برصغیر میں سیاست کا تاریخی پس منظر
(شاہد خان)
پاکستان میں میدان سیاست ایک ایسا اکھاڑہ ہے جسے چالبازی اور مختلف داؤ پیچ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سیاست بازی ایک فن ہے جو انگریز کے زمانے سے نسل در نسل منتقل ہوتا چلا آیا ہے۔ اس لیے کہ انگریز نے بلدیاتی اداروں کے ذریعے جمہوریت کا تحفہ برصغیر پاک و ہند کو دیا اور پھر لیجسلیٹو کونسل وغیرہ جیسے اداروں کے ذریعے الیکشن کا تصور دیا۔ لیکن اس سب سے پہلے وہ ہر علاقے میں اپنے وفادار ایک بااثر خاندان، نواب، وڈیرے، خان اور چوہدری کی صورت میں منتخب کر چکا تھا۔
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے انگریز کی آمد سے ہی اس کے ساتھ راہ و رسم بنائے، اپنوں سے غداریاں کی، اگر کبھی جنگ ہوئی تو جو کوئی بھی انگریز فوج کے سامنے کھڑا ہوا اس کی گردن کاٹی، انگریز کو اپنی اولاد، نسل ، برادری،اور قبیلے سے لڑنے مرنے کے لیے سپاہی فراہم کیے۔ یہ سب کے سب راج دربار میں عزت حاصل کر گئے،انھیں جائیدادیں ملیں،انھیں مقامی سطح پر آنریری مجسٹریٹ جیسے عہدوں کے ذریعے فیصلوں کا اختیار دیا گیا۔ یہ لوگ جرگہ،پنچایت اور دیگر مقامی بندوبست کے سربراہ بنے۔ انھوں نے انگریز سے وفاداری،اپنوں سے غداری اور ذاتی مفادات کی بالا دستی جیسے مقاصد کو ملا کر ایک فن ایجاد کیا جسے سیاست کہا جانے لگا۔
یہ اس فن میں اس قدر طاق ہو گئے کہ انھوں نے لوگوں کو قائل کر لیا کہ انگریز کی حکومت ایک نعمت ہے، یوں یہ جب الیکشن کے لیے میدان میں اترے تو ان کو الیکشن جیتنے کے کئی سو گر آتے تھے، انھیں لوگوں کو فریب دے کر، لالچ ، دھونس اور کہیں کہیں تشدد اور قتل کے ذریعے بالآخر ان پر حکومت کرنے کا فن ازبر تھا۔ اسی لیے پورے برصغیر میں ہر خاص و عام کی زبان پر یہ محاورے عام تھے۔ مثلاً ’’میرے ساتھ سیاست مت کرو‘‘… ’’یہ سیاست بازی چھوڑ دو‘‘…’’ اس کا کیا اعتبار وہ بہت سیاسی ہے۔‘‘
یوں سیاست کو عام زندگی میں دھوکہ، فریب ، جھوٹ، مکر اور چالاکی سے تعبیر کیا جاتا اور آج بھی یہ محاورہ نہیں بدلا۔ اس کی حیران کن مثال یہ ہے کہ ایوب خان نے جب سیاست دانوں کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے گول میز کانفرنس پر بلایا تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا، مولانا یہ سیاست تو ایک گندا کھیل ہے،آپ کیوں اس میں چلے آئے تو ہاتھ پکڑ ے پکڑے مولانا کا جواب تھا،’’تو کیا سیاست کو گندا ہی رہنا چاہیے۔‘‘ لیکن پاکستان بننے کے بعد اس سیاست کے میدان میں بہت سے ایسے افراد بھی آ نکلے جو ان انگریز کے بنائے ہوئے گھرانوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن انھوںنے سیاست کے گر اور چالبازیاں ایسی سیکھیں کہ بڑے بڑے پرانے جغادری سیاسی گھرانوں کو شکست دے کر اس ملک کی سیاست کے مختار بن گئے۔
میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی ان میں شامل ہیں۔ آصف علی زرداری کا وہ بیان کہ ہم نے وعدہ کیا ہے، اور وعدہ کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتا کہ توڑا نہ جا سکے اور میاں محمد نوازشریف کا پانامہ لیکس کے دوران عوام اور پارلیمنٹ کے سامنے ایک جواب دینے کے بعد عدالت میں وکیل کے ذریعے یہ بیان دینا کہ وہ تو ایک سیاسی بیان ہے، پاکستان کے لیڈروں کی نظر میں ’’سیاست‘‘ کی مبلغ ’’اوقات‘‘ جھوٹ اور چالاکی کا پتہ دیتے ہیں۔
اس سیاست بازی میں بہروپ ایک طریقہ ہے تاکہ لوگوں کو متاثر کیا جائے،عوام کے ساتھ گھل مل جانا، ان کے دکھوں پر مصنوعی طور پر آنسو بہانا، اور خاص طور پر نیک و پارسا ثابت کرنے کے لیے مزاروں پر حاضری دینا اور کیمرہ مینوں کی موجودگی میں حج اور عمرے کرنا، یہ سب انداز جمہوری سیاست دانوں اور ملٹری ڈکٹیٹروں سمیت سب نے اپنائے ہیں، چونکہ پاکستان کی سیاست میں ڈیڑھ سال بعد ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کی دوبارہ آمد ہے اور ایک ایسے وقت جب نواز شریف کے پاؤں پانامہ لیکس کی زلف دراز میں الجھ چکا ہے تو ایسے میں جہاں وہ عوام دوستی گڑھی خدا بخش میں دفن ہونے کی آرزو اور ’’مولا‘‘ کی مدد کو پکار رہے ہیں۔