معاشرہ، تعلیم اور تبدیلی
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
نو گیارہ 9/11 کے واقعے پر بننے والے کمیشن کی رپورٹ جب سامنے آئی تو اس کے آخری حصے میں کمیشن نے کچھ سفارشات بھی کی تھیں۔ ان میں سے ایک پاکستان کی تعلیم بہتر بنانے کے لیے مالی امدادکی سفارش تھی۔ رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ مدرسے طلبا کے ذہنوں میں ایک خاص طرح کی محدود سوچ کے ذریعے ممکنہ دہشت گرد پیدا کر رہے ہیں۔
اس سے پیش تر کہ ہم تعلیم اور انتہا پسندی اور دہشت گردی میں ممکنہ ربط کا ذکر کریں یہ ضروری ہے کہ ہم انتہا پسندی کی اصطلاح کا جائزہ لیں۔ لغت کے مطابق، انتہا پسندی در اصل اس مَیلان یا رجحان کا نام ہے، ‘جو لوگوں کو انتہاؤں تک لے جاتا ہے‘۔ لیکن ہر لفظ کا لغوی کے علاوہ ایک معنی وہ ہوتا ہے، جو سیاسی اور معاشرتی فضا سے جنم لیتا ہے۔
معروف ماہرِ سماجیات فُوکو Foucault کے مطابق، طاقت اور زبان کا گہرا تعلق ہے۔ ایک طاقت ور فرد ‘گروہ یا ملک ایک خاص طرح کے ڈسکورس کو تشکیل دیتا ہے۔‘ اس کو اعتبار فراہم کرتا ہے اور اس کی مؤثر ترویج کرتا ہے۔ اس کے عوض، تشکیل کردہ ڈسکورس انہیں طاقت ور فرد، گروہ یا ملک کے تمام اعمال کو جواز فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم انتہا پسندی کے ان معانی پر غور کریں، جو معاشرتی اور معاشی طور پر مضبوط گروہ، یا ملک نے تجویز کیے ہیں۔
یہاں یہ امر دل چسپی کا باعث ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ کچھ لوگوں کے نزدیک حریت پسند ہوتا ہے، اور کچھ کے نزدیک دہشت گرد، لیکن آخر میں ان لوگوں کے معانی معتبر ہوتے ہیں، جن کے پاس علم کی پیدا وار کے ذرائع (Sources of Production of (Knowledge ہوتے ہیں۔
مزید دیکھیے: نوجوانوں میں بڑھتی انتہا پسندی اور تعلیمی ادارے از، ایمان ملک
علم و جستجو یا شدت پسندی از، اصغر بشیر
دل چسپ بات یہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے معانی طاقت ور گروہوں کی ضروریات اور مفادات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ انتہا پسندی کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں، مثلاً: مذہبی یا سیاسی۔ اسی طرح انتہا پسندی کے اظہار کے بھی کئی طریقے ہیں۔ انتہا پسندی کی مختلف شکلیں دیکھنے کے بعد یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان وجوہ کو جاننے کی کوششیں کریں، جن کی وجہ سے انتہا پسندی وجود میں آتی ہے، جو بعض اوقات تشدد کے راستے پر لے جاتی ہے۔
انتہا پسندی کی سب سے اہم وجہ جائز حقوق کا نا ملنا ہے۔ اس کا مطلب سیاسی، معاشی، تعلیمی اور قانونی مواقع کی عدم دست یابی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کچھ افراد پر سماجی انصاف اور معاشی مساوات کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔
یہاں ہم صرف تعلیمی مواقع کا ذکر کریں گے، جس کی بدولت آزادی، ڈیویلپمنٹ اور سماجی انصاف کے در کھلتے ہیں۔ تعلیم کے حصول کا ایک اہم ذریعہ سکول ہیں۔ سکول وہ سماجی ادارہ ہے، جو معاشرے کی سوچ پر اثر انداز ہونے کی طاقت رکھتا ہے۔
ماضی میں سکول کی بہ طور سماجی ادارہ اس لیے بھی اہمیت تھی کہ اس کے ہم راہ دو اور سماجی ادارے، مذہب اور خاندان بھی تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ سکول کے سماجی ادارے پر کیا گزری اس کا ذکر ہم آگے کریں گے۔
اب ہم ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہیں، جو کسی بھی معاشرے کے لیے انتہائی تشویش ناک ہیں۔ اس وقت تقریباً اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ اسی طرح تقریباً 35 فی صد بچے پانچویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے ڈراپ آؤٹ ہو جاتے ہیں۔
اس لحاظ سے پاکستان دنیا میں دوسرا بڑا ملک ہے، جس میں اس کثیر تعداد میں بچے ڈراپ آؤٹ ہوتے ہیں۔ ایجوکیشن ایمرجنسی رپورٹ کے مطابق میلینئم ڈویلپمنٹ ”Education for All‘‘ یعنی تعلیم سب کے لیے کا ہدف 2015ء میں پورا ہونا چاہیے تھا۔
