سقراطی طنز ڈبلیو ٹی سٹیس دوسری قسط
ترجمہ از، غلامِ شبیر
(A Critical History of Greek Philosophy by W.T Stace سے ایک اقتباس)
سقراط پر تیسرا بڑا اعتراض ان کی مذمت کرنے کا تھا۔ ان اعتراضات کو ان کے خلاف بنیاد بنانے والے اس وقت کے مقبول صاحبانِ دماغ تھے جو انھیں سوفسطائی استدلالوں میں الجھائے ہوئے تھے۔ جن کی یہ روش بالکل بے تُکی تھی وہ اس لیے کہ سقراط اپنی زندگی کے انداز کو سوفسطائی استدلالوں سے جوڑتے تھے اور نہ ہی اپنی فکری دنیا میں ایسی رغبت رکھتے تھے جو سراسر سوفسطائی فکر کی ضد ہو۔
اس وقت کے مقبول صاحبانِ دماغ کا اس طرح کا پیدا کردہ الجھاؤ واضح طور پر اس وقت کے یونانی ڈرامہ نگار Aristophanes کے مزاحیہ کھیل The Cloud سے صاف دکھائی دیتا ہے۔ یہ ڈرامہ نگار اپنی سوچ میں رجعت پسند، سیاسی امور میں دل چسپی رکھنے والے فرد تھے، جو سوفسطائیوں کے اس دعویٰ کی بناء پر نفرت کرتے تھے کہ وہ جدیدیت کے نمائندہ ہیں۔
وہ اپنے مزاحیہ کھیل The Cloud میں ان کی ہِجو کرتے ہیں، جس میں سقراط مرکزی کردار اور سوفسطائیوں کے رہ نما کی حیثیت سے ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ اس بات کی حقیقت کو عیاں کرتا تھا کہ سقراط ایتھنز کے سوفسطائیوں کی ایک فاش غلطی تھی۔ Aristophanes اس مغالطے کو اپنے کھیل میں مزید متعارف کر کے خود کو تنگ حالات کے سپرد نہیں کر سکتے تھے، جس وجہ سے کھیل کے سامعین ہی نہ رہیں۔ پر اس کا اتنا اثر ضرور ہوا کہ پورے ایتھنز میں رد عمل کی لہر اٹھی۔ جو سوفسطائیوں کے لیے بہت بڑا خطرہ تھا، جو سچائی، بھلائی کے تمام معیارات کے درست بانی تصور کیے جاتے تھے۔ سقراط سوفسطائی فلسفہ کے خلاف ہجومی نقطۂِ نظر کے شکار ہو گئے۔
سقراط نے اس مصیبت کو بڑی شان اور اعتماد کے ساتھ قابو میں لائے۔ ان دنوں معمول تھا کہ مجرم آدمی زار و قطار روتا اور آہ و بکا کرتا، ججوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ان کے سامنے گڑگڑاتا، خود کو ذلیل کر کے ان کی چاپلُوسی کرتا۔ کورٹ میں اپنی بیوی اور بچوں کو لاتا تا کہ معافی مل سکے۔
سقراط نے ایسے تمام کام کرنے سے بے زاری اختیار کی ان کے لیے یہ غیر انسانی طرز تھا۔ ان کا یہ دفاع در حقیقت اپنا دفاع نہیں تھا، بَل کہ اس کا مقصد ججوں اور ایتھنز کے لوگوں کو ان کی خرابی اور عیب سے آشنائی دینا اور اصلاح کرنا تھا۔
سقراط کا ایسا طرزِ عمل یقیناً ان کی مذمت تھا۔ یہ واضح ہے کہ اگر وہ ذلت و رسوائی یا پستی کا راستہ اختیار کرتے، یعنی مصالحت کا، تو ایسی صورت میں ان پر لگائے گئے الزامات واپس لے لیے جاتے۔ پر یہ ایک حقیقت ہے انھیں بھاری اکثریت سے مجرم قرار دیا گیا۔
یہ فیصلہ کیا گیا، جہاں پر جرم ثابت ہوا ہے، اور جنھوں نے یہ الزام لگایا ہے انھیں چاہیے کہ وہ اس کی مناسب سزا تجویز کریں؛ یا مجرم خود اپنے لیے متبادل سزا تجویز کرے۔ پھر ججز کو یہ اختیار ہو گا کہ ان دو سزاؤں سے کس سزا کو روا سمجھتے ہیں۔
