(فاروق احمد)
سی پیک میں چین کے بعد روس کی شمولیت سے طالبان کے ساتھ ساتھ ہماری فوج کے ان عناصر کی لٹیا بھی اب ڈوبی ہی سمجھو جو طالبان کو اپنا اثاثہ قرار دیتے رہے اور طالبان سے کام لینے کے عوض طالبان، جیشوں اور لشکروں کو مذہبی انتہا پسندی پھیلانےکی چھوٹ دیتے رہے ۔۔۔ بالکل اسی طرح جیسے شعیب شیخ جیسے ہیکر کو انڈین ریاستی ویب سائٹس ہیک کروانے کے عوض جعلی ڈگریوں کا دھندا چلانے کی چھوٹ دی جاتی رہی ۔۔۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی پر قابض اس ٹولے نے عمران کے دھرنا پارٹ ون کے ذریعے سویلین حکومت کو بلیک میل کر کے خارجہ پالیسی پر اپنی گرفت مکمل کر لی تھی اور پھر ایک فل ٹائمر باقاعدہ وزیر خارجہ کی تقرری پر پابندی لگا دی تھی ۔۔۔ ہر لحاظ اور ہر زاویے سے آرمی چیف ہی وزیر خارجہ کے عہدے پر خود فائز تھے ۔۔۔
خارجہ پالیسی کو فوجی کنٹرول میں لینے کے پیچھے یہ سوچ کار فرما تھی کہ کہیں سویلین حکومت بھارت اور افغانستان سے تعلق بہتر بنا کر جنرلز کی تیار کردہ تزویراتی گہرائی کی پالیسی کو ٹرن اراؤنڈ نہ کر ڈالے جس کا مقصد برس ہا برس سے یہ تھا کہ افغانستان کے جنوبی علاقے میں پشتون طالبان کے ذریعے اپنا قبضہ بنائے رکھا جائے تاکہ بھارت کو افغانستان میں قدم جمانے کا موقع نہ مل سکے جو کہ وہ اپنی تجارتی اور اقتصادی حکمت عملیوں کے ذریعے اس کے باوجود جمانے میں کامیاب ہو جکا ہے ۔۔۔
درحقیقت ہر لحاظ سے اور ہر زاویے سے پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اسٹریٹجک ڈیپتھ کی یہ احمقانہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے جو اس چپڑ قناتیے مفروضے پر قائم تھی کہ اس طرح بھارت کو افغانستان میں گھس بیٹھنے اور بھارت سے جنگ کی صورت میں اسے افغانستان کے راستے حملہ آور ہونے سے روک کر اپنی مشرقی سرحدوں کو محفوظ رکھا جا سکے گا ۔۔۔ پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے طالبان کی سرپرستی بلکہ بڑھاوا دینے کی کل پالیسی اسی نظریے پر استوار تھی ۔۔۔ یہ پالیسی احمقانہ اس لیے تھی کہ اس سے مقصد حاصل ہونا تو کجا الٹا پاکستان تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ۔۔۔ سرحدوں کی بقا کے نام پر سرحدوں کے اندر جو کچھ تھا وہ سب تباہ کر دیا گیا ۔۔۔
یہ کیسا کوڑھ مغز ذہن تھا جو اپنی حماقتوں کے نتائج کا قبل از وقت ادراک بھی کر نہ سکا ۔۔۔ آج بھارت افغانستان میں اپنے قدم جما چکا ہے جنگی طاقت کے بل پر نہیں بلکہ تجارتی تعلقات کے ذریعے ۔۔۔ ہندوتوا کے بل پر نہیں بلکہ افغانستان کے طول و عرض میں میں ڈیموں کی تعمیر کے ذریعے ۔۔۔۔ ہماری اپروچ منفی تھی ان کی مثبت کیونکہ ان کے ہاں سویلین ذہن کارفرما تھا اور ہمارے ہاں دولہ شاہ مارکہ فوجی ذہن ۔۔۔۔ وہ ذہن نے افغانستان کے پشتون علاقوں میں انتشار پھیلا کر دفاع کو مضبوط کرنا چاہا اوراپنے مقصد میں سو فیصد ناکام رہا جب کہ یہ خطرہ مٹا تو آج پاکستانی سویلین حکومتوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں سی پیک کے ذریعے ۔۔۔