اب 2019ء شروع ہو چکا ہے اور ہنوز ہم اس ہدف سے کوسوں دور ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق، اب ہم یہ ہدف پنجاب میں 2041، سندھ میں 2049، خیبر پختون خوا میں 2064ء اور بلوچستان میں 2100ء میں حاصل کر سکیں۔
اس صورتِ حال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکومتی سطح پر تعلیم کبھی حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی۔ تعلیم پر ہم جی ڈی پی کا صرف 2.2 فیصدخرچ کر رہے ہیں، جو جنوبی ایشیا کے ممالک میں کم ترین فنڈنگ ہے۔
اب ہم ان بچوں کی تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں، جو سکولوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر سکولوں میں گِھسا پٹا نصاب ‘بے رنگ کتابیں‘، دقیانوسی تدریسی عمل، اور رَٹّے پر مبنی نظامِ امتحان رائج ہے۔ اس سارے نظام میں تخلیقی سوچ کا گزر مشکل ہے۔
یوں محدود سوچ کا الزام صرف مدرسوں کو دینا جائز نہیں، اس طرح کی سوچ ہمارے ان سکولوں میں بھی پیدا ہونے کے امکانات ہیں، جہاں استاد کی رائے سے اختلاف کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ بچوں کو آزادانہ سوچنے کی بجائے لکیر کا فقیر بنا دیا جاتا ہے۔ آزادئِ فکر اور آزادیِٔ رائے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ یوں تخلیق کی بہ جائے تقلید کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ طالب علم کے کلاس میں سوال کرنے یا استاد کی رائے سے اختلاف کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
اگر ہمیں واقعی تعلیم کو ڈیویلپمنٹ کا زینہ بنانا ہے اور اسے آزادی اور سماجی انصاف کے خوابوں سے جوڑنا ہے تو ہمیں تعلیم کے سلسلے میں بنیادی اور انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔
طریقۂ تدریس کو جدید اور تخلیقی بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا۔ جہاں استاد کا کام صرف علم کی منتقلی نہ ہو، بَل کہ سوچ اور رویوں میں بھی تبدیلی لانا استاد کے فرائض میں شامل ہو۔ جو اس کے طالب علموں کی زندگیوں اور معاشرے میں نظر آئیں۔ جہاں انہیں امن، روا داری اور اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں سے محبت کا سبق دیا جائے۔ لیکن ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ صرف سکول کر سکتے ہیں؟
کیا ہمارے سکول سماجی انصاف کی عدم دست یابی اور معاشی نہ ہمواری کے چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں، اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے، سکول بہ طور ایک سماجی ادارہ پچھلی دہائیوں میں کم زور ہوا ہے۔ اس کی دوسری اہم وجہ میڈیا کا بہ طور اہم سماجی ادارہ ابھرنا ہے، کیوں کہ اس کے ذریعے پیغام کو کم وقت میں زیادہ لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ خارجی طور پر سماجی، معاشی، اور سیاسی قوتیں ہیں جو معاشی اور معاشرتی نا ہمواریوں کا باعث بنتی ہیں، اگر ہم انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو صرف رسمی تعلیم کافی نہیں۔ اس کے لیے ہمیں غیر رسمی تعلیم کے ذرائع سے بھی مدد لینا ہو گی۔
ہمیں اپنی تدریس کے روایتی طریقوں کو دوسرے سماجی اداروں سے، مثلاً، میڈیا سے جوڑنا ہو گا۔ انتہا پسندی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ معاشرے میں افراد کو تعلیمی، معاشرتی، معاشی اور قانونی مواقع میں برابر کا حصہ ملے۔
اگر ہمیں واقعی تعلیم کو ڈیویلپمنٹ کا زینہ بنانا ہے اور اسے آزادی اور سماجی انصاف کے خوابوں سے جوڑنا ہے تو ہمیں تعلیم کے سلسلے میں بنیادی اور انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ طریقۂ تدریس کو جدید اور تخلیقی بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا۔ جہاں استاد کا کام صرف علم کی منتقلی نہ ہو، بَل کہ سوچ اور رویوں میں بھی تبدیلی لانا استاد کے فرائض میں شامل ہو، جو اس کے طالب علموں کی زندگیوں اور معاشرے میں نظر آئیں، جہاں انہیں امن، روا داری اور اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں سے محبت کا سبق دیا جائے۔