس پرستوں کی محفل میں سب لوگ طمانیت حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں، اس عزم کے ساتھ کہ ان سے کوئی ایسا کام سر زد نہ ہو کہ جو ہنگامہ آرائی کی وجہ بنے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شراب پینا اور یوں خود کو رذیل بنا لینا خوشی کا باعث ہیں۔
لہٰذا لوگ نشے میں دھت ہوئے اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ شراکت دار انھیں کتنا نا پسند کرتے ہیں۔ کافی مقدار میں شراب پینے کے بعد، کچھ انسان رونا شروع کر دیتے ہیں، اور یہ سوچ سوچ کر رنجیدہ ہو رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ماؤں کی عقیدت کا حق ادا نہیں کر رہے۔ شراب ان کو احساسِ گناہ سے آزاد کرتا ہے، جو ان کے شعور میں دفن ہوتے ہیں۔
یہ عدم طمانیت کافی حد تک سماجی نظام کی پیداوار ہے۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ امن و سکون کے فروغ کے لیے سماجی نظام میں تبدیلیاں ضروری ہیں۔ یہاں پر میں جنگ کے خاتمے، معاشی استِحصال، ظلم اور خوف کی تعلیم سے متعلق مختصر طور پر یہ بات کرنا چاہوں گا، وہ یہ کہ جنگ سے بچنے کے لیے کوئی نظام دریافت کرنا ہماری تہذیب کی ایک اہم ضرورت ہے؛ لیکن ایسا کوئی نظام نظر نہیں آتا؛ لوگ اس قدر ڈرے ہوئے ہیں کہ وہ روز مرّہ میں پیش آنے والے مسائل سے خوف زدہ ہوئے نظریں چُرا رہے ہوتے ہیں۔ غربت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ مشینی پیدا وار کے فوائد کسی بھی حد تک ایسے لوگوں تک پہنچائیں جو ان کے سب سے زیادہ ضرورت مند ہیں۔
لیکن جب امیر ہی دکھی ہوں تو سب کو امیر بنانے کا کیا فائدہ؟
ظلم اور خوف میں تعلیم بُری ہے۔ لیکن جہاں لوگ ایسے جذبوں کے غلام ہوں ان کے پاس دینے کے لیے اور کچھ نہیں ہوتا۔
غور و فکر ہی ہمیں فرد کے مسئلے کو سمجھنے کی طرف لے جاتا ہے: یہ بہت اہم مسئلہ ہے کہ اس اداس معاشرے میں مرد ہو یا عورت اپنے لیے خوشی حاصل کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے، میں اپنی توجہ ان لوگوں تک محدود کروں گا جو ظاہری مصائب کے کسی انتہائی سبب کا شکار نہیں ہیں۔
میں خوراک اور رہائش کو محفوظ بنانے کے لیے معقول آمدنی، عام جسمانی سرگرمیوں کو ممکن بنانے کے لیے تن درستی کو ترجیح دوں گا۔ میں ایسے مسائل پر غور نہیں کروں گا، جیسے کہ کسی کے بچوں کا نقصان، یا کسی کی عوامی سطح پر رسوائی۔ اس طرح کے معاملات بارے کہنے کے لیے بہت کچھ ہے جو بہت اہم ہے۔ پر ایسے معامالات کے بر عکس یہاں پر میرا مقصد روز مرہ کی اس بے اطمینانی کا علاج تجویز کرنا ہے جس میں مہذب ممالک کے زیادہ تر لوگ مبتلاء ہیں، جو کہ زیادہ نا قابلِ برداشت ہے، کیوں کہ ظاہری کوئی وجہ نہ ہونے کی وجہ سے بے اطمینانی سے مَفَر نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس بے اطمینانی کی وجہ کافی حد تک دنیاوی معاملات کو معروضی تناظر میں نہ دیکھنا، غیر انسانی رویہ، زندگی بارے غلط عادات ہیں، جو بالآخر اس قدرتی جذبے کی تباہی اور ممکنہ چیزوں کی بھوک کا باعث بنتی ہے جس پر انسانی خوشیاں انحصار کرتی ہیں۔
