(ناصر عباس نیرّ)
نعت کا بنیادی موضوع ،نبی پاک ﷺ کی عظیم المرتبت ذات والا صفات ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نعت کی صنفی شناخت بلحاظ موضوع ہے، بلحاظ ہیئت نہیں۔ یہیں نعت ادبی نقادوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی ہے۔یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ جو اصناف اپنی ہیئت کی بنا پر پہچانی جاتی ہیں،وہ تخلیق کار کو موضوع لے کر ،اسلوب وتیکنیک کے انتخاب کی آزادی دیتی ہیں۔واضح رہے کہ اس آزادی کے بغیر کوئی شخص مبلغ تو ہوسکتا ہے ، تخلیق کار نہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ آزادی ان اصناف میں بھی ہے جو متعین موضوعاتی شناخت رکھتی ہیں؟ اس سوال کا دائرہ اگرچہ نعت کے علاوہ، حمد، منقبت ،شہر آشوب وغیرہ تک پھیلا ہواہے، مگر ہم اسے فی الوقت نعت تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ نعت کے اکثر نقاد اس سوال سے بچنا چاہتے ہیں، اور اس تصور میں پناہ لیتے ہیں کہ نعت ادب سے ماورا ایک مختلف قسم کا،اور ممتاز اظہارہے۔اسی بنا وہ نعت کے لیے تنقید کو روا نہیں سمجھتے۔
اگر آپ نعت کا مطالعہ محض ایک مذہبی متن کے طور پر کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس کے ضمن میں کوئی بھی فنی ،جمالیاتی ،تنقیدی بحث بلاجواز محسوس ہوگی، لیکن اگر آپ اسے ادبی ،فنی تخلیق قرار دیتے ہیں ،اور اس پر گفتگو کے لیے روایتی تنقید یا نئی تھیوری کی اصطلاحات استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں دیکھتے تو پھر مذکورہ سوال پرتامل ضروری ہے۔ہماری رائے میں دونوں طرح کی اصناف (ہیئت یا موضوع کی بنیاد پر تشکیل پانے والی ) میں آزادی ممکن ہے۔ مثلاًمخصوص ہیئت کی حامل اصناف جیسے غزل ،مثنوی ، آزاد نظم اور نثری نظم میں موضوعاتی تنوع کی آزادی ہے۔جب کہ موضوعاتی اصناف میں ہیئت کے انتخاب کی آزادی ہے۔اس آزادی کا خالص جمالیاتی مفہوم یا مضمرات اس وقت زیادہ واضح ہوتے ہیں ،جب ہم ہیئت و موضوع کے پیچیدہ تعلق پر دھیان کرتے ہیں۔
تفصیل میں گئے بغیر ہم کَہ سکتے ہیں کہ موضوع اور ہیئت کا رشتہ ،ہم آہنگی کی تلاش کی آرزو سے عبارت ہے،اور ہم آہنگی کی آرزو وہیں ہوتی ہے ،جہاں ثنویت اور فاصلہ موجودہے۔ چناں چہ ایک ہی موضوع جب مختلف ہیئتوں میں ظاہر ہوتا ہے تو اس میں ہم آہنگی کی کوشش بھی نئے نئے طریقوں سے ہوتی ہے۔نئی ہیئتوں اور موضوع و ہیئت میں ایک نئی سطح پر ہم آہنگی کی سعی کی بنا پرموضوعاتی یکسانیت کاجبر قائم نہیں ہوپاتا۔ علاوہ ازیں جہاں تک نعت کا تعلق ہے ،اس کا موضوع، دیگرموضوعاتی اصناف کے موضوع سے مختلف ہے۔نبی پاکﷺ کی ذات وصفات ،سیرت و عمل خود اپنے اندر غیر معمولی تنوع رکھتے ہیں۔ گویاصنفِ نعت کی یک موضوعی خصوصیت،ذات و صفاتِ نبی ﷺ کے تنوع سے ،ڈی کنسرکٹ ہوجاتی ہے،اور اسی کے دوران میں نعت گو بہ طور تخلیق کاروہ آزادی حاصل کرلیتاہے جس کا ذکر ابتدا میں کیا گیا ہے۔
