ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے کھیل
بابر ستار
دس سال کا عرصہ بیت گیا،ان گنت تفتیشی کارروائیوں کے سلسلے کے بعد مقدمہ چلا، فیصلہ سامنے آیا لیکن ہم محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے حقائق سے آج بھی اتنے ہی بے خبر ہیں جتنے اُس روز ، جب یہ سانحہ پیش آیا تھا ۔ ا س کا افسوس ناک ترین پہلو یہ ہے کہ فیصلے پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی ۔ جب ریاست ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا دعویٰ کرتی ہے تو کیا ہمیں کبھی سچ معلوم ہوتا ہے ؟ اگرایسا ہوتا تو ہماری تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہوجاتا۔ انسداد ِ دہشت گردی کی عدالت کا غیر جذباتی ہوکر کیا گیا فیصلہ اس خرابی کا خلاصہ ہے جس کی نمائندگی ہماری ریاست کے کچھ حصے کرتے ہیں۔ یہ مجموعی طور پر اخلاقی انحطاط، نااہلی، بزدلی اور غلط کاریوں کا ارتکاب ہے ۔
محترمہ کے قتل کے حوالے سے کم از کم تین مفروضے گردش میں تھے ۔ پہلا یہ اُنہیں مشرف کی ہدایت پر قتل کیا گیا، دوسرا ، اُنہیں مشرف حکومت نے غیر ریاستی عناصر کو استعمال کرتے ہوئے قتل کرایا ، تیسرا یہ کہ تمام منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد غیر ریاستی عناصر نے خود کیا ، اور مشرف حکومت کو اگرچہ خطرے کا علم تھا لیکن یا تو وہ بی بی کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی، یا کرنا ہی نہیں چاہتی تھی ۔ یہ تینوں مفروضے ریاست کی اچھی تصویر پیش نہیں کرتے ۔ یہ ایک ریاستی جرم تھا ، اور اس کا ارتکاب مبینہ طور پر ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی ساز باز سے ہوا تھا ۔ اور اگر اس کا ارتکاب غیر ریاستی عناصر نے اپنے طور پر دیدہ دلیری سے کیا تھا تو پھر اس سے ریاست کی غفلت یا کمزوری آشکار ہوتی ہے ۔
انسداد ِ دہشت گردی کے فیصلے سے کچھ بھی واضح نہیں ہوا ۔ وسیع تر تصویر کو سمجھنے ، یا اس کا تجزیہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ایسا کوئی تاثر نہیں ملتاکہ عدالت نے قتل کے اصل محرکات کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہو، یا اس کے فیصلے سے حقائق بے نقاب ہوئے ہوں، یا سنائی گئی سزانے مقتولہ کے قانونی وارثان کو انصاف فراہم کردیا ہواور وہ اس پر مطمئن ہوگئے ہوں، یا یہ فیصلہ عمومی طور پر جرائم کی روک تھام میں ڈیٹرنس کا کام دیتا ہو۔ اگر جسٹس سسٹم ایک گھناؤنے جرم کے محرکات و عوامل کو بھی بے نقاب نہیں کرسکتا ، مجرمان کی شناخت کرکے اُنہیں سزا نہیں دے سکتا اور وارثان کو بطور ِخاص اور معاشرے کو مجموعی طور پر پرسکون نہیں کرسکتا تو ایسا نظام ایک فریب ِ نظر کے سوا اور کیا ہے ؟
انسداد ِ دہشت گردی کی عدالت تیسرے مفروضے کو مسترد کرتی دکھائی دیتی ہے (یہ مفروضہ اُس وقت ریاست نے اختیار کیا تھا ) کہ بی بی کے قتل میں غیر ریاستی عناصر ملوث تھے ۔ اس مقدمے کا صرف یہی حصہ تھوڑا بہت معقول دکھائی دیتا ہے ۔ عدالت اس بات پر تنقید کرتی ہے کہ ملزمان اور قتل کے درمیان کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا، اور وہ کریمنل استغاثہ کی وسیع ترشکل کو اجاگر کرتی ہے ۔ ملزمان کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا، گرفتاری کی غلط تاریخ ڈالی گئی ، اعترافی بیانات تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے ، شہادت من گھڑت تھی، انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت اورمعیاری طریق ِ کار کی عدم موجودگی اور تحقیقات میں قدم قدم پر جھول نے استغاثہ کی پیش کردہ کہانی کو اتنا بے سروپا بنا دیا کہ یہ کسی طور جانچ کی چھلنی میں سے نہیں گزر سکتی تھی ۔