یہ ایسی بے اطمینانی ہے جس سے چھٹکارا فرد کے اختیار میں ہے، اور میں ان تبدیلیوں کی تجویز پیش کرتا ہوں جس سے وہ اس خوشی جو اس کی خوش بختی کا حصہ ہے شاید حاصل ہو سکے۔
فلسفے کے تعارف میں، اپنی سوانِحِ عمری سے متعلق بات کروں گا۔
میرا بچپن ہنسی خوشی نہیں گزرا۔ بچپن کے دنوں میں، میرا پسندیدہ بھجن تھا:’ Weary of earth and laden with my sin ‘ پانچ سال کی عمر میں، میں نے سوچا کہ اگر مجھے ستر سال تک زندہ رہنا ہے، تو میں نے اب تک، اپنی زندگی کا چودھواں حصہ پورا کر لیا ہے، اور میں نے محسوس کیا کہ طویل عرصے سے پیچھا کرنے والی بوریت میرے قریب سے قریب تر ہو رہی ہے۔ جو نا قابلِ برداشت تھی۔
میں اپنی جوانی کے ایام میں زندگی سے تنگ آ گیا تھا اور مسلسل خود کُشی کی سوچتا تھا، پر میں مزید علم ریاضی جاننے کے اشتیا ق کی وجہ سے ایسا قدم اٹھانے سے رکا ہو ا تھا۔ تاہم اب میں اس عدم طمانیت کے بر عکس زندگی سے لطف و اندوز ہوتا ہوں، بل کہ اب اس لطف کا مزا دو بالا ہے۔
ایسے لطف یا طمانیت کی وجہ میرا اپنے ان شخصی مسائل کو سمجھنا تھا جو میرا پیچھا کر رہے تھے جن پر میں نے آہستہ آہستہ کنٹرول کر لیا۔ اور دوسری وجہ کچھ باتوں کو مسترد کرنا ہے جیسے کسی چیز کے بارے میں نا قابلِ تردید علم کا حصول وغیرہ۔
لیکن اس کی بڑی وجہ میری اپنی ذات کے ساتھ طمانیت ہے۔ دوسرے لوگوں کی طرح جنھوں نے پیُوریٹن تعلیم حاصل کی تھی۔ مجھے بھی انھی کی طرح اپنے گناہوں، غلطیوں اور کوتاہیوں پر فکرمندی کی عادت تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ میں اس دور میں خود کو ایک دکھی نمونہ لگتا تھا۔ رفتہ رفتہ میں نے اپنے آپ سے اور اپنی خامیوں سے لا تعلق رہنا سیکھا۔
میں نے اپنی توجہ تیزی سے ان امور پر مرکوز کی: مثال کے طور پر دنیا کی حالت، علم کی مختلف شاخوں، وہ افراد جن سے میں پیار کرتا ہوں۔ بیرونی مفادات، یہ سچ ہے ان مفادات کی وجہ سے دکھ کا امکان ہے: دنیا جنگ میں ڈوب سکتی ہے، کسی سَمت علم حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے، دوست میرے مر جائیں لیکن اس قسم کی مشکلات زندگی کے ضروری مِعیار کا خاتمہ نہیں کرتیں، جیسا کہ وہ لوگ ختم کرتے ہیں جو عدم طمانیت کا شکار ہیں۔
مفاد کسی نہ کسی سرگرمی کے لیے محرّک بنتا ہے، جب تک مفاد رہتا ہے اس وقت تک طمانیت کا باعث بنتا ہے۔ کسی کا اپنے آپ میں مطمئن رہنا کسی قسم کی ترقی پسندانہ سرگرمی کی وجہ نہیں بنتا ہے۔
خود اطمینانی نفسیاتی تجزیہ کرنے یا شاید راہب بننے کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن راہب اس وقت مطمئن نہیں ہو گا جب تک کہ خانقاہی معمولات نے اسے اپنی روحانی ریاضت سے بے پروا نہ کردیا ہو۔