سقراط پر الزام لگانے والوں نے موت کی سزا تجویز کی۔ سقراط کم درجے کی سزا تجویز کر کے ایتھنز سے راہِ فرار اختیار کر سکتے تھے۔ سقراط کا ایسا فیصلہ ایسے لوگوں کے لیے اطمینان بخش ہو سکتا تھا جو فلسفی اور اصول پرست کی تکلیف دہ موت بارے متفکر تھے۔
لیکن سقراط نے پُر زور انداز میں اعتماد کے ساتھ کہا کہ ان کا کوئی جرم نہیں، وہ کسی قسم کی سزا کے سزاوار نہیں۔ اپنے لیے سزا تجویز کرنے کا مطلب ان کا اپنے خلاف جرم تسلیم کرنا تھا۔ خود کو مجرم تسلیم کرنے کی بہَ جائے وہ خود کو عوامی خدمت گا ر سمجھتے تھے۔ اگر وہ اپنی اس خدمت کا صلہ چاہتے، تو وہ تجویز کرتے کہ انھیں صدر کی ٹیبل کے ساتھ والی سیٹ دے کر عوامی اعزاز دیا جانا چاہیے۔
تاہم، جب قانون نے انھیں مجبور کیا کہ وہ اپنے لیے سزا منتخب کریں، تو وہ معصومیت کے دعویٰ میں متعصبانہ رویہ اختیار کرنے کی بَہ جائے، منفی تیس کا جرمانہ تجویز کرتے ہیں۔ اس عمل نے ججز کو آگ بگولہ کر دیا جنھیں دیکھ کر سزائے موت کی مذمت کرنے والی اکثریت میں سے اسی آدمیوں نے جنھوں نے پہلے ان کی بریت میں ووٹ دیے تھے اب ان کی سزائے موت کے حق ووٹ دینے لگے۔
سزائے موت کے فیصلے کو تیس دن گزر گئے، اور یہ دن انھوں نے جیل میں گزارے۔ ان کے دوست ان سے ملاقات کرنے میں بالکل آزاد تھے، جنھوں نے ان پر زور دیا کہ وہ یہاں سے فرار ہو جائیں۔ ایسا ایتھنز میں ممکن تھا۔ Anaxagoras یونانی فلسفی ایتھنز کے جنرل اور منتظم امورِ سلطنت Pericles کی مدد سے فرار ہو گئے۔
جیل گارڈز سے معاملات طے پا چکے تھے۔ سقراط شمالی یونان میں واقِع علاقہ Thessaly بھاگ سکتے تھے جہاں قانون نہیں پہنچ سکتا تھا، جیسا کہ فلسفی Anaxagoras نے موجودہ ترکی میں واقع Anatolia جزیرے کے مغربی ساحل کے قدیم علاقے Ionia میں راہِ فرار اختیار کی۔
لیکن سقراط نے بے باکی سے ایسا کرنے سے انکار کردیا، یہ کہتے ہوئے کہ موت سے راہِ فرار اختیار کرنا ایک بزدلانہ کام ہے، اور ایک آدمی کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ قوانین کی بجا آوری کو یقینی بنائے۔
ان کی موت کا حکم دیا جا چکا ہے اور وہ ضرور اس کی تابِع فرمانی کریں گے۔ لہٰذا تیس دنوں کے بعد زہر کا پیالہ ان کے پاس لایا گیا، جس کوانھوں نے بغیر کسی جھجک کے پی لیا۔ سقراط کی موت پر افلاطون کا بیان درج ذیل ہے، جو میں نے افلاطون کی کتاب Phatedo سے نقل کیا ہے۔
تفصیلاً اسے تاریخی قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن ہم قوّی یقین کرسکتے ہیں کہ خاص واقعات کی جو تصویر کشی کی گئی ہے وہ ہمیں آخری لمحات میں فلسفی کے طرزِ عمل اور ان کے سبھاؤ کا پتا دیتے ہیں جن سے حقائق کی درست نمائندگی ہوتی ہے۔
“سقراط کھڑے ہوئے اور چیمبر میں غسل کرنے کے لیے چلے گئے، اور ان کے متموّل دوست Crito بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔
