ڈاکٹر عرفان شہزاد
دین ، مذہب اور وطن کی محبت کے نام پر ہمیں درحقیقت دوسروں سے نفرت کا درس بڑی محنت سے دیا جاتا ہے۔ اور ہم جہالت سے کھڑی کی گئی نفرت کی ان دیواروں میں گھٹ مرتے ہیں لیکن اس حبس زدہ چار دیواری سے باہر نکل کر حقیقت کے تازہ جھونکوں میں سانس لینے کی ہمت نہیں کرتے اور اپنی کم ہمتی کو تمّسک کا نام دے کر خود کو شاباش دیتے رہتے ہیں ۔
ادھر اپنا یہ حال ہے کہ شعور کی آگہی کی اذیت میں گرفتار ہوں، وہ نظریات، عقیدے اور عُقدے جو بچپن سےمسلمّات کے نام پر پڑھائے اور سکھائے گئے، ان سب کی جانچ کی خُو جب پڑی تو بس نہ پوچھیے کون کون سے بت تھے جو نہ ٹوٹے۔ بقول غالب:
ہر چند سُبُک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں، تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور
کچھ عرصہ ہوا، ایک اور بت ٹوٹا لیکن افسوس یہ ہوا کہ دیر سے ٹوٹا۔ مفتی امجد عباس کے طفیل اہل تشیع اور جامعہ الکوثر دیکھنے کا موقع ملا۔ یوں تو سب کی طرح میں بھی ہزاروں بار اس جامعہ کے باہر سے بلا تعرض گزر جاتا رہا ہوں، لیکن اُس دن اسےاندر سے دیکھا تو جس خوشگوار حیرت سے دوچار ہوا وہ اب تک مجھے گھیرے ہوئے ہے۔ آئیے حیرت کے اس سفر میں آپ بھی ہمرکاب ہوں۔ اور سب سے بڑا سرپرائز آپ کو مضمون کے آخر میں ملے گا، کیونکہ وہ سب سے آخر میں ہی میرے سامنے آیا تھا۔
مفتی امجد صاحب کی دعوت پر ان سے ملنے جامعہ الکوثر جانا ہوا۔ امجد صاحب سے ملنے کا اشتیاق تھا، جو ان کی معتدل اور مبنی بر حق تحریروں سے پیدا ہوا تھا۔ امجد صاحب کو نہایت عاجز، کشادہ دل اور نہایت بے تکلف پایا۔ ان کے حجرے میں جانے کا شرف حاصل ہوا، جس کو سماجی ذرائع ابلاغ کی عظیم شخصیات اور دیگر اہل علم کی نشست گا ہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مستقبل میں یہ کمرہ ایک یادگار کے طور پر جانا جائے گا۔
ڈاکٹر ندیم عباس صاحب بھی شریک ِ محفل ہوگئے ۔ کچھ دیر کی بات چیت کے بعد نماز کے بعد وقت ہوگیا۔ امجد صاحب نے مجھے اختیار دیا کہ آپ چاہیں تو جماعت سے نماز پڑھ لیں اور چاہیں تو انفرادی طور پر پڑھ لیں۔ میں نے عرض کیا کہ میں کشتیاں جلا کر آیا ہوں۔ اس پر احباب ہنس دئیے۔ میں یہ کہا کہ میں آپ کو دینی بھائی سمجھ کر آیا ہوں اب اگر نماز آپ کے پیچھے نہ پڑھوں تو یہ منافقت ہو گی۔
جامعہ الکوثر کی مسجد کشادہ اور خوبصورت ہے۔ ساری مسجد ایک گنبد پر محیط ہے۔ بیچ میں کوئی ستون نہیں کہ خلل انداز ہو۔ دیواروں پر لکڑی سے تراش کر آیات قرآنی لکھی ہوئی ہیں، جن کی تکمیل میں بقول ندیم عباس صاحب چار سال لگے تھے۔ اپنی زندگی کے چالیس برسوں میں یہ پہلی دفعہ تھی کہ میں نے ایک شیعہ امام کے پیچھے نماز پڑھی۔ اہل تشیع کے شانہ بشانہ میں نے اپنے طریقے سے نماز پڑھی، اس کے علاوہ مجھے کوئی دوسرا طریقہ آتا بھی نہیں۔ اہل تشیع ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ہی وقت میں مختصر سے وقفے کے ساتھ اکٹھا ادا کرتے ہیں، لیکن امجد صاحب نے ظہر کے ساتھ عصر کی نماز ادا نہیں کی اور کہا کہ عصر کے وقت میں پڑھ لیں گے اور یہ کہ ان کے ہاں بھی نمازوں کو الگ الگ پڑھنا افضل ہے۔