بہ ہر حال اس کی یہ طمانیت جو اس نے مذہب سے منسوب کی ہے وہ اگر جھاڑو دینے والا ہوتا تو بھی حاصل کر سکتا تھا، بہ شرط یہ کہ اس کی کوشش مطمئن رہنا ہو۔ نظم و ضبط ان بد قسمتوں کے لیے مطمئن رہنے کا واحد راستہ ہے جو اپنے آپ میں اس قدر منہمک ہوں کہ کسی اور طریقے سے طمانیت نہیں ڈھونڈھ سکتے۔
اپنے آپ میں منہمک لوگ، مثال کے طور پر عاصی، خود پرست، اور خبطِ عظمت میں مبتلاء آدمی ہیں۔ جب میں عاصی یا خطا کار کے بارے میں بات کرتا ہوں تو میرا مطلب وہ آدمی نہیں ہے جو بد کردار ہے: چُوں کہ خطاء کا ارتکاب ہر ایک کرتا ہے اس لیے اس سے میری مراد وہ آدمی ہے جو اپنی بد سرشتی میں منہمک رہتا ہے۔ ایسا آدمی اپنےقول و فعل کی ہمشہ وضاحت دیتا ہے۔
اگر وہ مذہبی ہے تو وہ اپنی بات کو خدا کی بات بنا کر پیش کرتا ہے۔ اس نے اپنی شخصیت کا ہیُولا بنایا ہوا جس میں وہ خود کو ایک معقول آدمی سمجھتا ہے اس دوران جب کبھی وہ شعوری طور پر اس ضابطۂِ اخلاق کو مسترد کرتا ہے جو اس نے اپنی ماں سے سیکھا تھا اور جس ضابطۂِ اخلاق کی خلاف ورزی اس کے لا شعور میں گہری دفن ہے، تو اسے اپنی اصلیت کا پردہ فاش ہونے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔
یہ اخلاقی خلاف ورزی اس وقت عیاں ہوتی ہے جب وہ نشے میں ہو یا خوابیدہ ہو۔ تاہم، ایسا ممکن ہے کہ یہ اخلاقی خلاف ورزی اسے طمانیت دے گویا کہ بنیادی طور پر وہ اب بھی وہ ان تمام منع کیے جانے والے کاموں کو پسند کرتا ہے جن سے بچنے کی تعلیم اسے بچپن میں دی گئی تھی مثال کے طور پر جھوٹی قسم کھانا برا ہے۔ شراب پینا بدی کا کام ہے، اسی طرح کاروباری تیز فہمی بری ہے، مباشرت بری ہے وغیرہ۔ وہ یقیناً ان تمام کاموں سے خود کو روک نہیں پاتا، لیکن وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ تمام کام اسے ذلیل کر رہے ہیں۔
ایک خوشی جو وہ اپنی پوری جان کے ساتھ چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ اس کی ماں جیسا لاڈ پیار کیا جائے جو اسے ماں کی آغوش میں ملا تھا۔ وہ سوچتا ہے کہ اس کے ساتھ ممتا جیسا برتاؤ نہیں ہو رہا۔ اس لیے وہ دل میں لاتا ہے کہ جب کوئی اس کی پروا یا اس پر توجہ نہیں کر رہا تو کیوں وہ اخلاقی معیارات کا پاس رکھے: اس لیے اسے بد کردار ہونا چاہیے، اس لیے وہ دانستہ طور پر معاشرتی و اخلاقی معیارات سے رُو گردانی کرنے لگ جاتا ہے۔
جب وہ محبت کرتا ہے تو وہ مادرانہ شفقت تلاش کرتا ہے، لیکن ایسی شفقت وہ نہیں پاتا، کیوں کہ وہ خود کو ماں کی محبت کا مقروض پاتا ہے، اس لیے وہ کسی عورت کو محبت کے قابل نہیں سمجھتا حتیٰ کہ جس کے ساتھ اس کا جنسی تعلق ہی کیوں نہ ہو۔ تب وہ مایوسی کا شکار ہو کر سنگ دل بن جاتا ہے، کبھی اس بے رحم دلی پر نادم ہوتا ہے، اور کبھی اپنی اس تصور کردہ بدی اور پچھتاوے کا نئے سرے سے آغاز کرتا ہے۔
یہ بہ ظاہر بے لچک بے اصول لوگوں کی نفسیات ہے۔ جو چیز انھیں راہ سے گم کرتی ہے وہ ایک نا رسائی پذیر چیز کی جاں نثاری (ماں یا ماں کا متبادل) اور بہ شمول یہ کہ یہ ایک مضحکہ خیز اخلاقی ضابطہ ہے جو اسے بچپن میں ذہین نشین کرایا گیا۔ اس مادرانہ فلسفہ کے مارے ہووں کے لیے خوشی کی طرف پہلا قدم اس صورت میں ممکن ہے جب اس جبری ابتدائی عقائد اور مادرانہ وصف کی طرف ذہنی جھکاؤ سےنجات ممکن ہو گی۔