تسلیم کہ ادبی تنقید اس بنیادی مفروضے کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھا سکتی کہ ادب ،ایک انسانی اور ثقافتی سرگرمی ہے،لہٰذا اس کے مطالعے کے لیے وہ سب طریقے جائز ہیں،جو انسان کی ذہنی اور ثقافتی دنیا کی تفہیم و تعبیر کے لیے اختیار کیے جاتے ہیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ نعت کا محرک عام طور پر د وقسم کے جذبات ہیں: عقیدت اور عشق۔ان دونوں کا محور ایک عظیم المرتبت ذات گرامی ﷺ ہے ،لیکن یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ دونوں جذبات انسانی دل میں موجزن ہوتے ہیں،اور اسی زبان میں ظاہر ہوتے ہیں جسے عام روزمرہ دنیا سے لے کر شعری اظہار کے لیے اختیار کیا جاتاہے۔نعتیہ شاعری کی زبان غزل ونظم کی زبان سے مختلف ہوسکتی ہے، مگر یہ انھی شاعرانہ وسائل کو بروے کارلاتی ہے ،جو دیگر شعری اصناف سے مخصوص ہیں۔
دوسرے لفظوں میں بالواسطہ طور پر دو باتوں کو تسلیم کیا جاتاہے۔اوّل یہ کہ غیر معمولی عقیدت و عشق کے جذبات ،عام انسانی زبان اور رائج شاعرانہ وسائل کی نفی نہیں کرتے۔دوم یہ کہ نعت لکھنا بھی ایک انسانی تخلیقی عمل ہے ۔چوں کہ یہ دونوں باتیں نعت میں موجود ہیں ،اس لیے نعت کے معانی بھی ہیئتی تصور کیے جاسکتے ہیں۔ہیئتی معنی سے مراد وہ معنی ہے جو کسی پہلے سے موجود موضوع کاعکس نہیں ہوتا ،بلکہ متن کی تخلیق کے دوران میں وجود پذیر ہوتا ہے۔کہنے کا مقصود یہ ہے کہ نعت کا موضوع متعین ہونے کے باوجود ’نئے معانی ‘ کی تخلیق کی راہ میں حائل نہیں ہوتا۔ اگر یہ نئے معانی نہ ہوں ،اور صرف چند ایک موضوعات کی،یکساں اسلوب میں تکرار ہو تواس کے ضمن میں ہم مذہبی عقیدت کے تحت خاموش احترام کا مظاہرہ کرسکتے ہیں،لیکن اس کے ادبی حسن کی داد کے جذبات محسوس نہیں کرسکتے۔ نعت میں ادبی حسن ،معنی آفرینی ایک ساتھ ہوتی ہے۔ نعت کی معنی آفرینی کا خاص پہلو یہ ہے کہ ہر چند یہ ایک ہیئتی عمل کی پیداوار ہے ،مگر یہ محض ایک لسانی کھیل نہیں ،بلکہ اس کا دائرہ مذہب، ثقافت، سماج اور انسانی نفسیات جیسے منطقوں میں اہم تبدیلیوں تک پھیلا ہے۔ ان سب کا احاطہ ایک مضمون میں ممکن نہیں،صرف چند ایک کی طرف اشارات ہی کیے جاسکتے ہیں۔
نعت گوئی کے کئی محرکات ہوسکتے ہیں ،تاہم ان میں عقیدت و عشق خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ ان دونوں میں فرق کیا جانا چاہیے۔ عقیدت ،کسی بات کو درست سمجھ کر اس پر دل کو مرتکز کرنا ہے۔کسی بات کو درست سمجھنے کے کئی طریقے اور ذرائع ہوسکتے ہیں:ذرائع میں خود آدمی کی اپنی صلاحیتِ امتیاز اور دوسرے لوگ اور متون شامل ہیں ۔واضح رہے کہ کسی آدمی کی صلاحیتِ امتیاز کبھی خود مختار نہیں ہوتی،اسے کسی ’اور‘ پر انحصار کرنا پڑتا ہے،یعنی دوسروں کی آرا، تحقیقات،کتب وغیرہ پر۔اسی طرح جو صاحبِ علم اور راوی مستند سمجھے جاتے ہیں،وہ بھی علم کا ذریعہ ہوتے ہیں۔نیز زبانی یا تحریری روایت ،اورالہامی متون خود علم اور ذریعہ علم ہیں ۔سوال یہ ہے کہ عقیدت کا تعلق ،بات اور اس کی سچائی تک پہنچنے کے ذریعے سے ہے ،یا نہیں؟ کیا ہر وہ بات جسے ہم کسی بھی ذریعے سے درست سمجھیں، اس کے سلسلے میں ایک طرح کا ،یا کئی طرح کے جذبات محسوس کرتے ہیں؟ ان سوالات کے سلسلے میں کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں،کیوں کہ ہر آدمی کے یہاں ایک ہی شے ،یا ایک ہی تصور مختلف جذبات یا احساسات کو تحریک دیتاہے۔مگر ہم اتنا ضرور کَہ سکتے ہیں کہ ان باتوں کی سچائی ہمارے دل میں تحسین کے جذبات پیدا کرتی ہے،جن کا تعلق باہر سے ہے ؛ان باتوں کی سچائی ہمیں آسودگی دیتی ہے، جن کا تعلق ہماری نفسی الجھنوں کے دور ہونے سے جنم لیتی ہے ،اور ان باتوں کی سچائی ہمارے دل میں احترام و عقیدت کے جذبات ابھارتی ہے،جن کا تعلق ہماری روح سے ہے۔احترا م و عقیدت کا تعلق ،ایک طرف خود کسی مخصوص بات سے ہے تو دوسری طرف اس کے ذریعے سے ہے۔ یوں عقیدت ،جن احساسات کی حامل ہوتی ہے ،وہ ذریعہ اور بات دونوں کو محیط ہوتے ہیں۔قیاساً کہا جاسکتا ہے کہ عقیدت اور عقیدے میں ایک طرح کا ’انٹرپلے‘ ہوتا ہے؛دونوں ایک دوسرے کے ہم قریں ہوتے رہتے ہیں،اور دونوں میں لامتناہی طور پر مکالمہ جاری رہتاہے ۔بایں ہمہ کچھ استثنائی صورتیں بھی ہوسکتی ہیں ،جہاں عقیدت کا عقیدے سے تعلق نہیں ہوتا۔غیر مسلموں کی نعتوں میں عقیدت بدرجہ اتم ہوتی ہے ،مگر وہ مسلمانوں کے عقیدے میں شریک نہیں ہوتے۔
ان معروضات کی روشنی میں ہم کَہ سکتے ہیں کہہ جب عقیدت ،نعت کی بنیاد بنتی ہے تو یہ ایک سادہ سا، سامنے کا ،عام سا معاملہ نہیں ہوتا۔ نعت کا تخلیقی عمل ،محض چند بندھے ٹکے موضوعات تک محدود نہیں ہوتا۔یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتوں میں رسمیت کے پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ،مگر یہ ان شعرا کے یہاں ہوتا ہے ،جن کی نعتیہ شاعری کا محرک محض ثواب یا دنیوی اجرو شہرت ہوتے ہیں،لیکن جن شعرا کے یہاں حقیقی عقیدت موجود ہوتی ہیں،یعنی جنھوں نے اپنے دل کی گہرائیوں میں نبی پاک ﷺ کی حقیقت کو محسوس کیا ہوتا ہے ،اور غیر شعوری انداز میں احترام و سپاس کے جذبات محسوس کیے ہوتے ہیں،ان کی شاعری رسمی نہیں ہوتی۔ تاہم شرط یہ ہے کہ وہ شعر کہنے کی اعلیٰ درجے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ محض جذبہ ،شعر کے لیے کافی نہیں ہوتا؛وہ تو محرک ہوتا ہے ، اور محرک کیا کرسکتا ہے ،اگر معروضِ تحریک کمزور یا سرے سے موجود ہی نہ ہو۔اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ عقیدت بہت سوں کے یہاں موجود ہوسکتی ہے ،مگر وہ خود اپنے آپ میں نعتیہ شاعری کا واحد محرک نہیں ہوسکتی۔یہ بھی درست ہے کہ عقیدت کا گہرا جذبہ ،کسی بھی دوسرے حقیقی،گہرے جذبے کی طرح اپنا اظہار چاہتا ہے ، مگر عقیدت ،نعت میں اسی وقت منقلب ہوتی ،جب شعر گوئی کی عمومی صلاحیت موجود ہو۔ عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتوں میں نبی پاک ﷺ کی ذات وصفات کی سچائی کی تقدیس ،ان کی کہی گئی باتوں،اور کیے گئے اعمال کی تکریم ،مدحت ہوتی ہے ۔ عقیدت کے تحت لکھی نعتوں میں اورثواب ومغفرت کی آرزوسے عبارت نعتوں میں فرق کیا جانا چاہیے۔ عقیدت تو ایک طرح سے ،سچائی اور اس کی عظمت کو خراج تحسین ہے؛عقیدت،بے غرض ہوتی ہے،یعنی خراجِ عقیدت خود اپنا آپ انعام ہے ۔جب کہ ثواب و مغفرت کی نیت سے لکھی گئی نعتیں ،بہ ہر حال غرض رکھتی ہیں۔اس میں شک نہیں کہ نبی صلعم کی ذات گرامی مغفرت کا موجب ہے ،اور ان کی طرف رجوع بالکل جائز ہے ۔
مندرجہ بالا گزارشات سے واضح ہوگیا ہوگا کہ عقیدت کا موضوع بھی کئی پہلو رکھتا ہے؛ اس کی وحدت میں کثرت کا انداز ہوتا ہے۔سچائی ،اور اس کی عظمت کو پورے اخلاص کے ساتھ خراج پیش کرنے کا رویہ ابتدا تا آخر موجود رہتا ہے۔ مظفر وارثی کی معروف نعتیہ نظم،عقیدت کے بیشتر اجزا کی حامل ہے۔
مرا پیمبر عظیم تر ہے
کمال خلاق ذات اس کی
جمال ہستی حیات اس کی
بشر نہیں،عظمت بشر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سے جَو ،ایک چارپائی
بد ن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی
یہی ہے کل کائنات جس کی
گنی نہ جائیں صفات جس کی
وہی تو سلطان بحر وبر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
مظفر وارثی کی نعت میں،جو عمدہ شاعری کا نمونہ بھی ہے، عقیدت و عقیدے میں باہمی مکالمہ محسوس ہوتا ہے۔اب پنڈت دتاتریہ کیفی کی نعت کے چند اشعار دیکھیے ،جن میں عقیدت موجودہے۔
ہو شوق نہ کیوں نعت رسول دوسرا کا
مضموں ہوعیاں دل میں جو لولاک لما کا
پہنچائے ہیں کس اوج سعادت پہ جہاں کو
پھر رتبہ ہو کم عرش سے کیوں غارِ حرا کا
میر تقی میراور کلاسیکی عہد کے دیگر شعرا کے یہاں ،نعت کا موضوع عقیدت کے ساتھ ساتھ ثواب و مغفرت کا بھی ہوتا تھا۔مثلاً یہ شعر دیکھیے:
جلوہ نہیں ہے نظم میں حسن قبول کا
دیواں میں شعر گر نہیں نعت رسول کا
واضح رہے کہ اس وضع کے نعتیہ اشعار محض نعت گو کے دلی اخلاص کو ظاہر نہیں کرتے ،بلکہ ثقافتی سطح پرایک نئی نشانیات کو …یعنی کچھ نئی ثقافتی علامتوں اور رسمیات کوجو مخصوص معانی کی حامل ہوتی ہیں…. متعارف کرواتے ہیں۔اس نشانیات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس سے مختلف سماجی وذہنی سرگرمیوں کی دنیویت میں مذہبی والوہی تقدیس شامل ہوتی ہے۔اور اس کے طفیل اس فاصلے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے جو دنیویت اور مذہبیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے،اور جس کے بڑھنے سے نہ صرف سماجی گروہوں میں نظریاتی تفریق گہری ہوتی ہے ،بلکہ گروہوں میں انتہاپسندانہ میلانات بھی پید اہوتے ہیں ۔یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتیں سماجی ہم آہنگی اور ثقافتی رواداری میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔مثلاًخواجہ عزیر الحسن مجذوب کا ایک شعر ہے۔
اب بعد نعت ہرزہ سرائی کا منھ نہیں
مجذوب شعر کہنے سے معذور ہوگیا
