کہانیاں سچ کہتی ہیں: یہ بستی ہے؟” نہیں! جنگل ہے
از، یاسر چٹھہ
بندر کے ہاتھ جب بھی بندوق، بم، یا بارود لگے گا تو “اسی طرح” کے بازارِ خون برپا ہوتے رہیں گے۔ آپ کے سوچتے ذہن میں فوری طور پر یہ خیال آ سکتا ہے، “اس شخص کی کس قدر کالی زُبان اور سیاہ رُو سوچ ہے۔” پر کیا کہیں اور کیا بولیں کہ کبھی کبھی تو ایسے لگتا ہے کہ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں جھٹلانے کی کسی کوشش کی مثل ایسے ہی ہو جیسے کبوتر کا اپنے شکاری کے سامنے آنکھیں مُوندنا۔
میرے سَر پر آج کل کچھ بچوں کو مطالعہ کی عادت ڈالنے کی دُھن سوار ہے۔ میں انہیں مختلف کتابوں سے پڑھ کر مختلف کہانیاں سُناتا ہوں۔ اس کے بعد میں انہیں اپنے پاس سے چھوٹی چھوٹی کہانیوں والی کتابیں دیتا ہوں کہ انہیں پڑھیں اور بعد میں مجھے اپنی اپنی پسندیدہ کہانی سُنائیں۔
اس سے پہلے کہ وہ اُن کہانیوں والی کتابوں سے اپنے اندر کا کہانی کار جگائیں وہ چھوٹی عمر کے بچے ایک سوال ہر بار ضرور پوچھتے ہیں:
“کیا یہ کہانیاں سچی ہوتی ہیں؟”
اس سوال کے سامنے میرے سب جواب کپکپاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے میں ساکت ہو جاتا ہوں، اور ایسا ہر بار ہوتا ہے۔ مجھے بار ہا کے اس معصوم سوال کا جواب دینے کے لیے چند لمحوں کے لیے اپنی سانسیں تھامنا پڑتی ہیں۔
پھر دو ایک بار اپنے ہاتھوں اور سَر کی ایک بے ترتیب سی جھٹک پھٹک سے مجھے کچھ وقت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسا جواب دے سکوں جو ان تجسس کی تجسیموں کی بے قراری کو چند لمحوں ہی کا سکون دے سکے۔
اپنی طرف سے حقیقت کی پیچیدگی کو آسان لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن شاید کامیاب تھوڑا ہوتا ہوں۔ کہتا ہوں:
“کہانی تو سچ ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی آج کے سب سچ کو لیکن لوگوں نے کہانیاں کر دیا ہے!”
انہیں میں کیسے بتاؤں کہ اوشن وانگ نے اپنے مضمون “سرنڈرنگ” کے اختتامیے میں جو یہ لکھا:
“میں نے کتابیں پڑھیں تھیں جو اصل میں کتابیں تو ہر گز نا تھیں، پر میں نے ان کا مطالعہ کیا تھا، لیکن یہ مطالعہ اپنی آنکھوں سے نہیں کیا تھا؛بلکہ اپنے اُس غیر محسوس اور بظاہر دکھائی نا دینے والے ‘اس خاص آہنگ کے مطالعے’ سے میں نے اپنے خیالوں کی دُنیا صفحے کو سونپ دی تھی۔ کہنے کو تو زبان کی دھرتی پر مَیں ایک دھوکۂِ کار تھا، میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں لکھاری تھا، لیکن میں نے محض اپنی زندگی سے کشیدہ حقیقتوں کی نقل ہی تو کی ہے تاکہ میں آپ کو اپنی ذات کے اندرون کی اصل دکھا سکوں۔”
اس کا کیا مطلب ہے۔ اوشن سوانگ کے اس خیال سے بھی کوئی مدد میسر نہیں ہوتی۔ خیر ان بچوں سے میرے جواب کی ہچکیاں کیسے جان چھڑاتی ہیں وہ کبھی پھر سہی۔
آپ کو آج رات کو دیکھا، بلکہ آنکھوں بِیتا، ایک واقعہ سُناتا ہوں۔ اس واقعہ کے متعلق بھی وہ سارے سوال جو میرے زیرِ تعلیم بچے مجھ سے پوچھتے ہیں گو کہ بالکل جائز ہیں لیکن آپ اُن سوالوں کے خود ہی جواب سوچ لیجیے گا۔ اب اس کہانی یا واقعہ کی طرف آتے ہیں جو آج رات دیکھا۔
تھوڑے دھیان سے سنیے گا!
