شالا کوئی وزیراعظم نہ تھیوے
مسعود اشعر
ایک دن پہلے اعلان ہوا کہ کل پاکستان میں دن کے ساڑھے گیارہ بجے فیصلہ سنایا جائے گا۔ اب ہماری مشکل یہ تھی کہ پاکستان میں جب دن کے ساڑھے گیارہ بجتے ہیں تو کینیڈا میں اس وقت رات کے ڈھائی بجے ہوتے ہیں۔ ہمیں فیصلہ بھی سننا تھا اور اپنی نیند بھی پیاری تھی۔ اب کیا کیا جائے؟ پہلے سوچا گھڑی میں الارم لگا لیا جائے۔ پھر خیال آیا کہ خواہ مخواہ دوسروں کی نیند بھی خراب ہو گی، جو بھی ہو گا صبح دیکھا جائے گا۔ یہ سوچ کر سو گئے۔
لیکن بگڑی ہوئی عادت کہاں جاتی ہے۔ رات کے ساڑھے تین بجے اچانک آنکھ کھل گئی۔ چپکے سے مو بائل اٹھایا۔ کھولا تو پاکستان کے کسی اخبار نے خبر تو نہیں دی تھی، البتہ ہندوستان کے دو اخباروں ’’انڈین ایکسپریس‘‘ اور ’’دی ہندو‘‘ نے بریکنگ نیوز دی تھی کہ نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا گیا۔
یہ دیکھا اور ہم نے آنکھیں بند کر لیں کہ یہ تو ہونا ہی تھا۔ اب یہاں پاکستانیوں کا اس خبر پر ردعمل کیا تھا؟ ٹورانٹو کا ایک محلہ مسی ساگا ہے۔ خاصہ بڑا علاقہ ہے۔ اسے آپ چھوٹا موٹا پاکستان کہہ سکتے ہیں۔ یہاں پاکستانی ہی بستے ہیں۔ دوسرے دن اس خبر پر وہاں بڑے زور شور سے جشن منایا گیا۔
چونکہ ہم اس علاقے سے دور وڈ برج میں ہیں،اس لیے ہم نے یہ جشن خود تو نہیں دیکھا، لیکن اس کی جو تصویریں سوشل میڈیا پر بھیجی گئیں انہیں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ خاصی بڑی تعداد میں عورتوں اور مردوں نے اس جشن میں شرکت کی۔ وہ سب عمران خاں کی جماعت کے رنگوں والے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔
یہ جشن کسی ہال میں نہیں منایا گیا بلکہ مسی ساگا کا جو بڑا چوک تقریباتی چوک کہلاتا ہے وہاں یہ سب لوگ اکٹھے ہو ئے تھے۔ یہ جشن دیکھ کر ہمیں احساس ہوا کہ عمران خاں بار بار جو مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کو بھی ووٹ دینے کا حق ملنا چاہیے اس کی وجہ یہی پاکستانی ہیں۔
اب آ جائیے اس کالم کے عنوان کی طرف۔ بالکل صحیح کہا امتیاز عالم نے کہ کسی شریف آدمی کو وزیراعظم نہیں بننا چاہیے کہ لیاقت علی خاں سے لے کر آج تک پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔ لیاقت علی خاں کو اندرونی سازش نے قتل کرایا، اس کے بعد فوجی آمر یہ کام کرتے رہے۔
لیکن بھائی صاحب، یہ بھی تو سوچیے کہ اس میں ہمارا اپنا قصور بھی تو ہے۔ ایوب خاں نے مارشل لاء لگایا تو یاد کیجیے کتنے سیاست دانوں کے ساتھ ہمارے کتنے دانشور اس فوجی آمر کے ہاتھ پاؤں مضبوط کرنے میں آگے آگے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اس وقت تحریک چلائی گئی جب بھٹو صاحب اپنے اصل حلقے، یعنی متوسط طبقے اور غریب عوام کے بجائے نواب صادق قریشی جیسے جاگیر داروں کے نرغے میں آ گئے تھے۔
اس تحریک کی وجہ سے جو الیکشن ہوا اگر ہم اس کے بارے میں کچھ بیان کرنا شروع کریں تو ہمارے بہت سے دوست ہم سے ناراض ہو جائیں گے۔ ان دنوں ہم ملتان میں تھے۔ مشہور سوشلسٹ رہنما سید قسور گردیزی کے بھائی سید ولایت حسین گردیزی کو بھری عدالت سے اٹھا لیا گیا تھا۔ وہ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے کاغذات جمع کرانے گئے تھے۔
عطاء اللہ ملک بائیں بازو کے ایک غریب رہنما تھے۔ چھوٹی سی کتابوں کی دکان تھی ان کی۔ انہوں نے نواب صادق حسین قریشی کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کی جسارت کر لی تھی۔ پھر کیا تھا۔ انہیں اغوا کر کے ساہیوال پھینک دیا گیا۔ عطاء اللہ ملک خوب جانتے تھے کہ وہ نواب صاحب کے مقابلے میں نہیں جیت سکتے۔ مگر وہ اپنے علاقے کے مزدوروں اور کسانوں کے مسائل کی طرف توجہ دلانے کے لیے الیکشن میں کھڑے ہو گئے تھے۔
