(رابعہ احسن)
ٹیکنالوجی اور میڈیا کی روزافزوں ترقی نے یقینا “ہمارے لئے سہولیات کا ایک مکمل، تیزرفتار اور قابل اعتماد جہان آباد کر دیا ہے۔ جو کام پہلے کئی کئی دن تک تکمیل کو پہنچتے تهے وہ کمپیوٹرائزڈ ٹیکنالوجی کے مختلف ذرائع کی بدولت صرف چند منٹوں میں وقوع پذیر ہوجاتے ہیں۔ ہر گهر میں کمپیوٹر اور اس سے متعلقہ devices کا ہونا ناگزیر ہو گیا ہے۔ بلکہ اب تو موبائل ہی چلتا پهرتا کمپیوٹر بن گیا ہے۔ جس کی بدولت ہم دنیا میں کہیں بهی بیٹھ کر اپنی ذاتی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں کو manage کر سکتے ہیں۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر چیز کے جہاں مثبت پہلو سامنے آتے ہیں وہیں منفی پہلوؤں سے بهی دوچار ہونا پڑتا ہے پچهلی دو دہائیوں میں الیکٹرانک میڈیا کی ترقی نے ماحول اور طرز زندگی کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے پہلے لوگوں کو عزیزواقارب کی خبریں لینے کیلئے ایک دوسرے کے گهروں میں جانا پڑتا تها۔ مگر اب commuting کا یہ مسئلہ facebook نے قطعی حل کر دیا ہےفیس بک پہ لگنے والے سٹیٹس اور تصاویر سے ہی حتمی اندازہ ہوجاتا ہے کہ دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ ساتھ غیر متعلقہ لوگوں میں آج کل کیا کچھ چل رہا ہے یہ سوشل ویب سائٹ اپنی طرف سے تعلقات کو مضبوط کرنے کیلئے بنائی گئی تهی۔
لیکن صورتحال دراصل مختلف ہو گئی رشتے یکسر ٹوٹ گئے اور دوستیوں کی جڑیں کهوکهلی ہو گئیں فیس بک جہاں بالغ افراد میں لڑائی جهگڑے اور ان گنت قطع تعلقیوں کا باعث بنی وہیں ہمارے نوجوان طبقے میں cyber bullying جیسے مسائل کے فروغ کا ذریعہ بنی۔ cyber bullying صرف فیس بک تک محدود نہیں بلکہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے متعلقہ ہر سہولت نوجوانوں میں غیر مفید مقابلے بازی، جیلسی، احساس کمتری اور بلاوجہ کی احساس برتری کے ساتھ ساتھ دیگر نفسیاتی اور سماجی مسائل کا باعث بن رہی ہے۔
چھ سے بارہ سال کے بچوں کیلئے رات دن ایسی گیمز ایجاد ہورہی ہیں جن میں تشدد، قتل و غارت اور جنسی بے راہ روی جیسی سرگرمیاں بآسانی بچوں تک پہنچ رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے بچے ضدی، تشسدد پسند اور تنہائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ ساتھ ہی مسلسل بیٹھ کر گیمز کهیلنے یا انٹرنیٹ کے غیر ضروری استعمال سے جسمانی ورزش اور کهیل کم ہو کے رہ گیا ہے جو کہ بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشونما کیلئے بہت نقصان دہ ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمی کارکردگی بهی متاثر ہورہی ہے۔ electronic mess کے اس دور میں سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح اپنے بچوں کو ہر ممکنہ حد تک محفوظ رکھ سکتے ہیں چونکہ اتنے زیادہ exposure میں مکمل اجتناب تو مشکل ہی نظر آتا ہے۔
مگر کوشش کریں کہ بچے جب بهی موبائل یا ٹیبلٹ میں انٹرنیٹ استعمال کریں تو آپ ان کی وقتا فوقتا نگرانی کریں کوشش کریں کہ بچے کم سے کم ویڈیو گیمز اور زیادہ سے زیادہ فزیکل گیمز میں حصہ لیں بچوں کے کمرے میں ٹی وی یا کمپیوٹر رکهنے سے گریز کریں۔ کمپیوٹر، ٹی وی ٹیبلٹ اور ایسی تمام تر سہولیات کا استعمال صرف ایسی جگہ تک محدود کریں جہاں آپ مسلسل نظر رکھ سکیں چونکہ زیادہ روک ٹوک سے بچے باغی ہوجاتے ہیں لہٰذا انهیں پیار سے سمجهائیں اور ان کو خود سے بہت قریب رکهیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں ہونے والا کوئی بهی مسئلہ محض آپ کے ڈر اور خوف کی وجہ سے چهپاکر خود کسی مشکل میں نہ پڑ جائیں۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کی ہر برائی خوبصورت ترین طریقے سے ہمارے بچوں کے سامنے پیش کی جارہی ہے۔ ان کے ذہن معصوم ہیں۔ لہٰذا ماں باپ اور تمام بالغ افراد کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف اپنے بچوں بلکہ دوسروں کے بچوں کو بهی ان آفات سے بچانے کیلئے موثر اقدامات کریں۔ کیونکہ یہ معاشرتی مسئلہ ہے یہی بچے، یہی نوجوان ہمارا اور قوم کا مستقبل ہیں اس لئے ہمیں انهیں مثبت سرگرمیوں سے روشناس کرانے اور ہر طرح کی منفی سرگرمیوں سے محفوظ رکهنے کی ممکنہ کوشش کرنی ہے کام واقعی مشکل ہے اور بہت سارا وقت بهی درکار ہے مگر اپنے کل کو محفوظ کرنے کیلئے آج کا کچھ حصہ تو قربان کر سکتے ہیں ناں! نتائج انشاءاللہ اچھے ہوں گے۔