ریاستیں تعلیمی نصابات پر اجارہ کیوں رکھتی ہیں
(نقیب زیب کاکڑ)
جدید ریاستی بدعنوانی (یہ اصطلاح ان قوانین کے لیے استعمال ہوتی ہے جن میں عوام کے حقوق قانون کے سہارے ہڑپ کیے جاتے ہیں) مختلف اشکال میں انسانیت کے استحصال اور ظلم کا سبب مختلف طریقوں سے بنتی ہے، اس میں ٹھیکے داری کے نظام کی مثال آسان ترین مثال ہے، ریاست ایک نیشنل ادارہ یا کمپنی ہوتی ہے جو عوام کی جیبوں سے مختلف طریقوں سے پیسے بٹورتی ہے، یہاں سب سے پہلے ہم تعلیمی نظام سے عوام کے نفسیاتی استحصال کا ذکر کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں عمومًا یہ مغالطہ عام ہے کہ تعلیم ترقی کی علامت ہے اس بات سے میں اس وقت تک سو فی صد اختلاف نہیں کروں گا۔ جب تک ہم ترقی کی تعریف متعین نہیں کرتے، یعنی ترقی کیا ہے؟ مطلب کہ اگر ترقی کی تعریف انسانیت کی فلاح ہے، تو وہ اس کے تو جدید دنیا میں دور دور آثار نظر نہیں آتے۔ لیکن اگر دولت اکھٹی کرنا ترقی ہے تو یہ انسانیت کی ترقی کا معیار نہیں بلکہ استحصال یا ظلم ہے۔
خیر یہ تو ہم ایک رخ کا ذکر کررہے ہیں ، یعنی تعلیم کے متعلق عوامی آراء ہیں، ریاست کس مقصد سے تعلیم دے رہی ہیں اس بات پر ہمارا نقطہ نظر فہیم ہونا چاہیے۔ جدید ریاستیں تعلیم کس غرض سے دیتی ہیں یہ نقطہ غور و فکر کرنے کے لائق ہے۔ ہمارا قریب ترین نصاب پاکستان کا نصاب ہے یہاں تقریبا چودھویں جماعت (اس درجے کے اور بھی پروگرامز اس میں شامل ہیں ) تک نصاب تقریباً مسلط کیا گیا ہے. یہاں میرا اشارہ زیادہ تر اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کی طرف ہے جبکہ باقی مضامین بھی تا حال وہی رٹے رٹائے پرانے طریقے سے پڑھائے جاتے ہیں ۔مثلاً چار پانچ سال پہلے بلوچستان کی دسویں جماعت کے بائیولوجی کے نصاب میں ایک مضمون اس لیے رکھا رکھا گیا تھا کہ ڈارون کا نظریہ مذہبی نقطہ نظر سے غلط ثابت کیا جا سکے۔
واضح رہے یہاں ڈارون کے نظریے کی وکالت نہیں بلکہ طریقے سے اختلاف مقصد ہے، یعنی ڈارون اگر غلط ہے تو سائنسی اور تجرباتی طریقے ہی سے غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔
اسلامیات اور مطالعہ پاکستان بھی تاریخی اور مابعد الطبیعیاتی شعور کی غرض سے نہیں پڑھائی جاتیں بلکہ ان کے پیچھے دو مقاصد ہیں، مطالعہ پاکستاں تو ظاہر ہے پاکستانی قوم پرستی کے پروپیگنڈے کے فروغ کے لیے پڑھایا جاتا ہے جبکہ اسلامیات سٹریٹجک مقاصد کو مذہب سے جوڑ کر پڑھایا جاتا ہے۔ تاکہ ہمسایوں سے تعلق انٹرنشنل ریلشنز کے سازشی اصولوں کی بنیاد پر رہے۔ لیکن جغرافیائی حقائق کو مذہب سے اپنے مقصد کی باتیں نکال کر حقیقی ثابت کیا جاسکے۔
بہت سے مقامات پر مذہب کو بھی قومی پرستی کے مقاصد کے استعمال کیا گیا ہے۔ ایک اور بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ ریاست کا مقصد ہرگز تبلیغ مذہب کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اپنے مقصد کا کام لینا ہوتا ہے۔ اس کی مثال ہم چین کے اینٹی اسلامک اقدامات پر ریاست پاکستان کی بھر پور خاموشی اور فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے پر مگر مچھ کے آنسو بہانے سے لے سکتے ہیں ، اور افغانستان کے پشتونوں کے قتل و عام اور تباہی کے لیے امریکہ کو راستہ دینا۔
