(قاسم یعقوب)
ادب اور سماج کا رشتہ کاغذ کے دو رخوں کی طرح کہا جاتاہے۔ ادب کے اندر سماجی رویّے تو سماج کا عکس ہوتے ہی ہیں غیر سماجی روّیے بھی درحقیقت سماج ہی کے کسی عمل کا ردِّ عمل ہوتے ہیں۔ ادبی سماجیات کو عموماً دو الگ الگ faculties میں تقسیم کر کے ان کے ایک دوسرے پر اثرات کا نام دیا جاتا ہے۔ ادب کوئی faculty نہیں بلکہ تمام faculties میں موجود ایک رویّہ ہے جو چیزوں کو ان کے وجود سے الگ کر کے دیکھنے کی اہلیّت رکھتا ہے ادب اپنی domain میں اپنا صرف تجزیہ (جذباتی اخلاص) رکھتا ہے ورنہ اس کا خام مواد زندگی کی تمام faculties میں موجود ہوتا ہے۔ گویا ادب ایک ذات ہے جو سماج کے اندر اپنا تشخص تیّار کرتی ہے۔ ایک درخت کی طرح جس کے مختلف اعضاء،مختلف اشکال میں اپنے وجود کا اثبات کرتے ہیں اپنے out put میں بھی مختلف ہوتے ہیں مگر ان تمام میں ایک روح کا ادراک کیا جا سکتا ہے جو ذرا ہٹ کے پورے درخت کی نمائندہ ہوتی ہے۔ایک اَن دیکھی قوت کا احساس درخت کے ہر حصے میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اد ب اور سماج کے درمیان رشتے کو عموماً چار ذرائع سے تلاش کیا جاتا ہے:
۱۔ سماج کو ادبی نگارشات کی روشنی میں ڈھونڈا جائے۔
۲۔ ادب کے اندر سماجیات کے عناصر کو تلاش کیا جائے۔
۳۔ ایک سماج کو کتنا اور کس طرح اثر انداز کر تاہے۔
۴۔ سماج کی مقتدر طاقتوں (حکومتی ادارے، سیاسی ادارے، ترسیلی ادارے،نئی ایجادات، جغرافیائی حالات،ذرائع نقل و حرکت) کے ادب پر اثرات کا جائزہ۔
ادب کی درجہ بندی کرتے ہوئے اِس میں دو طرح کے رویّے نظر آتے ہیں ایک : ادب براہِ راست سماجی واقعات کا مرقّع ہو، دوم: اد ب ذات کی جذباتی توڑ پھوڑ کے اظہار تک محدود ہو جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ادب دونوں صورتوں میں سماج ہی کی حرکت کا عکّاس ہوتا ہے۔ اٹھارہویں صدی میں میر کا چاند میں محبوب کا چہرہ تلاشنا، نظیر اکبر آبادی کا ’’مجلس کی جوتیوں پہ بٹھاتی ہے مفلسی‘‘ کہنا اور میر درد کا ’’تصوف میں پناہ لینا اصل میں سماجی روّیے ہی ہیں۔ گویا ذات زندگی کی تمام faculties کا محور ہے بلکہ ایک روح کی طرح سماجیات کا حاصل بھی۔
ادب کی سماجیات پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ادب اپنے made میں ’’تعمیر‘‘ کا عنصر رکھتا ہے۔ادب کا سچ ایک غیر مرئی احساس ہوتا ہے جو انسانی خمیر کی بُنت کا دھاگہ ہوتا ہے ادب کی قرأت اور تخلیق اپنی ’’تعمیر‘‘ میں اپنی فطری بہاؤ کی طرف سفر کرتی ہے۔ بالکل ڈھلوان کی سمت بہتے پانی کی طرح۔ جو واپس چڑھائی کی طرف بہہ ہی نہیں سکتا جیسے برف حدّت نہیں دے سکتی۔ جیسے آگ منجمد نہیں ہوسکتی۔ ادب کی بُنت میں بنیادی عنصرجذبے کی’’گدازی‘‘ ہے۔ جو اصناف کی تفریق کیے بغیراپنا اظہار کرتی ہے۔ جذبہ اپنی فطرت میں معصوم ہے کوئی جذبہ منفی نہیں ہوتا۔