ایک لحاظ سے خود پسندی مبالغہ آمیزی بھی ہے، جس میں کسی پر فریفتہ ہونا اور منظورِ نظر بننا شامل ہے۔ ایک حد تک تو ایسا چلن قابلِ برداشت ہے جس کی مذمت نہیں کی جا سکتی: پر اس میں تجاوز اسے سنگین تقصان دہ بنا سکتی ہے۔ جو بڑھ کر ایک سنگین برائی بن جاتی ہے۔ بہت سی خواتین، خاص طور پر امیر معاشرے کی خواتین جذبۂِ محبت کے معاملے میں بے مروّت ہیں، جس کی جگہ اس خود پسندی نے لی ہوئی ہے کہ تمام لوگ ان پر توجہ مرکوز کریں۔ جب ایسی سوسائٹی کی کسی خاتون کو یہ یقین ہونے لگے کہ کوئی مرد ان میں دل چسپی لے رہا ہے تو وہ اس مرد میں دل چسپی لینا چھوڑ دیتی ہیں۔ بالکل ایسا ہی معاملہ اس سوسائٹی کے مردوں کے ساتھ بھی ہے۔ اس کی کلاسیکی مثال Liaisons Dangereuses کے ہیرو کی ہے۔
جب خود پرستی اس حد تک پہنچ جائے تو کسی کو کسی سے کھرا لگاؤ نہیں ہوتا اور پھر اس قسم کی محبت سے مخلصانہ آسودگی بھی نہیں ملتی، مثال کے طور پر کوئی خود پرست، بڑے بڑے مصوروں کو دی جانے والی عزت سے متأثر ہو کر، آرٹ کا طالب علم بننے کا ناٹک کر سکتا ہے؛ کیوں کہ مصوری اس کا محض دکھاوا ہے، اس لیے مصوری کے لیے اس کی کوئی تکنیک بھی قابلِ توجہ نہیں ہوتی کیوں کہ اس کا ارادہ صرف اور صرف خود نمائی ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ ناکامی اور دل شکستی ہے جس میں اسے تضحیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور متوقُّع خوشامد اس کے علاوہ ہے۔
ایسی ہی اداسی اور مایوسی کا سامنا ان ناول نگاروں کو ہوتا ہے جن کے ناولوں کا شمار ہیروئن کے کردار کے طور پر کیا جاتا ہے۔ آدمی کی کسی کام میں کام یابی کا انحصار اس کام کے مواد میں خالص رچاؤ پر ہوتا ہے، جس سے کام اہمیت کا حامل بنتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرے کام یاب سیاست دان کا المیہ خود پرستی اور وہ معیارات ہیں جن کے لیے وہ کھڑا ہے۔
جو آدمی صرف اپنے آپ میں دل چسپی رکھتا ہے وہ قابلِ تعریف نہیں ہے اور عشقِ ذات میں مبتلاء ایسے شخص کو تعریف کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا۔ ما حاصل یہ ہے کہ ایسے آدمی کا اہلِ دنیا سے واحد لگاؤ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کی تعریف کریں نہ کہ لوگوں میں اس کے رچاؤ کی وجہ کسی قسم کے مقصد کا حصول ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے کسی انفرادی مقصد میں کام یاب ہو بھی جاتا ہے تب بھی وہ مکمل طور پر خوش نہیں ہو گا، کیوں کہ انسانی جبلّت کبھی بھی قطعی طور پر مقصودِ بِالذّات نہیں ہوتی ہے، اور خود پرست خود کو مصنوعی طور پر محدود کر رہا ہوتا ہے حقیقت میں ایسا خود پرست اس آدمی کی طرح ہے جو کسی بد کاری کے احساس میں ہلکان ہوا جارہا ہو۔