نماز کے بعد ہم واپس اسی عظیم حجرے میں آئے، ایک پلیٹ میں کھانا کھایا اور ایک گلاس سے پانی پیا۔ کھانے کے بعد امجد صاحب مجھے لائبریری لے گئے۔ یہاں پہلی حیرت میر ی منتظر تھی ۔ جامعہ الکوثر کی لائبریری نہایت شاندار تھی۔ دائروی کمرہ ہے، اطراف میں الماریاں ہیں جن میں کتب ترتیب سے لگائی گئی ہیں ، اور درمیان میں بیٹھنے کے لیے گول دائرے کی شکل میں میز کرسیاں لگی ہوئی ہیں۔ ہر نشست کے ساتھ انفرادی روشنی کا انتظام بھی ہے۔ الماریوں میں لگی کتب کی جو بات مجھے بہت متاثرکن لگی وہ یہ تھی کہ اہل سنت اور اہل تشیع کی کتب موضوعات کے اعتبار سے بغیر کسی امتیاز کے ساتھ ساتھ لگی ہوئی تھیں۔ اہل سنت کی تقریباً تمام امہات کتب وہاں موجود ہیں لیکن الگ سیکشن میں نہیں بلکہ اہل تشیع کی کتب کے پہلو میں ۔ دوسری اہم بات مجھے یہ معلوم ہوئی کہ اہل تشیع کے ہاں ہمیشہ سے ہی فقہ کا تقابلی مطالعہ کرایا جاتا ہے اور اس تقابل میں اہل سنت کے تمام مکاتبِ فکر کی آراء اور اقوال شامل ہوتے ہیں۔ جب کہ اہل سنت کے ہاں تقابلی مطالعہ اگر کرایا جاتا ہے تو وہ بھی احناف اور شوافع کے درمیان اور کسی حد تک مالکی فقہ کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ دیگر سنی مکاتبِ فقہ سے بالعموم نا واقفیت پائی جاتی ہے۔ فقہ جعفریہ کا تو تعارف تک نصاب میں موجود نہیں ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ اہل تشیع کے علماء اہل سنت کے فقہ سے بخوبی واقف ہوتے ہیں ۔لیکن دوسری طرف یہ حال نہیں۔
اس کے بعد علامہ آفتاب جوادی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ انہیں خالص علمی انسان پایا جن کا اوڑھنا بچھونا علم اور کتابیں ہیں۔ وہ اہل سنت کی کتب ، حالات اور موجودہ شخصیات سے بھی سے بالکل ایسے واقف ہیں جیسے و ہ ان میں سے ہوں۔ امجد صاحب سے اہل تشیع کے ذاکرین اور ان کے اثرات پر بھی بات ہوئی۔ امجد صاحب ذاکرین کی حرکتوں سے نالاں تھے کہ ان کی وجہ سے شیعیت کا ایک برا اور غلط تعارف عوام میں پھیلتا ہے، ان کی اصلاح کے لیے کھل کر لکھتے ہیں اور اپنوں سے بھی مطعون ہوتے ہیں۔ امجد صاحب زنجیر زنی کو نفسیاتی عارضہ کہتے ہیں۔
اب آتا ہے سب سے بڑا سر پرائز۔ امجد صاحب نے مجھ سے کہا کہ ‘آپ نے سن رکھا ہو گا کہ اہل تشیع میں حافظ نہیں ہوتے۔ یہ غلط ہے ۔ آئیے آپ کو حفاظ سے ملاتا ہوں۔ اپ ان سے جہاں سے چاہیں قرآن سنیں وہ نہ صرف سنائیں گے بلکہ ترجمہ بھی بتائیں گے ۔ صرف یہی نہیں، آیت نمبر اور صفحہ نمبر بھی بتائیں گے’۔ مجھے لگا کہ شاید کچھ مبالغہ فرما رہے ہوں۔ ہمارے ہاں اگر ایسا کوئی حافظ ہو تو ہم تو اسے جگہ جگہ پیش کرکے اس کے فن کا مظاہرہ کراتے ہیں۔ اخبارات میں اس کے انٹرویوز آتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ چلو کوئی ایک دو ہوں تو مان بھی لیا جائے لیکن امجد صاحب فرما رہے تھے کہ ان کے ہاں حفظ ایسے ہی کرایا جاتا ہے۔ اور وہ بھی سکول کی تعلیم کے ساتھ ! یعنی پانچویں سے آٹھویں تک قرآن ن مکمل حفظ کرا دیا جاتا ہے۔ اس سے کم عمر کے بچوں کو حفظ نہیں کرایا جا تا کیونکہ وہ ترجمہ درست طور پر سمجھ نہیں پاتے۔ جب کہ ہمارے ہاں کے حفاظ کا یہ کہنا ہے کہ حفظ کم عمری میں اور سکول کی تعلیم سے ہٹ کر ہوتو اچھا حافظ بنتا ہے۔ نیز ترجمے کو حفظ کے لیے مضر خیال کرتے ہیں۔ میں خود بھی حفظ کی کلاس ، باوجود حافظ نہ ہونے کے پڑھاتا رہاہوں اس لیے ان باتوں سے واقف ہوں۔
خیر،ہم میدان میں گھومتے کچھ طلبا کے پاس گئے ، ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ حافظ ہیں ،بتایا گیا کہ ان میں سے دو نے 22 سیپارے حفظ کر رکھے ہیں۔ پھر ایک مکمل حافظ بھی آگئے۔ ہم سب بنچوں پر بیٹھ گئے۔ قرآن میرے ہاتھ میں دے دیا گیا۔ میں نے ایک آیت کا ابتدائی حصہ پڑھا اور ایک بچے سے پڑھنے کو کہا ، اس نے پہلے مجھے یہ بتایا کہ یہ فلان سورہ کی فلان نمبر آیت ہے۔ میں چونک کر رہ گیا۔ اس نے آیت پڑھی، میں نے ترجمہ پوچھا، اس نے ترجمہ بتا دیا ۔ میں نے پوچھا کہ کیا اس مفہوم کی کوئی اور آیت بھی ہے، اس نے مجھے وہ آیات مع سورہ کا نام اور آیت نمبر کے سنانا شروع کر دیں۔ دوسرے حافظ صاحب سے میں نے پوچھا کہ میرے ہاتھ میں تھامے ہوئے قرآن کے فلان صفحہ نمبر پر کون سی سورہ ہے ، اس نے بتا دیا۔ میں نے پوچھا کہ سورہ فلاں اور آیت نمبر فلاں پڑھئے، اس نے فورا پڑھ دی۔ پھر پوچھا کہ فلاں صفحہ نمبر کی پہلی آیت کیا ہے، اس نے وہ بھی سنا دیا۔
میں حیرت میں گم ان حفاظ کو دیکھتا جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آج تک ہمیں یہ کیا کہانیاں سنائی جاتی رہیں کہ اہل تشیع میں قرآن کے حافظ نہیں ہوتے اور خدا نے ان سے یہ برکت چھین لی ہوئی ہے اور یہ ان کی بطالت کی دلیل ہے ۔ البتہ یہ برہان جو میں آنکھوں سے دیکھ رہا تھا یقیناً اس دعوے کی بطالت کی دلیل تھا۔ امجد صاحب نے بتایا کہ اہل تشیع کے حفاظ اس لیے زیادہ نمایاں ہو کر سامنے نہیں آتے کہ ان کے ہاں تراویح با جماعت نہیں پڑھائی جاتیں اور نہ ان میں قرآن سنایا جاتا ہے، اس لیے جو بھی حافظ بنتا ہے اپنے شوق سے بنتا ہے، جگہ جگہ سنانے کی نوبت کم آتی ہے۔
یہاں ایک لطیفہ بھی ہوا۔ ندیم عباس صاحب نے کہا کہ یہ شیعہ حفاظ ہیں یہ نہ سمجھیے گا کہ ہم اہل سنت سے کرائے پر حفاظ لے کر آئے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ اہل سنت کے حفاظ نہیں ہو سکتے، اگر ہوتے اور اگر ہم ان کے قرآن پڑھنے کے درمیان ان کو ٹوک دیتے تو وہ کہتے ‘ کیا کرتے ہو یار، سارا بھلا دیا، اب پھر شروع سے پڑھنا پڑے گا۔ ‘ اس پر قہقہہ چھوٹا۔