“انھوں نے ہمیں کہا ہم یہاں ان کا انتظار کریں، لہٰذا ہم انتظار کرنے لگے، اور جو کچھ ہمیں کہا گیا تھا آپس میں اس پر بات چیت کرنے لگے، اور بار بار اس کو زیرِ بحث لاتے، اور اکثر اپنے اوپر آئی اس آفت بارے بات چیت کرتے کہ یہ ہم پر کیا ستم ڈھائے گی۔ سنجیدگی سے ایسے لوگوں کی طرح سوچ و بچار کر رہے تھے، جو ایک باپ سے محروم ہوتے ہیں، اب ہمیں اپنی زندگیاں یتیموں کی طرح گزارنی پڑیں گی۔
“جب انھوں نے نہا لیا، تو ان کے بچے ان کے پاس لائے گئے۔ ان کے دو چھوٹے بچے اور ایک بڑا بیٹا تھا، اور ان کے خاندان کی خواتین بھی وہاں پر تھیں۔ سقراط Crito کی موجودگی میں ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اور اپنے دلی احساسات و جذبات سے انھیں تاکید کر رہے تھے۔
“وہ خواتین اور بچوں کو کہہ رہے تھے، کہ وہ یہاں سے چلے جائیں اور تھوڑی دیر بعد واپس آجائیں۔ اب غروبِ آفتاب کا وقت ہو چکا تھا، وہاں پر انھوں نے قابلِ ذکر وقت گزارا۔ لیکن جب شام کو نہا کر چیمبر سے واپس آئے تو نیچے بیٹھ گئے، اس کے بعد وہ زیادہ نہیں بولے۔
“تب Eleven کا آفیسر اندر آیا اور ان کے قریب آکے کھڑا ہو گیا اور کہا، ‘سقراط میں نے آپ میں ایسا عیب نہیں پایا جو میں نے دوسروں میں پایا؛ وہ یہ کہ وہ میرے ساتھ غصہ ہوئے اور مجھے برا بھلا کہا جب میں نے چیف جسٹس کے حکم کے مطابق انھیں زہر پینے کو کہا۔ لیکن اس دوران تمام موقعوں پر میں نے آپ کو ان تمام آدمیوں سے جو اب تک یہاں آئے ہیں ان سے معزز، بُرد بار اور پُر وقار آدمی پایا۔ لہٰذا، مجھے یقین ہے کہ آپ مجھ سے بالکل ناراض نہیں ہوں گے۔ کیا آپ جانتے ہیں، میں یہاں کیا کرنے آیا ہوں، آپ کو الوداع کہنے کے لیے، اور جس قدر ممکن ہو اس اٹل فیصلہ کی حقیقت کو برداشت کرنے کے لیے۔’
“اور اسی لمحے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہونا شروع ہو گئے، وہ مڑا اور وہاں سے آگے چلا گیا۔ سقراط نے اسے جاتے ہوئےدیکھا اور کہا، ‘آپ کو بھی الوداع کہتا ہوں، ہم وہی کریں گے۔ جو آپ کہیں گے۔’
“اسی وقت سقراط نے ہماری طرف آتے ہوئے کہا:
‘یہ آدمی کتنا وضع دار ہے، جب سے میں یہاں آیا ہوں اس پورے وقت میں وہ مجھ سے ملاقات کے لیے آتا رہا، اور کئی مرتبہ حالات و واقعات بارے گفتگو بھی کی، اس دوران میں نے اسے دوسرے آدمیوں سے جدا ایک قیمتی انسان پایا اور کس قدر وہ میرے لیے درد دل سے رویا! خیر آؤ، Crito، اس کی تابِع فرمانی کریں، اور کسی کو کہیں زہر لے آئے، اگر یہ تیار ہے، اور اگر تیار نہیں تو اس کام پر مامور آدمی کو تیار کرنے دیں۔’
“پھر Crito نے کہا، سقراط ابھی سورج کی روشنی پہاڑوں پر موجود ہے، اور ابھی غروب نہیں ہوا۔ مجھے معلوم ہوا ہے دوسروں کو کہنے کے با وجود کہ وہ زہر پئیں۔ اپنی مرضی، آزادی سے گھونٹ گھونٹ کر کے پی ہے اور اکثر نے اپنی مرضی کے برتنوں میں پی۔ انھیں جلدی کرنی بھی نہیں چاہیے، ابھی کافی وقت پڑا ہے۔
