سماجی تبدیلیاں اور طوائف کلچر
از، قاسم یعقوب
پچھلی ایک ڈیڑھ صدی میں جہاں فکری حوالے سے بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ اسی طرح ثقافت اور کلچر نے بھی اپنی بہت سی جگہوں کو خالی کیا یا پہلے سے موجود رسمات کو تبدیل کر لیا۔نئی سماجیات نے پہلی والی سماجیات کو رد کر دیا یا اُن میں اضافہ کر دیا۔ یہ سب اچانک نہیں ہُوا اور نہ ہی یہ کسی فطری منصوبہ سازی کا وقوعہ تھا ایک ثقافت جب کسی دوسری ثقافت کو اپنے اندر (چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی) دخل اندازی کرنے دے تو پہلی والی ثقافت یا سماجی عمل کاری میں رد و بدل واقع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔سب سے پہلے یہ تبدیلی فکری سطح پر ہموار ہوتی ہے جو عملی سطح پر اپنا راستہ تراشتی ہے۔
طوائف کا سماجی ادارے ہمارے معاشرے میں کلاسیکی کینن کا درجہ رکھتا تھا۔ اس پیشے سیچار بڑی رسمیں منسلک تھیں، پہلی رقص، دوسری گانا بجانا یعنی گائیکی، تیسری جسم فروشی اور چوتھی رسم تہذیب کا وہ ایک حوالہ بھی اسی پیشے کے سپرد تھا جسے معیاری انسان سازی کا درجہ دیا گیا تھا۔ عورت صرف اپنے جسم کو فروخت نہیں کرتی تھی بلکہ فنون کے نازک مراحل پر بھی عبور رکھتی تھی۔ عموماً ایسی عورتیں جو فنونِ لطیفہ پر دسترس نہیں رکھتی تھیں وہ طوائف کلچر میں جگہ نہیں پا سکتیں تھیں۔ اعلیٰ گائیک جسم فروشی میں بھی اعلیٰ مقام رکھتی اور اسے تہذیبی امور کا ادراک بھی بہتر ہوتا۔یہ کلچر کوئی زیادہ دور کی بات نہیں، آپ امراؤ جان ادا والی طوائف ہی کو دیکھ لیں۔ جسم فروشی اُس کا مرکزی پیشہ نہیں ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ سماجی سطح پر تبدلیاں وقوع پذیر ہوئیں تو عورت سے منسلک’’ طوائفی‘‘ مشاغل میں بھی تبدیلیاں واقع ہونا شروع ہو گئیں۔
طوائف کا مرکزی اور واحد پیشہ صرف جسم فروشی قرار دے دیا گیا۔ سماج تبدیلی نے طوائف سے وابستہ گائیکی، رقص اور تہذیب کے ادارے الگ کر دیے۔ اب گلوکاراؤں اور رقاصاؤں کا جسم فروش ہونا معیوب سمجھا جانے لگا اور آرٹ کو ایک الگ مقام دیا جانے لگا۔یہ تبدیلی ایک دم پوری کی پوری نہیں آئی۔ منٹو کے عہد تک طوائف سے یہ ادارے تقریباً چھن چکے تھے۔ایسا بھی نہیں کہ مکمل طور پر جسم فروشی سے الگ کر دیے گئے مگر گلوکارائیں الگ سے معاشرے میں مقام بنانے لگیں۔ شاید آج بھی ہمارے ہاں عورت کے ساتھ گانا گانے کا تصور ایک طوائف کے طور پر جڑا ہُوا ہے۔ منٹو، عصمت کی طوائف یا آنندی والی طوائف میں صرف یہی ایک تبدیلی آئی ورنہ رسمات اُسی طرح قائم رہیں۔البتہ مرکزی پیشہ جسم فروشی بن گیا۔ اس دور کی طوائف عورت اسی طرح ریڈ لائٹ ایریاز میں رہتی، کوٹھا کلچر اور دلالی کے وہی انداز اس دور میں بھی موجود رہے۔خاص گاہک کا تصور بھی اسی طرح جڑا رہا۔ یہ دور خاصا لمبا ہے کوئی اسی کی دہائی تک اس طوائف کلچر میں جان رہی۔ البتہ سکڑاؤ آتا گیا۔ ریڈ لائٹ ایریا کم ہوتے گئے، گھروں اور مخصوص مقامات پہ ’’دھندا‘‘ ہونے لگا۔ طوائف کے مخصوص روپ میں بھی تبدیلی رہی۔طوائف اب معاشرے میں اپنا حصہ مانگنے لگی۔ فلم کلچر کی طرف راغب ہوئی۔
اس کلچر میں جنسی آسودگی کا یہ ذریعہ ایک گھٹیا اور بہت الگ تھلگ رُتبہ رکھتا۔ یعنی مخصوص قسم کے لوگ جو عموماً طاقت، خوف اور جبر کے نمائندے ہوتے طوائف تک رسائی کو اپنا حق سمجھتے یا سمجھے جاتے۔عام آدمی کا طوائف کلچر میں جنسی آسودگی ایک واقعہ ہوتا۔ عام آدمی نے ہی اس کلچر کو ’’عیاشی، دلالی، بے غیرتی اور بے حیائی ‘‘ کے الفاظ دے رکھے تھے۔طوائفوں اور ان سے مسلک افراد کو کنجر، دلّے اورچدائی‘‘ جیسے القابات دے دئیے گئے۔ جو سماجی سطح پر ایک گالی بن گئے۔