ایک دفعہ مذہبی بیانیے سے افغانستان میں قتل عام کروایا جب ریاستی کمپنی کو نقصان کی بات آنے لگی تو پھر اپنے انہی ہم مذہب لوگوں پر خاموشی اختیار کر لی جن سے یہ اسٹریٹیجک اثاثوں کے نام پر قتال کرواتی تھی۔ مطالعہ پاکستان پر صرف اتنی بات کروں گا کہ اس مقصد کے لیے پڑھائے جانے والے مضامین کا ہر ریاست میں مقصد تاریخ کی کایا پلٹ دینا ہوتا ہے، کیونکہ اگر سچ بولا گیا تو قومی افیون میں کمی آجائےگی۔
ان کے علاوہ اگر مشاہدہ کیا جائے تو “قومی” کا پروپیگنڈہ ہمیں ہر مقام پر دیکھنے کو ملے گا مثلاً اگر پاکستان میں 14 اگست اور بھارت میں 15 اگست کی تاریخ قریب آنے لگتی ہے تو ٹی وی پر ملٹی نیشنل کمپنیز ریاست کی تاکید سے تمام اشتہارات قومی پرچار کے ساتھ شائع کرنے لگ جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ قومی کھیل ہاکی کو قرار دینا ، چنبیلی کو قومی پھول قرار دینا، یہاں تک کہ جانور بھی قومی ہیں یعنی مارخور کو قومی جانور قرار دیا جانا بھی اس زنجیر کی ایک کڑی ہے، قومی لباس جو پتہ نہیں کیا تھا آج کل تو یقینًا خودکش جیکٹ ہوگا۔
ہم سے یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اس مصنوعی قومیت کا نقصان کیا ہے اچھا ہے لوگ اکھٹے رہیں گے، متحد رہیں گے۔ کوئی اس قومیت کے خلاف بولے گا تو اس کو غدار اور کوئی مذہبی تشریحات کو ازسر نو مرتب کرنے کی بات کرےگا تو اس کو اجتماعی طور آسانی سے قتل کیا جاسکے گا، ایک دو کو یا تو قتل کرو ایک دو کو غائب کر دو۔ پھر دیکھتے ہیں ان ہنود و یہود کے ایجنٹس میں سے کون سر اٹھا ئے گا۔
واضح رہے اوپر بیان کیا گیا بیانیہ، اس قومی پہچان کی مصنوعی تشریح اور مذہب کی اپنی پسند سے تشریح کرنے کا نتیجہ ہے۔ آخر ریاستوں کو پہچان کے لیے ایسے بیانیے کیوں مرتب کرنے پڑتے ہیں، ریاست ایک غیر فطری ادارہ ہے اس کو فطری ثابت کرنے لے لیے ریاست ایسے حربوں سے کام لیتی ہے۔ جدید ریاستیں لوگوں کو آزاد خیال کا لولی پاپ دے کر جنسی آزادی کے نام پر ان کے حقوق ہڑپ کرتی ہیں۔ کیونکہ وہاں ڈیمانڈ کی شکل بدلی ہوتی ہے یعنی وہاں جنس کی آزادی کو لوگوں کا مسلہ ڈیکلیر کر لیا جاتا ہے ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ان ممالک میں ہم جنس پرستوں کے اجتماع تو آسانی سے بنتے ہیں لیکن بھوکوں کے اجتماعات بہ مشکل مل بن جاتے ہیں۔
ٹھیک یہاں یعنی پاکستان میں مذہب کے نام پر تو لاکھوں کا مجمع بن جاتا ہے لیکن کبھی پانچ لوگوں کو بھوک اور بے روزگاری کے لیے احتجاج کرتے نہیں دیکھا ، وجہ کیا ہے کیونکہ ریاست نے اپنے نصاب کے ذریعےان کو کنفیوز کیا ہے کہ آپ لوگوں کا مسئلہ بھوک بے روزگاری علاج نہیں بلکہ مذہبی اصولوں کا ریاست کا حصہ نہ ہونا ہے۔
جبکہ روشن خیال بھی روشن خیالی کے پلیٹ فارم سے ایسے مغالطے پھیلاتے ہیں، واضح رہے ریاست کی قومیت پر دونوں متفق ہوتے ہیں لیکن اپنے اپنے نقطہ نظر سے، کسی خالص فلاحی نظرہے پر بہت کم لوگ ہی متفق ہیں۔ انسانی اقدار کی پامالی پر اکثریت متفق ہیں، ریاست کے وجود پر بھی اس صورت میں اتفاق ہوسکتا ہے کہ اس میں کسی انسان کے حقوق کی پامالی کسی بھی صورت میں نہ ہو، نہ مذہب کے نام پر اور نہ ہی قومیت کے نام پر کسی انسان کا استحصال ہو، نصاب میں انسانوں کو انسانیت سے گمراہی کے بجائے انسان اقدار سے اگاہ کیا جائے۔ انسان کو انسانوں سے نفرت دلانے کے بجائے انسانوں سے محبت سکھائی جائے، ٹارچر سیلز کو انسانی فلاحی مرکز بنایا جائے، انسان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے نہ کہ عقائد کا، عقائد کو ذاتیات تک محدود رکھا جائے اجتماعی نہ کیے جائے ورنہ اس صورتحال کو دوام حاصل ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