جذبات کا منفی پن اپنے عمل کے ردّعمل میں منفی یا مثبت ہوتا ہے اپنی سرشت میں نہیں۔ ادب کی سماجیات اصل میں اِس ’’معصومیّت‘‘ کا ادراک ہے سماج کے اندر اسے ’’سچ‘‘ کہا جاتا ہے۔ لفظ’’سچ‘‘ اپنے استعمال میں اتنا پامال ہو گیا ہے کہ اِس لفظ کی روح ہی مسخ ہو گئی ہے۔ سچّ بھی وہ بنیادی رویّہ ہے جو اپنی اصل میں منفی نہیں ہو سکتاجو مختلف حالتوں میں بدلتا ضرور ہے مگر ختم نہیں ہو تا۔ سچّ کے بھیس میں بہت سے منفی رویّے سچّ بننے پر مُصر ہوتے ہیں مگر سچّ درخت میں موجود روح کی طرح معاشرتی سطح پر اپنا اثبات کرواتا رہتا ہے۔ ادیب ادب کے اندر اِسی ’’سچّ‘‘ کا سراغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر سطح کا ادیب اپناایک world view رکھتا ہے۔ یہی world view اس کا سچ ہو تا ہے۔ تخلیقی سطح پر کم درجے کے ادیب اس world viewکو اظہار میں نئی زبان میں نہ دے سکنے کی وجہ سے کم تر درجے پر ہی رہ جاتے ہیں یا پہلے سے موجودادبی میکانیات کا اِستعمال کرنے پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کم درجے کے ادیب کے ہاں world view ہی بہت محدود پیمانے کا ہو جس کو کسی بڑے ادبی میکانیاتی نظام کی ضرورت ہی نہ محسوس ہوتی ہو۔ ہمارے ہاں غزل کا شاعر عموماً محدود world view رکھتا ہے جس کی وجہ سے غزل کے پرانے سانچے ہی کافی چلے آ رہے ہیں۔ پرانے textsکی ہی نئی تشکیل (construction) سے اِس صنف کا پیٹ بھرا جا رہا ہے۔ حالاںکہ کوئی صنف اپنی حدود میں دائرے کے سفر پر نہیں رواں ہوتی بلکہ اس کے لکھنے والے اسے دائرے کا سفر عطا کرتے ہیں۔
ادیب کےworld view کو مندرجہ ذیل عناصرتشکیل دے سکتے ہیں :
۱۔ کسی سماج میں سرگرمِ عمل تہذیب کے اثرات۔ہمارے ہاں بہت سی تہذیبیں بیک وقت موجود ہیں۔اُردو ادیب کا world view ان تہذیبوں کے باہمی کلچر اور اثرات سے غیر شعوری پر متاثر ملے گا (یہاں کلچر کو تہذیب ہکی روح کے معنوں میں لیا جا رہا ہے)۔
۲۔ جغرافیائی یا نیچرل اثرات۔ بہ ظاہر اِن عوامل کا world view سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں لگتا مگر ایک ادیب کی نظری داخلیّت کے بہت سے تانے بانے اِسی قوت کی ہر وقت رواں رفتار سے بنتے بگڑتے ہیں۔مثلاً پہاڑوں کی درشتی اور ٹھنڈے علاقوں کی یخ بستگی چیزوں کے معروقی اثرات پر بھی اثر ڈالیں گے۔
۳۔ سیاسی حالات کی معاشرتی نفوذ پذیری۔سیاسی حالات میں دفاعی اورانتظامی نظم و ضبط،امن و امان،انصاف اور بنیادی حقوق کی فراہمی وغیرہ شامل ہوتے ہیں جو ایک ادیب کی داخلیت پر براہِ راست اثر ڈالتے ہیں۔
۴۔ خیالات و واقعات کی ترسیل کی قوتیں بھی ادب پر غیر معمولی اثرات ڈالنے کا موجب بنتی ہیں۔ جن میں میڈیا کا کردار اِس دور کا سب سے جاندار حوالہ کہا جا سکتا ہے۔ اصل میں world view نام کی کوئی چیز اب معرضِ وجود میں آ ہی نہیں سکتی۔ میڈیا نے ادب،ادیب اور قاری کے رشتوں میں ایک ہائپر رئیلٹی کا روپ بھرلیا ہے۔معروض کا دھاگا اب ایک ایسی حقیقت کے بغیر اپنے وجود کی بنت میں ڈھل ہی نہیں سکتا جو خودبھی’’حقیقت‘‘ نہیں۔ میڈیا ایک ’’جنگشن‘‘بن کے سامنے آیا ہے جہاں حقیقتیں اتھل پتھل ہوتی اور نکھرتی ہیں (یہاں ’’حقیقت‘‘ واقعات کی براہِ راست ترسیل ہے) میڈیا ہر دور میں رہا ہے۔ کبھی ایک تہذیب کے کلچر کو بیج کی شکل میں کسی اور جگہ اگا آتا کبھی بادشاہوں کو فوجوں کی نقل و حرکت کی واقعاتی تصویر پیش کرتا رہا۔ ترسیلِ واقعات سے ترسیلِ حقیقت تک کا سفر میڈیا ہی کے مرہونِ منت رہا۔
