مطلق العنانیت، ریاستی سطح پر جھوٹ کی ثقافت، حقائق اور تھیوریاں
از، یاسر چٹھہ
ہینا آرینت (Hanna Arendt) بیسویں صدی (1906- 1975) کی ممتاز سیاسی فلسفی تھیں۔ آپ جرمنی کے یہودی النسل کنبے میں پیدا ہوئیں؛ لیکن جرمنی سے سنہ 1933 میں نکل جانے پر جب مجبور ہو گئیں تو اگلے آٹھ برس پیرس میں مقیم رہیں۔ پھر نیویارک جا بسیں اور وہاں ایک متحرک دانشوروں کی مجلس کی اہم رکن کا درجہ حاصل کرنے میں انہیں دیر نا لگی۔ بہت سی امریکی جامعات میں بلند مرتبہ عہدوں پر فرائض ادا کرتی رہیں۔ ہینا آرینت نے بہت سے فلسفیانہ مضامین اور کتابیں لکھیں، لیکن ان کی علمی اور عوامی حلقوں میں پہچان کا موجب 1951 میں شائع ہونے والی The Origins of Totalitarianism اور1958 میں منشئہ شہود پر آنے والی The Human Condition نام کی ان کی کتب رہیں۔ زیر نظر مضمون ہینا آرینت کے 1975 میں نیویارک ریویو آف بکس NYRB کو دیئے گیے ایک انٹرویو کے اقتباسات کے متن کا مدون شدہ اردو ترجمہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطلق العنانیت
مطلق العنانیت کی شروعات، ہر اس چیز سے حقارت کی بناء پر ہوتی ہے جو چیز آپ کی دسترس میں ہے۔ ان شروعات کے تسلسل کا دوسرا زینہ اس خیال پر مبنی ہوتا ہے کہ:
“حالات کو بدل جانا چاہئے، جیسے تیسے بھی بدل سکیں، انہیں بہرصورت بدل جانا چاہئے۔ ہر وہ چیز جس کے امکانات کی تعبیر ابھی تک نہیں ہوئی، وہ موجودات اور موجودہ حالات سے برتریں ہے۔”
مطلق العنان حکمران اس رنگ و آہنگ کے اجتماعی جذبات کی بھٹی میں آگ جھونکتے ہیں، اس کی ہر انداز سے نگہبانی کرتے ہیں؛ ایسے حکمران اس کی پرورش و نگہبانی کے دوران ہی اس کی بیانیات کے جوڑ سے جوڑ کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس بیانیاتی تشکیل کے مختلف مرحلوں کے دوران ہی کسی نا کسی طور سے عوام کے ایک وسیع طبقہ کو اس کی گرویدگی کے ہالہ میں سمیٹ لیتے ہیں۔ انہیں تو پہلے ہی مقدس کتابوں نے بتایا تھا کہ تم قتال نہیں کرو گے، لہٰذا وہ قتال سے باز رہے۔ اور اس نئی “اب” میں کیا ہوتا ہے؟
اس نئے سورج کے ساتھ طلوع ہوتی “اب” ایک معکوس چکر لے لیتی ہے؛ اب انہیں با انداز حکم کہا جاتا ہے کہ تمہیں قتل کرنا ہونگے۔ اور ہر چند کہ قتلوں کی عادت ڈالنا ان پر بھاری ہے، لیکن وہ قتل کرتے ہیں کہ یہی اب نیا ضابطہ حیات اور تسلیمیات acceptablities معاشرت نو بن جاتا ہے۔ پھراس نئی “اب” کے طلوع کے جلو میں وہ سیکھ جاتے ہیں کہ کس کو قتل کرنا ہے، کہاں قتل کرنا ہے؛ اور کس طرح اس قتل کو ایک رسم اجتماعی کی شکل دینا ہے۔ یہ قتل، یہ قتال اور یہ مقتلوں کی نئی رسمیات اپنے سے “مختلف” different/other کو ٹھکانے لگانے کی مقدس مشق کا رتبہ حاصل کر لیتی ہیں؛ یہ سب سلسلے کئی ایک کڑیوں سے پرو دیئے جاتے ہیں۔
