سوشلسٹ روایت : موسیٰ سے لینن تک از الیگزینڈر گرے، ترجمہ یاسر جواد

ایک روزن لکھاری
نعیم بیگ، صاحبِ مضمون

سوشلسٹ روایت : موسیٰ سے لینن تک از الیگزینڈر گرے، ترجمہ یاسر جواد

نعیم بیگ

1۔ ’’مارکس کے ماخذوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جا سکتی ہے، حالانکہ یہاں دستیاب جگہ کی وجہ سے طائرانہ نظر محض نام شماری کرنے سے بمشکل ہی کچھ زیادہ ہوگی۔ سب سے پہلے تو ہیگل ہے جو اُس کے ابتدائی برسوں پر چھایا رہا؛ کیونکہ مارکس کی نسل کے زمانے میں ہیگلیئن ازم ۱۸۹۰.ء کی دھائی کے اواخر میں فیبیئن ازم جیسا ہی فیشن ایبل تھا۔ ہیگل سے اس نے موازنے اور مجادلے کے ذریعے ترقی کا اصول سیکھا۔ ہر حالت میں عمل یا مقولہ اپنی ایک نفی رکھتا ہے، جو آگے چل کر نفی کی نفی کو تحریک دلاتا ہے اور جو اپنے اندر اصل مثبت اور بعد کی نفی رکھتی ہے۔ ہر ایک تھیسس اپنے اینٹی تھیسس کو ردعمل دیتا ہے جس کے نتیجے میں تھیسس اور انیٹی تھیسس کے ملے سے سنتھیسس پیدا ہوتا ہے۔ ہیگل نے اپنا سامان و آلات مثالیت کی گاڑی میں جوتا۔ (صفحہ ۔۳۷۰)

2۔ یہ فوئر باخ ہی تھے جنہوں نے مارکس کو ایک ’مادیت پسند‘ بنایا، لیکن مارکس ہیگل کی مثالیت کو ترک کرنے کے باوجود زندگی بھر ہیگلی جدلیات کی روشنی میں سوچتا رہا، اور کسی بھی ایسی چیز میں خصوصی مسرت پائی جو نفی کی نفی کرتی معلوم ہوئی۔‘‘

سوشلسٹ روایت
3۔ ’’ طبقاتی جدوجہد کی تھیوری تاریخ کے مادی نظریے کے ساتھ گتھی ہوئی ہے، کم از کم مارکس نے اسے ایسے ہی پیش کیا۔ درحقیقت تاریخ کا مادی نظریہ اپنا اظہار طبقات کے درمیان دائمی جدوجہد میں اور کے ذریعے کرتا ہے۔ کیمونسٹ مینی فیسٹو آزاد آدمی اور غلام، شرفا اور عوام الناس، جاگیردار اور مزارعے، گِلڈ ماسٹر اور کاریگر کا تضاد ریکارڈ کرتے ہوئے صدیوں کا سفر آن کی آن میں طے کر لیتا ہے۔ طبقاتی کشمکش کے ریکارڈ کے سوا اور کوئی تاریخ نہیں؛ اور قیاسی طور پر طبقاتی جدوجہد کی چھانٹی سے چھانے جانے کے بعد تاریخ کی بس تلچھٹ ہی باقی بچتی ہے۔‘‘ (صفحہ۔ ۳۷۷)

یہ مختصر اقتباسات حال ہی میں بک ہوم لاہور سے شائع ہونے والے ترجمے ’سوشلسٹ روایت : موسیٰ سے لینن تک ‘‘ سے لیے گئے ہیں۔ اس انگلش کتاب ’’سوشلسٹ ٹریڈیشن: موزز ٹو لینن‘‘ کے مصنف معروف سکاٹش شاعر ، محقق، مترجم ، سول سرونٹ اور ماہر معاشیات الیگزینڈر گرے ( ۱۹۶۸۔۱۸۸۲.ء) ہیں۔ ان کی دیگر تصانیف اسی ترجمے کے فلیپ پر درج ہیں۔ یہ کتاب تقریباً ۱۹۴۴.ء کے لگ بھگ لکھی گئی۔