یاد رہے کہ world view
معروض کی ’’معروضیّت‘‘ کو جاننے کا نام نہیں بلکہ ’’پہچاننے‘‘ کا گہرا عمل ہے۔ اقبال نے انہی کیفیّوں کو دو لفظوں ’’خبر‘‘ اور ’’نظر‘‘ سے نشان زد کیا تھا۔ سماجی تحرکات محض واقعات کا وقوع پذیر ہونا نہیں رہا۔ واقعات تو تصویر کھینچتے ہوئے کیمرے کا بٹن دبانے کا عمل ہے، ورنہ اس تصویر سازی میں بہت سا مواد پہلے ہی جمع ہو چکا ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں سچ اور حقیقت دو الگ الگ معنوں میں پائی جاتی ہیں۔ ہر حقیقت جو اپنا اثبات کروانا چاہتی ہے، سچ ہوتی ہے۔ اور ہر سچ ایک حقیقت کا روپ لینا چاہتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں حقیقتیں سچ نہیں ہیں اور سچ بے حقیقت ہیں۔ موزے تنگ نے کسی جگہ کہا تھا کہ:
“There are realities without names and names without realities.”
یعنی حقیقتوں کونام مل گیا کہ یہ سچ کی نمائندہ ہیں، مگر وہ نام سے آگے کچھ نہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں ہزاروں سچ ایسے ہیں جو حقیقت کا لیبل نہیں بن سکے۔ وہ آوارہ اور پژمردہ حالت میں دربدر بھٹک رہے ہیں۔ جمہوریت، سیاسی جماعتیں، اسلام، اسٹیبلشمنٹ، قومیت، حب الوطنی، عوامی طاقت وغیرہ ایسی حقیقتیں رہ گئی ہیں جو اپنے نام کے اندر سچ سے خالی ہیں۔ جمہوریت عوام کی قوت کا نام ہے مگر ہماری جمہوریت مقتدر حلقے کی اقتدار تک حصولی کا عمل ہے۔ یہ نام اپنے معنی کے نام پر اپنی دکان چمکا رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوامی کیبن سے اٹھتی ہیں مگر عوامی کیبن سے الگ ہو کے اپنی بقا ڈھونڈتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک عرصے سے اَن دیکھی قوتوں کے مفادات کے تحفظ میں عوام کو دھوکہ دیتی آ رہی ہیں مگر وہ عوامی کیبن کے آگے بھی مگرمچھ کے آنسو بہانے میں دیر نہیں لگاتیں، کیوں کہ انہیں بقا کی ضمانت بالآخر یہیں سے ملتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اس سلسلے میں مکمل تیاری کیے ہوئے ہوتی ہیں۔ مخصوص طرز کے ووٹرز اور مخصوص قسم کی ڈپلومیسی سے سادہ لوح عوام اُن کے بقا کی ضمانت فراہم کر دیتے ہیں۔ یہ امر بھی یاد رہے کہ پاکستان میں ووٹ کاسٹ ریٹ 222۴۵ سے زیادہ کبھی نہیں رہا۔
مذہبی جماعتیں اسلام کے نام پر ایک غیرحقیقی سچائی کی دعوے دار بنی ہوئی ہیں۔ حالاں کہ پوری دنیا میں اسلام کی سپرٹ کہیں موجود نہیں۔ گویا عملی اسلام اور تھیوریٹکل اسلام میں بہت فرق آ گیا ہے۔ اس میں اسلام کو سمجھنے والے ملّا حضرات کی تعبیری جہات کا بہت عمل دخل ہے۔ ہر عالم کے ہاں اسلامی آئیڈیالوجی تبدیل ہو جاتی ہے، لہٰذا اس بے ضرر مذہب کو ضرر رساں بنانے میں محدود کینوس میں مقیّد علماء حضرات پیش پیش ہیں۔ کبھی ایک خطے میں مذہب کی عملی شکل اپنانے کے لیے شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ حکومت کی عسکری سرکوبی کے بعد وہ مذاکرات کے میز پر یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کسی مقصد کی خاطر عمل اور ردّعمل کی خون ریز جنگ لڑ رہے تھے۔ مذاکرات کے بعد غارو ں میں میٹھی نیند سو جانے سے مذہبی غلبے کی کون سی خواہش کو پورا کیا جا رہا ہے۔ اسلام ایک پُرامن دین ہے۔
