کِیپ یَور نامۂِ اعمال اَپڈیٹ
از، سرفراز سخی
نیکی کر دریا میں ڈال، با ہمت لوگوں کا کام ہے۔ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو صدق و صَفا کو مان دیتے ہیں، رتبے کو نہیں۔
یہ عشق کے معاملات ہیں جو ہر کسی سے سنبھالے نہیں جاتے، اور نہ ہی ان کا بار کسی قَوِّیُ الْجُثَّہ سے اٹھایا جا سکتا ہے۔
یہ بار تو وہی اٹھا سکتے ہیں جنھوں نے صحراؤں کی تشنگی کو اپنی تشنہ لبی سمجھا ہو۔
جنھوں نے تخت و تاج سے حسین و بٙلٙند عزت و آبرو کو جانا ہو۔ جنھوں نے احساس کمایا ہو۔ دکھوں میں سکھ چین پایا ہو۔
آج کل تو میاں زمانہ یہ ہے کہ نیکی کر فیس بُک پہ ڈال، ٹوِیٹر پہ ڈال، اِنسٹا پہ ڈال، کیوں کہ دورِ حاضر کے دریا، جَھرنے، ندی، نالے سب یہی ہیں۔
زمانہ گلوبل ولیج بنا چُکا ہے، اور انسان اس میں بسنے والا ایک سَیل فُونیا، اِنٹرنَیٹیا، یعنی انگوٹھوں کو اسکرین پر نچاتے، بھگاتے، دوڑاتے گزارنا ہی اس کا نصب العین و مقصدِ حیات ہے۔
اب اس مُسْتَقِیم الْفِکْر کو اپنے اعمال کی فکر ذرا نہیں رہی۔ اسے اب اگر کچھ فکر ہے تو تصویروں کی اپنی لگائی گئی پوسٹوں کی اسٹیٹسوں کی ٹوِیٹس کی، ختم ہوتے ڈیٹا کی، کم ہوتی بیٹری کی۔
جب کسی سَیل فُونیے اور اِنٹرنَیٹیے سے پسِ مرگ مُنکر و نکِیر حساب لینے آئیں گے، تو وہ انھیں اپنی ہر نیکی اور پارسائی والی پوسٹ پر نتھی، یعنی ٹیگ کرنا شروع کرے گا۔
انھیں اپنی گیلری کے کارِ خیر والے ہر البم کو اپنے ہی موبائل پر برائٹنَیس فُل کر کے دکھائے گا، اور نکِیرَین اس کے ہر ٹوِیٹ کو ری ٹوِیٹ اور اس کی ہر پوسٹ پر دل والا ری ایکٹ اور کمنٹ کرنے میں اس قدر مشغول ہو جائیں گے کہ اُن کا کسی پوسٹ پہ آ کر ڈیلی کا انٹرنیٹ پیکیج ختم ہو جائے گا۔اور وہ مارے ندامت کے اُس صالِح بندے کو کچھ کہہ بھی نہ سکیں گے، سوائے اپنا ملُول چہرہ دکھانے کے۔
مگر وہ بھلا انسان پے در پے آتے نوٹی-فِیکِیشنز کے یکا یک رک جانے کے باعث تاڑ لے گا کہ ان کا ڈیٹا ختم ہو گیا ہے۔ اور وہ یہاں مزید نیکو کار، ساہُوکار بنتے ہوئے اپنے موبائل کا ہاٹ اسپاٹ انھیں آن کر دے گا!
اور یوں ایک شَریفُ النَّفْس سَیل فُونیے اِنٹرنَیٹیے کا نامۂِ اعمال خدائے لَم یَزَل کو اپڈیٹ کر کے ارسال کر دیا جائے گا۔
لیکن یہ فقط اک سرِیعُ الزَّوال و بے ثبات سوچ ہے، اور حقیقت یقیناً اس خام سوچ کے بر عکس۔