“اس پر سقراط نے جواب دیا: Crito جن آدمیوں کا آپ نے ذکر کیا، وہ ایسا طرزِ عمل اس لیے اپنائے ہوئے ہیں تا کہ وہ ایسا کر نے سے کچھ حاصل کر سکیں، اور ایسا نہ کرنے کی میری اپنی ترجیح ہے۔ وہ یہ ہے کہ میرا ذاتی خیال ہے کہ زہر پینے میں دیر کرنے سے مجھے کچھ حاصل نہیں ہو پائے گا، سوائے اس بات کے کہ مجھے لگتا ہے کہ میں خود سے مذاق کر رہا ہوں کہ ایسا کرنے سے میں چند گھڑیاں اور زندہ رہ پاؤں۔ مجھے لگتا ہے ایسا کرنے سے میں اسے ضائع کر رہا ہوں۔ Crito جائیے، جو کہا جا رہا ہے اسے بجا لائیے، اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔
“جب Crito نے سقراط کی یہ باتیں سنیں تو انھوں نے قریب کھڑے ہوئے لڑکے کو سر ہلا کر اشارہ کیا۔ لڑکا باہر گیا اور کچھ دیر باہر رکا رہا، اور جب واپس آیا تو اس کے ساتھ زہر تیار کرنے اور دینے والا منتظم ساتھ تھا جو اسے ایک پیالے میں تیار کر کے اپنے ساتھ لے آیا۔
“سقراط نے اس آدمی کو دیکھتے ہوئے کہا، اچھا تو میرے دوست وہ آپ ہیں جو ان معاملات میں ماہر جانے جاتے ہیں۔ مجھے کیا کرنا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ‘آپ کو زیادہ کچھ بھی نہیں کرنا، صرف یہ کہ جب آپ زہر کا پیالہ پی لیں تو تھوڑا بہت چلیں پھریں، جب آپ کی ٹانگیں بوجھل ہونے لگیں، تو لیٹ جائیں، یوں وہ اپنا اثر کرنے لگے گی۔ اسی لمحے انھوں نے پیالہ سقراط کو تھمایا۔
“انھوں نے اسے خوش دلی سے لیا۔ Echecrates فلسفی لڑکھڑائے، نہ ہی ان کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا۔ وہ مستقل مزاجی سے اس آدمی کی طرف دیکھتے رہے اور کہا، آپ اس شراب کے متعلق کیا کہتے ہیں جو کسی دیوتا کی نذر کی جائے۔ کیا یہ قانوناً جائز ہے یا نہیں؟
“انھوں نے کہا، ہم سقراط کو اتنا زہر دیں گے، جتنا ہم سمجھیں گے کہ پینے کے لیے کافی ہے۔ اس پر سقراط نے کہا:
‘میں سمجھ گیا، یقیناً یہ قانوناً اور عموماً جائز ہے کہ دیوتاؤں سے دعا کی جائے کہ دنیا سے میری روانگی ہنسی خوشی ہو؛ اس لیے میں اس کی دعا کرتا ہوں، کہ ایسا ہی ہو۔’
یہ کہنے کے بعد انھوں نے اسے خوشی اور سکون سے پیا۔
“ہم میں سے اکثر کے لیے بہت مشکل تھا کہ وہ اپنے آنسووں کو روک سکیں۔ لیکن جب ہم نے انھیں زہر پیتے ہوئے اور خاص طور پر آخری گھونٹ کو ختم ہوتے دیکھا تو دیکھتے ہی ہم سب کی برداشت ختم ہو گئی۔ میرے خود کے آنسووں کی جھڑی شروع ہو گئی، اس لیے میں نے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا، اور جی بھر کر اتنا رویا، جتنا میں اپنے لیے بھی نہ رویا تھا۔
“یہ میری بد احوالی تھی، کہ میں اس قدر اچھے دوست سے محروم ہو چکا تھا۔ Crito جو میرے آگے تھے، جب اپنے آنسووں کو قابو میں نہ رکھ سکا، زار و قطار رونے لگا۔ اس سے پہلے Apollodorous اپنے آنسو روک نہ پائے۔ شدتِ غم کی وجہ سے پھٹ پڑے، جس نے اس وقت موجود ہر آدمی کے دل میں چھید کر دیا، سوائے سقراط کے۔ بَل کہ انھوں نے یہ کہا، اے میرے عزیز دوستو تم کیا یہ کر رہے ہو؟
“یقیناً، میں نے اسی وجہ سے خواتین کو یہاں سے جانے کے لیے کہا، تا کہ وہ اس قسم کی نا دانی نہ کر سکیں۔ میں نے یہ سنا ہے، کہ نیک شگون کے ساتھ مرنا بھلا ہے۔ اس لیے خاموش رہو، اور حوصلہ نہ ہارو۔
