بر صغیر کے مسلمان : ثقافتی شناخت کا مسئلہ
(عمار غضنفر)
کیا نیا آنے والا مذہب عقائد و عبادات کے ساتھ اپنی الگ ثقافت بھی تشکیل دیتا ہے? یا پھر جس خطّہِ زمین کے باشندے اس کا اوّلین مخاطب ہوتے ہیں، وہ انہی کی ثقافت اپنا لیتا ہے؟ یا دوسرے معنوں میں اس کے احکام اپنے اوّلین مخاطبین کی ثقافت،رسم ورواج اور معاشرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیے جاتے ہیں۔ اور ایسی صورت میں جب یہ مذہب اپنے زمانہ عروج میں اجنبی سرزمین میں فروغ پاتا ہے، تو وہاں کے باشندوں کے لیے تبدیلئِ مذہب کے ساتھ ساتھ اپنی موجودہ ثقافت کو خیرباد کہتے ہوئے، نئے اختیار کردہ مذہب کے مصلّحین کی ثقافت کو اپنانا، مذہبی ضرویات میں سے ہوتا ہے؟
یہ سوالات عرصہ سے مختلف محققین اور دانشوروں کی بحث کا موضوع رہے ہیں، مگر اس معاملے میں کوئی اتّفاقِ رائے سامنے نہیں آ سکا۔ اور خصوصاً ہم برّ صغیر پاک و ہند کے مسلمان ان سوالات کے جوابات کا تعیّن کرنے میں ہمیشہ مخمصے کا شکار رہے ہیں۔
کسی بھی خطہ زمین کے باشندوں کی ثقافتی تاریخ ہزارہا برسوں پر محیط ہوتی ہے، جس کی تشکیل میں اس مخصوص علاقے کی سیاسی اور سماجی تاریخ، معاشی عوامل، جغرافیائی حالات، موسمی اثرات اور دیگر خطوں سے تعلقات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مقامی ثقافت کی جڑیں لوگوں میں اس قدر گہری ہوتی ہیں کہ یہ ثقافت ان کی روزمرّہ زندگی کا ایک حصّہ بن جاتی ہے، اور ان کی سوچ، روز مرّہ بول چال، ان کے ہاں رائج رسوم، مقامی تہوار اور ان کے رویّے اس کے اظہار کا ذریعہ بنتے ہیں۔
[su_quote]اجنبی خطّے سے آنے والے حملہ آور (خصوصاً جب ان کی فتوحات کا مقصد اپنے مذہب کا فروغ ہو) اپنے مذہب کے ساتھ اپنے علاقے کی ثقافت بھی ہمراہ لے کر آتے ہیں، اور کیونکہ ان کا مذہب اسی ثقافت کی فضا میں پروان چڑھا ہوتا ہے، اس لیے وہ مذہب میں نئے داخل ہونے والوں سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ ان کی ثقافتی اقدار کو برتر مانتے ہوئے ان کے مذہب کو اسی رنگ میں اپنائیں، اور اپنی علاقائی رسوم اور تہواروں کو خیر باد کہ دیں۔[/su_quote]
کچھ یہی صورتحال برّصغیر پاک وہند میں اسلام کی آمد کے وقت بھی درپیش تھی ایک جانب ہندوستان کی ہزارہا برس پرانی ثقافت تھی، اور دوسری جانب عرب ثقافت میں پروان چڑھا اسلام تھا، جس میں کہ وسط ایشائی سخت گیر مزاج کا اضافہ بھی ہو چکا تھا۔ مسلمان حملہ آور جب سرزمینِ ہند میں فتوحات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو یہاں کے مقامی باشندوں کی کثیر تعداد حلقہ بگوش اسلام ہوئی۔ اس تبدیلیِ مذہب کی وجوہات میں نئے مذہب کی تعلیمات سے متاثر ہونے کے علاوہ کئی دیگر سیاسی، سماجی اور معاشی عوامل بھی شامل تھے۔
اس ضمن میں سب سے اولّین تبدیلی تو نئے مسلمان ہونے والوں کے ناموں کی تبدیلی تھی۔ مقامی لوگوں کے نام ہندوستانی ثقافت کے آئینہ دار تھے۔ قبولِ اسلام کےساتھ ہی ان کے ناموں کو عربی ناموں سے تبدیل کر دیا اور ان کی آئیندہ نسلیں بھی اسی روش پر گامزن رہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ نئے نام اسلامی تھے یا عربی۔ کیونکہ قبل از اسلام بھی عربوں میں یہی نام مروّج تھے، اور انہیں مذہب کی تبدیلی کے ساتھ اپنے نام تبدیل کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔
ابتدائی مسلمان حملہ آوروں اور ان کے ہمراہ آنے والی اشرافیہ اور علماء کرام نے ہندوستان کی مقامی ثقافت، رسم و رواج اور زبانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا۔ زبان کسی خطہ زمین کے رہائشیوں کے رہن سہن کی صدیوں کی تاریخ کو اپنے اندر سموئے ہوتی ہے۔ ہندوستان کی دھرتی ویسے بھی سالہا سالل کی قدیم تہذیب کی مالک تھی، جہاں ہڑپہ اور مہنجوڈارو جیسے قدیم تہذیبی آثار کے علاوہ شاندار شہری آبادیاں موجود تھیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جب محمود غزنوی متھرا شہر میں داخل ہوا تو وہاں موجود مندروں اور محلات کی خوبصورت تعمیر کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا تھا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ نئی مذہبی تعلیمات کے مطابق یہ مندر فنِ تعمیر کا شاہکار ہونے کے باوجود ِشرک کا مرکز تھے۔
سرکاری سطح پر عربی اور فارسی زبان کی پشت پناہی کی گئی۔ مقامی زبانیں صرف عوامی سطح تک محدود ہو کر رہ گئیں۔ وقت کے ساتھ مقامی نومسلم آبادیاں سنسکرت سے دور ہوتی چلی گئیں۔ مقامی لوگوں کے پہناوے، رسم و رواج اور تہوار ان کے مذہب کے مطابق ڈھلتے چلے گئے۔ ایسے میں ایک مسلمان صوفیا ہی تھے جو بنیادی طور پر وحدت الوجودی عقیدے کے پرچارک ہونے کے باعث، اس سب تنوّع کو ایک ہی ذات کے مختلف رنگوں کا اظہار سمجھتے تھے۔
وحدت الوجود کا عقیدہ یوں بھی ویدوں میں موجود بنیادی ہندو مت تعلیمات سےقریب تر تھا۔ نتیجتاً یہ صوفیاءکرام مقامی لوگوں کی تہذیب کے مطابق ڈھل گئے۔ انہوں نے جن علاقوں میں اپنے مراکز قائم کیے، وہاں کی زبان اور رہن سہن کو اپنا کر وہاں کے لوگوں میں گھل مل گئے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں عوامی سطح پر مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی اور ان کے پیروکاروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اس سطح پر ثقافتی یکجائی کی ایک مثال ہمیں امیر خسرو کی شاعری میں نظر آتی ہے، جو کہ خود بھی ایک ترک باپ اور ہندوستانی ماں کی اولاد تھے۔
حکمرانوں کی سطح پر یہ کشمکش شہنشاہ اکبر کی صورت میں نظر آتی ہے، جس نے شعوری طور پر ہندوستان کو اپنا ملک اور یہاں کی ثقافت کو اپنی ثقافت کے طور پر اپنایا۔ اس نے نہ صرف ہندو امراء کو اپنے دربار میں اعلیٰ عہدے دیے، بلکہ ہندو راجاؤں کی بیٹیوں سے سیاسی مصلحتوں کے تحت شادیاں بھی کیں۔ اس نے نہ صرف یہ کہ انہیں تبدیلئِ مذہب پر مجبور نہیں کیا، بلکہ اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کے لیے ان کے محلوں کے اندر مندر بھی بنوا کر دیے۔ اس طرح کے اقدامات کے باعث اسے مسلمان مذہبی حلقوں اور ان کے زیرِ اثر امراء کی مسلسل مخالفت کاسامنا کرنا پڑا۔
دوسری جانب ایسے علماء کی اکثریت متحدہ ہندوستان کے آخری دور تک موجود رہی جو کہ اپنے مذہب کی عرب بنیادوں پر فخر کرتے تھے، اور اپنے پیروکاروں کی عرب ثقافت کو اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی جن کا خاندان کئی نسل سے ہندوستان میں آباد تھا، اپنے وصیت نامے میں اپنے صاحبزادوں کو یہ ہدایت کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ کبھی اپنے عربی النسل ہونے کو فراموش نہ کریں، اور عرب ثقافت سے دور مت ہوں۔