بظاہر یہ کتاب کارل مارکس کے نظریے اور ہیگل کے فلسفے کی تشریح کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، جس میں سوشلسٹ روایت کو اس کے ابتدائی خیال اور یونانی روایت سے یہودی اور مسیحی روایت تک لایا گیا ہے۔ عہد نامہ قدیم سے جدید تک کا مسیحی سفر اور عمومی نکات اس کے باب دوئم کا قوت بخش حصہ ہیں۔ بعد ازاں ٹامس مور کی یو ٹوپیا اور فینی لون کے عہد کا ذکر ہے۔ رُوسو، میبلی، موریلی، بابیوف اور ساں سموں اور اس کے پیروکاروں کا تفصیلی جائزہ ہے۔

چارلس فوریے اور ابتدائی انگلش سوشلزم میں ما قبل مارکسی وہ تمام سوشل نظریات شامل ہیں، جو کسی نہ کسی صورت اپنے جوہر میں سوشلزم کی اساس کو رکھتے ہیں۔ تاہم یہ کہنا از حد ضروری ہے کہ اس کتاب میں سوشلزم کی روایت کو بنیادی طور پر کمتر اور دائروں کے اندر مقید، پسند و ناپسند کے حصار میں رکھا گیا ہے۔ اس ضمن میں اپنے دیباچہ میں الیگزنڈر گرے خود کہتے ہیں۔

’’اگرچہ میں اپنی پسند و ناپسند کو تسلیم کرنے کو تیار ہوں اور اس کے لیے کچھ جگہوں پر میں نے زیادہ ہمدردی دکھائی ہے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ میں نے کہیں بھی نا انصافی کی۔ کم از کم یہاں دستیاب گنجائش کے مطابق میں نے اپنے گواہوں کو وہ سب کچھ کہنے دیا جو وہ کہنا چاہتے تھے اور ان کے اپنے الفاظ پیش کیے۔ (یہاں الیگزینڈر کی گواہوں سے مراد وہ کیمونسٹ اور منحرف فلاسفرز ہیں جس میں رُوسو اور ہیگل سے لے کر کارل مارکس اور اینگلز تک سبھی شامل ہیں)۔ میں نے اپنے دل کو اچھی طرح ٹٹول کر دیکھا اور اعتراف کرتا ہوں اگر اگلی دنیا میں ہم سب کسی ایلائس میں اکھٹے ہوئے تو میں صرف کارل مارکس، لاساں اور رُوسو کے ساتھ میل جول نہیں رکھنا چاہوں گا۔ میں نے قاری کو اپنی ممکنہ جانب داری سے خبر دار کر دیا ہے۔ ‘‘ (صفحہ۔ ۹)

اس ابتدائیہ پیش لفظ سے یہ نتیجہ نکالنا ناممکن نہیں رہا، کہ الیگزنڈر نے درحقیقت سوشلسٹ روایت کو نہ صرف رد کر دیا ہے، بلکہ وہ اپنے آخری باب میں کھُل کر لبرل ازم اور جمہوریت کے نظام کے فلسفے کو درست سمجھتے ہوئے اس پر کاربند رہنا کہیں بہتر سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جمہوریت کا یہ جوہر ہے کہ غالب اکثریت کے خیالات میں خلقی طور پر موجود خطرات کی نشان دہی کرنے کو کوئی موجود ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

’’ آج کوئی ساں سموں ، فوریے کہاں ہیں؟ اگر آج وہ جی اٹھیں اور بولنے لگیں تو کون ان کی بات سنے گا۔ موجودہ زمانے کی عظیم ضرورت لبرل ازم کے ایک پیام بر کے لیے ہے۔ اس لیے نہیں کہ لبرل ازم دانش و صداقت کا خصوصی خزانہ ہے، بلکہ اس لیے کہ لبرل ازم چیزوں کے متوازن نظریے میں ایک لازمی جزو ہے۔‘‘