“جب ہم نے یہ سنا، تو ہم بہت شرمندہ ہوئے اور آنسووں کو ضبط میں لانے کی کوشش کی۔ وہ چلتے رہے، یہاں تک کہ ان کی ٹانگیں بوجھل ہونے لگیں۔ پھر وہ اپنی پُشت کے بل نیچے لیٹ گئے، جیسا کہ آدمی نے انھیں کہا تھا۔ اسی ہی وقت جس آدمی نے انھیں زہر کا پیالہ دیا تھا، انھیں اپنے ہاتھوں میں تھام لیتا ہے، مختصر وقفہ کے بعد، ان کے پاؤں اور ٹانگوں کا معائنہ کرتا ہے۔ تب ان کے پاؤں کو سختی سے دباتے ہوئے، وہ ان سے پوچھتا ہے، کیا وہ کچھ محسوس کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نہیں۔ اور اس کے بعد وہ ان کی رانیں دباتا ہے، اس طرح اوپر کے حصہ کو، وہ ہمیں بتاتا ہے کہ اب ان کا جسم ٹھنڈا اور اکڑتا جا رہا ہے۔
“تب سقراط اپنے آپ کو چھوتے ہیں، اور کہتے ہیں جب زہر ان کے دل تک پہنچے گا وہ جہاں سے رخصت ہو جائیں گے۔ جب وہ یہ اظہار کر رہے تھے، تو اس وقت تک ان کے پیٹ کے نیچے والے حصے ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ تب وہ ہم سب کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے یہ آخری الفاظ کہے: ‘Crito، ہم Esculapius خدا کے وعدے کے زیرِ بار ہیں؛ اس لیے اسے پورا کریں، اور اسے نظر انداز مت کریں۔’
‘یہ ہو کر رہے گا،’ Crito نے کہا۔
‘آپ کے دل میں کوئی اور بات جو آپ کہنا چاہتے ہوں۔’
“اس سوال پر انھوں نے کوئی جواب نہ دیا؛ اس کے بعد انھوں نے اکڑاہٹ بھری جنبش لی، جس کے بعد پاس کھڑے آدمی نے ان کو ڈھانپ دیا، اور ان کی آنکھیں ایک جگہ ٹھہر گئیں، Crito نے یہ دیکھتے ہوئے ان کا مُنھ اور آنکھیں بند کر دیں۔
“Echecrate، یہ ہمارے دوست کا خاتمہ ہے، ایک ایسے آدمی کا جو عمر بھر بھلے رہے، جن کی زندگی ہمارے سامنے تھی، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ سب سے دانا اور منصف مزاج رہے۔”
…
سقراط کی تعلیمات سے متعلق ہمارا علم دو ذرائع سے Plato اور Xenophon سے ماخوذ ہے، ان میں سے ہر ایک کے کام کی خصوصیات کو بیان کرنا ضروری ہے۔
افلاطون اپنی تعلیمات میں اپنے ڈائیلاگز کی ترجمانی سقراطی فلسفے کی روشنی سے کرتے ہیں، لہٰذا ایسے بہت سے اصول جو سقراط نے اپنائے، وہ ہمیں افلاطون کی تعلیمات میں واضح دکھائی دیتے ہیں، جس کا یوں سقراط نے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔
ایسا ہو سکتا ہے، شروع میں ایسا ممکن نہ ہو کہ ہم افلاطون کے مکالموں سے کوئی معتمد جان کاری سقراط کے نظریات کی پا سکیں۔ لیکن کوئی ایسی جانچ درست معلوم نہیں ہوتی، کیوں کہ افلاطون نے اپنی فلسفے کو ترویج دینے سے پہلے ابتدائی مکالمے لکھے تھے، جب ان کی ایسی سرگرمیوں کا مقصد صرف سقراط کا طالب علم بننا تھا، اور اپنے آپ کو صرف سقراطی فلسفہ کو بہتر سے بہتر سے صورت دینے میں کمر باندھنا تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں، ان سقراطی مکالموں میں سقراط کی تصویر کو ممتاز مقام حاصل ہے۔ افلاطون سوانِح نویس اور تاریخ دان کی طور پر کوئی نمود و نمائش نہیں کرتے۔ پیش کیے گئے واقعات اور گفتگو حقائق پر مبنی ہیں جو ان مکالموں کی تصویر کشی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سقراطی فلسفے کا لبِّ لُباب اور نچوڑ ہیں۔ دوسرا ذریعہ، ایتھنز کے فلسفی Xenophon کی تعلیمات کا ہے، جن کی اپنی خصوصیات ہیں۔ اگر فلاطون ایک نظریاتی فلسفی تھے، تو Xenophon نثری اور انسانی معاملات میں ایک حقیقت پسند۔
