دور غلامی اور آسمانی مذاہب
(محمد مبشر نذیر)
دور قدیم ہی سے دنیا میں انسان، اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو اپنا غلام بنایا کرتے تھے۔ غلامی کے آغاز کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں ہے۔ انسانیت کی معلوم تاریخ میں پائے جانے والے قدیم قوانین کا مجموعہ، بابل کے بادشاہ حمورابی (1796 – 1750 BC) کے قوانین کا ہے۔ یہ قوانین اب سے کم و بیش 3800 سال پہلے بنائے گئے۔ ان قوانین کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں عام لوگوں کے علاوہ اولاد کو بھی اپنے والدین کی غلام سمجھا جاتا تھا اور اس کی خرید و فروخت کو بھی ایک نارمل بات سمجھا جاتا تھا۔
غلامی کی متعدد تعریفات کی گئی ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں:
ایک شخص کو دوسرے کی ملکیت میں مال و جائیداد کی طرح دے دیا جائے۔
(انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا)
ایک شخص کی دوسرے پر قبضے کی ایسی حالت کہ جس میں قابض کو وہ تمام اختیارات حاصل ہو جائیں جو اسے اپنے مال و جائیداد پر حاصل ہوتے ہیں۔
(غلامی سے متعلق کنونشن 1927، سیکشن 1
، http://www.unhchr.ch )
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ غلامی ایسی حالت کا نام ہے جس میں کوئی انسان دوسرے کے تابع ہو کر اس طرح سے زندگی بسر کرے کہ اس کے تمام فیصلوں کا اختیار اس کے آقا کے پاس ہو۔
جب سیدنا نوح علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل دنیا کے مختلف علاقوں میں جا کر آباد ہوئی تو انہوں نے ہر جگہ مختلف معاشرے تشکیل دیے۔ غلامی کے آغاز سے پہلے یقینی طور پر وہ فضا تیار ہوئی ہو گی جس میں غلامی کا ادارہ پروان چڑھا ہو گا۔ اس فضا میں طبقاتی نظام اور انسانی عدم مساوات کے نظریوں کا قبول کیا جانا شامل ہے۔
غلامی کے آغاز سے متعلق دو نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ ایک نظریہ تو یہ ہے کہ غلامی کا آغاز لالچ، نفرت، حقارت اور دوسروں پر غلبہ پانے کے جذبات سے ہوا۔ انہی بنیادوں پر قومیں ایک دوسرے پر حملہ کر کے ان کے افراد کو غلام بناتی رہیں۔
دوسرا نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز رحم کے جذبے سے ہوا تھا۔ جب جنگوں میں دشمن کے بہت سے سپاہی قیدی بنائے گئے تو یہ سوال پیدا ہوا کہ ان کا کیا کیا جائے؟ ایک نقطہ نظر تو سامنے یہ آیا کہ انہیں تہہ تیغ کر دیا جائے۔ اس کے جواب میں دوسرا نقطہ نظر یہ پیش ہوا کہ انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ غلام بنا لیا جائے۔ تیسری صورت انہیں آزاد کر دینے کی تھی لیکن اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کہیں دوبارہ تیاری کر کے حملہ آور نہ ہو جائیں، اس وجہ سے غلامی کو ترجیح دی گئی۔
ممکن ہے کہ دونوں نظریات ہی درست ہوں۔ کسی ایک قوم نے لالچ، نفرت اور غلبے کی بنیاد پر غلامی کا آغاز کیا ہو اور دوسری قوم نے رحم دلی کے جذبے کے تحت غلامی کا آغاز کیا ہو۔ بہرحال یہ طے ہے کہ غلامی کو جب ایک مرتبہ قابل قبول سمجھ لیا گیا تو اس کے بعد اس کی ایسی ایسی خوفناک شکلیں وجود میں آئیں جن کے تذکرے سے انسانیت کی روح کانپ اٹھتی ہے۔
غلامی کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں: ایک جسمانی و قانونی غلامی اور دوسری ذہنی غلامی۔ جب ایک انسان مختلف ذرائع سے دوسرے کے جسم پر کنٹرول حاصل کر کے اسے اپنا قیدی بنا لے تو یہ جسمانی غلامی کہلاتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی کسی کو اغوا کر کے یا جنگ میں قید کر کے اپنا غلام بنا لے۔ اس کے برعکس جب کوئی شخص نفسیاتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اپنا ذہنی غلام بنا لے تو اسے نفسیاتی غلامی کہا جاتا ہے۔