آج مشرقی سرحدوں کی جانب سے نام نہاد بھارتی جارحیت کا خطرہ ہمیشہ کیلئے مٹ گیا ۔۔۔ یہ وہ سی پیک منصوبہ ہے جس کی داغ بیل سویلین کرپٹ صدر زرداری نے ڈالی اور جسے سویلین کرپٹ وزیر اعظم نواز شریف نے پایہ تکمیل تک پہنچایا اور آج انہی دو سویلین مطعون حکمرانوں کی بدولت سی پیک میں روس بھی شامل ہوتا نظر آیا ۔۔۔ ظاہر ہے کہ یہ وژن اور ادراک صرف سویلین حکمران ہی کر سکتے ہیں کہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کیلئے کیسی خارجہ پالیسی اور کیا دفاعی حکمت عملی اپنائی جانی چاہیئے ۔۔۔
فوجی ذہن سیاسی اور قومی مفادات سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے جب کہ دعویٰ اس کے برعکس کرتا ہے ۔۔۔ فوجی ذہن قومی سلامتی کے معاملات میں کنوئیں کا مینڈک ہوتا ہے جو دفاع کیلئے صرف جنگ و جدل ہی سوچ سکتا ہے ۔۔۔ قومی دفاع درحقیقت ایک ایسا سوال ہے جو فوجی دماغ کی سمجھ سے بالا تر ہے ۔۔۔ اور جب ہی کہا جاتا ہے کہ جنگ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے کسی فوجی جنرل پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔۔۔
۔
پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اب اپنی حماقتوں کے تدارک کی ضرورت ہے لیکن وہ احمق ہی کیا جو اپنی حماقتوں کا ادراک کر سکے ۔۔۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اب جان لینا چاہیئے کہ آج تک پاکستان کو جس قدر بھی نقصان پہنچا وہ اس کے اپنے ہی ہاتھوں پہنچا اور جتنا بھی اس ملک نے حاصل کیا وہ سویلین لیڈر شپ نے اسے دیا ۔۔۔ چاہے وہ گوادر ہو یا سی پیک اور جتنا بھی لٹایا وہ ملٹری لیڈر شپ کے ہاتھوں لٹایا چاہے وہ مشرقی پاکستان ہو، سیاچن ہو ، کارگل ہو ، یا سر کریک ۔۔۔ نوے ہزار فوجی ملٹری راج میں قیدی بنے اور سویلین راج میں واپس آئے ۔۔۔
لیکن سی پیک اور اس میں روس کے شامل ہونے کے بعد اب طالبان بچیں گے اور نہ ہی طالبان کے سرپرست ۔۔۔ آنے والا وقت دیکھے گا کہ کس قدر تیزی سے قومی معاملات پر ملٹری کی بدمعاش اور سازشی اسٹیبلشمنٹ کی گرفت ڈھیلی ہوتی جائے گی اور کس قدر جلدی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو سویلین حکومتوں کے طابع ہونا پڑ جائے گا ۔۔۔ مشرقی سرحدوں کو اب طالبان نہیں بلکہ وسطی ایشیا کا تجارتی مفاد محفوظ کرے گا ۔۔۔ اور اس مفاد کا بانی و سرپرست کوئی حمید گل نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی جماعتیا صورت منحوس کرنل امام۔
مصنف کے خیالات سے جزوی اتفاق کے باوجود چند چیزوں کی نشاندہی ضروری ہے۔ 1۔ مضمون کا عنوان گمراہ کن ہے۔ “سویلین لیڈر شپ کا نظریہ تزویراتی گہرائی بمقابلہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ” سے یہ ظاہر ہوتا ہے گویا تزویراتی گہرائی کا نظریہ سول قیادت کا ہے حالانکہ مصنف خود مضمون میں اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ یہ نظریہ عسکری قیادت کا ہے۔ 2۔ تزویراتی گہرائی سے متعلق مزید تحقیق کر لی جاتی تو بہتر تھا۔ تزویراتی گہرائی کے نظریے کے مطابق افغانستان میں صرف ہندوستانی اثرورسوخ کو روکنا ہی مقصود نہ تھا۔ یہ کوئی سفارتی یا خارجہ حکمت عملی کا منصوبہ نہ تھا بلکہ اس منصوبے کے تحت افغانستان میں ایک ایسی حکومت کا قیام مقصود تھا جو پاکستان نواز یا پاکستان دوست ہو۔ یہ ایک عسکری منصوبہ تھا جس کے تحت یہ حکمت عملی وضع کی گئی کہ اگر مشرقی سرحد سے ہندوستان حملہ کرے اور ہماری سپاہ اس کا مقابلہ نہ کر سکیں تو فوج افغانستان میں پسپائی اختیار کرے گی اور پھر وہاں سے حملہ آور ہو کر مقبوضہ پاکستانی علاقوں کو چھڑائے گی۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ہمیں افغانستان کے راستے ہندوستانی حملے کا خدشہ رہا ہے۔ یہ خدشہ ضرور تھا کہ ہندوستانی حملے کی صورت میں ہو سکتا ہے افغانستان بھی سرحدی جارحیت شروع کر دے۔ 3۔ یہ درست ہے کہ سول قیادت بتدریج مضبوط ہو گی مگر پاکستان کے جب تک ہندوستان سے تعلقات معمول پر نہیں آئیں گے اور افغانستان میں کوئی پرامن سیاسی تصفیہ نہیں ہو گا فوج خارجہ معاملات پر حاوی رہے گی۔ 4۔ میری دانست میں فوج سی پیک منصوبے سے مزید مضبوط ہو گی کیوں کہ اس منصوبے کو خصوصی دفاع کی ضرورت ہو گی اور ظاہر ہے کہ یہ سول ادارے نہیں کر پائیں گے۔ پہلے ہی ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس منصوبے کی دفاع کی تمام تر ذمہ داری کم سے کم بلوچستان کی حد تک فوج کے ہاتھ میں ہے۔ 5۔ قانون نافز کرنے والے سول اداروں کی مضبوطی کے بغیر سول قیادت کا سیکیورٹی معاملات میں عمل دخل کمزور بنیادوں پر ہی رہے گا جب تک ہمیں شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج کی ضرورت ہے اور ہندوستان کے خلاف جہاد کا امکان باقی ہے تب تک فوج ایک طاقت ور ادرے کے طور پر خارجہ حکمت عملی اور سیکیورٹی معاملات پر حاوی رہے گی۔ اس سب معاملے میں ایک ہی امید کی صورت ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں میں اس معاملے پر اتفاقِ رائے ہو جائے کہ اب خارجہ حکمت عملی میں غیر ریاستی عناصر کی کوئی جگہ نہیں، ہندوستان سے ہر صورت تعلقات بہتر بنانے ہیں، ہر قسم کے مذہبی دہشت گردوں خواہ وہ فوج کے قریب ہوں یا نہ ہوں کے خلاف کارروائی کرنی ہے اور جوہری ہتھیار کم کرنے ہیں تب تک سول بالادستی ممکن نہیں۔
شعیب صاحب،
کچھ معروضات ہیں۔
1۔ ہم آج جس عہد میں زندہ ہیں، اس میں ایک معنی کا ہونا، مطلق معنی کا وجود موقوف ہو چکا۔
2۔ آج اگر کسی لفظ سے کوئی ایک مطلب ہی لینے پر رک جائے تو اسے روح عصر سے یا تو بغاوت ہوگی یا کوئی اور معاملہ
3۔ مزید یہ کہ طنزیہ تحریر لکھنے والے کے آلات فن میں سے بنیادی فن لفظوں کے “معروف؟؟؟” معانی کی توڑ پھوڑ سے کئی معانی کا دھانا کھولنا بھی اسی قدر معروف اصول ہے جس قدر کسی کے لئے تزویراتی گہرائی کا کوئی معنی واحد!
4۔ میرے لئے تو فاروق احمد صاحب کی طنز کے نشتر سے معافی کا جو در کھلا تھا، اس سے سویلین حکومت کی تزویراتی گہرائی کا ایک اور مثبت، معیشت سے متعلق کی تزویرکا معنی سامنے آیا۔ اس لفظ کے معانی کی ایک بہت عمدہ ثنویت انہوں نے اجاگرکی یہ تزویراتی گہرائی صرف بندوق کے منھ سے ہی نہیں نکلتی بلکہ یہ معیشت کی صورت میں بھی نمودار ہو سکتی ہے۔ یہی ان کی تحریر کی میری نظر میں ایک مرکزی طنزیہ حوالہ ہے۔