وہ سادہ، دیانت دار سپاہی تھے۔ وہ کسی بھی فلسفے کی اتنی پرکھ نہیں رکھتےتھے، چاہے وہ سقراطی ہو یا کوئی دوسرا۔ وہ سقراط کے ساتھ بنیادی طور پر، فلسفی کی حیثیت سے نہیں، بَل کہ ان کے کردار اور شخصیت کے شیدائی کے طور پر جڑے ہوئے تھے۔
اگر افلاطون سقراط کی تعلیم کو بہت بلندی تک لے جاتے ہیں، تو Xenophon اسے بلندی سے بہت نیچے لے آتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود، Xenophon کی کتاب Memorabilia سقراط کی زندگی اور ان کے فلسفیانہ نظریات سے متعلق قابلِ قدر معلومات پر مشتمل ہے۔
سقراطی تعلیم بنیادی طور پر اخلاقی نوعیت کی ہے۔ اس سلسلے میں سقراط نے سوفسطائیوں کے نظریات سے کسی قسم کی مشابہت اختیار کی؟ یہ سو فسطائی تھے جنھوں نے یونانی فلسفہ میں آدمی کا قضیئہ اور اس کے فرائض بیان کیے۔ اور انھی مسائل کی طرف سقراط نے خصوصی توجہ دی۔ انھوں نے تمام سوالوں کو دنیا کے نقطۂِ آغاز یا مطلق حقیقت کی نوعیت کے لحاظ سے جھاڑا جھنکاڑا، جس سے متعلق ہم ابتدائی مفکرین کے فلسفے میں بہت کچھ سنتے آ رہے ہیں۔
سقراط نے کھلے عام ایسی قیاس آرائیوں کو فرسودہ قرار دیا اور ایسے تمام علم کو اخلاقی علم جو آدمیت شناس ہو، جس کے مقابلے میں دیگر علوم کو بے وقعت قرار دیا۔ ریاضی، فزکس اور فلکیات ان کے خیال میں گراں قدر علم کی شکلیں نہیں ہیں۔
انھوں نے بتایا وہ کبھی بھی شہر سے باہر چہل قدمی کرنے کے لیے نہیں گئے، ان کے بہ قول درختوں، کھیتوں سے سیکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ تاہم سقراط کی اخلاقی تعلیم کی بنیاد نظریۂِ علم پر ہے، جو بالکل سادہ، لیکن بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
سوفسطائیوں کے علم کی بنیاد ادراک پر ہے، جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ حقیقت تک رسائی کے معروضی معیارات معدوم ہو گئے۔ یہ سقراط ہی کا کام تھا، جنھوں نے علم کی بنیاد عقل پر رکھی، اور اس سے حقیقت کی اس کی معروضیت کے تناظر میں تجدید کی۔
مختصراً، سقراط کی تِھیئری کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے یہ سکھایا کہ all knowledge is knowledge through concepts۔ طرزِ فکر کیا ہے، جب ہم کسی خاص چیز کی موجودگی سے متعلق بَہ راہِ راست آگاہی حاصل کرتے ہیں: مثال کے طور پر کسی آدمی، کسی درخت، ایک گھر یا ستارے سے متعلق تو ایسی آگاہی ادراک کہلاتی ہے۔