غلامی خواہ کسی بھی قسم کی ہو، غلامی ہی ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک انسان دوسرے کا محتاج ہو جایا کرتا ہے۔ ہم ان دونوں قسم کی غلامی پر بحث کریں گے۔
غلامی کے درجوں میں فرق ہوتا ہے۔ جسمانی غلامی بسا اوقات مکمل غلامی ہوتی ہے جس میں ایک شخص دوسرے کا مکمل غلام ہوتا ہے۔ آقا کو اپنے غلام پر ہر قسم کے حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ وہ چاہے تو اپنے غلام کو قتل کر سکتا ہے، چاہے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ سکتا ہے اور چاہے تو اس کا جنسی استحصال کر سکتا ہے۔ بعض اوقات یہ غلامی صرف چند پہلوؤں سے غلامی ہوتی ہے۔ اس کی ایک شکل جاگیردارانہ دور کی مزارعت ہے جس میں جاگیردار کو اپنے مزارعوں پر بہت سے حقوق حاصل ہوا کرتے ہیں۔
بالکل اسی طرح نفسیاتی غلامی کے بھی مختلف درجے ہیں۔ کبھی تو ایک شخص دوسرے سے ایک حد تک ہی متاثر ہوتا ہے اور بعض معاملات میں اپنے نفسیاتی آقا کی پیروی کرتا ہے اور کبھی وہ اس کا مکمل غلام بن کر اس کے اشارہ ابرو پر اپنی جان بھی قربان کر دیا کرتا ہے۔
دنیا بھر کے مختلف معاشروں کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو غلام بنائے جانے کے یہ طریقے معلوم ہوتے ہیں:
· بچوں کو اغوا کر کے غلام بنا لیا جائے۔
· اگر کسی کو کوئی لاوارث بچہ یا لاوارث شخص ملے تو وہ اسے غلام بنا لے۔
· کسی آبادی پر حملہ کر کے اس کے تمام شہریوں کو غلام بنا لیا جائے۔
· کسی شخص کو اس کے کسی جرم کی پاداش میں حکومت غلام بنا دے۔
· جنگ جیتنے کی صورت میں فاتحین جنگی قیدیوں کو غلام بنا دیں۔
· قرض کی ادائیگی نہ کر سکنے کی صورت میں مقروض کو غلام بنا دیا جائے۔
· پہلے سے موجود غلاموں کی اولاد کو بھی غلام ہی قرار دے دیا جائے۔
· غربت کے باعث کوئی شخص خود کو یا اپنے بیوی بچوں کو فروخت کر دے۔
· پروپیگنڈہ اور برین واشنگ کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے کسی کو نفسیاتی غلام بنا لیا جائے۔
· اگر کسی معاشرے میں ان طریقوں سے بنائے جانے والے غلاموں کی تعداد کم پڑ جاتی تو وہ معاشرہ کسی اور ملک سے غلام خرید کر اپنے غلاموں میں اضافہ کر سکتا تھا۔
کسی معاشرے میں غلاموں کی تعداد میں کمی کی یہ صورتیں پائی جاتی تھیں۔
· غلام کو اس کا آقا اپنی مرضی سے آزاد کر دے۔
· حکومت کسی غلام کو آزاد قرار دے دے۔
· غلاموں کو کسی دوسرے ملک میں لے جا کر بیچ دیا جائے۔
· غلاموں کی آئندہ آنے والی نسل کو آزاد قرار دے دیا جائے۔
· نفسیاتی غلام کسی طریقے سے اپنے آقا کی ذہنی غلامی سے نکل آئے۔ اس کی تفصیل ہم باب 19-20 میں بیان کریں گے۔
اگر پوری انسانی تاریخ میں غلامی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ غلامی کی بنیادی طور پر تین وجوہات ہوا کرتی ہیں: غربت، جنگ، اور جہالت۔
· غربت کو اگر غلامی کی ماں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ غربت کے باعث بہت سے انسانوں کو بنیادی ضروریات کے حصول کے لئے دوسروں کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ دنیا کے بہت سے معاشروں میں یہ رواج رہا ہے کہ امراء، غریبوں کو ان کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے سود پر قرض دیا کرتے تھے اور ان کی عدم ادائیگی کی صورت میں انہیں اپنا غلام بنا لیا کرتے تھے۔