نوے کی دہائی میں طوائف کلچر میں بے پناہ تبدیلیاں آئیں۔(سائیڈ اور سوشل) میڈیا، تعلیم(مخلوط تعلیم) اور سماجی رابطوں کی تیزی نے طوائف کے مخصوص ادارے کو تقریباً ختم کر دیا۔ نوے کی دہائی میں اس کے خاتمے کا آغاز ہُوا۔اکیسویں صدی نے اپنے نئے کلچر اعلان کیا۔ جسم فروشی مخصوص افراد تک محدود عملنہیں رہا۔ عورت کا یوں ریڈ لائٹ ایریا تک محدویت بھی اختتام پذیر ہوئی۔اصل میں یہ سارا عمل جنسی آسودگی کے نئے ذرائع کھلنے سے ہُوا۔لڑکی اور لڑکا نئے معاشرے میں ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔نیلی فلموں نے اس سلسلے میں ایک حیران کن تبدیلی کا آغاز کیا ۔ جنس کو ایک ممنوعہ چیز سے نکال باہر کیا ۔جنسی لذت اور تلذذ کو ایک ٹیبو سے ہٹا دیا گیا۔طوائف کلچر ایک رویہ کے طور پر سامنے آیا ۔یعنی جنسی اختلاط کو جائز اور آزاد سمجھنے والا۔ طوائف کلچر اب ایک ادارے کے طور پر تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ جنسیت نے اب نئی راہیں تراش لی ہیں۔طوائف کو یہ ادراک ہُوا کہ وہ بھی سماج کا حصہ ہے اور سماج میں جنس فروشی کے ساتھ اپنا مقام بھی چھین سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طوائف بازی نے اب اچھی اچھی عورتوں پر حملہ کیا ہے اور وہ آفس، بازار ، گھر اور اچھے سے اچھے عہدے پر کام بھی کر رہی ہے۔ اپنی قیمت اپنی خواہش سے جسم فروشی کرتی ہے اور جنسی آسودگی کی تسکین لینے اور دینے پر مامور ہے۔
سماجی اداروں میں عورت اور مرد کے یکساں فراہمی نے اس ٹیبو کو توڑ دیا ہے۔’’ طوائف بازی‘‘ کے ساتھ جڑے ہر غلیظ تصور کو اتار پھینکا ہے اور خالصتاً سماجی اور فطری روپ میں پیش کیاہے۔ جنسی آسودگی اب تقریباً ہر فرد کے ہاں یکساں قدرت اورتصور رکھتی ہے۔ جنسیت میں ملوث افراد کو اب ’’بے حیا‘‘ تو کہا جاتا ہے مگر ’’عیاش، دلال،کنجر‘‘ جیسی اصطلاحات کا استعمال نہیں کیا جاتا۔
نیلی فلموں کی دنیا نے ہر ذہن کی تشفی کے لیے ایک جنت کا کام کیا ہے۔جس میں ایک پرندے کی طرح رنگین محلات پر اڑتے جانا اور اپنی خواہش پر کسی بھی محل میں اتر جانا شامل ہے۔دسترس کے تناظر میں جنس کو ارضی اور مقامی چیز بنا دیا گیا ہے۔ سیکس ورکز اب معاشرے میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔بلکہ یورپی ممالک میں اعلی سول ایوارڈ بھی سیکس ورکرز کو دیے جاتے ہیں۔ سیکس ورکزز بہت اچھی جاب کرتے ملتے ہیں اور کئی فلم سٹارز بھی ہیں۔ اُن کا تعارفی ڈیٹا لوگ شوق سے پڑھتے ہیں اور اُن سے ملاقات ایک غلیظ تصور سے ہٹ کے ایک خوش گوار موقع تصور کی جاتی ہے۔ بالکل ایک سلیبرٹی کی طرح۔
اُردو کی ادبی دنیا ابھی تک طوائف کو امراؤ جان ادا سے آگے لانے میں ناکام ہے اور اسی انداز کی تشریحات سے کام لے رہی ہے۔ منٹو کی طوائف بھی اب کہیں موجود نہیں۔ غلام عباس کی کہانی ’’آنندی‘‘ ۱۹۳۵ کی کہانی ہے جو طوائف پیشے کو مرکزی پیشہ دکھاتی ہے بلکہ پورا شہر اس کے گرد بنا دیتی ہے۔ مگر آج کی عورت اور مرد نے اس پیشے کو جسم کا فطری روپ دے کے اس کے ساتھ لگے سب لاحقے سابقے ختم کردیے ہیں ۔آج اگر منٹو ہوتا تو اس کی کالی شلوار کوئی نہ لیتا نہ اسے اس کی ضرورت پیش آتی بلکہ کسی سماجی ویب سائٹ پہ اپنا اکاؤنٹ کھول کے جنسی قدروں کی نئی نئی دریافتیں کرتا۔