یہ ان نوابوں اور جاگیر داروں نے ہی بھٹو صاحب کے دماغ میں ڈال دیا تھا کہ اپنی مقبولیت جتانے کے لیے انہیں بلا مقابلہ منتخب ہونا چاہیے۔ خود ان کا ہی نہیں بلکہ، ان کے ساتھیوں کا بلامقابلہ منتخب ہونا بھی ضروری تھا۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے پاس پولنگ ایجنٹ بھی نہیں تھے۔
اب آ جائیے نواز شریف صاحب کی طرف۔ ان کی پوری سیاسی تاریخ پر نظر ڈال لیجیے۔ پیپلز پارٹی کی حکومتیں گرانے میں ہمیشہ وہ آگے آگے رہے۔ اس میں انہوں نے کس کا ساتھ دیا، یا کس کی مدد حاصل کی؟ یہ بھی سب جانتے ہیں۔ ایم آر ڈی کس نے بنائی اور کیوں بنائی؟ یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
اور آگے آ جائیے۔ یہ میمو گیٹ کیا تھا؟ یہ شوشا کس نے چھوڑا تھا؟ نواز شریف صاحب کالا کوٹ پہن کر عدالت میں کیوں گئے تھے؟ افتخار چوہدری کی بحالی کے معاملے میں نواز شریف پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف کہاں تک چلے گئے تھے؟ پھر یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے میں وہ کس کے ساتھ تھے؟
یہ سب قصے کہانیاں ہمارے سامنے کی ہیں۔ ذرا سوچیے، آج جو سیاست دانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے، اور سیاست کو گالی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کی وجہ خود ہمارے سیاست دان نہیں تو اور کون ہے؟ آپ جیسا کریں گے ویسا ہی بھگتیں گے۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نواز شریف صاحب کو جس جرم میں سزا دی گئی ہے وہ درست ہے۔ مقدمہ تھا لندن کے فلیٹس کا اور ان کی خریداری کے لیے بھیجی جانے والی رقم کا، لیکن سزا ہوئی اس جرم پر کہ انہوں نے دبئی میں اقامہ لیا، اپنے بیٹے کی فرم میں نوکری کی اور اگرچہ وہاں تنخواہ نہیں لی مگر وہ تنخواہ لی جا سکتی تھی۔ اب چونکہ انہوں نے الیکشن کمیشن میں جو گوشوارے جمع کرائے ان میں اس کا ذکر نہیں تھا، اس لیے وہ صادق اور امین نہیں رہے۔
اب یہ منطق کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ شاید اسی لیے ہمارے موقر انگریزی روزنامہ نے اس پر نہایت منطقی انداز میں تبصرہ کرتے ہو ئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے استدعا کی ہے کہ وہ یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لیں۔ اور اس فیصلے پر نظرثانی کریں۔ اب یہاں پھر ہمیں اپنے سیاستدان بالخصوص نواز شریف ہی یاد آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کب سے آئین کے آرٹیکل62، 63 پراحتجاج کر رہی ہے۔ وہ مطالبہ کر رہی ہے کہ ضیاء الحق کے بنائے ہوئے اس قانون کو ختم کیا جائے، لیکن نواز شریف اس کا ساتھ دینے کو کبھی تیار نہیں ہوئے۔
آئین میں اٹھارھویں ترمیم کے وقت بھی سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے پُرزور الفاظ میں ایک بار پھر یاد دلایا کہ یہ آرٹیکل ختم کیے جائیں۔ لیکن میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں نے ان کی ایک نہ سنی۔ اب انہیں یاد آ رہا ہے کہ ان آرٹیکل کے ذریعے پارلیمان کے ارکان پر جو شرطیں لگائی گئی ہیں اگر ان پر واقعی عمل کیا جائے تو پورے پاکستان میں مشکل سے ایک دو افراد ہی ایسے ملیں گے جو ان پر پورے اترتے ہوں۔
اب بھی وقت ہے کہ میاں صاحب اس طرف توجہ فرمائیں ابھی ان کی جماعت کی ہی حکومت ہے۔ اگر وہ اس ترمیم کے لیے تیار ہو جائیں تو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