معدودے چند استاد
از، یاسر چٹھہ
ہم ہی ذمہ دار ہیں۔ ہم ہی ہیں جو نئی نسل میں تنقیدی شعور بیدار ہی نہیں ہونے دیتے۔ ہم نام نہاد استاد، ہم پروفیسر، ہمارے پیوند کاری شدہ سیاست دان و صحافی، جو سوال کرنے کی روح کو کچل دیتے ہیں۔ تنقیدی شعور کی پہلی سیڑھی سوال سے جنم لیتی ہے۔
ہمارے اساتذہ سے کمرۂِ جماعت میں کوئی سوال کرتا ہے تو ہماری اندر کی فقہ اسے کلاس مینیجمنٹ کا مسئلہ گردان کے سوال کو اور سوال کرنے کی جرات کو مَسل دیتی ہیں۔ سوال کرنے والے کے متعلق عمومی طور پر ان کا پہلا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ “مجھے لیکچر مکمل کر لینے دو، پھر پوچھنے لینا۔”
ہمارے یہ صاحبان شکر نہیں کرتے کہ کوئی انہیں اس قدر پورے انہماک سے سن رہا ہے اور اس کی بابت سوچ بھی رہا ہے۔ لیکن نہیں، استاد فرماتے ہیں کہ کمرۂِ جماعت کا تاج دار فقط وہی ہیں۔ بہت سے تو اسے سوال کرنے والے کو اپنی ہتک کا مرحلۂِ اوّل جانتے ہیں۔ بد قسمتی کے اس سلسلے کی ایک قسط یہ بھی ہوتی ہے کہ ہمارے اساتذہ علمی چیلنج دینے والے طالب علموں کو اسائنمنٹس میں قابلِ گردن زَدَنی قرار دے دے دیتے ہیں۔ گو کہ اپنے کمرۂِ جماعت کے خطبات میں وہ علامہ اقبال کے استاد پروفیسر نکلسن کی اس بات کی تکرار کرتے نہیں تھکتے کہ اقبال جیسے شاگرد استاد کو محقق سے محقق تر بنا دیتے ہیں۔ وہ اضافی سمسٹر پہ سمسٹر ڈال کے ایسے نا ہنجاروں کے سوال کرنے والی زبان کی کھچڑی بنا دیتے ہیں۔
البتہ معدودے چند اساتذہ نا جانے کہیں سے بھٹکے ہوئے اس سوال کُش ماحول میں پہنچ آتے ہیں۔ اگر ایسی نایاب النّوع ہستیاں بعض اوقات سوال کی آزادی کا نعرہ بلند کرنا بھی چاہتے ہیں تو ان کے لیے بھی کریکولم کے زندان تیار ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں وفاقی وزارتِ تعلیم کے کریکولم ونگ کے خلافتی پِچھل پیرے، آب پارہ کی تیار کردہ ہم درد کی گُھٹی پہ پلے، ملّا کے جمعے کے خطبے کے پرورش پائے، احمد قریشیوں، مبشر لقمانوں کی متعفن پانیوں کی دانش کے نہلائے نصاب کو ایسے پکڑا دیتے ہیں کہ جیسے آسمانی صحیفے ہوں۔ یہ نصاب صرف جواب رٹنے کا تقاضا کرتا ہے۔ سوال بھی خود ہی فراہم کرتا ہے اور جوابوں کا دائرۂِ کار تو رکھتا ہی اپنی بغل میں ہے۔
مزید دیکھیے: اساتذہ سوال کرنے کے رویہ کو فروغ دیں از، محمد ریحان
ان نصابی صحیفوں کی حقانیت پہ، ان کی پاکیزگی پہ، آسمانوں سے اترے ہونے پہ کوئی سوال نہیں ہو سکتا۔ اگر سوال کر ڈالا تو گویا انہیں بھی پچھلی قوموں جیسا کہہ دیا جائے گا کہ تحریف کر دی کلامِ کریکولم میں! ہمیں کسی بھی لمحے خدشہ لا حق رہتا ہے کہ ہمارے ان جیسے سُچے موتیوں کے حلق میں بھی سقراط کے پیالے سے بچی زہر ابھی آئی کہ ابھی آئی۔ لیکن ان نئے زمانوں کے سقراط کُشوں نے عجب زہر پیالے بنا لیے ہیں جو جان جلدی نہیں نکالتے بَل کہ سسکیوں کی فصل بوتے ہیں۔
اور ہمارا سیاست دان طبقہ جو کہ راقم کی دانست میں تو ایک مثالی رویہ کے طور پر عوامی استاد کے رتبے پر ہی فائز ہوتا ہے۔ اس کا بھی بڑا اہم کردار ہوتا ہے سوال اٹھانے، سوال کرنے اور سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے کلچر کو عام کرنے میں۔ لیکن ہمارے یہاں جو سیاسی جماعتوں کی مجالسِ عاملہ، مجالسِ شوریٰ، اور کور کمیٹیوں کے اجلاس ہوتے ہیں ان کی فضا بھی کور کمانڈروں کی میٹنگ کے جیسے ہوتی ہے۔ یعنی جو کچھ بولے گا، جو کچھ ارشاد کرے گا اس کا ادھیکار صرف پارٹی بوس کا ہی ہو گا۔ اگر کسی نے سوال کرنے کی جسارت کی تو اگلی بار کے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ سے ایسے محروم کر دیا جائے گا، جس طرح گاؤں میں چھوٹے بچے کے ہاتھ سے کَوّا روٹی کا ٹکڑا اُچک کے بھاگ کھڑا ہوتا تھا۔
