کنٹوپ سرکار
از، وارث رضا
شہرِ خموشاں کی سی چپ۔۔ جواں تو کیا لاغر اور بوڑھا گورکن بھی نہیں کہ جس سے پوچھا جائے، خوف کے مہیب سناٹے کیوں ہیں۔ انسانی آبادی کے خال خال میدان میں چلت پھرت رسوا کیوں ہے۔ عجیب منظر ہے کہ موت اور زندگی کے انجانے اندیشے۔ چٹیل صحرا میں آزاد چیل کی چائیں چائیں کرتی آواز میں دھیما پن مگر آب کی تلاش میں ہانپتی کانپتی پیاس کی ستائی ہوئی، دراز زبان مسلسل باہر۔ سوکھتی پگڈنڈیوں سے خوراک کا بند و بست کرنے والے چرند پرند بھی خوف سے دھیمی چال پر مجبور۔
زمین ہلا دینے والی جہازی گھن گھرج سے حشرات بے سر و پا اپنے بِلّوں میں گھسنے پر مجبور۔ دن کے اجالے کی زندگی میں نا امیدی کا بسیرا۔ تو رات کی چاندنی میں بھی ٹکور۔
آنکھیں خوف لیے کسی سر سراہٹ کی منتظر بنا دی گئی ہیں۔ زندگی کی پامالی پر آمادہ نہ ہونے والے گھروں میں خدشے اور اندیشوں کا مسلسل سیلِ رواں جاری رکھنے کی مشق کا اہتمام کرنے میں طاغوتی ہرکارے چابک دست؛ جب کہ افراد کی بہادری کو ختم کرنے پر تلا ہوا بے سر و پا ساز اور آواز کے سروں سے محروم امن۔ جس پرشکست خوردگی کا آسیب مسلسل حاوی۔
یہ سب کیوں کر اور کس لیے کیا جارہا ہے۔ اس سوال کی گُتھیاں سلجھانے کی کوششوں میں لال گنواتی ماؤں کی آنکھیں نم ہونے تک سے محروم کر دی گئیں ہیں۔
ایسا کیا ہوا ہے کہ اس ہاتھ پھیلاتے استقبالی پتھریلے صحرا میں زندگی کو سسکیاں بھی لینے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ ماؤں کو رونے اور بہنوں کو بین کرنے نہیں دیا جا رہا۔ باپ کے کاندھوں پر جواں مرگ بیٹوں کے لاشے کسی بھی سَمت سے آتی گولی کے منتظر بنا دیے گئے ہیں۔
نہ رونے کی آزادی ہے نہ چیخنے اور دھاڑنے کی۔ آخر یہ کب تک ہوتا رہے گا۔ ایک طویل عرصے سے بندوق کی نال پر امن کی لہو لہان فاختہ۔ ہمیشہ پتھر ایسی قوت کے واسیوں کے سامنے کر دی جاتی ہے۔ یہ احساس کے مارے لوگ لہو لہان فاختہ کی مرہم پٹی پتھریلے انداز سے کرکے جب فاختہ کی اڑان پر مُصر ہوتے ہیں تو ظِلِّ الٰہی کو لہولہان زخمی فاختہ کا پتھریلی روایت کا علاج ہی پسند نہیں آتا۔ اس کیفیت میں۔ کچھ لمحے بعد
ظِلِّ الٰہی کا فرمان جاری ہوتا ہے کہ ان کے سر اُتار دو۔ جو ہماری سلطنت میں سر اٹھا کر چلنا چاہتے ہیں، یہ سب غدار ہیں۔ جو اپنے سر اونچے کر کے عوام کو شاہ دولہ کے چوہے بننے سے محروم کر رہے، سلطنت کی پالیسی ہے کہ تمام سلطنت و اسی شاہ دولہ کے کنٹوپ پہنیں گے کہ یہ ہی ہمارا جاری و ساری حکم ہے۔
ھم نے کنٹوپ پہننے والے کو سلطنت کی پالیسی پر عمل در آمد کا پابند کیا ہے۔ اس بے شُعُور عوام کو کیا معلوم کہ کنٹوپ بنوانے کے لیے ہمیں کبھی برطانوی غلامی کرنی پڑتی ہے تو کبھی امریکہ ہم سے اپنی شرائط پر کنٹوپ فراہم کرتا ہے۔
اور اب تو اہلِ عرب بھی مُصر ہیں کہ کنٹوپ میں گنجائش نکالی جائے کہ کسی طرح توب کو شامل کیا جائے۔ اب بتایئے کہ عوام کو کنٹوپ کی جب عالمی حیثیت کا ہی علم نہیں تو کس طرح یہ دوسرے عُلُوم سیکھ سکیں گے؟
اسی واسطے عوام کو کنٹوپ کی طاقت اور اس کی حیثیت سمجھانے خاطر، سلطنت احساس پروگرام کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ جو بہت جلد عوام میں کنٹوپ کے ذریعے احساس پروگرام کی ترجمانی کرتا ملے گا تا کہ ان میں غلامی کا شعور دینے کے ممکنہ راستے تلاش کرے گا۔
سلطنت عوام کی ہر ضرورت کا خیال رکھنے میں کنٹوپ کی مدد کے جدید اور سائنسی اصول اپنا کر وزارتِ چاپلُوسی کے بھوپوں ذریعے عوامی سطح پر تشہیر عام کرے گی، تا کہ عام فرد تک کنٹوپ کی اہمیت اور فوائد پہنچ سکیں۔
