ہم سب کا سولہ دسمبر
از، علی ارقم
بدھ کے دن کی بات ہے، میں آٹھ گھنٹے کی کلاسز کے درمیانی وقفے میں گھر آیا تو بیگم نے یہ افسوس ناک خبر سنائی کہ ملحقہ گلیوں میں رہنے والی بھابھی کے مدرسے کی، ہماری فرّخ زادے کی ہم عمر بچّی موٹر سائیکل کی ٹکر سے مر گئی۔
حنین نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسکول سے واپس آ رہی تھی، سامنے سے موٹر سائیکل والا ایک ٹائر پر چلا آ رہا تھا، جب اُس نے گاڑی نیچے کی تو گاڑی سنبھلی نہیں اور سائیڈ پر کھڑی بچی کے سر پر چڑھا دی، لوگ بچی کے چکر میں لگ گئے، اور بائیک والا بھاگ گیا۔
یُسرٰی نے کہا، ’مدرسے آتی تھی، پڑھائی میں بھی اچھی تھی’، اس کی ماں بہت رورہی ہے، پچھلے سال اس بچّی کے والد موٹر سائیکل پر جا رہے تھے ، تو واٹر ٹینکر کی زد میں آ کر مر گئے تھے، اب بیٹی بھی مر گئی، بہت رو رہی ہے اُس کی ماں!
میں نے کہا، ’جی بیٹی، لازمی بات ہے، یہ کوئی معمولی حادثہ تو ہے نہیں، اوپر سے وجہ بھی کیا، ایک درندے کی reckless ڈرائیونگ کی وجہ سے۔ اُس بے چاری نے تو اپنی بچّی اسکول بھیجی تھی۔
آج سولہ دسمبر ہے، جب ہم آرمی پبلک اسکول میں reckless جہادی پراجیکٹ کے ون وہیلرز کے ہاتھوں اپنے بچوں، ان کی اُستانیوں، اور استادوں کے بے رحمانہ قتل کا سوگ منا رہے ہیں۔ تو مجھے یُسرٰی کی زبانی اُس بچی کی ماں کی کیفیت کا احوال یاد آ گیا۔
اس لیے آج کے دن کو جن الفاظ و عنوانات کے تحت منایا جاتا ہے، اُس میں اُن بچوں کے والدین کی کیفیت کے تذکرے کی کوئی خاص گنجائش نہیں چھوڑی جاتی۔ کیوں کہ اُن کا بچہ گھر سے نکلتے سمے ماں کو کسی مشن پر رُخصت کا کہ کر نہیں گیا تھا، نہ ہی وہ کوئی پسر ابراہیم تھا جسے آدابِ فرزندی سکھائے گئے ہوں کہ کولیٹرل ڈیمیج، وسیع تر قومی مُفاد، یا ریکلیس ریاستی بیانیوں کے ہاتھوں کی چُھری کے آگے کیسے گلا رکھ دینا ہے۔
جب بیگم اور بچے اس موت کا واقعہ سُنا رہے تھے، تو میں سامنے کھڑی فرخ زادے کی خالی آنکھوں میں کوئی تاثر ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا، جس میں بَہ ہر حال مجھے کوئی کام یابی نہیں ہوئی، البتہ میرے دل کو ایک خوف نے آ لیا کہ کس طرح سے سڑکوں اور گلیوں میں دوڑنے والی یہ موٹر سائیکلز بھی کسی تربیت اور ہم دردی سے عاری سواروں کے ہاتھوں چلتے پھرتے مرڈر ویپنز بن گئی ہیں، ایک طرح کے خود کش حملہ آور، جو اکثر اوقات خود بھی کچلے جاتے ہیں، اور دوسروں کو بھی کُچل دیتے ہیں۔
اب ہم آرمی پبلک اسکول کو ذبح خانہ میں بدلنے والوں کے بچوں کے جانے کچھ پڑھا پانے پر قادر ہیں یا نہیں، لیکن ہم ان موٹر سائیکلز چلانے والوں کو کچھ قاعدوں کے پابند تو کر سکتے ہیں۔