قدیم انسان ایک اچھا شکاری ہونے پر فخر کرتا تھا۔ شکار کرتے ہوئے وہ تعاقب کی سرگرمی سے لطف و اندوز ہوتا تھا۔ خود پسندی جب ایک حد سے بڑھتی ہے تو یہ زندگی کی ہر سرگرمی میں رچاؤ یا لطف کو مار دیتی ہے جس کا لازمی نتیجہ مردہ دلی اور بوریت ہوتی ہے۔ عام طور پر اس خود پسندی کا ماخذ اندیشہ ہے، اور اس سے چھٹکارے کی تدبیر عزتِ نفس کی نشو و نما میں مضمر ہے۔ لیکن یہ عزتِ نفس مقصدی رچاؤ کی متأثر کن کام یاب سرگرمی سے مشروط ہے۔
خبطِ عظمت میں مبتلاء شخص خودپرست سے مختلف ہے۔ وہ اس لیے کہ احساسِ برتری کا شکار آدمی ہر دل عزیز ہونے کی بہ جائے ذی اثر ہونا چاہتا ہے۔ وہ جذباتی ہونے کی بہ جائے خوف زدہ کرنا چاہتا ہے۔ اس قبیل سے تعلق رکھنے والے باؤلے اور تاریخ کے زیادہ تر عظیم آدمی ہیں۔
طاقت کی محبت خود نمائی کی طرح ہے جو عام انسانی فطرت کا ایک مضبوط جُزو ہے، ایسی محبت تبھی ایک گہرا دکھ بن جاتی ہے جب یہ حد سے بڑھ جائے یا بے بنیاد ہو ۔
طاقت کی یہ محبت آدمی کو رنجیدہ یا اندھا بنادیتی ہے۔ ایک جنونی جو سر پر تاج پہنے ہوئے ہو خوش ہو سکتا ہے پر اس کی خوشی اس قسم کی نہیں جس پر کوئی سمجھ دار آدمی رشک کرے۔
سکندرِ اعظم نفسیاتی طور پر جنونیوں کی طرح تھا اگر چِہ وہ دیوانے کے خواب کو پورا کرنے کا ہنر جانتا تھا۔ تاہم، وہ اپنے ہی خواب کو پورا نہ کرسکا، جس نے اس کی جنونیت کے دائرے کو بڑھاوا دیا، جیسے ہی اس نے اپنی مہمات میں پیش قدمی کی۔ جب یہ واضِح ہو گیا کہ وہ شہرت یافتہ فاتح ہے، تو اس نے خود اپنا تعین کیا کہ وہ خدا ہے۔
کیا وہ مطمئن آدمی تھا؟ اس کی سر مستی، اس کا غیظ و غضب، عورتوں سے اس کی بے قدری کا رویہ، اور اس کا خدائی دعویٰ یہ سب کچھ بتاتا ہے کہ وہ ایک مطمئن آدمی نہیں تھا۔ بنیادی طور پر طمانیت اس وقت نہیں ہوتی جب انسانی فطرت کے ایک جزو کو باقی اجزاء کی قیمت پر پروان چڑھایا جائے، اور نہ ہی اس وقت طمانیت ہوتی ہے جب کسی کو اپنی اناء کے جاہ و جلال کے سامنے تمام دنیا بھدی چیز دکھائی دے۔
عام طور پر احساسِ برتری کا شکار آدمی، چاہے وہ مجنوں ہو یا محض عقل مند آدمی، کسی حد تک حد سے زیادہ خفت کی پیداوار ہوتا ہے۔ نپولین کو اپنے سکول فیلوز سے بے قدری کا سامنا کرنا پڑا، جو امیر اشرافیہ تھے، جب کہ وہ ایک مفلسوں کے لیے مختص سکالرشپ پر آیا لڑکا تھا۔ جب نپولین نے ملک چھوڑنے والوں کو ملک میں آنے کی اجازت دی تو اسے اپنے سابقہ سکول کے ساتھیوں کو اپنے سامنے جھکتے ہوئے دیکھ کر طمانیت ہوئی۔
بہ ہر حال کوئی بھی انسان سب کچھ کرنے والا نہیں ہو سکتا، کسی بھی انسان کی زندگی جو طاقت کی نشے میں مبتلاء ہو بہ مشکل نا کام ہوتی ہے پر اس کے نتیجے میں جلد یا بہ دیر پیش آنے والی مشکلات پر قابو نہیں پا سکتا۔ اس طرح کے باؤلے پن کو کسی نہ کسی پاگل پن کے ذریعے ہی آگے بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے، حالاں کہ اگر کوئی آدمی کافی عظیم ہے تو وہ ان لوگوں کو قید یا پھانسی دے سکتا ہے جو اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