حضور ﷺ نے کہا تھا کہ اگر تم قیامت کی پوری نشانیاں دیکھ لو اور یقین کر لو کہ اب قیامت بالکل آنے والی ہے تو اپنے ہاتھ میں پکڑے سبز ننھے پودے کو زمین میں دبانا نہ بھولنا۔ گویا اسلام ایک حقیقت بن کے سامنے موجود ہے، جس کی پُرامن اور گہری دانش ورانہ روایت (جو سچ ہے) اس نام لینے والی حقیقت سے دور ہو گئی ہے۔ تہذیبوں کے تصادم میں ایک طرف مقتدر قوتیں معاشی غلبے کی جنگ لڑ رہی ہیں جب کہ دوسری طرف قوتیں اسے اپنے آئیڈیالوجیکل ایجنڈے کے خلاف سازش قرار دے رہی ہیں، حالاں کہ بڑی طاقتوں کو اِس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے محکوم کیا ورد کرتے ہیں اور کس کو ربِ کائنات مانتے ہیں۔ ہاں انہیں اس سے تکلیف ہے کہ ان کی راہ میں حائل انبوہ ان کے لیے معاشی رکاوٹ نہ بن جائیں۔ گویا مذہبی حلقہ اس ’’معصومانہ‘‘ خطرے کے آگے بند باندھنے کے لیے جان کی بازی بھی لگانے پر تلا بیٹھا ہے۔ حال ہی میں اٹھنے والی خودکش لہر نے کتنی مقتدر طاقتوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا؟ کیا اس لہر کے اٹھنے کا باعث بننے والی طاقتیں مذہبی تباہی کا ایجنڈا لے کر خطے میں آئی تھیں؟ اس صورتِ حال میں معصوم جانوں کا ضیاع سچ سے نابلدی نہیں تو اور کیا ہے؟
اسٹیبلشمنٹ معاشرتی سرگرمیوں کے تحفظ کا ادارہ ہے جو جغرافیائی حدود کے اندر اور باہر قومی نظریے اور نظریے کے پاس داروں کی حفاظت کرتا ہے۔ مگر یہ حقیقت بھی سچ کے عنصر سے خالی ہے۔ اس نام سے منسوب جتنی حقیقتیں ہیں وہ سب power discourse کا حصہ ہیں، اس سے وابستہ کر دی گئی ہیں، ہو نہیں سکتیں۔ اس ادارے نے ہمیشہ عوام کے خلاف ایک ’’پارٹی‘‘ کا رول ادا کیا۔ گویا بیرونی مقتدر طاقتوں اور عوام کے درمیان معاہدوں کی عملی اشکال اسی ادارے کی مرہونِ منت ہیں۔ سیاسی جماعتیں اس حوالے سے دستِ کمال رکھتی ہیں کہ وہ عوامی حقیقت کے نام پر اس ادارے کے ساتھ مل کر چلتی ہیں۔ گویا سیاسی جماعتوں کا کردار ’’شفٹ‘‘ ہوتا ہے۔ الیکشن سے پہلے عوام کے کیبن سے اور الیکشن کے بعد مقتدر طاقتوں کے حلقوں کی جانب۔ قومیت، حب الوطنی اور دیگر جذباتی نعرے بھی اپنی ’’سچائی‘‘ کھو چکے ہیں۔ ہمارا پیارا ملک اپنی مٹی کے آنسوؤں سے لدا جا رہا ہے۔ ہم قومیت کا نعرہ تو لگا رہے ہیں مگر اس کے اندر وہ سچ نہیں جو ہماری روحوں کو ہلا دے۔ حب الوطنی برائے نام ہے۔ اگر صرف ایک دن کے لیے ملک کے بارڈر اوپن کر دیے جائیں تو یہاں شاید چند ہزار افراد ہی بچیں۔