ہرزہ سرائی سے مراد محض دیگر اصناف شعر نہیں، جن کی اہمیت شاعر کی نظر میں کم ہوجاتی ہے،بلکہ نعت کہنے والی زبان، مختلف نقطہ ء نظر ، مختلف مذہب ومسلک کے حامل لوگوں کے خلاف نازیبا الفاظ ادا کرنے سے ابا کرتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تمام طرح کے سماجی فساد ہرزہ سرائی سے شروع ہوتے ہیں۔اس بات پر باردگر زور دینے کی ضرورت ہے کہ عقیدت چوں کہ اس زبان کے ذریعے ثقافت کا حصہ بنتی ہے،جسے سب مذاہب کے لوگ ابلاغ کا ذریعہ بناتے ہیں، اس لیے عقیدت سے تشکیل پذیر ہونے والی نشانیات ہندؤں ، سکھوں اور وسرے مذاہب کے شعرا کو بھی نعت لکھنے کی تحریک دیتی ہے۔ان کی نعتیں ،پیمبر اعظم ﷺ کی ذات کی بے غرضانہ مدحت کے ساتھ ساتھ ، یہ امر بھی باور کراتی ہیں کہ سچائی،اپنے لیے عقیدت مند خود پیدا کرلیتی ہیں،اور یہ عقیدت مند سماجی ہم آہنگی کی قابل قدر علامت ہوتے ہیں۔
عشق کا جذبہ ،عقیدت کا مقابل نہیں ،مگر عقیدت سے کہیں زیادہ گہرا ہے ۔عقیدت میں رسمیت ہوسکتی ہے ،مگر عشق میں نہیں؛عقیدت میں ایک طرح کی اجتماعیت ہے ،مگر عشق انفرادی ،داخلی ،موضوعی ہے۔اگر عقیدت کے تحت لکھی گئی نعت ایک ثقافتی کردار اداکرتی ہے ،تو عشقِ نبی ﷺ میں لکھی گئی نعتیں ،روحانی رفعت اور نفسیاتی قلبِ ماہیت ممکن بنانے کا غیر معمولی امکان رکھتی ہیں۔تاہم ایک فرد کی روحانی رفعت کبھی اس شخص کی ذات تک محدود نہیں رہتی؛چراغ کی مانند اس کی لو،ارد گرد کے افراد کی روحوں میں چھائی تاریکی کو مٹاتی ہے ،کبھی روحانی رفعت پانے والے کے عمل کے ذریعے، کبھی اس کے قول و گفتگو کے وسیلے سے ،اور کبھی سماج میں اس کی خاموش شرکت سے۔ واضح رہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جہاں عقیدت ہو،وہاں عشق بھی موجود ہو،مگر جہاں عشق ہوگا،وہاں عقیدت لازماً ہوگی۔دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ عشق،عقیدت کی انتہا بن سکتی ہے۔دوسرے لفظوں میں عشق بے بصر نہیں ہوتا؛ اس میں بھی سچائی پر یقین موجود ہوتا ہے۔عشقِ نبی ﷺ ان عظیم صداقتوں پر اعتقاد کا حامل ہوتا ہے ،جن کا علم مستندمذہبی متون(تحریری وزبانی) کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔
عشق نبی ﷺ کئی ایسی خصوصیات رکھتا ہے ،جو محض اسی سے مخصوص ہیں۔ چوں کہ اس کی بنیاد میں عقیدت شامل ہوتی ہے، یعنی ’باخدا دیوانہ باش و بامحمد ﷺ ہوشیار‘ کی کیفیت ہوتی ہے، اس لیے اس کی وارفتگی اس بے تکلفی ، غیر رسمیت سے پاک ہوتی ہے ،جسے عام بشری عشق میں اختیار کیا جاتاہے۔ دوسرے لفظوں میں عشق نبیﷺ کی وارفتگی و دیوانگی در اصل ایک ایسی مقدس تجرید ،ایک مابعد الطبیعیاتی مگر عظیم الشان تصوریت کو مرکز بناتی ہے، جسے پورے طور پر انسانی ذہن گرفت میں لینے سے قاصر ہوتا ہے۔ یوں عاشق کے لیے ایک پیراڈاکسیائی صورتِ حال ہوتی ہے۔اس صورتِ حال کا ایک رخ یہ ہے کہ اس تجرید کو اس الوہیت سے جدا رکھنا ہوتا ہے جو صرف خدا سے مخصوص ہے۔بہت سوں کے لیے یہ محال رہا ہے،اور اس کی وجہ لاعلمی کے ساتھ ساتھ ایک طرح کی بشری بے بضاعتی بھی ہے ،جو عشق کے وفور میں اس نازک ترین فرق کو بھول جاتی ہے جو الوہیت ورسالت میں ہے۔یوں بھی عشق میں خود کو ہوشیار رکھنا آسان نہیں،لیکن عشق نبیﷺ میں ہوشیاری اور احتیاط لازمی شرائط ٹھہرتی ہیں،اور عشقِ نبی ﷺ کے سفر کو کڑا اور آزمائشوں بھرا بناتی ہیں۔اس کڑے سفر میں دعا سب سے اہم وسیلہ ہوتی ہے۔ احمد جاوید کا یہ شعر اسی طرف دھیان منتقل کراتاہے:
کا ش اس بات سے محفوظ رہیں یہ لب وگوش
جو مرے سید وسردار نے فرمائی نہیں
گویا بندے بشر کی استطاعت میں نہیں کہ وہ عشق میں ہوشیاری واحتیاط کا دامن تھامے رکھے، اس لیے وہ دعا کا سہارا لینے پر مجبور ہوتا ہے۔لیکن دعاایک بار پھر اسے اس مقدس تجرید کی طرف لے جاتی ہے۔ عشق نبی ﷺ کی پیراڈاکسیائی صورت حال کا ایک اور رخ یہ ہے کہ ایک طرف وہ عشق کا سچا، گہرا جذب محسوس کرتا ہے ،مگر اپنے محبوب کا تصور ایک مقدس تجرید کے طور پر کرتا ہے؛پیرا ڈاکس یہ ہے کہ جذبہ سامنے، حقیقی طور پر حسی وجود پر مرتکز ہونے کے بجائے ،تصوریت سے وابستہ ہوتا ہے۔اسی پیراڈاکس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ عاشقِ رسول ﷺکو ایک طرف اپنی خاکی نہاد کا منکسرانہ احساس ہوتا ہے ،اور دوسری طرف وہ ایک عظیم الشان مابعد الطبیعی تصوریت پر اپنی تمام حسی وذہنی صلاحیتوں کو مرکوز کرتا ہے،مگر یہی پیراڈاکسیائی صورتِ حال اس کے عشق کو ایک عجب ذائقہ ،ایک انوکھی بلندی، اور اس کے دل میں نئی آرزوئیں پیدا کرتی ہے۔ عاشق اپنی خاکی نہادکا منکسرانہ احساس تو رکھتا ہے ،مگر اسے حقیر،بے معنی ،بے مصرف و بے مقصد نہیں سمجھتا؛جو خاکی وجود ،ایک عظیم الشان تجرید کا تصور کرسکتا ہے ،وہ کیوں کر حقیر ہوسکتاہے؟یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں نعت سمیت دوسری مذہبی شاعری ،جدید شاعری سے ایک الگ راستہ اختیار کرتی ہے ۔جدید شاعری میں اپنے حقیر ہونے ، وجود کے لغو ہونے ،نفس میں موجو دتاریکیوں کو انسانی تقدیر سمجھ کر قبول کرنے کا رویہ موجود ہوتا ہے ۔(جدید شاعری ،اس حقیقت کو قبول کرکے در اصل اس کی ملکیت کا احساس پیدا کرتی ہے )۔جدید شاعری میں منفی قلبِ ماہیت (آدمی کا کیڑا ،مکھی ،بھیڑیابن جانا)کا موضوع بھی تقریباً اسی راہ سے آیا ہے ،مگر نعتیہ شاعری میں انکسار ہوسکتا ہے ، حقیر ہونے کا احسا س ہرگز نہیں ۔نعت میں نفس کی تاریکی کا ادراک ظاہر ہوسکتا ہے ،مگر اسے انسانی تقدیر نہیں تصور کیا جاتا،اسے ایک عارضی صورت حال تصور کرکے ،اس سے نکلنے کا راستہ دکھایا جاتاہے۔ اگر نفس کی تاریکی کوانسانی تقدیر تصور کیا جائے تو یہ سیدھا سادہ مذہبی اعتقاد پر سخت تشکیک کا اظہار ہے۔نعت ، مذہبی حسیت کی حامل صنف ہونے کے ناطے،انسانی وجود کی تاریکیوں کو دور کرنے کا لازمی امکان بنتی ہے۔ حقیقی مذہبی حسیت ،لازماً رجائیت پسند ہوتی ہے ؛ وہ انسان کی حتمی صورتِ حال کا پرشکوہ رجائی تصور رکھتی ہے۔ بہ ہر کیف، خالد احمد کی نعت کا یہ شعر دیکھیے جس میں انکسار تو موجود ہے ، حقیرہونے کا احساس نہیں۔
زرگل ہوئی مری گرد بھی کہ ریاض عشق رسول ہوں
