غلامی اس کو کہتے ہیں
ثوبیہ عندلیب
شھر کے کسی مصروف بازار کی نکڑ یا چوراھے سے صبح سویرے گزرتے وقت اگر آپ کی نظر بیلچہ کدال ھاتھ میں اٹھائے مزدوروں کی مارکیٹ پر پڑے تو آپ کے ذھن میں پہلا خیال کیا آئے گا؟ کیا یہ منظر آپ کو ایک ایسی دنیا میں نہیں لے جاتا ہے جہاں غلاموں کی منڈیاں لگتی تھیں اور آزاد لوگ اشرف المخلوقات کے اس قبیلے کے افراد کو ” ناپ تول” کر بھاؤ کرتے ، خریدتے اور اپنی ملکیت بنا لیتے۔
دوسرا منظر اکیسویں صدی کے کسی گھر، ڈیرے ، تہ خانے یا نجی جیل کا ہے جہاں مالک لوگ اپنے کسی خودسر ملازم کو باندھ کر رکھتے ہیں۔ غلامی ، زنجیروں اور عقوبت خانوں کا تعلق بہت پرانا ہے۔
اگلے منظر میں طیبہ اور جیسے کئی گھریلو ملازمین ہیں کہ جن پر بہیمانہ تشدد ہوتا ہے۔ تشدد کے باعث اختر علی اورارم جيسے کئی معصوم تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ماضی میں بھی غلام کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھا جاتا تھا ۔ باغی اور بھگوڑے غلام کی سزا موت یقیناّ نہں ہو گی کیونکہ اپنی ملکیت کون ضائع کرتا تاہم ، کھال ادھیڑنا جیسے محاورات شاید اسی دور میں ایجاد ہوئے ہوںگے۔
اگلا منظر صحرا میں اونٹ دوڑ کا ہے جہاں اونٹوں کا سوار پاکستان ، بنگلہ دیش جیسے ممالک سے اغوا شدہ وہ بچہ ہے کہ جس کی چیخیں ایک اونٹ کو تو جنجھوڑ سکتی ہیں مگر وہاں موجود انسانوں کے ضمیر کو نہیں۔
نکتہ اعتراض یہ نہیں کہ مزدور کیوں ہیں بلکہ ہاتھ سے کام کرنا تو سنت پیمبرانہ ہے ۔ موضوع فکر اسوقت وہ غلامانہ خو ہے اور وہ نظام ہے جو انسانوں کے درمیان امتیاز و تقسیم قائم رکھے ہوئے ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دور جدید میں دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اگر یہ بات درست ہو تو بھی غلامی کے خاتمے کو ہم غلامانہ سلوک کے خاتمے پہ محمول نہیں کر سکتے ۔ غلامی کے خاتمے کے بارے میں بھی کئی نظریات ملتے ہیں۔ کچھ اہل دانش ترک غلامی کی رسم کا بانی ابراہم لنکن کو مانتے ہیں ، کچھ اقوام متحدہ کے بنیادی انسانی حقوق کے منشور کو غلامی سے نجات کا دیباچہ مانتے ہیں ، اور کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ مذھبی تعلیمات نظام غلامی کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ تاہم انسداد غلامی کے سلسلے میں جتنی بھی پیش رفت ہوئی وہ آناّ فاناّ نہیں بلکہ تدریجاّ ہوئی۔
اس ضمن میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں جب دنیا میں غلاموں کے حقوق کے لیے تحریکیں ابھر کر سامنے آئیں، غلاموں کی فروخت پر پابندی کے حکم صادر ہونے لگے اور غلامی کے خاتمے کے ليے یورپ ، امریکہ سمیت دنیا بھر میں قانون سازی کی ابتدا ہوئی تو یہ وہی وقت تھا جب یورپ میں صنعتی انقلاب برپا ہورہا تھا۔ مشینیں انسانوں کی جگہ لے رہی تھیں۔ نتیجتاّ وہ اشرافیہ جو ایک وقت میں غلاموں کی تعداد کو سٹیٹس سمبل سمجھتی انسانوں کی اس کھیپ پر مشینوں کو ترجیح دینے لگی۔
تاہم جو بھی عوامل و محرکات رہے ہوں آج کی مہذ ب دنیا کے ہر ایک ملک کے قانون میں غلامی کو نہ صرف رد کیا جا چکا ہے بلکہ انسان کی شخصی آزادی پہ قدغن قابل عتاب جرم ہے۔
مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا عملاّ اس دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہو چکا ہے؟ کیا کمزور اب کسی طاقتور کے جبر کا شکار نہیں بنتے؟ حقائق اس بات کی نفی کرتے ہیں۔ حال ہی میں بین الاقوامی ادارہ محنت اور بین الاقوامی ادارہ برائے ہجرت نے غلامی کے خاتمے کے لیے کوشاں تنظیم واک فری فاؤنڈیشن کے اشتراک سے ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق دنیا میں اسوقت 3۔40 ملین افراد غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایشیا اور افریقہ غلامی کے لحاظ سے بدترین برآعظم ہیں مگر یورپ اور امریکہ میں بھی غلاموں کا وجود ہے۔ غلامی کے لحاظ سے بد ترین ممالک میں سرفہرست بھارت ، دوسرے نمبر پر چین جبکہ پاکستان کا نمبر تیسرا ہے۔ دنیا کے ان غلاموں کی کل تعداد کا ٪71 یعنی 7۔28 ملین عورتیں اور لڑکیاں ہیں۔
جبری مشقت ، بچوں سے مشقت ، رھن مزدوری، جبری شادی ، انسانوں کی سمگلنگ وغیرہ دور جدید میں غلامی کی صورتیں ہیں۔ اندازے کے مطابق تشدد کر کے ، طاقت کے استعمال سے یا بلیک میلنگ کے زریعے کسی شخص کی مرضی کے خلاف جبرا مشقت کا شکار افراد کی کل تعداد ٪2۔29 ملین ہے۔ 16 ملین افراد کو نجی ملکیت میں گھریلو مشقت ، زراعت ، تعمیراتی شعبے اور کان کنی وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ 4 ملین افراد حکومتوں کےایماء پر جبری مشقت کا شکار ہیں۔ اس جکی ایک مثال جنگی اور سیاسی قیدیوں سے مشقت لینا ہے۔
غلامی کی ایک صورت رھن مزدوری یا بانڈڈ لیبر ہے جسے ڈیبٹ بانڈیج بھی کہا جاتا ہے۔ بانڈڈ لیبر میں کوئی شخص کسی قرض کے تبادلے میں گروی رکھا جاتا ہے اور ادائیگی بصورت مشقت ہوتی ہے۔ بعض حالات میں کوئی فرد کسی معاشرتی پابندی یا رواج کا شکار ہوکر بانڈڈ لیبر کا لقمہ بنتا ہے ، خاندان یا کسی قریبی شخص کا کوئی مفاد وابستہ ہو، یا متاثرہ شخص کے قریبی افرد میں سے کوئی اس کے بدلے کسی ساہوکار ، زمیندار یا وڈیرے سے کچھ رقم لے لے یا کوئی قرض دار قرض ادا نہ کر پائے تو بھی بانڈڈ لیبر کا پابند بنایا جا سکتا ہے۔ اندازے کے مطابق جدید غلاموں کی اکثریت اسی قسم کی غلامی کا شکار ہے۔ جبکہ جنوبی ایشیا میں یہ تعداد دنیا کے دیگر خطوں سے کہیں زیادہ ہے۔ جنوبی ایشیا میں یہ مکروہ دھندا زراعت ، کان کنی ، بھٹہ خشت ، گھریلو مشقت ، سے لے کر بھیک منگوانے تک پھیلا ہوا ہے۔ گروی شخص کی تمام عمر اس قرض کی ادائگی میں پسینہ بہاتے صرف ہو جاتی ہے بلکہ بعض صورتوں میں یہ غلامی نسل در نسل چلتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق غلاموں کی کل تعداد کا ٪50 بانڈڈ لیبر یا رھن مزدور ہیں۔
جدید دنیا میں بچوں سے مشقت کروانا ایک معاشرتی ناسور ہے۔ غربت کے باعث والدین بچے فروخت کرتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق بتایا گیا ہے کہ غلامی کا شکار ہر چار افراد میں سے ایک بچہ ہے۔ کل تعداد کا ٪25 بچوں پر مشتمل ہے جن میں 2۔15 ملین بچے 5 سے 17 سال کی عمر کے ہیں۔
جدید غلامی کی ایک شکل جبرا فوجی خدمات لینا ہے۔ 2007 میں ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2 لاکھ سے لے کر 3 لاکھ بچوں سے فوجی خدمات لی گئیں۔
