(نعیم بیگ)
کچھ عرصہ پہلے ہندوستان سے اردو ادب کے چنیدہ عصری شعرا اور ادیبوں سے گاہے بگاہے کسی نہ کسی کتاب ، ادبی ریویو یا رسالے کے توسط سے آشنائی کا ایک رشتہ استوار ہوجاتا تھا، لیکن جب سے سوشل میڈیا کی دنیا میں ادبی فورمز کا قیام عمل میں آیا تو فیس بک نے سرحد کے آر پار دوستیوں ، محبتوں اور ادبی تبادلہ خیالات کو ایک نیا جہاں عطا کر دیا۔ ملکی اندرونی سطح پر جہاں تعلقات کی نئی ادبی دنیا بسنے لگی، وہیں ہندوستان کے کئی ایک ممتاز ادیبوں سے براہِ راست رابطے کا اہتمام ہوا۔ دیپک بدکی بھی ان میں سے ایک ہیں۔
ایسے میں انٹر نیٹ کی دنیا نے چند ادبی جریدوں کو بھی معتارف کروایا جہاں اردو ادب کی انہی ادیبوں اور شعرا کے فن پارے ، ان کی ذاتی زندگی اور انداز فکر و سفر سے آشنائی ہوئی۔ سوشل میڈیا پر ہندوستان کے اِن ممتاز ادیبوں میں دہلی سے مشرف عالم ذوقی اور پیغام آفاقی مرحوم اور پرویز شہریار، مہاراشٹر سے ڈاکٹر صدیقہ نواب سحر ، رحمان عباس، بہار سے مشتاق احمد نوری، اقبال حسن آزاد ، پٹنہ ہی سے شموئیل احمد ، پونا سے نذیرفتح پوری ، یوپی سے ڈاکٹراسلم جمشید پوری، ڈاکٹر افشاں ملک، ڈاکٹر نسترن احسن فتیحی، دیپک بدکی، ڈاکٹر منصور خشتر، عادل فراز ، جارکھنڈ سے ابرار مجیب ، ڈاکٹر اختر آزاد ، راجستھان سے عادل رضا منصوری اورکشمیر سے فرحت عمر اور ڈاکٹر ریاض توحیدی اور ایک بار خود پھر دیپک بدکی (کشمیر کے حوالے سے) اور دیگر ادباٗ شامل ہیں۔
یہاں کسی طور ان ادیبوں کی فہرست مقصود نہیں، کیونکہ بہت سے نام رابطے میں نہ رہنے کی وجہ سے یاد داشت سے محو ہیں، تاہم منشا وعرضِ مدعا یہ کہ دنیائے اردو ادب ہندوستان کے ان ادیبوں میں مدیر، نقاد اور دانشور حوالوں سے بہت سے ممتاز نام یہاں پاکستان کی ادبی دنیا میں معروف اور اہمیت کے حامل ہیں۔ انہی میں ایک نام دیپک بدکی کا بھی ہے۔
یہ اتفاق تھا کہ ان کی تحاریر، افسانے، افسانچے اور نثری تنقیدی مضامین سے کچھ منتخب حصے میں انٹرنیٹ جریدوں پر پڑھ چکا تھا اور یہ یقین واثق ہوچکا تھا کہ دیپک بدکی ہندوستان کے ممتاز ادیب و نقاد ہیں۔ تاہم جب حال ہی میں انکا افسانوی مجموعہ ’روح کا کرب ‘ اور افسانچوی مجموعہ ’ مٹھی بھر ریت ‘ میرے ہاتھ لگا تو میری دلی مسرت ناقابل بیاں تھی اورمیرے اندر چھپے مطالعاتی تجسس و جبلت نے مجھے مجبور کیا کہ انہیں فوراً پڑھا جائے۔
یکے بعد دیگرے ان مجموعوں کو پڑھنے سے جو پہلا خیال میرے دل و دماغ میں آیا کہ جیسے انسان کے اندر فطری مناظر، بہتے جھرنوں کی موسیقی، برگد اور چنار کے درختوں کے سائے، پہاڑ، دریا اور سمندر اپنی ایک خاص مہک رکھتے ہیں ویسے ہی ادیب کا ذہن کس قدر زمینی حقائق سے جڑت رکھتا ہے اور وہ انسانی المیوں میں فکر و ادراک کا سفر جاری رکھتا ہے۔ فکری و ثقافتی رویوں کو تہذیبی آشنائی کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور زرعی تہذیب سے کشید کئے ہوئے نئے شہری فکری افق کس قدر تیزی سے اپنے قلم میں سمو لیتا ہے۔ یہ اس لئے کہا کہ یہ سب کچھ آپ کو ان نثری مجموعوں میں بکثرت ملے گا۔