بڑی پاک خاک ہے یہ گلی، میں اسی کی دھول کا پھول ہوں
یوں عاشق کی بشریت ،اپنے اندر ایک غیر معمولی پن کا حقیقی روحانی تجربہ کرتی ہے۔غیر معمولی پن کا احساس ،محض تصوری اور نظری طور پر بھی ممکن ہے،مگر جب یہ عشق کی صورت اختیار کرتا ہے تو یہ تجربہ بن جاتا ہے،یعنی احساس، جذبے ،فکر ، تخیل ،عمل یعنی انسانی وجود کے سب پہلوؤں اور سب سطحوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔اس سے ایک طرف عاشق کی قلبِ ماہیت ہوتی ہے،اس کے وجود کی تاریکی دور ہوتی ہے ،یا دور ہونے کا گہرا یقین پید اہوتا ہے اور دوسری طرف اس کے دل میں نئی آرزوئیں جنم لیتی ہیں۔ نئی آرزوئیں بھی دراصل مذکورہ بالا پیراڈاکسیائی صورتِ حال سے پیدا ہوتی ہیں۔ عشق لازماً حسی ہدف چاہتاہے،لیکن یہاں ایک مقدس تجرید ہوتی ہے ، جسے تاریخ وسیرت ایک حسی سطح ضرور دیتے ہیں، مگر نبی ﷺ کی ذات اس درجہ وسیع اور تخیل کی حدوں سے ورا ہوتی ہے کہ اس کا قطعی متعین تصور ممکن نہیں ہوتا۔عشق ،حسی ہدف کی آرزو ترک نہیں کرسکتا، اور عشقِ نبی ﷺ میں یہ ممکن نہیں ہوتا تو اس کانتیجہ ان نئے ،عظیم الشان مقاصد کی آرزوؤں کی صورت میں نکلتاہے۔جو حقیقی، حسی ،مادی دنیا کو اپنا ہدف بناسکیں۔چوں کہ یہ عظیم آرزوئیں،عشق کا حاصل ہوتی ہیں،اس لیے وہ مادی دنیا کو جب ہدف بناتی ہیں تو اسے مسخ کرنے کے بجائے ، اس کی وسعتوں کو کھوجتی ہیں ،اوراس عمل کو خود اپنی ذات کی توسیع کی علامت تصور کرتی ہیں۔یوں ایک نئی ،بلند تر سطح کا رشتہ دنیا سے قائم ہوتا ہے۔علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
عالم بشریت کی زد میں آسمان …یعنی وہ بلند ترین مقام ،جسے انسانی آنکھ دیکھ سکتی ہے ،اور جس کے سبب،انسانی تخیل عظمت وبلندی کا تصور کرسکتا ہے…کے ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ انسانی بساط کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ نبی ﷺکی معراج ،بشری دنیا کو یہ تحریک دیتی ہے کہ وہ خاک سے افلاک تک پہنچے۔یہی کچھ مقدس تجرید کے عشق میں ہوتا ہے۔
عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول ﷺ
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول ﷺ
(بیدم وارثی)
میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعت صحرا دے دے
کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا
(پیر نصیر الدین پیر)
مقد س تجرید کے عشق کی کیا کیفیت ہوتی ہے ،اسے جس طرح اقبال نے پیش کیا ہے ، اس کی کوئی دوسری مثال اردو شاعری میں نہیں ملتی۔اقبال کے یہاں عشق اس علامت کی طرح ہے ،جس میں اپنے معنی متعین کرنے کے خلاف باقاعدہ مزاحمت ہوتی ہے۔ وہ علامت ہونے کی بنا پر کئی معانی کی حامل ہوتی ہے ،مگر اس رمز کو بھی جانتی ہے کہ معنی کے تعین کی کوشش،در اصل اسے محدود کرنے کے عمل کاآغاز ثابت ہوتی ہے۔اقبال کے یہاں عشق کی علامت ، لامتناہی جستجو اوران تھک سفرکی محرک بنتی محسوس ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبال اس لامتناہی سفر کو ایک خیالی دنیا اور فنتاسی میں سفر میں نہیں بدلنے دینا چاہتے۔