انحراف
کہانی از، منزہ احتشام گوندل
کیا تم بتا سکتے ہو کہ ہمارے ساتھ اخلاقی بیانیے کا یہ بھیانک کھیل کس نے کھیلا۔ یہ سوال میں نے آدم سے اس وقت پوچھا جب ہم جنوری کی بارش میں بھیگتے پیدل گھر کی طرف جا رہے تھے۔ میری نظر اس کے تیز اٹھتے قدموں پر تھی کیوں کہ وہ مجھ سے ہمیشہ ایک قدم تیز چلتا تھا۔ یا پھر میرا ایک قدم پیچھے رہنا دانستہ تھا کہ مجھے اس کے زمین کو چھوڑ کر دوبارہ زمین کو ایک لحظے کے لیے چھوتے پاؤں اچھے لگتے تھے۔
آدم کی پتلون کے پائنچے گیلی مٹی سے لبریز ہو چکے تھے اور چھینٹوں کا سفر کہیں اور اوپر تک جاری تھا۔
آدم!
ہوں۔۔۔
سنتے ہو میں نے کچھ پوچھا ہے؟
نہیں سن رہا۔ گھر پہنچو جلدی سے۔ اس نے مجھے جھڑک دیا
ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ بارش رحمت ہوتی ہے۔ مگر سچ اس کے الٹ کیوں ہے؟ بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں۔
یہ بھی ہمیشہ سے سنتے آ رہے ہیں۔ میں بڑبڑا رہی ہوں۔ اس نے ہاتھ اچانک یوں اٹھایا جیسے میرے کانوں کے اوپر ایک جَڑ دے گا۔ لیکن وہ صرف ایک اشارہ تھا کہ عورت اپنی بکواس بند رکھو میں ابھی تھکا ہوا ہوں۔
میں جانتی ہوں کہ اسے بھی ٹینشن ہے گھر کی چھت ٹپک رہی ہو گی اور جانے کتنی چیزوں کا حشر نشر کر چکی ہو گی۔ مجھے بھی یہی ٹینشن ہے۔ میں آدم سے محبت کرتی ہوں کیوں کہ وہ مجھ سے زیادہ ذہین ہے۔ بَل کہ فطین کہہ لیجیے۔
ہاں لیکن میں فہیم زیادہ ہوں۔ وہ بیش تر معاملات میں الل ٹپ ہے۔
شادی کے فوراً بعد جب میں نے اپنے بالوں کی تراش کروائی تو ساس نے کہا تھا، “جو عورت خاوند کی اجازت کے بغیر بال کٹوائے وہ جہنمی ہے۔” تب آدم پاس ہی بیٹھا تھا اور اس نے محض مجھے آنکھ سے اشارہ کر دیا تھا کہ پرسکون رہو ایسی باتیں تو اب ہوتی رہیں گی۔
وہ اس وقت اپنی ماں کو یہ بھی تو کہہ سکتا تھا کہ میں نے اس کی خواہش پہ بال ترشوائے ہیں۔ تب ایک غلط العام بات پر خاموشی اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یا پھر یہ بھی تو کہہ سکتا تھا کہ ایسی چیزیں گناہ کے زمرے میں آتی بھی ہیں، یا نہیں۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ بارش ہر چیز کو تباہ کرچکی تھی۔ کمرے میں سامنے کی دیوار کے ساتھ رکھا کاؤچ سارا بھیگ چکا تھا۔ تپائی پہ رکھی آدم کی کتابیں اور میری دوائیں۔۔۔۔ فرش پہ بہتا مٹیالا پانی۔ ٹھنڈ اور اس پہ اس بگاڑ نے میری کمر کی تکلیف کچھ اور بڑھا دی۔