جب ہماری آنکھیں بند ہوتی ہیں، تو ہم اس طرح کی کسی چیز کا ذہنی تصور کرتے ہیں۔ ایسے ذہنی تصورات ادراک کی طرح ہیں، ان مخصوص تصورات کا تعلق انفرادی اوبجیکٹس سے ہے۔ لیکن انفرادی اوبجیکٹس کے ان تصورات کی بَہ جائے، خواہ ان کا ذریعہ احساس ادراک یا تصور ہو، ہمارے عمومی تصورات بھی ہوتے ہیں، جو کسی مخصوص چیز بارے نہیں ہوتے، بَل کہ تمام چیزوں کے تصورات سے ان کا علاقہ ہوتا ہے۔ اگر میں کہوں “سقراط فانی ہے” تو میں سقراط کو بَہ حیثیتِ فرد سوچ رہا ہوتا ہوں۔ لیکن اگر میں کہتا ہوں “آدمی فانی ہے” تو میں کسی مخصوص آدمی کے بارے نہیں سوچ رہا ہوتا، لیکن میں عمومی طور پر انسانی کنبے کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہوں۔
اسی طرح ایک نظریہ ایک عمومی نظریہ یا تصور کہلاتا ہے۔ تمام انواع، جیسا کہ نوعِ آدمی، درخت، گھر، دریا، جان ور، گھوڑا، کوئی وجود، جو کسی ایک چیز کے لیے مخصوص نہیں ہوتی، بَل کہ کثیر چیزوں سے متعلق ہوتی ہے، تصورات کو بیان کرتا ہے۔
ہم ان عمومی تصورات سے، جن میں وہ تمام خصوصیات شامل ہیں، جو چیزوں کی انواع میں ایک جیسی ہوتی ہے، اور ان تمام خصوصیات میں مخصوص ہوتے ہیں، جن وہ مختلف ہوتے ہیں۔
اس لیے کہتے ہیں، ایسی خصوصیات جو کسی مخصوص چیزوں میں ہوتی ہیں، لیکن دوسری چیزوں میں نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر میں سفیدی کی خاصیت کو گھوڑوں کے عمومی تصور سے نہیں باندھ سکتا، اگر چِہ کچھ گھوڑے سفید ہوتے ہیں، لیکن سب تو نہیں ہوتے۔ البتہ میں، ریڑھ کی ہڈی کی خاصیت کو شمار کر سکتا ہوں، کیوں کہ تمام گھوڑوں میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ اس لیے، ایک فکر اس وقت تشکیل پاتی ہے، جب تصورات کو آپس میں ملایا جاتا ہے، جس میں چیزوں کی کلاس کے تمام ارکان ایک دوسرے سے متفق ہوتے ہیں، اور ایسے تصورات کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس میں وہ مختلف ہوتے ہیں۔
تصورات کی عمل گذاری کا نتیجہ استدلال ہے۔ جو پہلی جانچ میں واضح نہیں ہوتا، استدلال معروضی نوعیت کا ہو سکتا ہے، جو بحث و مباحثے اور قضیئوں کے نتائج کی خطوط کشی کے لیے نا گزیر ہے۔ تھوڑا غور و خوض کرنے سے ہمیں معلوم ہو گا کہ اگر چِہ ایسا ہے، تاہم استدلال کی بنیاد تصورات پر ہے۔ استدلال یا تو استخراجی ہوتا ہے یا استقرائی۔
استقرائی فلسفہ مخصوص حقیقتِ حال سے عمومی اصول تشکیل دینے پر مشتمل ہے۔ ایک عمومی اصول ہمیشہ ایک بیان سے تشکیل پاتا ہے، جو کسی خاص چیز سے متعلق نہیں ہوتا، بَل کہ چیزوں کی کلی نوع کے لیے ہوتا ہے، جس سے اصول وضع کر لیا جاتا ہے۔ استقرائی طور پر تصورات ایک نوع کی لا تعداد مثالوں کے ذریعے تشکیل پاتے ہیں۔ استخراجی استدلال ہمیشہ کسی مخصوص حقیقتِ حال پر عمومی اصولوں کے اطلاق کا الٹ عمل ہوتا ہے۔
اگر ہم کہتے ہیں سقراط کا فانی ہونا ضروری ہے وہ اس لیے کہ تمام انسان فانی ہیں۔ سوال یہ کہ سقراط ایک انسان ہے، تو یہ کہنا پڑتا ہے، کہ کیا انسان کا تصور اس مخصوص اوبجیکٹ جسے سقراط کہتے ہیں پر مکمل طور پر اطلاق ہوتا ہے۔ اس لیے استقرائی استدلال تصورات کے تشکیل سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ استخراجی استدلال ان تصورات کے اطلاق سے تعلق رکھتا ہے۔