اس کتاب کے مطالعہ سے میرے کچھ دیگر احساسات بھی شعلہ گر ہوئے۔ جو ماضی میں یورپ میں میری رہائش کے دوران کے تجربات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ برطانوی اور بالخصوص سکاٹس کسی طور پر فرانسیسی اور جرمن فلسفیوں کو پسند نہیں کرتے، اور زیادہ تر ادبی میدان میں انہوں نے جرمن اور فرنچ فلاسفرز کو نہ صرف رد کیا، بلکہ متوازن نظریے کے طور پر اپنے خیالات کو انتقادی مہمیز لگاتے ہوئے نفسیاتی طور پر اپنے خیالات کو ایسے سچ کی طرح پیش کیا، جیسے یہ حتمی ہو۔ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے یہ محسوس ہوا۔
تاہم مصنف کے مطابق سوشلزم کی بعد از مارکس ترقی مکمل طور پر مارکس سے مشروط ہی رہی۔ انہوں نے یہ واضح کیا کہ سوشلسٹ پارٹی کے اندر مارکس کے خلاف نمایاں ردعمل ترمیم پسند تحریک سے ملتا ہے جس کا مرکزی نمائندہ برنسٹن (۱۹۳۲۔۱۸۵۰.ء) تھا۔ مصنف کا خیال ہے کہ القا کی مقدار خاصی زیادہ تھی، جو واضح عملی صورت اختیار نہ کر پایا۔ ( صفحہ ۱۷)

یہاں یہ ذکر کرنا از حد لازم ہے کہ سوشلزم روایت کو بیان کرتے ہوئے الیگزینڈر نے سوشلزم کی اولین روایت کو جنہیں وہ اپنے تعیں سمجھتا ہے کہ افلاطون اور لائی کرگس کیمونسٹ تھیوری کو متشکل کرنے میں مستقل اثرات مرتب کرتے رہے ہیں، بالخصوص افلاطون پر یہ بات صادق آتی ہے ( صفحہ۔ ۲۳)۔ اس کا خیال ہے کہ یونان نے کیمونزم کا تصور اور نظریہ مہیا کیا ہے۔ جبکہ وہ بیک وقت افلاطون کی جمہوریہ اور قوانین کو بڑی حد تک یونان کی میراث تصور کرتا ہے۔ یہاں وہ یونانی کیمونزم کو تفصیل سے گفتگو میں لاتا ہے۔

بعد ازاں وہ مسیحیت پر گفتگو کرتے ہوئے ڈیوائین انسٹیٹیوٹ کو اہمیت دیتا ہے۔ وہ لیکٹینٹیس جو ابتدائی اور قدیم مسیحی مصنفین میں سے ایک ہے، کے اساسی اشتراکی نظریے کو پیش کرتا ہے۔ ’’ خدا نے زمین سب کو مشترکہ طور پر عطا کی تھی، تاکہ وہ مل جل کر اپنی زندگی گزاریں۔ جنون اور لالچ میں آکر سب چیزیں اپنے لیے نہ رکھیں اور سب لوگوں کے لیے بنائی گئی اشیا کی کسی کو احتیاج نہ ہو۔ ‘‘

وہ’ یہاں پر میدان میں نشان دہی کرنے، یا حتیٰ کہ تقسیم کرنے والی باڑ لگانے کی بھی اجازت نہیں‘ کی بھی بات کرتا ہے۔
میری رائے میں مجموعی طور پر اس کتاب کو جو اس کے عنوان کی مناسبت ’سوشلسٹ روایت ۔ موسیٰ سے لینن تک‘ کی سوشلسٹ تفہیم اور تاریخ کی تناظر میں ہے، سے پڑھا جانا چاہیے ۔یہ سبط حسن کے مماثل عنوان رکھتے ہوئے کتاب ’موسیٰ سے مارکس تک ‘ از مکتبہ دانیال کراچی سے اپنے موضوع کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔

یہ کتاب کل ۶۲۴ صفحات پر مشتمل ہے جس میں اٹھارہ باب بشمول لینن اور اختتامی توضیحی باب بھی شامل ہے۔ اس کتاب کی اشاعت میرے خیال میں ہماری سوسائٹی کے تناظر میں ایک نئے مباحث کو جنم دے گی، جو بیک وقت کئی ایک فلسفیانہ جہات میں سفر کر رہی ہے، اور کسی ایک پر متفق نہیں۔

یاسر جواد کا ترجمہ قابل صد ستائش ہے، یقیناً یہ ایک بہت بڑا کام تھا، جو انھوں نے سر انجام دیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ انھیں ترجمہ کرتے دیگر یورپی زبانوں کے اقتباسات کی وجہ سے وقت کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، تاہم اس میں اب بھی ایڈیٹنگ کی ضرورت ہے۔ بک ہوم لاہور نے خوبصورت اور دیدہ زیب ٹائٹل اور کتاب کی صورت شائع کیا ہے۔ تاہم اس کی قیمت پر مجھے تحفظات ہیں۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