وہ ایک قصّہ ہے کہ جنگل کے شیر کو کچھ کھانے کو نہ ملا تو اُس نے گیدڑ کو آتا دیکھ کر اُسی کو دبوچ لیا، گیدڑ نے فوراً چیخ و پکار کی، اور وارننگ دی کہ مجھے چھوڑ دو ورنہ قیامت آ جائے گی، شیر گبھرا گیا اور اس کا گلا چھوڑ دیا، گیدڑ دور جا کر بیٹھا تو شیر نے پوچھا، تمھاری موت سے قیامت کیسے آ جانی تھی؟‘
گیدڑ نے کہا سیدھی سی بات ہے، میں مر جاتا تو کسی اور کی قیامت آتی نہ آتی میری تو آ جانی تھی نا! بس چوں کہ ہر موت ایک سی نہیں ہوتی، دہشت گردی کے ہاتھوں موت ایک یونیورسل اسکور بورڈ پر روشن ہندسے کے تحت جلتی بجھتی رہتی ہے، اس لیے زیادہ نظر آتی ہے، پھر جیسے پشتو میں کہتے ہیں کہ گھر کے چوپائے کی موت کرگسوں اور کووں کی عید ہوتی ہے تو دہشت گردی کی اموات کے ڈیتھ کاؤنٹس سے کتنوں کی روزی وابستہ ہے، ہر کسی کا اپنا ضربِ عضب ہے، ضرب پراجیکٹ ہے، ضرب پروپوزل ہے، اور ضرب کاؤنٹر وائلنٹ ایکسٹریم ازم ہے۔
کل کی بات ہے ناروے کے سفارت خانے کے فرسٹ پولیٹیکل سیکرٹری سے ملاقات میں کراچی پر بات ہو رہی تھی، کہنے لگے کہ لازمی بات ہے ہم ڈیویلپمنٹ فنڈز دیتے ہیں۔ ہمیں جاننے کا حق ہے کہ وہ کیسے خرچ ہوتے ہیں۔ میں نے کہا ہماری ایک بہن تھی جن کا نام پروین رحمان تھا، وہ کہتی تھیں ڈیویلپمنٹ تو انسانوں کی ہوتی ہے، یہ کیا کہ کنکریٹ اسٹرکچر سے ڈیویلپمنٹ ناپنے لگے۔ وہ گئے آپ لوگوں والے ڈیویلپمنٹ فنڈ، تو بندے آپ بڑے سیانے ہیں۔
اب وہ پیسے بھی انہیں دیتے ہیں جو آپ کو بتا سکیں کہ ہماری ریاست نے دہشت گردی کو کچلنے کے عنوان سے لوگوں کا کتنا کچومر نکال لیا ہے۔ ان میں کتنی سکت باقی بچی ہے۔ بڑے بنگلوں کی باؤنڈری والز میں نصب بڑے گیٹوں پر بلَڈ ہاؤنڈز اس لیے رکھے جاتے ہیں تا کہ کوئی دروازے کے پاس بھی بنا اجازت پھٹکنے کی جرات نہ کر سکے، بس اتنا ہے کہ ساتھ میں ‘بی ویئر آف ڈاگز’ کا بورڈ لگا دیں۔
اس لیے جب تک دہشت گردی کا بیانیہ (اور اب مجھے اس لفظ سے بھی نفرت ہونے لگی ہے)، اور اس کی اونچی دکان سلامت ہے، جانے کیسے کیسے سانحے ہمارے منتظر ہیں۔ فی الحال تو ہم عقابوں، زاغوں اور کرگسوں کے گھیرے میں ہیں۔
رہا سولہ دسمبر، تو وہ ہم سب کا ہے، اور ہم میں سے بہت سوں کے اپنے اپنے سولہ دسمبر بھی ہیں۔ جب ہم سولہ دسمبر کا افسوس کرتے ہیں، کوئی چراغ روشن کرتے ہیں، تو یہ ان سارے سانحوں، اور ان عِفرِیتوں کے ہاتھوں قطار در قطار مرتے چلے آ رہے بچوں کا ماتم ہے۔ ان ماؤں کے آنسووں سے جلتے چراغ ہیں، جنہوں نے اپنے بچوں کو بستہ دے کر اسکول بھیجا تھا۔