جان لیوا جہالت
از، منصور علی
کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ایک خبر نظر سے گزری کہ پیر بابا کے ہاتھوں جن نکالنے کی کوشش کے دوران تشدد کی وجہ سے ایک فرد زندگی گنوا بیٹھا۔
اداس دل کے ساتھ سوچنے بیٹھ گیا کہ آخر کم علم اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں ہی کیوں ایسے واقعات ہوتے ہیں اور لوگوں کی موت ہے۔ کیوں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں لوگ جن نکالتے ہوئے تشدد یا کسی اور وجہ سے جان کی بازی نہیں ہار بیٹھتے۔
یہ بات انتہائی غور طلب اور اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارے اجتمائی روَیّوں میں اب تبدیلی کی بہت شدید ضرورت ہے۔
کائنات کی وسعت اور اس وسعت کے با وُجُود صرف ہماری زمین ہی پر زندگی کا وُجود در اصل زندگی کی قدر اور زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ لیکن اس زندگی کا اتنی بے رحمی اور بے دردی سے ختم ہونا ایک سانحۂِ عظیم ہے۔
ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، تا کِہ آئے دن ایسے واقعات سے زندگیاں قربان ہونے کا رجحان کم تر ہو کر ختم ہو جائے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارا جسم در اصل ایک انتہائی پیچیدہ قسم کی خود کار مشین جیسے نظام سے لیس ہے اور بعض اوقات اس میں کئی ایسی خرابیاں بھی واقع ہو جاتی ہیں جو باعثِ پریشانی ہوتی ہیں۔ ان میں سے کئی مسائل ہماری کم علمی کی وجہ سے ہم سمجھ نہیں پاتے۔
نتیجتاً ہم پیچیدگی کو اور زیادہ پیچیدہ بناتے چلے جاتے ہیں۔ سونے پہ سہاگا یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کی مجبوری اور مایوسی کو دیکھ کر اب یہ ایک با قاعدہ پیشہ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
بعض اوقات ایسی دماغی پیچیدگیوں کی وجہ بہت پہلے کی اذیت بھرے لمحات (ذہنی و جسمانی زیادتی،) مسلسل نا کامیوں کا دباؤ، دورانِ تربیت غیر مناسب روَیّے سے جنم لینے والی احساسِ محرومی وغیرہ ہو سکتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں جو مسائل/ بیماریاں/نشانیاں جِنّات کے سایہ پڑنے سے منسلک ہیں ترقی یافتہ ممالک میں ان کے لیے سائنسی اصطلاحات موجود ہیں، اور وہاں پر جدید سائنسی طریقۂِ کار سے ان کا علاج کیا جاتا ہے۔
وہاں پر کسی دیسی طریقۂِ علاج کی نوبت ہی نہیں آتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان معاملات پر شُعُور اجاگر کیا جائے اور باقی بیماریوں کی طرح ان کا بھی جدید طریقۂِ علاج اپنایا جائے، تا کَِہ قیمتی جانوں کا زَیان کم سے کم تر ہوتا جائے۔