· غلامی کی دوسری بڑی وجہ جنگ ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میں طاقتور قومیں کمزور اقوام پر حملہ کر کے انہیں اپنا غلام بناتی رہی ہیں۔ بسا اوقات یہ سلسلہ محض قوموں کی غلامی تک محدود رہا کرتا تھا اور بعض اوقات مفتوح قوم کے ایک ایک فرد کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔
· جسمانی غلامی کی تیسری وجہ جہالت ہے۔ یہ نفسیاتی غلامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ کم تعلیم یافتہ اور ناخواندہ افراد کو طالع آزما اور استحصال کے شوقین افراد پروپیگنڈہ اور برین واشنگ کے ذریعے اپنا نفسیاتی غلام بنا لیا کرتے تھے۔ بہت مرتبہ یہی نفسیاتی غلامی آگے چل کر جسمانی غلامی میں تبدیل ہو جایا کرتی تھی۔
دور غلامی قدیم زمانے سے لے کر بیسویں صدی عیسوی تک چلا ہے۔ اسی دور میں اللہ تعالی نے اپنی ہدایت اپنے انبیاء و رسل کے ذریعے انسانیت کو دی ہے۔ یہ ہدایت پہلے سیدنا ابراہیم، اسحاق اور اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام کے ذریعے اخلاقی طور پر جاری کی گئی۔ جب سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں آسمانی ہدایت کو ایک اجتماعی نظام کی صورت میں رائج کیا گیا تو اس کے قوانین کو تورات کی صورت میں لکھ کر دے دیا گیا۔ یہ اجتماعی نظام سیدنا موسی سے لے کر سیدنا داؤد و سلیمان علیہم الصلوۃ والسلام تک اپنی اصل شکل میں رائج رہا۔
بعد کے ادوار میں ان انبیاء کے پیروکار اپنے اصل دین سے دور ہوتے چلے گئے اور ان کا اجتماعی نظام اس صورت میں قائم نہ رہا جس صورت میں سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے رائج کیا تھا۔ ان کے دنیا پرست حکمرانوں اور شکم پرست مذہبی راہنماؤں نے آسمانی ہدایت میں تحریف کا سلسلہ شروع کر دیا۔ یہ درست ہے کہ اس قوم میں اچھے اور خوف خدا رکھنے والے لوگوں کی کمی نہ تھی لیکن یہ حضرات تورات کے اصل نظام کو رائج کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔
بنی اسرائیل کی سیاسی و مذہبی قیادت کے اس اخلاقی انحطاط کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان پر غلامی کا عذاب مسلط کیا گیا اور پہلے ایران اور پھر روم کی سلطنتوں نے انہیں کثیر تعداد میں غلام بنا کر دنیا بھر میں جلا وطن کیا۔ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کی طرف پے در پے نبی بھیجے اور ان پر آخری حجت سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے تمام کر دی۔
دوسری طرف اولاد ابراہیم کی دوسری شاخ بنی اسرائیل میں اللہ تعالی نے اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپ کو آخری آسمانی ہدایت “قرآن” کی شکل میں دی گئی جس کی تعلیمات کی بنیاد پر آپ نے بالکل سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی طرز پر ایک اجتماعی نظام قائم کر دیا۔ اس نظام کی تفصیلات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث کے ذخیرے میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بائبل میں سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ اللہ تعالی نے یہ وعدہ کیا ہے کہ “میں بنی اسرائیل کے بھائیوں (یعنی میں بنی اسماعیل میں) تمہاری مانند ایک رسول برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔”
یہ نظام اپنی اصل شکل میں ساٹھ ستر سال تک قائم رہا۔ اس کے بعد اس میں بھی خرابیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کوششوں کی بدولت قرآن مجید کی ہدایت کو مسخ تو نہ کیا جا سکا لیکن عملی طور پر اس سے انحراف بہرحال موجود رہا۔