دیپک بدکی نے واضح طور پر نہ صرف منقسم معاشرے کی حدود کا تعین کیا ہے بلکہ وہ ان حدود میں نقل مکانی کے دکھ و درد کو ہمراہ رکھتے ہوئے اپنے افسانوں میں اس کا اظہار بڑی صراحت سے کرتے ہیں۔ وہ فہم اور ادراک کی کج روی کا شکار نہیں ہوتے بلکہ سیاسی، معاشی ، معاشرتی شعور کا پوری طرح جائزہ لیتے ہیں اور جگمگاتی زندگی کی حقیقت کے پیچھے سچائی کا وہ کونسا مخفی پہلو ہے، اِسے جرات کے ساتھ آشکار کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے افسانوں میں کسی ٹوٹم اور ٹیبوز کا لحاظ نہیں کرتے اور زندگی کے طرز وفکر و احساس کو، جو آج کی انسان میں رچ بس گیا ہے، کو علامتوں میں واضح کر دیتے ہیں۔
ان کے افسانوی مجموعہ ’ روح کا کرب‘ کے پہلے افسانے’’ ٹکڑوں میں بٹی زندگی ‘‘ میں اِنکا ایک کردار میکھلا کہتی ہے۔
[’’ پچھڑی جاتی اورجن جاتی کے لوگ ابھی بھی اس قابل نہیں ہوئے کہ وہ اونچے طبقے کے لوگوں سے براہِ راست مقابلہ کر سکیں۔ انکا یہ ہینڈی کیپ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ جب تک ہمارے سماج میں مساوات اور یکسانیت نظر نہیں آتی۔ البتہ ان جاتیوں کے جو لوگ آسودہ حال ہو چکے ہیں انہیں یہ رعایت دینا جائز نہیں ہے۔‘‘
’’ میں آپ سے سہمت ہوں، دراصل ان جاتیوں کا شوشن ہزاروں سالوں سے کیا جا رہا ہے، سماجی بہشکار، مالی بدحالی اور فیصلہ کرنے کی مشینری سے دور رکھنے کی کوشش۔ نسل در نسل اس استحصال کا خمیازہ تو ہمیں اٹھانا ہی پڑے گا۔ ‘‘ ]
شہری زندگی میں کامیابی کی کنجی کہاں ہوتی ہے ؟ اس افسانے کا مرکزی خیال ہے۔
’ کاگ پورنیما ‘ افسانے میں ہجرت کے دکھ و کرب کو نوسٹیلجک انداز میں رقم کیا گیا ہے۔ کیلاش پنڈت بچپن کی یادوں کو سمیٹتا ہوا اپنی جڑوں کی کھوج میں بہت دور نکل جاتا ہے اور اپنے پوتے سنّی کو ساتھ لئے ماضی کے جھروکوں سے جھانکتا ہے۔ علامتی انداز میں پرندوں کی ہجرت اسکے اندر انسانی ہجرت سے کہیں کم دکھ لئے نہیں ہوتی۔ وہ کہتا ہے ۔ ’’ بیٹے ہمیں بھی پچیس برس پہلے انسانی انتہا پسندی کے باعث وادی سے باہر ہجرت کرنا پڑی، چونکہ ہماری آبادی آٹے میں نمک کے برابر تھی اس لیے ہم نے وادی کو خیر باد کہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ وہاں رہے ہوتے تو شاید اب تک نیست و نابود ہو چکے ہوتے۔۔۔‘‘
دیپک بدکی کا ادبی رحجان ، انکا تیکھا پن لیکن پرسکون قلم فطری مناظر سے بڑھ کر ان کائناتی سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کی سعی کرتا ہے۔ اسی مجموعہ میں’ بستے کا بوجھ‘ جیسے خوبصورت افسانہ میں جو بظاہر سادہ بیانیہ کا حامل ہے اور باطن میں اپنی علامتوں کو ساتھ اٹھائے قاری کو شہری زندگی کی نئی سوچ و فکر سے آگہی دیتا ہے۔ نوآبادیاتی طرزِ فکر میں قومی کردار کی تشکیل میں انگریزی کے رحجان کو ہندوستانی تہذیب و تمدن سے دوری کا شاخسانہ سمجھتے ہوئے وہ غلام ذہنیت کو معاشرے کے لئے سم قاتل سمجھتا ہے۔ اور ان ٹوٹتی ہوئی انسانی تہذیب کے شاندار ماضی سے جڑا رہنا اس کی فطرت ہے۔
’’ ایسے موقعوں پر میَں اس کے دل کی زبان سمجھ لیتا اور میری خاموشیاں بول اٹھتیں۔ نائیلہ، تم ساری عمر انسانوں سے بھرے جزدان کا بوجھ اٹھاتی پھری۔ مجھے اور شائستہ کو کسی بات کی کمی نہ محسوس ہونے دی۔ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو تمارا بوجھ کون اٹھائے گا۔ ‘‘