میں اپنے دوستوں کی طرف سے کوئی لگ بھے بارہ بجے گھر واپس لوٹا۔ گاڑی پارک کرنے سے پہلے اپنی گلی میں دیکھا کہ ایک بِلی بڑے خوبصورت انداز اور ایک طرح کی خاموش موسیقیت کے آہنگ سے ویران لیکن روشن گلی میں چل رہی تھی۔
چل کیا رہی تھی گویا کوئی نظم لکھ رہی تھی، یا کوئی گیت اپنے نرم نرم پاؤں سے گلی کی زمین کو سونپ رہی تھی۔ لفظ بھاری پڑیں گے اگر بتاؤں گا کہ قدرت کا ایک انتہائی پُر لطف نظارہ دیکھنے کے لائق تھا؛ تو پھر کون کرتا بُخل، سو دیکھنے لگ گیا۔
لیکن ابھی اس منظر سے لطف و رومانویت سےاپنی روح کی دعوت کرنا شروع ہی کی تھی کہ کہیں سے دو کُتے اس خوش اطوار بِلی کو دور سے دیکھ کر آگئے۔
ایسے محسوس ہوا کہ کتوں کو نا گوار گُزرا ہو کہ بلی پوری فضا کو جمالیات و الطاف سے کیوں بھر رہی تھی۔ یہ دو کتے بھی مجھے اُس بندر کی طرح لگے جس کے ہاتھ میں “آج” بندوق تھی، یعنی طاقت کے ذریعے اپنے نظام و اخلاق کا رنگ اپنے من مانے طریقے سے تھوپنے کی انگڑائی لیتی خواہش! ایسے لگ رہا تھا کہ کُتے اس بلی کو کہہ رہے ہوں:
“تُمہیں “مستور” رہنا چاہیے، کہ تم کمزور ہو، تمہیں “باہر” آنے کا کوئی اختیار نہیں، کہ تمہیں دیکھ کر ہمارے ضبط ٹوٹنے کا احتمال ہوتا ہے۔”
لیکن بِلی اپنی چیخوں سے اور کھلی باچھوں سے انہیں شاید یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی تھی اور کہہ رہی تھی:
“میری جینیات سے تمہارے اس “جنگل” کو شہنشاہ ملا، میں کمزور ہر گز نہیں، مجھے کمزور تُم جنگل والوں کے استبدادی شعور و زبان نے سمجھ لیا ہے۔ حقیقت کچھ اور ہے۔ میری حقیقت تم خود سے “تشکیل” دینے سے باز رہو شعور کے نو آباد کار کتو!”
لیکن ایک کتے نے جواباً غرا کر اور حملہ کرنے کے انداز سے کہا:
” چُپ رہ بِی بلی، میں تمہیں بولنے نہیں دوں گا،۰۰۰ ناقص العقل ۰۰۰، فاحشہ! میں تجھے کچا کھا جاؤں گا۔”
اس بِلی نے شلوار نہیں پہن رکھی تھی لہٰذا اس کے اس نا موجود لباس کی بابت ان “طاقت” کے چُور کتوں نے کچھ نہیں بولا۔ بِلی کی ہم جنس تو کہیں سوچیں گی، “شلوار بچائی سو لاکھوں پائے۔”
آخری خبریں آنے تک جنگل والے بِلی کی شکایت تک نہیں درج کر رہے تھے کہ سب کو اپنی جان عزیز ہے اور ان کے شر سے کون نہیں بچنا چاہتا۔
یہ بلی کتوں کا واقعہ جس کا بیان جاری تھا مِل مَلا کے کوئی تیس پینتیس سیکنڈوں کا معاملہ ہوا ہو گا۔ میں نے اپنی گاڑی کے ریموٹ کنٹرول سے اس کے دروازے بند کر دیے جیسے ہی میں نے دیکھا کہ بلی جان بچا کر لیکن اپنی منہ آئی بات سنا کر ایک چار دیواری کے اندر چھلانگ لگا کر چلی گئی۔ لیکن کُتے اپنا بغیر کسی آہنگ کا بیانیہ، معذرت، “بھونکن بُھکان” کافی دیر تک ہماری گلی میں کرتے رہے۔ حتٰی کہ ان کے بڑے بڑے مُونہوں کی جھاگ سے پوری گلی تر ہو گئی اور تعفن کئی چند ہوگیا۔
میں گھر آگیا۔ لیکن افسوس یہ واقعہ اور اس سے جڑی کہانی مختلف مقامات و محلات میں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ یہ کہانی صدیوں سے جاری ہے، لیکن دِل اور اہلِ علم کہتے ہیں ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔
میں بہت واجبی سا علم رکھتا ہوں میں اس پر کوئی اتفاق و انکار کا حتمی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ آپ صائب الرّائے ہیں، آپ ایک بار پھر خود سے ہی کوئی حتمی فیصلہ کر لیجیے گا۔ لیکن ایک سوال کا جواب ضرور سوچیے گا کہ حتمی فیصلے کرنا کیا واقعی ممکن ہے؟ یا یہ اپنی عقل و سوچ پر تالے لگانے کی ایک چلتی آ رہی خوش نُما رسم ہے؟
پس تحریر: مجھے تھوڑا سا قلق بھی ہے کہ مجھے یہ تحریر آپ کے ساتھ شیئر کرنا پڑی۔ آپ کے نفیس ذوق سے معذرت؛ اس بے سر و پا تحریر سے سب لوگ “سارے مطالب” نا نکالیے گا کہ بندروں کے ہاتھ بندوقیں لگی ہوئی ہیں۔ اور ہاں ایک بات اور بتائیے گا۔ آج صبح میں اسلام آباد کے بلیو ایریا سے ایف ٹین مرکز کی طرف جا رہا تھا۔ سینٹارس شاپنگ مال کے پاس بڑی سڑک پر خوب صورت خواتین کی تصویروں والے بڑے بڑے بورڈ لگے ہوئے تھے۔ ان اشتہاری بورڈوں پر آہنی جالیاں کیوں چڑھائی گئی تھیں؟ میرا نہیں خیال کہ کُتے اتنا اُونچا پھلانگ کر ان بورڈوں پر سے خوبصورت تصویروں کو خراب کر سکتے ہیں۔ یہ آہنی جالیاں پھر ان خواتین کی تصویروں کو کِس سے بچانے کے لیے لگائی گئی ہیں؟
کہیں یہ خواتین بھی کوئی ایسی بِلیاں تو نہیں جو گھر سے باہر آ جاتی ہیں؟
very deep nd philosophical