آسمانی ہدایت خواہ وہ تورات و انجیل کی شکل میں ہو یا قرآن مجید کی شکل میں، اس میں “عدل” اور “مساوات انسانی” کو بنیادی اقدار قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی کی دی گئی ہدایت اسی کے فرستادہ رسولوں کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔ اس ہدایت کی بنیاد پر معلوم تاریخ انسانی میں دو مرتبہ خدائی اجتماعی نظام بھی اپنی اصل شکل میں موجود رہا ہے۔
بچپن ہی سے میرے ذہن میں یہ سوال بار بار پیدا ہوتا تھا کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالی ایک طرف تو “عدل” اور “مساوات” کی تلقین کرے اور دوسری طرف وہ انسانوں کو غلام بنائے رکھنے کو بھی قبول کر لے۔ ایسا تضاد کسی انسانی قانون میں تو ممکن ہے لیکن اللہ تعالی کی شریعت میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ اسی جذبے کے پیش نظر میں نے اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت کا کھلے ذہن سے تفصیلی مطالعہ کیا۔ اس مطالعے کے جو نتائج نکلے وہ پیش کر رہا ہوں۔
اس موضوع پر مسلمانوں کے اہل علم کے ہاں بہت ہی کم مواد موجود ہے۔ زیادہ تر غیر مسلم اسکالرز نے اس ضمن میں کوششیں کی ہیں۔ میں نے ان کی کاوشوں کا تفصیلی مطالعہ بھی کیا ہے۔ میرے نزدیک ان اسکالرز کی تحقیق میں ایک بنیادی غلطی موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ جب وہ “اسلام اور غلامی” کے موضوع پر بات کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے لے کر آج تک کے مسلمانوں کا عمل ان کے نزدیک “اسلام” ہوتا ہے۔ اس طریق کار کی بدولت مسلمانوں کا ہر عمل خواہ وہ اسلام کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہی کیوں نہ ہو، “اسلام” قرار پاتی ہے۔
یہ طریق کار بالکل غلط ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ کوئی یورپ یا امریکا کے حکمرانوں کی غلطیوں کو لے اور اس کی بنیاد پر عیسائیت پر الزامات عائد کرنے لگے یا روس کے لینن یا اسٹالن کے مظالم کو لے کر اس کی بنیاد پر کارل مارکس کو مطعون کرنے لگے۔ ظاہر ہے یہ طریق غیر علمی ہے۔ کسی بھی مذہب یا فلسفے میں کسی خامی کی نشاندہی کا درست طریقہ یہ ہے کہ اس مذہب یا فلسفے کے اصل مآخذ کو بنیاد بنایا جائے۔ اس کے علاوہ اس مذہب کے بانی اور ان کے قریبی اور مخلص پیروکاروں کے عمل کو دیکھا جائے۔ اس عمل کو دیکھنے کے لئے مستند تاریخ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر کسی مذہب کی مستند تاریخ موجود نہ ہو تو اس کے بارے میں اچھی یا بری کوئی رائے قائم کر لینا ایک غیر علمی رویہ ہے۔
آسمانی ہدایت کے بارے میں اگر کوئی رائے قائم کرنا مقصود ہو تو اس کے لئے یہ ماخذ دیکھنا ہوں گے۔
· تورات، زبور یا انجیل جو اب بائبل مقدس کی صورت میں موجود ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ تاریخی طور پر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اس کتاب میں مذہبی راہنماؤں نے تصرفات اور تبدیلیاں کی ہیں۔ اس وجہ سے ان کتب کے مواد کی بنیاد پر کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔
· قرآن مجید کے بارے میں تاریخی طور پر یہ تو متعین ہے کہ یہ صد فیصد وہی کتاب ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنی قوم کے سامنے کلام الہی کی حیثیت سے پیش کی تھی۔ اس کتاب کے متن میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے البتہ اس کی متعدد تشریحات (Interpretations) کی گئی ہیں جن میں کسی حد تک اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان میں درست تشریح کا انتخاب بہت ضروری ہے۔