انسانی نفسیات پر ایک اور افسانے ’’ ڈاگ ہاؤس‘‘ میں وہ اپنے مشاہدے کی کرنیں بکھیرتے ہوئے تہذیبی زندگی کے حصار کو مزید محدود کرتے ہوئے دیو قامت نو تشکیل شدہ شہری تمدن کو ایک بار پھر اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں ۔ وہ روایات سے رو گردانی نہیں کرتے بلکہ کائنات کے مخفی گوشوں کا بھید پا لینے والے انسان کی فکری، جذباتی، احساساتی اور سیاسی بصیرت کی ترجمانی کرتے ہیں۔
گو بظاہر وہ کسی سماجی و سیاسی شعور کے کسی فارمولے میں مقید نہیں لیکن حیات انسانی کے بدلتی ہوئی تصویر میں وہ الوہی امکانات کو اپنے اندر جذب کئے ہوئے ہیں۔ انکے ہاں نثری تنوع کے ساتھ ساتھ اظہار کا نیا پن اور علامتوں کی نئی تشریحات کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ ملتا ہے۔ ان کا افسانہ ’ طلسمی عینک‘ اور ’ روح کا کرب‘ ان کے خوبصورت افسانوں میں شمار ہونگے۔ جہاں فطری رحجانات اپنے عروج پر ہیں۔
ضمیر کی خلش اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے میں عصری محاذوں پر وہ اپنے قلم کی جنگ میں نفسیاتی حربہ استعمال کرتے ہیں ،’ میں انّا ہوں‘ میں وہ اپنی اِسی کوشش میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
سماجی المیوں کو بیان کرتے ہوئے وہ ’’ گونگا کئیر ٹیکر‘ جیسا افسانہ تخلیق کرتے ہیں۔ اورمذاہب سے دور کہیں ایک نئی دنیا بساتے ہوئے ’ زمین پھوٹ کر جو بھگوان نکلا‘ ایک ایسا فن پارہ جنم دیتے ہیں جہاں انسانی توہمات اور وشواس کی دنیا میں کائناتی رنگ نظر آتا ہے، لیکن وہ اپنے افسانوں میں تجرید کے رنگ کے ساتھ ساتھ اپنی امیجری، تلازمہ خیال اور اجتماعی لا شعوریت کو بھی ساتھ رکھتے ہیں۔ داخلی کرب کی عکاسی انکے ہاں بکثرت ملتی ہے۔
دیپک بدکی کے فنی سفر میں کئی ایک نشیب وفراز نظر آتے ہیں ۔ قلمی نقطہ نظر سے ہم اسے تنوع بھی کہہ سکتے ہیں ۔ کسی بھی فن کار کے کام کو جانچنے کے لئے اس کا اپنا سماجی اور ادبی پس منظر از حد ضروری ہے۔ اپنے دئیے گئے ایک انٹرویو میں شائع (’انتساب‘ جولائی تا ستمبر ۲۰۱۶.ء) میں خود کہتے ہیں۔ ’’ میں کشمیری پنڈت ہوں۔ کشمیر میں پیدا ہوا، تعلیم ایم۔ ایس۔ای ، بی۔ایڈ تک حاصل کی۔ پھر انڈین پوسٹل سروس میں ملازمت کی ، جہاں سے ۲۰۱۰.ء میں سبکدوش ہو چکا ہوں، اسی درمیان نو سال فوج میں ڈیپوٹیشن پر رہا اور بحیثیت لیفٹننٹ کرنل واپس اپنے محکمہ میں آیا۔ ہندوستان کی کئی ایک ریاستوں میں کام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو میرے افسانوں میں تنوع ملے گا۔ ‘‘
جب ہم دیپک بدکی کے ’ مٹھی بھر ریت‘ جیسے افسانچوی مجموعے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس میں ایک نیا جہاں ملتا ہے ۔ ایک ایسی دنیا جہاں انکا فکری و سماجی شعور نثری پیرہن میں آج کی شہری زندگی کو واضح طور پر دیکھتا ہے۔ شہری زندگی کی نعمتوں اور محرومیوں سے نبرد آزما یہ انسان انہیں ہندوستان میں ہر جگہ ملتا ہے۔ جس کے خواب ، اندیشے اور امکانات پہلی دنیا سے قطعی مختلف ہیں۔ ان انسانوں کے یہاں خدا کا وہ تصور نہیں رہا ، جو دھرتی پوجا کرنے والے دیہات کے سادہ انسانوں کے پاس تھا۔
