میرے درد کی دوا کرے کوئی
(شیخ محمد ہاشم)
گول گول دنیا کے نقشے پر ایک ملک جو مشرق کی سمت واقع ہے وہ دنیا کے لئے اور خود اپنی عوام کے لئے حیرت کدہ ہے۔حیرت انگیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کی اشرافیہ اور یہاں کے عوام مغرب کی اصول پسندی ،ایمانداری،امن پسندی اورترقی کے گن گاتے تو نظر آتے ہیں لیکن ان پر عمل کرنے پر ان کو اپنا آپ مرتا نظر آتا ہے۔ اُصول پسندی ،ایمانداری،امن پسندی،ترقی پر ان کے مفادات کی سوچ غالب آجاتی ہے اور پھر ایک اچھے معاشرے کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
یہاں کی عوام اللہ کے سوا کسی کو معبود نہیں سمجھتی ، لیکن سیاست دانوں کی پوجا مقدس فریضہ سمجھ کر کرتی ہے۔یہاں کے علماء خود کشی کو تو حرام قرار دیتے ہیں لیکن خودکشی کے محرکات پر آواز اُٹھانا اپنا فرض نہیں سمجھتے۔ گول گول دنیا کا نقشہ جب رکتا ہے تو تاریک معاشرے کے کفن میں لپٹا پاکستان نظر آتا ہے۔جہاں جبر،بربریت، فراڈ، عزت نفس کی پامالی ،بے اُصولی، بے ایمانی،امن وامان کا فقدان،ترقی کے بجائے تنزلی، کی گندے نالے کے گندے پانی میں تیرتے کیڑوں کی مانند افزائش ہو رہی ہے ،کمال کے حکمران ہیں ،کمال کے ادارے ہیں جنھوں نے قوم کویکجا کرنے کے بجائے کئی حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔
بے اصولی اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا اس قوم کی کوئی ذاتی رائے نہیں ہے یہ قوم کسی ایک قوم کی طرح ایک رائے پر قائم نظر نہیں آتی ہے ، میری رائے کچھ ہوگی تو دوسرے کی رائے میری رائے سے مختلف ہوگی کیونکہ میں کسی اور جماعت ، گروہ،فرقہ یا برادری سے تعلق رکھتا ہوں تو دوسرا کسی اور جماعت ، گروہ ،فرقہ اور برادری سے۔ مختلف جماعتوں،گروہ،فرقہ اور برادری سے تعلق رکھنا کوئی عیب زدہ نہیں ہوتا لیکن پاکستان میں مخالف جماعت،گروہ،فرقہ،یا برادری سے تعلق رکھنا دشمنی کی حد تک معیوب سمجھا جاتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ نہ میں اُس کی رائے کا احترام کرتا ہوں اور نہ ہی وہ میری رائے کا احترام کرنے کے لئے تیار ہے، اختلاف رائے کی پاداش میں بے شمار لوگ ملک عدم سدھار چکے ہیں۔ جبکہ رائے،دلائل اورحجت ہی سچ کی تلاش کے راستے ہیں لیکن جب سچ کے راستے ہی نا ہموار اورخاردار ہوں جائیں تو اس راستے پر چلنا دشوارہوجاتاہے ،جس کے دوسرے سرے پر ہمارے حقوق کے انبار لگے ہیں۔
ایک پگڈنڈی ہے جو سچ کے ناہموار اور خاردار راستوں کے برابر سے نکل رہی ہے جس کی دوسری جانب مفادات ہیں اس راستے پر طاقتوروں کا جم غفیر ہے جو مفادات کے حصول کی خاطر ایک دوسرے سے دست وگریبان ہیں۔اس پگڈنڈی پر زور آور نہ ہمیں برداشت کرتے ہیں نہ ہی دوسروں کو ،پھر ہم میں سے کون ایسا ہے جو سچ کے خاردار اور ناہموار راستوں پر چلنے کو تیار ہے ،ہم دونوں مختلف جماعتوں ،گروہ،فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کوکیا چاہیئے ،حق ہی تو چاہیئے ،پھر حق کے حصول کے لئے دونوں کی رائے مختلف کیوں ہے؟نہ ہی میں بقراط ہوں نہ ہی وہ سقراط ہے ،تو پھر ہم دونوں ایک دوسرے کی دلیل ،حجت ،رائے کو تسلیم کیوں نہیں کرلیتے؟