· احادیث و آثار، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا تاریخی ریکارڈ ہے۔ اگرچہ بعد کے ادوار میں اس ذخیرے میں بہت سی جعلی احادیث کی ملاوٹ بھی کی گئی ہے۔ محدثین کی عظیم کاوشوں کے نتیجے میں ایسے طریق کار وجود میں آ گئے ہیں جن کی بدولت اصلی اور جعلی احادیث میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ صرف اور صرف صحیح حدیث کی بنیاد پر ہی کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔
· صحیح طریق کار یہ ہے کہ وہ بائبل کو قرآن مجید کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالی کی دی گئی ہدایت کا آخری ورژن ہے اور اس کا متن ہر قسم کی تحریفات سے پاک ہے۔ اگرچہ اس طریقے پر وہی لوگ عمل درآمد کر سکتے ہیں جو قرآن مجید کو اللہ تعالی کی آسمانی ہدایت کا آخری ورژن مانتے ہیں۔
· احادیث کے بارے میں بھی محدثین کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی حدیث کو صرف اسی صورت میں قبول کیا جا سکتا ہے جب وہ قرآن مجید اور دیگر صحیح احادیث کے مخالف مفہوم پیش نہ کر رہی ہو۔ (دیکھیے خطیب بغدادی کی الکفایہ فی علم الروایۃ اور جلال الدین سیوطی کی تدریب الراوی)
· اسلام اور غلامی کے موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے کچھ ایسے مزید ذرائع ہیں جن سے استفادہ کرنا ضروری ہے کیونکہ اس ضمن میں اہم ترین مواد ان کتب میں موجود ہے۔ اس ضمن میں راہنما اصول یہ ہیں:
· تاریخ کی کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ مسلمانوں کے ہاں تاریخ کو کافی مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ بنیادی طور پر یہ تھی کہ شروع کی صدیوں میں مسلمانوں کے اندر ایسے فرقے پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے نظریے کو تقویت دینے کے لئے تاریخی روایات کو گھڑ کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ بعد کے ادوار میں جب مورخین نے ان روایات کو اکٹھا کیا تو انہوں نے سچی جھوٹی ہر قسم کی تاریخی روایات کو اپنی کتب میں لکھ دیا۔ انہوں نے ایسا کرتے ہوئے ہر روایت کی سند بھی بیان کر دی تاکہ بعد کا کوئی بھی محقق ان روایات کی چھان بین کرنا چاہے تو کر لے۔ اصلی اور جعلی تاریخی روایات میں فرق کرنا بہت ضروری ہے۔
· فن رجال کی کتب کا مطالعہ اسلام اور غلامی کی بحث میں نہایت ہی مفید ہے۔ ایسے افراد جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث اور آپ کے صحابہ کی روایات کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا، ان کے حالات زندگی فن رجال کی کتب میں ملتے ہیں۔ ان میں سے بہت بڑی تعداد غلاموں اور آزاد کردہ غلاموں کی تھی۔ ان کے حالات زندگی کے مطالعے سے صحابہ و تابعین کے ہاں غلامی کی صورتحال پر نہایت ہی مفید معلومات میسر آتی ہیں۔
· بعد کی صدیوں میں غلامی کی صورتحال جاننے کے لئے مسلم علماء کی کتب کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ ان میں فتاوی کی کتب میں مختلف ادوار میں غلاموں کی فقہی و قانونی حیثیت کا علم ہوتا ہے۔ حسبہ یعنی محکمہ احتساب سے متعلق علماء کی کتب میں غلاموں سے متعلق حکومتی اصلاحات کی تفصیل ملتی ہے۔ مسلمانوں کے سماجی مصلحین کی کتب سے ان کے دور میں غلاموں کی سماجی حالت کا علم ہوتا ہے۔
· اسلام اور غلامی کے حوالے سے غیر مسلم مصنفین بالخصوص مستشرقین نے بہت کچھ لکھا ہے۔ متعصب مصنفین کو چھوڑ کر ان میں سے بہت سے غیر متعصب اسکالرز نے اس موضوع پر قابل قدر کام کیا ہے۔ ان حضرات کی کتب میں اس موضوع کے ایسے ایسے پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے جو موجودہ دور کے مسلم علماء کے وہم و گمان میں بھی موجود نہ تھے۔ اس موضوع پر تحقیق کے لئے ان غیر متعصب مغربی اسکالرز کی کتب کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔
Where is the remaining part?