آپ غیرمحسوس انداز سے اور بظاہر “طاقتور” کے ساتھ مربوط نہیں ہوتے، بلکہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ محض اپنے ہمسائے سے منسلک ہوئے یا جڑے ہوئے ہیں۔ آپ کو پتا بھی نہیں چلتا اور آپ اکثریت کے ساتھ اجماع کی کیفیت میں پرو دیئے جاتے ہیں۔ دوسروں سے بات چیت کئے بغیر، کچھ سنے سنائے بغیر آپ ان کے ساتھ ایک طرح چپک چپکا دیئے جاتے ہیں۔ مطلق العنانیت کے پروردگار لوگوں کی ایک خاصی تعداد کی انتہائی خطرناک جذباتیت کی تاروں سے کھیلتے ہے؛ ایسے لوگوں کی جذباتیت سے جو الگ تھلگ اور کٹے ہوئے ہوتے ہیں، اور جو “دوسرے” کے وجود و ہستی سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔
قومی و ریاستی سطح کی دروغ گوئی
جن وقتوں میں ہمارے ذرائع ابلاغ کی آزادی سلب ہوجاتی ہے، ان وقتوں میں کچھ بھی ہوجانے کا امکان ہوتا ہے۔ کسی بھی قسم کے مطلق العنان حکمران یا ادارے کے لئے لوگوں پر حکومت کرنا اس وقت پوری قوت طرح ممکن ہوجاتا ہے جب لوگوں کے پاس درست اطلاعات تک رسائی ممکن نا رہی ہو؛ بھلا دیکھئے کہ ان حالات میں جب آپ کے پاس درست اطلاعات تک رسائی ہی نا ہو، آپ کیسے اپنی آزادانہ معاملہ فہمی اور اس کے بعد رائے سازی کا کام کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو کہ آپ سے ہر وقت ہر کوئی صرف دروغ گوئی ہی کرتا ہو، تو اس کا نتیجہ یہ نہیں ہوتا کہ آپ ان پر یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں؛ بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کوئی بھی شخص کسی بھی بات پر یقین ہی نہیں کرتا، یعنی اعتبار وہاں سے عنقا ہوجاتا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ دروغ گوئی اپنے جوہر میں ہر لحظہ بدلتے جانے اور تبدیل کرتے جانے کی متقاضی ہوتی ہے؛ اور ایک دروغ گو حکومت کو ایک تسلسل کے ساتھ اپنی تاریخ کو ہر لمحہ نئے سرے سے لکھنا درپیش رہتا ہے۔ دروغ گوئی کے وصول کنندہ کے طور پر آپ کو محض ایک جھوٹ کو ہی سینے سے نہیں لگانا ہوتا، بلکہ گھڑی کی ہر ٹک ٹک کے ساتھ آپ کو ایک نئے جھوٹ کو نگلنا اور جزو جان کرنا ہوتا ہے۔ اس دروغ گوئی کے صارف کے طور پر آپ کو ہر لمحے نیا جھوٹ ہضم کرنا پڑتا ہے، ایک ایسا جھوٹ جس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے سیاست کی ہواؤں کا رخ کس سمت چل رہا ہے۔
ایک قوم جو کسی بات پر یقین نا کرنے، اور اس یقین نا کرنے کے نتیجے کے طور پر کسی بھی بات کے متعلق کوئی عزم نہیں باندھ سکتی۔ ایسی قوم نا صرف کسی قسم کا بھی کام سرانجام دینے کی صفت و صلاحیت سے تہی دامن ہوجاتی ہے، بلکہ سوچنے سمجھنے،معاملات و احوال کی تفہیم کرنے اور معاملات و حالات پر فیصل ہونے کی صلاحیت سے بھی بانجھ ہوجاتی ہے۔ ایک اور ہولناک نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ ایسی قوم کے ساتھ کسی مطلق العنان حکمران کا جو من بھائے وہ کرسکتا ہے۔