اِسی کتاب کے دیپاچہ میں ان افسانچوں کے بارے میں ان کا اپنا خیال ہے کہ ’’ میں نے کچھ افسانچوں میں چند افسانوی عناصر کو عمداً نظر انداز کیا ہے۔ کیونکہ میں کسی فارم کا قیدی بننا پسند نہیں کرتا۔ ان نثر پاروں میں افسانچوں کی مبادیات کے بدلے فکر و خیال کو ترجیح دی گئی ہے۔ میری نظر سے کئی ایسے انگریزی نثر پاروں کے مجموعے گزرے ہیں، جن میں فکر پارے ’رینڈم تھاٹس‘ قلم بند کئے جا چکے تھے۔ میں نے بھی ان کی تتبع میں کئی نثر پارے قلمبند کئے ہیں جو اس مجموعے میں شامل ہیں۔‘‘
افسانچوں کے مستقبل پر لکھتے ہوئے یہ کہتے ہیں ’’ جہاں تک افسانچے کی مقبولیت کا سوال ہے اس حقیقت سے آنکھیں چرانا مشکل ہے کہ ہم میں سے بیشتر افسانہ نگار اس صنف کو بطور فیشن یا تفریح اپناتے رہے ہیں۔ اگر افسانہ نگار اس صنف پر سچے من سے فوکس کریں اور اسکو بحیثیت سنجیدہ صنف کے اپنا لیں تو کوئی مضائقہ نہیں کہ افسانچہ آنے والے دور میں مقبول ترین صنف کا درجہ حاصل کر سکے۔ ‘‘
ان کے مجموعے کا پہلا افسانچہ ’ سچ کی تلاش‘ دراصل ایک ایسی حقیقت کے معانی کو کھولتا ہے جہاں سچ کی تلاش میں انسان ابھی تک سرگرداں ہے ۔
’’ تم سمجھتے ہو کہ تمارے ہاتھ میں جو صحیفہ ہے وہ آخری سچ ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ میرے مصحف سے بڑا سچ کوئی اور نہیں۔
تمارے سچ اور میرے سچ کے درمیان کتنا تضاد ہے ۔ ‘‘
’صندل‘ ، ’ نیکی‘ ’جرم‘ تینوں افسانچے انسانی جبلت میں نیکی اور بدی کے درمیاں ایک ایسی جنگ کو سامنے لاتے ہیں ، جہاں شعور اپنی لامتناہی طاقت کے بل بوتے پر اپنا فیصلہ سناتا ہے۔
دیپک بدکی کے ان نثری فن پاروں میں اگرچہ جدید فکر کی روشنی پوری طرح پھیلی ہوئی ہے تاہم یہ کلاسیکت کی مدہم، خوابناک اور روح پرور چاندنی کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ ان کے ہاں یہ رحجان غیر شعوری طور پر سامنے نہیں آتا بلکہ وہ خیال آفرینی کو انسانی جذبات میں پیش کرتے ہوئے گنجینہ معنی کا طلسم بھی بڑی کاوش سے سامنے لاتے ہیں جس میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ فطرت کی عکاسی اور جذبات کی حدت کو کس طرح الگ کیا جائے۔ ان کے فکر کا پیمانہ اتنا مختلف ہے کہ انکے اافسانوی معانی کو فکری استغراق پر حاوی ہونا ناممکن لگا۔
میں آخر میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انکا مخصوص افسانوی انداز اور جمالیاتی اسلوب انکے افسانچوں میں بھی کہیں کہیں اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ جو انکے جمالیاتی شعور کا گہرا اور پختہ اظہار ہے۔
تجزیہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی – آپ نے تو دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے- ویب سائٹ بھی بہت دلکش هے – تزءین نگاروں کو میری جانب سے مبارکباد که دیں- آپ کو معلوم هو گا که ھماری بز نس ویب سائٹ چلتی ھے جس کو کل هی دوبارہ تزئین کی گئی – http://www.themobileindia.com
I wanted to thank you for this great read!! I certainly enjoyed every bit of it.
I have got you book-marked to check out new stuff you post…