منزہ احتشام گوندل کی نظم، سپرچوئیل پیراسائیٹ کا ایک مطالعہ
از، نصیر احمد
میں تیری روح سے چمٹا ہوا طفیلیہ ہوں
کہ جس کے ہونے نہ ہونے سے
تجھے کچھ فرق نہیں پڑتا مگر
تیری روح سے جدا ہونے میں
میری موت پنہاں ہے
منزہ احتشام گوندل
واہ، کتنی اچھی نظم ہے، حسن تفہیم سے مالا مال، حسن ادا کا شاہ کار۔ شاعر فرانسس کہتے تھے کہ ایک اچھی نظم قاری کو اپنے پاس ٹھہرا لیتی ہے کہ وہ اسے سمجھ کر تا دیر اس سے لطف اندوز ہوتا رہے۔ نظم کی تفہیم کافی مشکل کام ہوتا ہے، بس چند لفظ سامنے پڑے ہوتے ہیں، اگر وہ سوچ کے ایک سفر کا آغاز کر دیں تو جانیے شاعرہ نے دانستہ یا دانستہ شاعری کا ایک اہم فریضہ ادا کر دیا ہے۔ اس فریضے کے بارے میں شاعر فرانسس کہتے ہیں کہ شعر کا قاری نے دفاع نہیں کرنا ہوتا، شعر نے قاری کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ اور منزہ کی یہ نظم ہم سب کا دفاع تو کرتی دکھائی دیتی ہے۔
شاعر فرانسس اور ہمارے نقطۂِ نظر میں کچھ فرق ہے۔ ہماری تفہیم قیام سے زیادہ سفر کی آرزو مند رہتی ہے۔ہر اچھا خیال جرس کا نالہ بن جاتا ہے کہ چلے چلو کہ ابھی منزل نہیں آئی۔ جوسٹین گارڈنر نے اپنی کسی کتاب میں کہا تھا کہ دانائی یا تو مسلسل سفر ہے یا مسلسل قیام۔ ھاھا، ہم کہاں کے دانا، کس ہنر میں یکتا، مگر منزہ کی نظم نے ایک ذہنی سفر آغاز کیا ہے، تو دیکھتے ہیں کس کس سے راستے میں ملاقات ہوتی ہے۔
مزید دیکھیے: جہاز کی کھڑکی سے نظارہ، افسانہ از منزہ احتشام گوندل
سب سے پہلے سائنسدان فینیمین سے ملتے ہیں، وہ شاعروں سے یوں شکوہ کرتے ہیں، کہ شاعر کہتے ہیں کہ سائنس ستاروں کا حسن چھین لیتی ہے اور انھیں محض بے کیف ایٹموں اور گیس کا مجموعہ سا بنا دیتی ہے۔ محض بے کیف مجموعہ؟ ایسا کچھ نہیں، ان ستاروں میں وہ سچ موجود ہے، جس کی جانب ماضی کےشعرا کا تخیل کبھی پرواز ہی نہیں کر سکا۔ مگر آج کے شاعر سائنس کی بات کیوں نہیں کرتے؟
سائنس دان فینیمین کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تفہیم و صداقت کے قریب تو سائنس ہی لاتی ہے تو شعر میں اس کی موجودی شعر کو شاندار ہی کرے گی۔منزہ کی اس نظم میں طفیلیے کی صورت میں تھوڑی سی سائنس موجود ہے اور ایک سماجی صداقت کو فاش و ظاہر کرنے میں مددگار بھی ہے۔ سائنسدان فینیمین تک یہ نظم پہنچتی تو کچھ مسکرا تو ضرور اٹھتے۔ اور ان کا یہ تبسم منزہ کو گلزار کر دیتا کہ اکڑ ان میں بہت تھی، کسی نے جناب اوڈن کا دفاع کرنے کی کوشش کی تو ان کا جواب اگر اپنے ہاں کے بندے ہوتے تو کچھ یوں ہوتا، کیا بکتی ہو، بکواس کر ریا ہے۔
ایسوں سے تھوڑی بہت داد بھی مل جائے، وہ بھی کافی ہوتی ہے، ہمیں یقین ہے نظم میں صداقت کو اجاگر کرتی سائنس کی موجودگی سے سائنس دان فینیمین منزہ کو کچھ داد دے ہی دیتے۔ اس پر یاد آیا منزہ کی تعریف کرتے ہوئے کسی نے شعر کو ما ورائے حواس سے متعلق کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان صاحب نے بھی ٹھیک ہی کہا ہو گا مگر سائنس دان فینیمین سے ان کا اس بات پر گالی گلوچ ضرور ہونا تھا۔
آگے چلتے ہیں، تو سعدی شیرازی سے ملاقات ہوتی ہے۔ وہ گلہ کرتے ملتے ہیں
نہ فراغت نشستن، نہ شکیب رخت بستن
نہ مقام ایستادن، نہ گریز گاہ دارم