احتمالات اور تاریخ
کسی بھی واقعہ کی اہم خاصیت یہ ہے کہ اسے اس کے ہوجانے کے لمحے سے پہلے دیکھا نہیں جا سکتا۔ ہم مستقبل کو نہیں جانتے ہونے کے باوجود ہم سب مستقبل میں افعال کی سرانجامی کرتے ہیں۔ کوئی بھی ادراک نہیں رکھتا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیونکہ “مستقبل” سرانجام دیا جا رہا ہوتا ہے؛ فعل و عمل ایک انا، ایک”میں” کے بجائے ایک “ہم” کے ذریعے سر انجام پا رہا ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ صرف “میں” اکیلا ہی کرنے کے فعل سے منسلک ہوتا تو “میں” اس قابل ہوسکتا تھا کہ میں کسی طور پر پیش بینی کرکے بتا پاتا کہ میرے افعال کے نتائج کیا ہوسکیں گے۔ دراصل جو کچھ وقوع پذیر ہوتا ہے وہ کلی طور پر احتمالیت کی بناء پر ہوتا ہے؛ یوں لگتا ہے کہ احتمالیت ہی اصلا تمام کی تمام تاریخ میں سب سے بڑا عامل ہے۔
کوئی بھی نہیں جانتا کہ کیا ہونے کو ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اتنا زیادہ کچھ ، اتنے سارے متغیرات variables پر انحصار کررہا ہوتا ہے۔ دوسری طرف آپ تاریخ پر ایک نظر دوڑائیں تو ہر چند کہ یہ احتمالات پر ہی استوار ہے، لیکن پھر بھی آپ کسی حد تک فہم کو جچنے کے لائق ایک کہانی تراش سکتے ہیں، جسے ہم تاریخ کہہ دیتے ہیں۔ یہ نقطئہ نظر، کہ تاریخ “ایک” ہے اور خطی حرکت کرتی رہی ہے، بغیر کسی شک کے انتہائی غلط بات ہے۔
حقائق اور تھیوریاں
لوگ تھیوریوں سے رجوع کسی طرح احتمالیت اور عدم امکانیت سے چھٹکارا پانے کی ایک سبیل کے طور پر کرتے ہیں۔ ہیگل نے کسی موقع پر کہا تھا کہ ساری فلسفیانہ فکریات کا منصب و مقصد حادثاتیت کے امکانات کا رفع کرنا ہوتا ہے۔ کسی سچ fact کا مشاہدہ ان شاہدوں کی نظروں سے کیا جانا ضروری ہے جو اعلٰی ترین شاہدین نا ہوں؛ کسی بھی سچ کا شک کے بیلنے سے گزر کر نکلنا بہت ضروری امر ہوتا ہے۔ لیکن دو اور دو کا چار بننا ایک ایسا سچ ہے جو شک کے شکنجوں سے پار کی زمین کا سچ ہے۔
ترقی و پیش رفت
قانون ترقی (Law of Progress) یہ کہتا ہے کہ ہر وہ چیز جو اس وقت موجود ہے، اسے بہرکیف اپنی پہلے کی حالت یا حالتوں سے قدرے یا بہت اگلی سطح پر ہونا چاہئے۔ کیا آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ اگر آپ بہتر سے بہتر، اور اس سے بھی بہتر کے حصول میں سرگرداں رہتے ہیں تو آپ “خوب” good سے کہیں آگے مراجعت کر جاتے ہیں۔ “خوب” کی تو اب کوئی پیمان بندی بھی کرنے کی کوششیں نہیں کرتا۔