پر اب آپ موازنہ کر کے دیکھ لیجئے اپنے ہاں کے حفاظ کے ساتھ، جو قرآن کو رٹا لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کی حفاظت ہو گئی اور ساری برکتیں مل گئیں۔ ان کے لیے قرآن کسی اور زبان میں بھی ہوتا تو ان کو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا، کیونکہ ان کو اس سے کوئی غرض ہی نہیں کہ قرآن میں اللہ کیا فرما رہا ہے۔
جامعہ الکوثر کے دورے سے اہل تشیع پر عائد ایک اور بہتان کی قلعی بھی کھل گئی کہ شیعہ حضرات اس موجودہ قرآ ن کو اصل قرآن نہیں مانتے۔ امجد صاحب نے اس پر بڑی خوبصورت بات کی۔ فرمایا کہ، قرآ ن میں رد و بدل کے قائل اہل تشیع کی طرف منسوب ایک نہایت قلیل گروہ رہا ہے، اور اہل تشیع ان سے برات کا اعلان کرتے ہیں، لیکن ہمارے اعلان برات کو نظر انداز کیا جا تا ہے اور محض اہل تشیع کی طرف منسوب ہونے سے ان کو سارے اہل تشیع کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے یہ بڑی زیادتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ قادیانی حضرات جوختم نبوت کے قائل نہیں وہ اہل سنت کے مکتبہ فکر احناف میں سے ہیں اور اب بھی فقہ حنفی پر کاربند ہیں، لیکن اہل سنت ان سے برات کا اعلان کرتے ہیں، اب قادنیوں کے محض اہل سنت یا حنفی ہونے کی بنا اہل سنت پر یہ الزام لگانا درست نہین کہ وہ ختم نبوت کے قائل نہیں ، اسی طرح اہل تشیع پر یہ الزام لگانا درست نہیں کہ وہ قرآن کے محفوظ ہونے کے قائل نہیں۔ اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ قرآ ن میں رد وبدل یا تحریف کی روایات بھی اہل سنت کی امھات کتب میں پائی جاتی ہیں لیکن الزام اہل تشیع پر ہے۔
مجھے احساس ہوا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں بھی ہم اپنی تعمیر کردہ اور اپنی تعبیر کردہ جہالت کے گنبدوں میں کب تک جیتے رہے ہیں گے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھیے، اپنے دماغ سے سوچئے۔ اپنے سے مختلف اور مخالف کی خوبیوں کااعتراف بالغ نظری کا تقاضا اور اخلاقِ نبوی میں سے ہے۔ اختلافِ عقائد اور اختلافِ نظریا ت کے ساتھ بھی اخوّت قائم کی جاسکتی ہے۔ اگر اہل شعور مل بیٹھتے رہیں تو فرقہ بازی کی دکانیں بند ہو سکتی ہیں۔
فاعتبروا یا اولی الابصار۔
Sidd-e-sikandri koi paar karay to kuch nazar aaye. A very good piece to understand the dangers of seclusion, and benefits of inclusive approach as has been enunciated in Qur’an
Thanks brother
ڈاکٹر عرفان شہزاد میں آپ کے مضمون سے سو فیصد متفق ہوں۔
ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہے۔ مجھے ایک امام بارگاہ سے منسلک ادارے میں بطور اُستاد رکھا گیا تھا اور آج میں اُس ادارے کا ایڈمنسٹریٹر ہوں۔
یہاں کام کرنے کے دوران اہل تشیع حضرات سے متعلق کئی شبہات کا ازالا ہوا اور اس بات بھی پتہ چلا کے معتدل اہل تشیع اپنے یہاں موجود شدد پسندوں سے نالاں ہیں۔
واللہ اعلم!
جزاک اللہ