ادیب کا world view اس صورتِ حال میں اُس سچائی تک رسائی کا نام ہے جو ہمارے اردگرد کہیں کھو گئی ہے۔ یہ حقیقتیں جو برائے نام ہیں، ان کو سچائی کا لبادہ دوبارہ پہنانا اور جو سچ موجود ہیں ان کو حقیقتیں تسلیم کروانے میں ادیب کا کردار بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ کیا ہمارا ادیب یہ بھول گیا ہے کہ ہمارے سچ تو بھوک، افلاس، تعلیمی انحطاط، معاشرتی توڑ پھوڑ، صوبائیت کا زہر، بیروزگاری، انصاف اور بنیادی ضروریاتِ زندگی ہیں۔ ہمارا ادیب کیوں خوف زدہ ہے کہ وہ مذکور حقیقتوں کو فاش کر دینے سے خوف ناک انجام سے دوچار ہو جائے گا جو صرف نام رکھتی ہیں سچ نہیں۔ یہی تو وہ سچ ہے جس کا پرچار آج ادیب کا منشور ہونا چاہیے۔ یہاں یہ سوال بھی ہے کہ کیا ہمارا ادیب اپنے world view میں اتنا میچور بھی ہے کہ اس کے تخلیقی حصہ میں اس طرح کی تجزیاتی سوچ سہارا بن کے آ سکے؟ یہ ضروری تونہیں کہ اس کا world view اس کے فن میں معروضی حیثیت سے ہی آئے۔ پھولوں کو ’’اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن‘‘ کہنے والا شاعر اپنے world view میں اس سچائی کا نقیب ہو سکتا ہے یا اُسے لازمی ہونا چاہیے۔ ایک افسانہ نگار جو کبھی بھی معاشرتی توڑ پھوڑ کو اپنا مواد نہیں بناتا، کیا معاشرتی سچائیوں سے نابلد رہ سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں اپنے ادباء کا احاطہ کیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں چند برس پہلے مجھے ایک اہم ادیب نے غیردلچسپی کا اظہار کر کے حیران کر دیا، جب میں نے ملک کے ڈکٹیٹر حاکم کی کتاب میں ہماری مجموعی قومیت پر طنز کو ان کے سامنے سوالیہ نشان بنا کر پیش کیا۔ بہرحال یہ بھی ایک سچ ہے جسے کوئی نام نہیں دیا گیا۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا،ادیب کے world view کی تشکیل میں اب میڈیا کا کردار مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اصل میں میڈیا ان واقعات کی ترسیل کا ذریعہ ہے جو معاشرتی سطح پر کہیں نہ کہیں وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ میڈیا نے اس معاشرے میں دو بڑی تبدیلیاں پیدا کی ہیں:
۱۔ دور دراز علاقوں میں محرومی کا خاتمہ، جسے regional disparity بھی کہتے ہے۔
۲۔ وہ تمام کردار جو حقیقتوں کی شکل میں سچ کی طاقت بنے ہوئے تھے، بُری طرح expose ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ کردار ادارے اور اشخاص میں دونوں کی شکل میں موجود ہیں۔
میڈیا پر یہ الزام عاید کیا جا رہا ہے کہ اس کا کردار غیرمتوازن ہے، وہ حقائق کی پردہ پوش قوتوں کو غیر مہذب رویے سے سامنے لا رہا ہے۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ معاشرتی سطح پر یہ ملک ’’عوام‘‘ اور ’’عوام مخالف‘‘ دو حلقوں میں تقسیم ہے۔ ملک ہمیشہ عوام کا ہوتا ہے۔ اقتدار کا منبع عوام ہوتے ہیں۔ ملک کے اندر معاشرتی سرگرمی ہی سب سے بڑی حقیقت ہے جس میں عوام حصہ دار ہوتے ہیں عوامی قوت اپنی تنظیم کے لیے مقتدر طاقتیں پیدا کرتی ہے جو سیاسی قوتیں، اسٹیبلشمنٹ اور حکومتوں میں اپنا اظہار کرتی ہیں۔ عوامی طاقت کا پرمٹ استعمال کرنے والی غیر عوامی قوتیں ہمیشہ سے عوام کے خلاف ایک ’’پارٹی‘‘ بنی ہوئی ہیں۔ گویا ملک ’’عوام‘‘ اور ’’عوام مخالف‘‘ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ میڈیا نے ’’عوام مخالف‘‘ قوتوں کا پردہ چاک کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا بھی ایک ’’پارٹی‘‘ بن گیا ہے، مگر وہ ’’عوام حمایت‘‘ کردار میں سامنے ہے۔ آزاد طاقتیں ہمیشہ عوامی کیبن سے اپنا جھنڈا بلند کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی جب آزاد ہوتی ہیں، عوامی حلقوں سے حیاتِ تازہ لیتی ہیں اور حکومت میں مقتدر حلقوں کی اسیر بن کے ’’عوام مخالف‘‘ رویوں میں ڈھل جاتی ہیں۔
اس وقت میڈیا تجزیاتی سطح پر نہیں، expose کی سطح پر ہے۔ چیزیں تہہ در تہہ بند ہیں، جنہیں پیاز کے چھلکوں کی طرح اتارا جا رہا ہے۔ یہ عمل بے کار تو ہے مگر قصور کس کا ہے؟ پیاز کا یا اُس کا چھلکا اتارنے والے کا؟ ڈبوں کے اندر سے ڈبے نکلتے جا رہے ہیں مگر خزانے کا کہیں پتا نہیں۔ expose ہونے پر خطرہ کس کو ہے، ان کو جو عوام مخالف ’’پارٹی‘‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں اور عرصے سے کرتے آ رہے ہیں۔ power discourse نے عوام کے اندر بھی اپنا نفوذ شروع کر رکھا ہے، لہٰذا یہاں سے میڈیا کے خلاف حمایت بھی سامنے آ رہی ہے۔
اس سارے عمل کے دوران سول سوسائٹی بھی عوام حمایت قوت بن کے سامنے آئی ہے۔ سول سوسائٹی عموماً غیرفعال ادارہ ہوتا ہے جو معاشرے میں متحرک چیزوں کا اعلی درجے کا ناظر کہلایا جا سکتا ہے، جس کا کام معاشرتی سرگرمی پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔ میڈیا کی حد درجہ مداخلت نے اس ادارے کو اپنا کردار ادا کرنے پر اُکسا دیا ہے۔ گویا یہ بے ضرر ادارہ اب اینٹی عوام قوتوں کے لیے ضرر رساں بن چکا ہے۔
ادیب کی سماجیات، سماجی تحرکات کی زَد میں ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادیب اپنے کردار سے آگاہ بھی ہے؟ اُردو ادیب کسی غزل کا پامال قافیہ ہے جو اپنے پہلے قافیے کے وجود میں آنے کے فوری بعد پہچانا جاتا ہے یا ایک آوارہ کاغذ کی طرح، ذرا ہوا چلی اُڑ کے کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔
ادب اور ادیب ہمیشہ سچ کی قوتوں کا نمائندہ ہوتا ہے۔ سچ کے نام پر فقط ’’حقیقتیں‘‘ رہ جانے والی قوتوں کو بے نقاب کرنا ادیب کا کام ہے۔ ایسے سچ جو برہنہ ہیں اُن کو وقار دینا بھی ادبی عمل کا حصہ ہے۔ نجانے وہ دن کب آئے گا جب ہمارے ہاں یہ برہنہ سچ حقیقت کا نام پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہم ابھی اس کھیل میں اس درجہ بھی واقف نہیں کہ ہم کس ٹیم کی طرف ہیں اور ہمارے پاؤں سے لگے فٹ بال کا ہدف کس طرف ہے؟ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ کھیل کون سا ہے۔ اس پہلی شناخت کے بعد اپنی شناخت کا مرحلہ ہے اور پھر کہیں اپنے مقاصد کی شناخت کا مرحلہ آتا ہے۔
انجم سلیمی نے کہا تھا
ابھی یہ ظلم سہہ سکتے ہیں تو ہتھیار مٹ بانٹو
ابھی کچھ روز ان کو اور بھی مظلوم رہنے دو