سو سیاست دانوں کا استاذ الاستاذ یعنی پارٹی چیئرمین سوال کی بہار میں کِھلی کونپل کو ایک جنگلی بکری کی طرح کھا جاتا ہے۔ یہیں سے، اسی طرح سوال کُش رویہ سے سماجی تیز طراروں کو کامیابی کے ہنر کا نسخہ ہاتھ لگ جاتا ہے۔ انہیں اطلاقی تعلیم مل جاتی ہے کہ: چپ رہو، ہاں ہاں بولو اور ثواب و ثمرِ دو جہاں پاؤ! یہی رویہ معاشرے کے زیریں اکائیوں کی سیڑھیوں تک نفوذ کر جاتا ہے۔ اور سوال کرنے کا حوصلہ سیدھے لفظوں میں جیسے رضائے الٰہی سے انتقال کر جاتا ہے۔
صحافت کی درسی کتابوں اور صحافت کی تاریخ کی کتابوں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ کام ان لوگوں نے شروع کیا جنہیں کچھ کہنے کی تڑپ ہوتی تھی، جن کے اندر کچھ سوال مچل رہے ہوتے تھے اور وہ مزید سوال اٹھانا چاہ رہے ہوتے تھے۔ وہ مشکلوں سے اخبار نکلواتے، اپنے پیمفلٹ چھپواتے۔ ان میں خیال اور پیغام ایک خطیبانہ ڈھنگ میں ہوتا، ایسے ہی لفظوں کی گھومن گھیریاں ڈال کے، بے جَڑ کی کہانیاں جوڑ کے کالم ٹوئیاں نہیں کرتے تھے۔ زبان میں سادگی، بے ساختگی اور خوب صورتی ہوتی جو ان کی ادبی وراثت اور مطالَعَہ کی دین ہوتی۔ وہ اپنے مقصد کی خاطر مشکلیں جھیلتے۔ وہ اپنے پہ اٹھنے والے سوالوں کو نئی تحریروں کے لیے مہمیز سمجھتے۔
لیکن اب کے ہمارے ملک کے میڈیائی ساون نے ہر نرگسیت کے مارے کو نیوز ریڈر اور اینکر بننے کا شوق ڈال دیا ہے۔ اب صحافت ان گروؤں اور میگزینوں کے پیچ تِھری کے شوقین لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے (ما سوائے چند ایک کو چھوڑ کے) جن کی جانے بلا کہ یہ صحافت بے چاری کیا چیز تھی۔ نتیجہ ہے کہ معصوم صحافت ہے جو اب ان کے ذوق خود نُمائی کی محض لونڈی بن گئی ہے۔
تو ہوا کیا؟ آپ ان کے شو بز ٹائپ نیوز پروگرام دیکھو؛ کوئی حقیقی سوال نہیں ملے گا اور آگے بیٹھے جواب دینے والے بھی کمال کرتے ہیں۔ وہ بھی کوئی جواب نہیں دیں گے بَل کہ آپ کو لگے گا کہ بس لفظوں کا بے لذت کار و بار ہو رہا ہے۔ دو بانجھ لوگ محبت کے رومان کے ثواب کے تصور میں جھوٹے ملنگ بنے ہوتے ہیں۔ افسوس کہ یہ عشق افلاطونی کار و بار بھی نہیں ہو گا۔ بہتوں کو دیکھ کے ٹی ایس ایلیٹ کا لا زوال نظمیہ کردار پرُوفراک بہت یاد آتا ہے۔ اسے کی ایک اور نظم دِی ہالو مین میں شیشوں کی کرچیوں پہ دوڑتے چوہے یاد داشت میں پھرنے لگتے ہیں۔
سو جناب، صحافی جس نے بڑے سوال کھڑے کرکے عوامی سطح کی تعلیم کا مقدس فریضہ نبھانا تھا اب محض رنگ برنگے لباسوں کی گُڈی گُڈے کا کھیل کھیلنا اور سیلفیوں کی جاگیر کا اکیلا وارث بن جانا اپنا وظیفہ قرار دے چکا ہے۔ اب چُوں کہ قبلہ کو خود سوال کرنا بھولا تو حضرت سوشل میڈیا پہ اپنی ذات پہ اٹھنے والے سوالوں کا جواب دوسرے بندے کو بلاک کر کے دیتے ہیں۔
اگر چِہ یہاں یہ کہنا بہت ضروری ہو گا کہ کچھ سوشل میڈیائی برقہ آئی ڈی والے بھی تو گالی کو سوال کا قایم مقام بنانے سے باز نہیں آتے۔ ایک طرح سے تو ایسے گوریلے سوال کی حرمت کو تار تار کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف دیکھیں تو قصور ان کا بھی اتنا زیادہ نہیں۔ جب آپ معاشرے میں طاقت ور کے بیانیے اور یک طرفہ تقریر کی گھٹن پیدا کر دیں گے تو ذہنی و نفسیاتی کم زور لوگوں کا غصہ گالی کی صورت میں پھٹنے کا نا پسندیدہ لیکن جبری رد عمل ظہور پذیر ہو جائے گا۔
پس سوال پہ پہرہ دماغ پہ پہرہ ہے۔ اور دماغ پہ پہرہ تخلیق پہ پہرہ ہے۔ سو پورے معاشرے کو عمومی اور اشرافیہ کو خصوصی طور پر سوال سے ڈرنے کی نفسیات پہ قابو پانا ضروری ہے بہ شرط یہ کہ کچھ تازہ ہوا چاہیے اور اگر ہمیں دانش پہ براجمان طوطوں کی فیملی پلاننگ کرنا ہے۔