سیاسی اور نفسیاتی تجزیاتی مشاہدہ میں جبر ساتھ ساتھ چلتا ہے، جہاں پر نفسیاتی جبر کسی منظم شکل ہو وہاں پر حقیقی خوشی نہیں آ سکتی۔ طاقت کو اس کی مناسب حدود میں رکھنا آسودہ حالی میں بہت زیادہ اضافہ کر سکتا ہے، لیکن طاقت کو اگر زندگی کا مقصد بنا لیا جائے تو یہ تباہی کا باعث بنتی ہے، اگر ظاہری طور پر نہیں تو باطنی طور پر ضرور شکست و ریخت کا مُوجب بنتی ہے۔
یہ واضح ہے کہ عدم طمانیت کی نفسیاتی وجوہات بہت سی اور مختلف ہیں۔ لیکن ان سب میں کچھ مشترک ہے۔ ایک مثالی نا خوش آدمی وہ ہے جو اپنی زندگی کے عام فطری اطمینان سے محروم ہو، اور وہ ایسے عام فطری اطمینان کو کسی دوسرے اطمینان پر اہمیت دیتا ہے اور اس لیے اس نے اپنی زندگی کو یک طرفہ رخ دیا ہو اور اس زندگی سے منسلک سرگرمیوں کی بہ جائے اپنے امتیازی کام (عدم اطمینان) پر بہت زیادہ زور دیتا ہو۔
بہ ہرحال، ان دنوں میں یہ عام صورت حال ہے کہ اس قسم کا آدمی اس قدر بے راہ روی کا شکار ہے کہ اسے کسی قسم کی آسودگی کی امید نہیں اگر امید ہے تو ذہنی پراگندگی اور بے اعتنائی کی۔ ایسا آدمی جب کسی قسم کی آسودگی نہیں پاتا تو پھر وہ مسرت کا دل دادہ بن جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ امید کرتا ہے کہ وہ اس طرز سے زندگی کو جی سکتا ہے۔
سر مستی، مثال کے طور پر، عارضی خود کشی ہے۔ مخمور رہنے سے جو خوشی ملتی ہے وہ محض منفی ہے، بے اطمینانی کا صرف لمحاتی خاتمہ ہے۔
خود پرست اور خبطِ عظمت میں مبتلاء شخص یہ یقین کرتا ہے کہ خوشی ممکن ہے، اگر چِہ وہ اسے حاصل کرنے کے لیے غلط طریقے اختیار کرے، لیکن جو شخص نشے میں اطمینان تلاش کرتا ہے، خواہ وہ کوئی بھی نشہ ہو، تو وہ بُھلائے جانے کو ہی امید بنا لیتا ہے۔
اس معاملے میں، سب سے پہلے ایسے آدمی کو قائل کرنا ہے کہ خوشی کی خواہش کی جاتی ہے حاصل نہیں کی جاتی۔ وہ مرد جو عدم طمانیت کا شکار ہیں، ان مردوں کی طرح ہیں جو خوابی دنیا کے باسی یعنی مفروضوں پر یقین رکھتے ہیں پر ایسے یقین کو حقیقت سمجھے بیٹھے ہیں۔ شاید ان کا غرور اس لومڑی جیسا ہے جس نے اپنی دم کھو دی تھی۔
اگر ایسا ہے تو اس لومڑ کے علاج کا طریقہ یہ ہے کہ اسے تاکید کی جائے کہ وہ نئی دم کیسے اگائیں گے۔ میں یقین سے یہ بات کہہ سکتا ہوں اگر وہ خوش رہنے کا کوئی طریقہ جان جائیں تو بہت کم لوگ دانستہ طور پر بے اطمینانی یا ناخوشی کے راستے کا انتخاب کریں گے۔
اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ دنیا میں ایسے آدمی بھی موجود ہیں، جو نا خوشی کے راستے کا انتخاب کریں گے لیکن ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے کہ انھیں شمار کیا جائے۔
مجھے یقین ہے کہ قاری میرے اس مضمون کو پڑھ کر غیر مطمئن ہونے کی بہ جائے مطمئن ہوں گے۔ آیا میں قاری کو خوش رہنے میں مدد دے سکتا ہوں، میں اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتا؛ لیکن جیسا بھی ہو میری یہ کوشش قاری کے لیے رائیگاں نہیں جائے گی۔