انسدادغلامی کے لئے کوشاں دنیا کو ایک بڑا مسئلہ جو در پیش ہے وہ انسانوں کی سمگلنگ ہے۔ مجبور افراد کو دھوکہ دہی سے ، بہتر معاشی مستقبل کا جھانسہ دے کر ، اغواء کر کے ، جبرا ، بلیک میلنگ ، یا جسمانی تشدد کر کے ، منشیات کا عادی بنا کر ، کسی قرض کی ادائیگی نہ کر پانے کی پاداش میں ، یا کسی قریبی شخص کے قیمت کے عوض بیچ دینے کی صورت میں انسانوں کو سمگل کرنے والے جرائم پیشہ گروہ ہر سال لاکھوں افراد کا استحصال کرتے ہیں۔
انسانوں کی سمگلنگ ایک ملک کے اندر بھی ہو تی ہے اور عالمی سطح پر بھی۔ انسانوں کی سمگلنگ اور تجارت اربوں ڈالر کے کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے ، دنیا کی معیشت بہت حد تک اس کے زیر اثر ہے ۔ عالمی سطح پر اس کاروبار کا شکار زیادہ تر خواتین اور بچے بنتے ہیں۔ جو بعد میں جبری مشقت ، جنسی استحصال ،اور دیگر کئی غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کا حصہ بنتے ہیں ۔ سمگل شدہ افراد کے جسم سے اعضاء اور بافتیں نکال کر غیر قانونی طور پر پیوندکاری کے مکروہ اور سفاک دھندے میں استعمال ہوتے ہیں۔ افریقہ اور ایشیا میں نوجوانوں کو اچھے مستقبل کے جھانسے دے کر غیر قانونی سرحد پار کروانے کی کوشش میں اکثر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور جو بچ جائیں وہ کسی جبری مشقت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کی روک تھام کے دفتر کے مطابق سن 2013ء میں صرف پاکستان میں سرگرم جرائم پیشہ گروہوں نے انسانوں کی اسمگلنگ کے ذریعے 927 ملین ڈالر کمائے تھے۔
بین الاقوامی ادارہ محنت نے جبری شادی کو غلامی کی ایک صورت قرار دیا ہے۔ 4۔15 ملین افراد جبری شادیوں کے زریعے غلام بنائے گئے۔ زبردستی شادیوں کا یہ وسیع کاروبار نہ صرف کئی افریقی اور ایشیائی ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ بلکہ یورپ ، امریکہ اور آسٹریلیا میں موجود پناہ گزین اس لحاظ سے انتہائی غیر محفوظ گروہ ہیں۔ نہایت قلیل قیمت کے بدلے لوگوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے جنہیں شادی کی آڑ میں کھیتی باڑی ، گھریلو مشقت ، جیسے کاموں سے لے کر بھیک منگوانے تک جیسے مکروہ دھندوں میں جبرا استعمال کیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صدیوں پرانے غلام اور لونڈی رکھنے کے رواج پر جو لوگ شور مچاتے ہیں وہ اس پر خاموش ہیں.
غلامی کے لحاظ سے بد ترین ممالک کی فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ گلوبل سلیوری انڈکس 2016 کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریبا 004،388،2 افراد غلاموں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی ایک بڑی اکثریت بانڈڈ لیبر کا شکار ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں غلامی اور جبری مشقت اور انسانوں کی سمگلنگ کے سدباب کے لیے قوانین موجود ہیں مگر ان قوانین کے نفاذ میں کہیں نہ کہیں کوئی سقم موجود ہے۔
عصر حاضر میں غلامی کے بارے میں منظر عام پر آنے والی رپورٹوں کے مندرجات اور طریقہ تحقیق سے تو اختلاف ہو سکتا ہے مگر غور طلب بات یہ بھی ہے کہ یہ تمام واقعات وہ ہیں جو منظر عام پر آئے ، ہو سکتا ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو ۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی یہ معاشرہ امتیاز و تفریق اور عدم مساوات کی بنیادوں پر کھڑا ہے اور انسانوں کی انسانوں کی غلامی سے نجات کے جھوٹے ہیں