وہ عشق کی اس حسی، جذبی کیفیت کوقائم رکھنا چاہتے ہیں،جو انسانی دل میں حقیقی طور پر پیدا ہوتی ہے، اور جس کے ذریعے انسان خود اپنے بشری مرکز سے متصل رہتا ہے،اور اسی کو لامتناہی جستجو کا رخت سفر بنانا چاہتے ہیں،خود اپنی ذات میں ، تاریخ میں ، دنیا میں اور کائنات میں۔بہ قول اقبال :’عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک‘۔ اقبال نے عشق کا تصور واضح طور پر عشق رسول ﷺ سے لیا،اور اس پیراڈاکسیائی صورتِ حال کا حل بنا کر پیش کیا ،جس کا سامنا نبی ﷺ کی ذات کی مقدس تجرید کے عشق میں گرفتار ہونے سے ہوتا ہے۔یہ نظری حل نہیں۔ہوسکتا ہے نظری طور پر اسے واضح کرناہی محال ہو،لیکن اقبال بشری عالم کی اس انتہائی بنیادی خصوصیت سے واقف تھے کہ تمام عظیم کارنامے ، تمام بڑی تبدیلیاں ،تمام غیر معمولی فن پارے ان عظیم آرزوؤں سے جنم لیتے ہیں جو عشق کانتیجہ ہیں۔ عشق اور آرزو میں تعلق تو صدیوں سے معلوم بات ہے ،مگر اقبال نے دریافت کیا کہ عشق اور آزرو کی عظمت کا ایک ہی سرچشمہ ہے۔ اقبال کی شاہکار نظم’ مسجد قرطبہ ‘کے یہ اشعار ان معروضات کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے،جن میں عشق کی علامت ایک مخروطی صورت اختیار کرتی محسوس ہوتی ،اور جو تکمیل فن کا مظہر ہوتی ہے۔
مرد خد اکا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
تند وسبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصررواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
عشق دم جبریل ،عشق دل مصطفےٰ
عشق خدا کارسول ،عشق خدا کا کلام
عشق کے مضراب سے نغمہ ء تار حیات
عشق سے نورحیات، عشق سے نارحیات
آخر ی بات !اردو نعت کے موضوعات ،دیگر شعری اصناف کی طرح کبھی محدود نہیں رہے؛وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی آتی رہی ہے ۔نعت اسی طرح اپنے زمانے کی حسیت کو اپنی شعریات کا حصہ بناتی رہی ہے ،جس طرح دیگر شعری اصناف۔ کلاسیکی اردو شاعری کے عہد کی نعت کا اہم موضوع ،مدحت کے ساتھ ساتھ ،ثواب و مغفرت تھا، لیکن انیسویں صدی کے اواخرمیں نعت کے موضوعات میں تنوع پید اہونا شروع ہوا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نو آبادیاتی عہد میں جب مسلم قوم پرستی کا آغاز ہوا،اور جداگانہ مذہبی شناختوں پر اصرار بڑھا تو نعتیہ شاعری کے موضوعات بھی تبدیل ہونا شروع ہوئے۔ شناختوں کو مسخ کرنے کی نو آبادیاتی سیاست ،اور یورپ کے کبیری بیانیے کے ردّ عمل میں، برصغیرکے مسلمانوں کے یہاں اپنی مذہبی شناخت پر اصرار بڑھا،اور وہ تاریخِ اسلام اور سیرت رسول ﷺ کی طرف رجوع کرنے لگے۔ پہلی مرتبہ اردو شاعری میں مذہبی ،قومی شناخت ایک اہم موضوع کے طور پر شامل ہوئی۔ نعتیہ شاعری مذہبی قومی شناخت کی تشکیل کا ذریعہ بنی،لیکن اس موضوع پر گفتگو کسی اور موقع پر!
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.