اور ہمارے ہاں کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہ گلہ نجات و محبت کا مثالیہ بن گیا ہے۔ منزہ کی نظم میں یہ گلہ موجود ہے اور یہ بات بھی موجود ہے کہ اس گلے کو مثالیہ بنانے کے نتیجے موت اور حیات کے درمیان جو فرق مٹتا ہے اس کے نتائج انسانی مستقبل کے لیے کتنے بے رحمانہ ہیں۔ہمارا کہنے کا مطلب ہے کہ ہستی کے اثبات کے لیے افسانہ و افسوں سے چمٹنے سے جو ہستی ملتی ہے، اس میں زندگی کی امنگ نہیں ہوتی بلکہ موت کا خوف ہی ہوتا ہے اور یہ خوف اتنا بڑھا ہوا ہوتا ہے کہ ہستی موت کی پرستار بن جاتی ہے، موت کا ہر کارہ، موت کا کارندہ بھی۔
زندگی کا ایک ایسا ضیاع جس کا افسانہ تراشنے والوں، افسانے کو رواج دینے والوں کو کوئی ملال نہیں ہوتا۔ اور اس خوف کے زیر اثر گل پاشی، وہ جیسے فیض صاحب کہتے ہیں، گل دامنی و کج کلہی کا حوصلہ بھی کھو دیتی ہے۔ ساغر میں مے بھرنے کی جرات بھی نہیں رکھتی۔ بس سجدہ ریز سی رہتی ہے۔ کائنات کو چیلنج نہیں کر پاتی ،جس کے نتیجے میں ایجاد و اختراع بھی نہیں کر پاتی۔ سائنسدان فینیمین زندگی و ہستی کو اس قدر خستہ و شکستہ دیکھتے تو بہت اداس ہو جاتے کہ فطرت سے ان کا جستجو و مسرت کا رشتہ تھا، کارندہ بنی، ہرکارہ بنی، طفیلیہ بنی ڈری ڈری زندگی، اس رشتے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔اور سائنسدانوں کو صوفیانہ شاعری کی منقبتیں پڑھتے دیکھ کر تو بے ہو ش ہی جاتے۔
اب بتائیں، آپ کو کہاں لے جائیں، تیسری بادشاہی کے اس معمار وزیر، ایلبرٹ شپیر کے ہاں جو طفیلیوں کی سفاکی، شرمندگی و مجبوری پہ سر بہ زانو ہے۔ یا اس سرد مہر سی مجلس کے ارد گرد جو لاکھوں کروڑوں کی موت کے فیصلے ایسے کر رہی ہے جیسے کسی ترقیاتی منصوبے پر دفتری قسم کی بات چیت چل رہی ہو۔ کرسچاؤ کے ہاں بھی جا سکتے ہیں، جسے بڑھتی عمر اور اپنے بھاری تن و توش کے با وجود اپنے افسر اعلی کی لذت کے لیے ناچنا پڑتا ہے۔ یہ تو عُرفی کے شعر کی طرح ہے کہیں بھی جائیں یہ غبار سامنے ہی کھڑا ہو گا مگر یہ غبار گلزار بھی ہو سکتا ہے، ایسا گلزار جس میں تحقیق و تخیل اور ایجاد و اختراع کا حسن موجود ہے۔ بات تو فیصلوں کی ہوتی ہے ورنہ ہر جگہ لوگ تو موجود ہوتے ہیں جو فرد کی نفی کے نقصانات بتاتے ہیں اور فرد کے امکانات کی راہیں بھی اجاگر کرتے ہیں۔
خرد اور سائنس کے آس پاس شعر بھی شان دار ہوتا ہے اور فلسفہ بھی۔ کیوں کہ خرد اور سائنس صداقت کے دوست ہیں۔ اور صداقت کی دوستی اسی وقت مفید ہوتی ہے جب یہ فرد، فرد کے حقوق، فرد کی آزادیوں اور فرد کی ذمہ داریوں کا احترام کرے اور اس احترام کی قدرے بہتر صورت جمہوریت ہی ہے۔ ابھی تک جمہوریت سے بہتر اُپائے ممکن نہیں ہو سکا۔ کچھ عرصے بعد انسانیت اس حل سے بے زار سی دکھائی دینے لگتی ہے، مگر جب کوئی حل پیش کرتی طفیلیے، کارندے، ہرکارے اور غلام سے آگے نہیں جا پاتی۔
احمقوں کا سفینہ ڈبونے کے بعد جب کوئی نیا کھویا نمودار ہوتا ہے وہ درد و غم اور موت ہی تو بڑھاتا ہے۔ چند سالوں کے بعد اصلی شکل سامنے آ جاتی ہے، جسے مکمل قبضہ اور مسلسل پروپیگنڈا نہیں چھپا پاتے۔ منزہ کی یہ نظم وجہ اور نتیجے کا سلسلہ جوڑتی ہے اور یہ جڑا ہوا سلسلہ ہمارا دفاع بھی ہے اور ہمارے لیے ایک رستہ بھی۔ اب ہم لوگ چاہے طفیلیے بنے رہیں یا کچھ نیا کر لیں۔
منزہ کی اور نظمیں بھی کافی اچھی ہیں۔ بہت ساری اچھی گفتگو کا باعث بن سکتی ہیں۔ ذال سعدی کی طرح منزہ بھی شاعری کو ثقافتی جکڑ بمبو سے آزاد کرنے کی آرزو رکھتی ہے۔ سیاسی لحاظ سے دیکھیں تو منزہ کی شان دار نظمیں سچائی کے مصالحتی کمیشن کی طرح ہیں۔ یعنی اپنے لوگ اپنے ثقافتی نظام کے تحت تھوڑی سی بہتر زندگی کی وکالت کرتے ہوئے۔ لیکن یہ گفتگو ہم پھر کبھی کریں گے۔ فی الحال بس اتنا ہی۔