سوشل میڈیا اور الیکڑونک میڈیا ہر دو نقطہ نظر کا پرچار کر رہے ہیں۔ ایک عجیب طوفان بد تمیزی ہے جو آداب و طور طریقے سے عاری معاشرے کو پروان چڑھانے میں مرکزی کردار ادا کرنے کی تیز رفتار دوڑ میں آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔نتیجہ سامنے ہے کہ بھیڑ بکریوں کی مانند جتھے سڑکوں پہ ا پنی دلیل ،اپنی حجت منوانے پر خون حق و نا حق بہاکر اپنے طور پر انصاف کرتے نظر آ رہے ہیں جبکہ سروں کو پیروں تلے روندنا انصاف اورانسانیت کے اُصولوں کے خلاف ہے ، ہم بھیڑ بکریاں تو نہیں ہیں کہ لاٹھیوں کے ہانکنے پر چل پڑیں، ہر نقطہ نظر،ہر موقف،ہر قانون،ہر فتویٰ آسمانی صحیفہ تو نہیں ہوتا ان میں بحث کی ضرورت ہوتی ہے بحث کے بغیر انتہائی اقدام ایک اچھے معاشرے کے قدموں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
یہاں تو والدین بھی اس دلیل کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ”امتحان میں نقل کرکے آپ کا بچہ تو پاس ہو جائے گا لیکن اس کا مستقبل تباہ ہو جائے گا”والدین کے ذہن میں آخر وہ کون سی دلیل ہے جو ہماری دلیل کو جھٹلاتی ہے؟رہا تعلیمی نظام کا معاملہ تو نقشے میں موجود پاکستان میں نہ تو نظام ہے اور نہ ہی تعلیم۔
دلیلوں اور رائے کی بساط بچھا کر یہ کہا جائے کہ سچ کی” راہ پر چلو “توسمجھا جاتا ہے کہ اس میں بھی اس کا کوئی مفاد ہو سکتا ہے ،یہ ہی وہ بے اعتمادی کا نکتہ ہے جو ہمیں یکجا ہونے سے روکتا ہے۔یہاں بے حسی ،نا اتفاقی ،حسد،دشمنی کا پانسہ پھینک کر لوٹ مار وکرپشن کی بازی جیتی گئی ہے۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ جس گروہ،جماعت،فرقہ یا برادری کا میں حمائتی ہوں وہ حرام خورہے، کذابوں اور مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے اس کے باوجود میں تمام دلائل و حجت کو جھٹلاتا ہوں اور سچائی کے ناہموار راستے کو چھوڑ کر مفاد پرستوں کی ہمنوائی کرنے میں اپنی عافیت سمجھتا ہوں ۔میری کوئی رائے نہیں ہے،میرے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ،میری حجت گروی رکھ لی گئی ہے۔میں سچ بولنا ،سچ سننا نہیں چاہتا ، نہ ہی سچ کے ناہموار کٹھن راستوں پر چلنا چاہتا ہوں،مجھ کو کسی پر اعتماد نہیں ہے کیونکہ میرا جامد دماغ دانائی سے محروم ہے۔
ایک دانا شخص نے توڑ دیا ہے اس کا ،فرماتے ہیں ” اپنے ذہن سے سوچنے اور اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی عادت ڈالنے کی ضرورت ہے،سچ خود ہی ہزار پردوں میں عیاں ہو جائے گا۔ آو سچائی کی راہ سے خاروں کو صاف کریں ۔ میں تم پر اعتماد کروں ،تم مجھ پر اعتماد کرو۔سچائی کی خواہش کے درمیان وہ رشتہ قائم کریں جو شائستگی کی پہچان ہے۔آو بحث شروع کریں وہ بحث جو سچائی کے دوسرے سرے تک لے جاتی ہے جہاں ہمارے حقوق کے انبار لگے ہیں ”
میں دیکھ رہا ہوں گول نقشے میں ساکت پاکستان کو،چار دریاوں کے لہراتی بل کھاتی موجوں کو،میں دیکھ رہا حد نگاہ تک پھیلے سمندر کو،اس میں صحرا بھی ہیں پہاڑبھی ہیں،قدرتی وسائل بھی ہیں ،میں سوچ رہا ہوں کہ سوچ ہی انسان کو آزاد یا غلام بناتی ہے ،دونوں کیفیات کا انحصار انسانی ارادوں پر ہے ۔پھر اختلاف رائے کیوں، پھر حجت و دلیل کی پامالی کیوں؟ ہمارے سر پہ جو اشرف المخلوقات کا تاج سجاہوا ہے، اُس کی لاج کون رکھے گا ؟
کدورتوں کے درمیاں، عداوتوں کے درمیاں
تما م دوست اجنبی ہیں دوستوں کے درمیاں
یہ سوچتے ہیں، کب تلک ضمیر کو بچائیں گے
اگر یوں ہی جیا کریں،ضرورتوں کے درمیاں
پیرزادہ قاسم