معاشی عمل پر آئی ایم ایف کے تحفظات
از، وارث رضا
پاکستان میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی ترجمان ٹریسا ڈربن نے اسلام آباد میں نئے لائے گئے ایف بی آر چیئرمین شبر زیدی اور دیگر حکومتی حمایت یافتہ معاشی ماہرین کی موجودگی میں ایک سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی مخدوش معاشی صورتِ حال کو انتہائی خطر ناک قرار دیتے ہوئے، اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ملک میں عمران حکومت سیاسی استحکام لانے کے بَہ جائے سیاسی بے چینی کا سبب بن رہی ہے۔
جس سے عوام میں معاشی صورتِ حال اور پالیسیز کے منفی اثرات کا خیال کسی بھی وقت ایک بڑے عوامی احتجاج کا سبب بن سکتا ہے، جس کے نتیجے میں عالمی مالیاتی ادارے کے طے شدہ پروگرام میں رکاوٹ آ سکتی ہے، جو عالمی مالیاتی ادارے اور پاکستان دونوں کے لیے پریشانی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن سکتا ہے۔
آئی ایم ایف ترجمان ٹریسا ڈربن کا خیال ہے کہ ہمارے پروگرام پر عمل درآمد نہ ہونے میں سب سے بڑی نظر آنے والی رکاوٹ ملک میں ’’سیاسی عدم استحکام ‘‘ کی فضا ہے، انھوں نے جاری سیاسی عدم استحکام کو ایک اہم اور سب سے بنیادی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’عالمی مالیاتی پروگرام پر عمل در آمد کرنے میں بہت سے اقدامات موجودہ حکومت کو اٹھانے ہیں جن میں پروگرام کی سمت درست رکھنے کے لیے قومی اسمبلی سے قانون سازی اور قانون میں ترامیم کی ضرورت ہے، جو کہ موجودہ حکومت کی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کی بنا پر ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر آسانی سے قابو پانے کے امکانات تا حال نظر نہیں آتے۔ ٹریسا ڈربن نے اشارتاً واضح کیا کہ ہمیں حکومت کی جانب سے ایسی عملی یقین دہانیوں کی ضرورت ہے جس میں کچھ مثبت نتائج آتے ہوئے دکھائی دیں، انھوں نے موجود شُرَکاء کو بتایا کہ عالمی مالیاتی ادارہ اس پوری صورتِ حال کا جائزہ دسمبر میں ہونے والے اجلاس میں لے گا۔‘‘
عالمی مالیاتی ادارے کی ترجمان نے FATF کے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ہر صورت خود کو عملی اقدامات کے ذریعے FATF کی گرے لسٹ سے نکالنا ہے وگرنہ اس کے اثرات دوسرے عالمی مالیاتی ادارے پر بھی پڑ سکتے ہیں، انھوں نے واضح کیا کہ پاکستان FATF کی شرائط نہ مان کر بلیک لسٹ میں بھی چلا جاتا ہے تو اس سے عالمی مالیاتی ادارے کا پروگرام متاثر تو نہیں ہو گا، البتہ پاکستان ایک ایسے معاشی بحران کا ضرور شکار ہوجائے گا جس سے نکلنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
معاشی بحران کے خدشے کے پیشِ نظر عالمی مالیاتی ادارے کی ترجمان کا اندیشہ تھا، ’’آئی ایم ایف کے پروگرام اور معاشی اصلاحات کے عمل میں مہنگائی سے تنگ عوام کسی بھی صورتِ حال کو جنم دے سکتی ہے جو ملک میں افرا تفری اور عوامی احتجاج کی صورت میں نظر آ سکتا ہے، جس کا فائدہ اپوزیشن اٹھا سکتی ہے۔‘‘ انھوں نے اس سلسلے میں صوبائی ہم آہنگی کی کم زور صورت حال کو بھی مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا تا کِہ عالمی مالیاتی پروگرام کے جاری رہنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آ سکے۔
اسی سمپوزیم میں ٹریسا ڈربن کے معاشی اور سیاسی تحفظات پر ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی نے یقین دہانی کرائی، ’’حکومت عالمی مالیاتی ادارے سے کی گئی ایک ایک شرط کو پورا کرے گی اور پروگرام کے مطابق طے شدہ ٹیکس کے نظام پر مکمل عمل پیرا ہو گی اور اس سلسلے میں تاجروں، یا عوام کی جانب سے کسی بھی احتجاج کو خاطر میں نہیں لائے گی، اور نہ ہی کسی کو افرا تفری کی اجازت دے گی۔‘‘