میں تیزی سے کچن کی طرف بڑھی۔ میرا دماغ اس وقت دفاعی حالت میں تھا۔ پہلے ہی کمر ٹوٹ رہی تھی وہ تیزی سے پیچھے لپکا۔ آدم! میں نے فریاد کی۔ ہم ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے ہیں اور ایک جیسے بھی ہیں مگر ایک معاملے میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اسے ٹینشن کے وقت سیکس کی حاجت ہوتی ہے اور مجھے اس کام کے لیے بہت پرسکون ماحول چاہیے۔
مزید دیکھیے: لا وقت میں ایک منجمد مسافت کہانی از، محمد عاطف علیم
چریا ملک کہانی از، رفاقت حیات
اب تمہیں کام میں جُت جانا چاہیے۔ میں نے کسی قدر ٹوٹتے ہوئے کہا۔ اپنے تناؤ کو میرے بدن میں منتقل کرنے کے بعد وہ ہمیشہ آسودہ محسوس کرتا ہے۔ کیا اذیت ہے اس زندگی کی بھی کہ بہت معمولی چیزیں بھی ہم اپنی خواہش کے بہ موجب استوار نہیں کرسکتے۔
جیسے پرسکون ماحول میں وہ مجھے ایسے میسر نہیں ہوتا جیسے میں چاہتی ہوں اور میں اس کے ذہنی دباؤ میں اس کے ساتھ ویسی شراکت نہیں کر پاتی جیسی اسے درکار ہوتی ہے۔ جیسے میں چاہتی ہوں کہ ہمیشہ ٹینک پانی سے بھرا رہے اور پانی گرمیوں میں سرد اور سردیوں میں گرم ہو۔ یہ کوئی ایسی خواہش نہیں جو پوری نہ ہوسکے مگر نہیں ہوتی۔
ضروری کیا ہے اور غیر ضروری کیا ہے اس پہ ہم نے کئی بحثیں کی ہیں۔ جیسے آدم کہتا ہے کہ ضروری نہیں کہ ٹینک پانی سے بھرا ہو اور پانی کا درجۂِ حرارت بھی موسم کے اعتبار سے میری خواہش کے مطابق ہو۔
اس کی یہ بات سن کر میں باریک کٹا ہوا ٹماٹر ایک طرف رکھ دیتی ہوں۔ ضروری نہیں ہے کہ ٹماٹر انڈے کے خاگینے کا حصہ ہو۔ آدم کو خاگینے میں ٹماٹر پسند ہے اور وہ کاٹتا بھی خود ہی ہے۔
بے شک نکال دو۔ میں اوپر سے کچے ڈال کے کھا لوں گا۔ لیکن مان لو کہ تمہاری قمیض کے نیچے لگی یہ جھالر بالکل غیر ضروری ہے۔
یہاں اس نعمت خانے میں پڑی ستر فیصد اشیاء غیر ضروری ہیں۔ بہ جز ہم دونوں کے۔
اگر یہ بات ہے تو انڈا کچا بھی کھایا جا سکتا ہے۔
انڈے کو ابال کر کھانے سے تہذیب کا آغاز ہوا تھا؟
میں تو نہیں مانتا ہوں۔ تہذیب کی سب سے بڑی طرف دار تم ہو۔
تہذیب میں ایک بڑا حصہ پروپیگنڈا کا بھی ہے جو حقائق سے یَک سَر الٹ ہے۔
ہو گا، ایسا ہی ہو گا۔ فی الحال کھانا دو کہ لمحۂِ حال کا سچ صرف بھوک ہے۔
آدم کھانا کھا رہا ہے۔
انڈے کے خاگینے کے ساتھ رات کا کھانا کھانے کا میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ میرے والد صاحب نے ناشتے، دن کے کھانے اور رات کے کھانے کے لیے سبزیاں اور دالیں مخصوص کررکھی تھیں۔ وہ بھنڈی، ماش کی دال اور انڈے کا خاگینہ ناشتے میں بنواتے۔ گھیا توری، اور مونگ کی دال دن کے کھانے میں اور باقی سبزیاں اور دالیں شام کے کھانے میں کھانے کے سختی سے قائل تھے۔
کیا سوچ رہی ہو؟