دونوں ثقافتوں میں اکثر معاملاتِ زندگی میں بہت سے اختلافات موجود تھے۔ ہندوستانی معاشرے میں مردوں کی یک زوجگی کا رواج تھا، اور شادی کو عمر بھر کا بندھن مانا جاتا تھا۔ جبکہ عرب ثقافت میں مردوں کی ایک سے زائد شادیوں کو قبولیت حاصل تھی، اور اسلام نے بھی چند شرائط کے ساتھ اس سہولت کو برقرار رکھا تھا۔ دوسری جانب ہندوستانی عورتیں خاوند کی موت کی صورت میں یا تو اس کی لاش کے ساتھ ہی جل کر ستی ہو جاتی تھیں، یا پھر تاعمر بیوگی کی زندگی اختیار کرتی تھیں۔ جبکہ عرب معاشرے میں عورتیں نا صرف خاوندوں کی موت کے بعد کسی دوسرے مرد سے شادی کے لیے آزاد ہوتی تھیں، بلکہ خاوند کی زندگی میں بھی علیحدگی اختیار کر کے کسی اور مرد کی زوجیت میں آ جایا کرتی تھیں۔
[su_quote]ہندوستانی معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام رائج تھا، اور بھابی کو ماں کہاجاتا تھا۔ جبکہ عرب معاشرے میں شادی شدہ جوڑا نہ صرف الگ رہائش اختیار کرتا تھا بلکہ اسلام دیور، جیٹھ اور سسر سے بھی پردے کا حکم دیتا تھا۔[/su_quote]
ایسے میں مختلف زمانوں میں اسلام قبول کرنے والے مقامی قبائل اور خاندان ایسے بہت سارے معاملات میں تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں۔ روایتی راجپوت خاندانوں میں اسلام قبول کرنے کے باوجود، بیوہ کی دوسری شادی کو معیوب خیال کیا جاتا رہا۔ کئی قبائل ہمیں ایسے بھی نظر آتے ہیں جو مسلمان ہو جانے کے باوجود اپنی خاندانی رسومات کی ادائیگی کے لیے برہمنوں کو معاوضہ ادا کرتے تھے۔
میو قوم میں قبولِ اسلام کے بعد بھی ایسی رسم مروّج نظر آتی ہے جس میں قبیلہ کے سب افراد بکرے کے سر پر پانی انڈیلتے تھے، اور ان کا یہ ماننا تھا کہ ایسےمیں بکرے کے ہلتے سر کے ساتھ ان کے مردہ بزرگوں کی روحوں کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔
آج جب کہ گزشتہ دہائیوں میں اسلامائزیشن کا عمل سرکاری سطح پر جاری رہا ہے، عوامی سطح پر اکثریتی بنیادوں پر یہ کشمکش آج بھی جاری ہے۔ قدیم ثقافت اور عقائد کی باقیات مختلف صورتوں میں لوگوں کی موجودہ زندگی کے اور مذہبی رسومات کا حصّہ ہیں، اور کوششوں کے بوجود ان کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔
[su_quote]اس سلسلے میں انتھروپولوجسٹ ہارون خالد کی کتاب”In Search of Shiva :a Study of Folk Religious Practices in Pakistan” کا مطالعہ دلچسپی کا حامل ہے، جس میں مصنف نے پاکستان کے مختلف مضافاتی علاقوں کی سیر کر کے دکھایا ہےکہ کس طرح شیو کی پوجا، لنگم پوجا اور گاؤ ماتا کی پوجا، جن کی جڑیں اس خطہ زمین میں ہزاروں سال پرانی ہیں، مختلف عقائد اور رسومات کی شکل میں آج بھی جاری ہیں اور لوگ اس بات سے انجان رہتے ہوئے آج مختلف طریقوں سے ان رسومات کاحصہ ہیں۔[/su_quote]
ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں اسلامی عقائد پر رہتے ہوئے بھی اپنی دھرتی پر اور اپنی ثقافت پر فخر کرنے کے احساس کو اجاگر کیا جائے، اور ان میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ اپنی ثقافتی قدروں سے جڑا رہنا ان کے ایمان میں کمی اورانہیں اپنے مذہبی عقائد سے دور کرنے کا باعث نہیں۔ ایسا کرنا نہ صرف یہ کہ لوگوں میں ایک دوسرے کی ثقافتی قدروں کے احترام کا جذبہ پیدا کرے گا بلکہ دہشتگردی اور انتہا پسندانہ سوچ کے فروغ کے آگے بھی بند باندھے گا۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.