مشرف کو مقدمے سے الگ رکھتے اور یہ کہتے ہوئے کہ اُن پر بعد میں کسی مرحلے پر مقدمہ چلایا جائے گا، انسداد ِ دہشت گردی کی عدالت نے اس مفروضے کو حل نہیں کیا جس میں کہا جارہا تھا کہ بی بی کا قتل مشرف نے کرایا ہے ۔ بلکہ ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس ایس پی خرم شہزادکو ( پی پی پی سی کے سیکشن 119 اور 201 کے تحت جرم کے محرکات کو چھپانے پر) سزا سناتے ہوئے فیصلے نے دونوں تھیوریوں (ریاست نے خود بی بی کے قتل کا حکم دیا، یا اس نے غیر ریاستی عناصر سے قتل کرایا) کو کھلا رکھا ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ فیصلے نے جس طرح پولیس افسران کو قصور وار ٹھہرایا ہے ، اس نے عقل کو ماؤف کردیا ہے ۔ یہ اُن کے ڈیفنس سے خود کار طریقے سے ڈیل کرتا ہے ، اوراُنہیں سزا سناتے ہوئے یہ وضاحت نہیں کرتا کہ ان افسران نے قتل کے محرکات کو کیوں چھپایا اور اس کا اُنہیں کیا فائدہ ہوا؟چنانچہ عدالت نے یہ تو نہیں بتایا کہ بی بی کو کس نے قتل کیا، اس کی بجائے ہم نے دو پولیس افسران کو سزا ہوتی دیکھی ہے ۔ ایک کو اس پاداش میں کہ اُس نے بی بی کے حفاظتی پولیس اسکواڈ کو ایک فائرنگ کے واقعہ ، جس میں نواز شریف کی ریلی کو ہدف بنایا گیا تھا، کی طرف روانہ کردیا تھا، نیز اس نے پوسٹ مارٹم کا حکم بھی نہیں دیا ، دوسرے کو اس کے لیے اُس نے واقعہ کے 100 منٹ بعد جائے وقوعہ کو دھوڈالنے کا حکم دیا تھا ۔
محض دلچسپی کے لیے بتارہا ہوں کہ بطور ایک نوجوان اے ایس پی، سعود عزیز سول لائنز میں ہمارے ہمسائے تھے ۔ خرم شہزاد قائد ِ اعظم یونیورسٹی میں میرے ہم جماعت تھے ، اور کلاس کے سب سے نرم خو لڑکے تھے ۔ پولیس والوں کا کہنا ہے کہ وہ دونوں بہت پیشہ ور افسر تھے ۔بہرحال یہ تو بر سبیل ِ تذکرہ تھا، اگر وہ بی بی کے قتل میں کسی طور بھی شریک تھے تو اُنہیں سخت ترین سزاملنی چاہیے تھی ۔ کیا کسی کواُن محرکات چھپانے پر سزا سنائی جاسکتی ہے جن کا تعین ہی نہ ہوا ہو، یا اصل جرم کا ارتکاب کرنے والا ابھی صیغہ راز میں ہو؟
پولیس کو لاپروائی پر قابل ِ مواخذہ ٹھہرانا ایک بات ہے ، اور اُنہیں مجرم کو بچانے کے لیے شواہد ضائع کرنے پر سزا دینا اور بات ہے ۔ کیا اُن افسران کو محض قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے ، یا اُنہیں بی بی کے اصل قاتلوں کے نام ظاہر نہ کرنے پر سزا سنائی گئی ہے ؟چونکہ اس فیصلے میں استدلال کا سنگین فقدان ہے ، اس لیے ان معروضات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ جسٹس سسٹم کے عناصر کی نااہلی اس کیس میں بے حد عیاں ہے۔ فیصلے کا واضح حصہ صرف وہ ہے جس میں جج صاحبان نے یواین انکوائری کمیشن کا حوالہ دیا ہے۔ یواین انکوائری کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا تھا:’’بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات میں ناکامی کی ذمہ دار انٹیلی جنس ایجنسیاں اور دیگر سرکاری افسران تھے جنہوں نے سچ کی تلاش کی کوشش میں رکاوٹ ڈالی۔ ان ایجنسیوں کے پاس قتل کی تحقیقات کا مینڈیٹ نہیں تھا، لیکن وہ پولیس کی تحقیقات کے اہم مراحل پر موجود تھیں، جیسا کہ ثبوت اکٹھے کرناوغیرہ۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ خفیہ ادارے پولیس کا کام سرانجام دے رہے ہیں، اور وہ کسی قسم کے سچ کا سامنے کے لیے تیار نہیں تھے۔‘‘
’’اس سے بھی اہم ، آئی ایس آئی متوازی تحقیقات کررہی ہے ۔ وہ شہادتیں اکٹھی کرنے سے لے کر مشتبہ افراد کو حراست میں لے رہی ہے ۔ وہ اپنی حاصل کردہ معلومات پولیس سے صرف جزوی طور پر شیئر کرتی ہے ۔ پولیس کے پاس جو بھی تھوڑا بہت مواد تھا، وہ ان خفیہ اداروں کا ہی فراہم کردہ تھا۔ تاہم وہ ادارے پولیس کے ساتھ اہم معلومات شیئر نہیں کررہے تھے ۔ درحقیقت کراچی اور راولپنڈی کے تفتیش کار اُس معلومات سے بے خبر تھے جو آئی ایس آئی کے پاس تھی ، اور نہ ہی وہ جانتے تھے کہ اس نے اکتوبر 2007 ء میں بے نظیر بھٹو پر کراچی میں قاتلانہ حملہ کرنے کے الزام میں کن دہشت گردوں کو حراستی سیل میں بند کیا ہوا ہے۔‘‘
اس سے بھی اہم بات یہ کہ یواین انکوائری کمیشن نے رپورٹ کے کم و بیش تمام حصوں میں انٹیلی جنس اداروں کے خفیہ کھیل پر بات کی تھی ، جیسا کہ محترمہ کا وطن واپس آنا، خفیہ اداروں کے ساتھ معاہدہ کرنا اور الیکشن کا انعقاد کرنا وغیرہ۔ یواین رپورٹ کہتی ہے ۔۔۔’’ کمیشن کو یقین ہے کہ پولیس اور دیگر افسران مِس بھٹو پر حملے کے بعد موثر طریقے سے فعالیت دکھانے میں ناکام رہے کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ خفیہ ادارے اس معاملے میں کس حد تک تحقیقات کررہے ہیں۔‘‘
اس رپورٹ کا آخری حصہ، جس کا حوالہ فیصلہ سنانے والی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے دیا ہے، وہ بذات خود عدالت کے فیصلے پر تنقید کرتا ہے۔ بی بی کا قتل، بعد میں پیش آنے والے واقعات، خوفزدہ اور سہمے ہوئے تفتیش کار، دروغ گوئی اور پردہ ڈالنے کی کوشش، ایک پراسکیوٹر کی ہلاکت۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی جان بوجھ کر اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے کہ بی بی کو کس نے قتل کیا اور کیوں کیا؟
اس کیس کا سب سے ہولناک پہلو یہ ہے کہ بی بی کی پارٹی اُن کے مرنے کے بعد حکومت میں رہی تھی۔ اُس وقت ہر طرف سکون ہی سکون دکھائی دیتا تھا کیونکہ کسی نے طاقت ور عناصر کے ساتھ الجھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ سلیم شہزاد کمیشن کی سربراہی کرنے والے سپریم کورٹ کے ایک جج نے نتیجہ نکالا تھا کہ اگرچہ معلومات واضح نہیں ہیں اور وہ نام نہیں لے سکتے, لیکن وہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کلین چٹ نہیں دے سکتے۔ افراد کے غائب ہونے کا کیس بھی پتہ نہیں کہاں ہے؟ The Axact کیس کو بھی محترمہ کے قتل کیس کی طرح خراب کردیا گیا۔ ایک پراسکیوٹر کو گرینڈ حملے کا پیغام بھی ملا تھا۔ بلاگرز کے واقعات ابھی حال کا ہی حصہ ہیں۔ تو پیغام واضح ہے۔ غیر ریاستی عناصر کی مخالفت کرکے تو بچ سکتے ہیں، لیکن ریاستی عناصر کی نہیں۔