سوچ رہی ہوں کہ تم کتنے خوب صورت انسان ہو اور میں تمہارے لیے کچھ بھی نہیں کر رہی۔
وہ حیران ہوا۔ کھانا تو بنا کے دیتی ہو اور کیا کرو گی میرے لیے۔
آدم کہیں ہم دونوں پاگل تو نہیں ہیں؟ ہم جو باتیں کر رہے ہیں۔ نہ تو کوئی بیوی ایسی اعلیٰ ظرف ہو سکتی ہے اور نہ کوئی شوہر اتنا جاں نثار ہو سکتا ہے۔
وہ گوشۂِ لب کو ہلکا سا ٹیڑھا کرکے ہنسا ہے۔ ہم دونوں کے پاس بچے نہیں ہیں اس لیے ایسی باتیں سوچتے اور کرتے رہتے ہیں۔
کیا تم بتا سکتے ہو کہ ہمارے ساتھ اخلاقی بیانیے کا یہ بھیانک کس نے کھیلا؟
یہ سوال تم نے پہلے بھی کہیں پوچھا تھا۔
ہاں جب ہم بارش میں بھیگ کے گھر آ رہے تھے اور میں بارش کی بارانِ رحمت والی بات پہ غور کر رہی تھی۔ مگر تم نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
ایسی باتوں کا کیا جواب ہوسکتا ہے۔ اگر میں یہ کہہ بھی دوں کہ بارش رحمت نہیں زحمت ہے تو کیا بارش برسنے کا عمل رک جائے گا؟
کہیں تو رحمت بھی ہو گی کسی نہ کسی کے لیے، بَل کہ بہت سوں کے لیے۔ کش لیتے ہوئے آنکھیں میچ کر اس نے ریموٹ کا بٹن دبایا اور ٹی وی آن کیا۔
توڑ دینے والی خبر (بریکنگ نیوز) بَل کہ آدم کے بہ قول تابڑ توڑ خبر چل رہی تھی- “کاؤئٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ” نے شادی میں شرکت کے لیے جاتے خاندان کو امن سکون کی نیند سلا دیا۔ رحم دل سی ٹی ڈی نے تین چھوٹے بچے بچا لیے۔ مائیگرین۔۔۔۔۔ مجھے الٹیاں آنے لگ گئی ہیں۔ کوئی دوائی کارگر نہیں ہو رہی۔ آدم اپنے پورے قد سے میرے سر کے بائیں حصے پہ کھڑے ہو جاؤ۔ وہ پریشان ہے۔ اسے میری سلامتی عزیز ہے۔
تم مجھے مرنے دو آدم۔
کیا بکواس ہے یار
میری خواہش ہے کہ میں طبعی موت مروں۔
طبعی موت مرنے کی خواہش ش ش ش۔
وہ تھوڑا سا حیران ہوا اور آگے کو جھکا
ہاں، میں نے اعتراف کیا۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر تم کسی دن یونہی ماری جاؤ۔ زندگی لا یعنی ہے تو لا یعنی موت مرنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟
مرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
تمہارے جیسے نا لائق لوگ یہی کرسکتے ہیں۔
یہ بات نہیں ہے۔ در اصل میں اپنی موت کے بعد بچ جانے والے رشتوں کی اذیت پر رنجیدہ نہیں رہنا چاہتی۔
تو کیا طبعی موت سے وہ رنجیدہ نہ ہوں گے؟
یقیناً ہوں گے مگر ایسا تو نہیں ہو گا نا کہ انہیں میرے کتبے پر میری بے گناہی کا اندراج کروانا پڑے۔
کہ مرنے والی داعش کی کارکن نہ تھی۔
خبر دوسرے دن بھی مسلسل چل رہی ہے۔ مگر آج آدم کے چہرے پہ سکون ہے۔ اور میں بھی پرسکون ہوں۔ میں جانتی ہوں ہم کیوں پرسکون ہیں۔
ہمارے پاس بچے نہیں ہیں۔