معروف انگریزی مؤقر روز نامے کی اس سرخی کی خبر کو نا جانے ہمارے الیکٹرونک میڈیا اور حکومتی اینکر حضرات نے کیوں کر سنجیدہ نہیں لیا یا ایسا نہ کرنے کی ہدایات کے شکار بنا دیے گئے، بَہ ہر حال اس بات سے قطعِ نظَر عالمی مالیاتی ادارے کی پاکستانی سربراہ کی یہ تقریر بَہ راہِ راست ملکی عوام کے معاشی اور سیاسی مفادات اور اس کے بھیانک نتائج سے جڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے، جس میں عوام کے لیے واضح طور پر ’’مہنگائی اور معاشی تنگ دستی کے لیے تیار رہنے کا جبری اشارہ دیا گیا ہے، آئی ایم ایف کی ترجمان ٹریسا ڈربن کی یہ تقریر اور بیانیہ اس وقت سامنے آیا، یا، لایا گیا ہے جب پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت امریکی دورے پر ہے، جہاں وہ اپنے سفارتی تعلقات اورخطے کی پر امن بہتری کے لیے سر گرداں ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشی و سیاسی صورت حال کے نازک موڑ پر آئی ایم ایف کا یہ واضح بیان خطے کی معاشی صورت حال کے ساتھ خطے کی سیاسی صورت حال پر بھی دور رس اثرات کا پیش خیمہ دکھا رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی ترجمان کا مذکُورہ بیان در اصل خطے کی اُتھل پُتھل،FATF کی شرائط اور عالمی مالیاتی ادارے کے پروگرام اور اس کے مفادات سے جڑا ہوا ہے، خطے کی صورت حال کے تناظر میں یہ خطہ جہاں پاکستان کے سیاسی و معاشی استِحکام کے لیے اہم ہے وہیں خطے میں امریکی اثر و نفوذ کی کوششوں میں پاکستانی کردار بھی اہمیت کا حامل ہے۔
مختصراً، پاکستان جہاں سینٹرل ایشیا کی منڈی تک رسائی کا گیٹ وے ہے، تو وہیں پاکستان اپنے طاقت ور ہمسائے اور معاشی جن، چین کو بھی گنوانا نہیں چاہے گا، اور نہ ہی پاکستان کی یہ کوشش ہو گی کہ اس کے معاشی مفادات کے حصُول میں اس کے پڑوسی افغانستان، ایران اور بھارت کوئی بڑی رکاوٹ بنیں۔
اسی طرح پاکستان کے مفاد میں روس کی قربت بھی سینٹرل ایشیا کی مارکیٹ تک رسائی کا سب سے اہم ذریعہ ہے، مگر اس تمام سیاسی اور معاشی خدشات و امکانات کے ہوتے ہوئے پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت کو معاشی طور سے مضبوط کرنے میں تا حال نا کام رہا ہے، جس کی وجہ مختلف سیاسی و معاشی پالیسیز ہو سکتی ہیں، مگر ایک بات طے ہے کہ پاکستان کے اقتدار پر آنے والی فوجی، یا سول حکومتوں نے ملک کے عوام کی معاشی ضروریات کے مقابلے میں ’’غیر ترقیاتی، اخراجات کا بوجھ ملکی معیشت پر قومی سلامتی اور دفاع کے نام ڈالے رکھا، جس وجہ سے اب ملکی معیشت میں عوام کو سہولیات فراہم کرنے کی سکت نہیں رہی۔
اسی طرح ریاستی طور پر جاگیر داری، سرداری، خانان اور عوام دشمن مذہبی عناصر کو ریاست کا مضبوط اثاثہ سمجھ کر آج بھی سلامت رکھا ہوا ہے، گو یہ عالمی حقیقت ہے جاگیر دارانہ، سرداری اور مذہبی سماج کبھی معاشی ترقی کے پہیے کو آگے کی سَمَت نہیں لے جا سکتے، با وجود اس کے ہمارے اقتدار کے حکمران عوامی بالا دستی کے اصل گُر معاشی خوش حالی دینے سے غافل کیے گئے، اور بے تحاشا غیر ترقیاتی اخراجات کے اضافے سے آج ہم ایک سکڑتی، بَل کہ، نا کام معیشت پر عالمی اداروں سے قرضے لے کر غیر ترقیاتی اخراجات کے سودی قرضوں کو پورا کرنے پر مجبور بنا دیے گئے ہیں۔
اس نازک معاشی صورت حال میں جہاں ہم عالمی مالیاتی ادارے کے عوام پر ٹیکس لاگو کرنے ایسے عوام دشمن اقدامات پر سَر جھکانے پر مجبور ہیں تو دوسری جانب سات سمندر پار امریکہ کی خطے میں بالا دستی کو بر قرار رکھنے کی حماقت کا پھر سے اعادہ کرنے جا رہے ہیں۔
امریکی دورے سے ممکنہ نتائج FATF کی شرائط میں سودے بازی اور آئی ایم ایف کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں امریکی نفوذ پر خاموشی اور چین کے معاملات پر وقتی سرد مہری تو ہو سکتی ہے، مگر اس تمام تر صورت حال میں عوام کے معاشی مسائل حل ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
پچاس برس قبل یہ خطہ صلیبی جنگ میں سات سمندر پار امریکی پالیسیز کا حصہ بنا تھا، جس نے پورے خطے میں جہاں ڈالر جہادی پیدا کیے، وہیں دہشت گردی سے عوام کی معاشی اور سماجی زندگیوں کو تاراج بھی کیا، اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ یہ وقت ملک کے عوام کی معاشی خوش حالی واپس لانے اور مضبوط معیشت قائم کرنے کا ہے جس کے نتیجے میں ہی سیاسی استحکام ہو گا، مگر جب پاکستان پھر خطے میں امریکی مفادات کا پُل بننے میں سر گرداں رہے، تو اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملکی عوام کا اصل مسئلہ بھوک، بے روز گاری اور تنگ دستی سے چھٹکارا ہے، نا کہ عالمی سیاست کے نتیجے میں ماضی کے دہشت گرد اور آج کے ڈالر جہادیوں کی منی لانڈرنگ کی رقم کو سرمایہ کاری میں لگانے کی کوششیں کا، وگرنہ معاشی تنگ دست عوام کسی بھی لمحے احتجاج کا ایسا شُعلۂِ جوالہ بھی بن سکتی ہے جس کے خطر ناک نتائج نکل سکتے ہیں، جس کی جانب عالمی مالیاتی ادارے کی ٹریسا ڈربن نے اشارہ کیا ہے۔
یہ مضمون روز نامہ ایکسپریس پر بھی شائع ہوا۔