اور ہاں! کنٹوپ کے فوائد اور اس کی ضرورت کو اجاگر کرنے واسطے، ابلاغ کے ان اخبارات اور چینلز کو شاہ دولہ ایوارڈ سمیت تمام اشتہارات دیے جائیں گے۔ جو اخبارات اور چینل کنٹوپ کی حکم رانی قائم کرنے میں بہتر کردار ادا کریں گے۔ مگر سلطنت ہر گز ان افراد کو اخبارات اور چینل سے بے روز گار نہیں ہونے دے گی۔
جو کنٹوپ پہن کر رپورٹنگ کریں گے یا اینکری۔ البتہ ان اینکرز کو خصوصی انعام سے ظِلِّ الٰہی نوازیں گے۔
لیکن وہ،جن رپورٹر اور اینکرز کے کنٹوپ پہننے کے با وُجُود عوام کو نظر نہ آئیں، ایسے صحافتی شاہ دولہ کے لیے خصوصی کنٹوپ حاصل کر لیے گئے ہیں۔ باقی در آمد کر لیے جائیں گے۔ ہمیں عالمی مارکیٹ کی معیشت میں اپنا حصہ بھی تو ڈالنا ضرور ہے ناں۔
مگر ظلّ الٰہی، چاپلوس وزارت کے ترجمان نے زبان کھولنی ہی چاہی تھی کہ دوسرے لمحے ظلِّ الہی کے جاہ و جلال دیکھ کر چاپلُوسی ترجمان نے خاموشی ہی میں عافیت جانی۔ اسی اثناء کنٹوپ کے ترجمان نے ظلِّ الٰہی کی ٹپکتی رال صاف کرتے ہوئے، خاموشی سے کہا، آپ کی سلامتی عزیز حضور۔ مگر اس پتھریلے چٹیل میدان میں نا جانے کہاں سے عوام کے محسن اور چند وزیر آ چکے ہیں۔ ان کا کیا بند و بست کریں؟
ایک قہر بھری آواز کے ساتھ ظلّ الٰہی دھاڑے۔ یہ ہمارے وزیر اور محسن بھی عوام کے ساتھ جا ملے ہیں؟ ظلِّ الٰہی کی پھنکار اور ناک سے لعاب نکلتا دیکھ کر کنٹوپ ترجمان پھر آگے بڑھا کہ حضور وہ۔۔ کون۔۔؟ کی آواز سے گرتے کنٹوپ کو محفوظ کرتے ہوئے ترجمان نے کہا، حضور ان سب کا تعلق ہماری کنٹوپ اور شاہ دولہ سلطنت سے ہر گز نہیں، پھر کون ہیں یہ، ظلّ الٰہی نے دریافت کیا۔ کنٹوپ ترجمان نے بتایا، حضور یہ پتھریلے لوگ ہیں۔ پتھر ایسے مضبوط ہیں، تو کیوں نہ ہم ان کے سخت بدنوں کو اپنی جدید زنبیقوں سے چھلنی کر دیں؟
تم ہماری سلطنت میں خلفشار پھیلانا چاہتے ہو، تم مارو گے وہ اور مضبوط ہون گے، تم روکو گے، وہ مزید منظم ہوں گے، تم پکڑو گے، وہ اور زیادہ تعداد میں نکلیں گے۔ ظلِّ الٰہی وزیر چاپلوسی کی طرف مڑے۔ یہ سب کیسے ہو گا ہماری بھونپو۔
لہراتی بَل کھاتی چاپلوس وزارت کو ظلّ الٰہی کے قریب آنے کا موقع ملا، اور گویا ہوئیں، حضور با حشم! ہم نے اپنے چاپلوس اخبارات اور ٹی وی چینل میں بڑی محنت سے کنٹوپ جی حضورے پیدا کر لیے ہیں کہ وہ واقعہ کا رخ ہی بدل دیں گے۔
وہ کیسے؟ ظلِّ الٰہی نے پوچھا۔ چاپلوس بھونپوں نے ڈرتے ڈرتے کہا، حضور! ہمارے کنٹوپ جی حضوری اخبارات اور چینل میں وہی مؤقف دیں گے یا مشہور کریں گے جو سلطنت کی سلامتی کے لیے عزیز ہو گا۔ وہ کیا؟ ظلّ الہی نے پھر سوال داغا۔
حضور ہمارے جی حضوری اس کو سلطنت کے کنٹوپ برداروں پر حملہ قرار دیں گے، اور پتھر ایسے افراد کو بھونتے ہوئے ایک آدھ اپنا کنٹوپ بھی ٹھکانے لگا دیں گے۔ معاملہ ختم۔ باقی سلطنت کے بلوائیوں کو گرفتار کر کے انہیں نشانِ عبرت بنا ڈالیں گے۔
چاپلوس بھونپوں کی اس تجویز پر کنٹوپ ترجمان نے گردن ہلائی۔ اور ظل الٰہی نے سرشاری سے دونوں کی طرف دیکھا۔ اور منصوبے کی اجازت مرہمت فرمائی۔
راوی کہتا ہے کہ عوام کے محسنوں اور وزیروں میں دن بَہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ جس پر سلطنت کے ظلّ الٰہی اپنے چاپلوسوں کے ساتھ سلطنت کی گرتی ساکھ کو بچانے میں فکر مند ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ کنٹوپ اور چاپلوس سلطنت بچتی ہے یا پتھر ایسے عوامی عزائم۔