سکھر ، دریائے سندھ کا ہمراز
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
اُس روز آسمان نیلے رنگ میں ڈوب گیا تھا۔ ہلکی فرحت آمیز دھوپ تھی اور میرے چاروں طرف دریائے سندھ کا ہلکورے لیتا پانی۔ ان پانیوں کے بیچوں بیچ ایک جزیرہ جس میں سنگِ مرمر سے بنا ہوا دو سو سال پرانا مندر جس کی سیڑھیاں سفید اور لمبی ہیں اور پانیوں تک اترتی ہیں۔ سکھر میں آنے والے ہر سیاح کی ایک منزل یہ قدیم مندر بھی ہوتاہے جو عُرف عام میں سادھو بیلا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہاں تک پہنچنے کے لیے کشتیوں کا استعمال ہوتا ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے میں یہاں پہنچا ہوں کشتی نے مجھے مندر کی سیڑھیوں پر اتارا ہے۔ انہیں سیڑھیوں پر کچھ لوگ کشتی میں بیٹھ کر دوسرے کنارے پر جانے کے لیے تیار ہیں۔
میں مندر کی سیڑھیوں پربیٹھ جاتا ہوں۔ لوگ آ جا رہے ہیں۔ میرے سامنے دریائے سندھ کے پانیوں کی لہریں ہیں جس میں ڈوبتا ابھرتا آسمان کاعکس ہے۔ دھوپ میرے چاروں طرف پھیلی ہے مجھے منیرنیازی کی ایک نظم کی لائنیں یاد آرہی ہیں۔
نیلا گرم سمندر
اُوپر دھوپ کا شیشہ چمکے
موتی اس کے اندر
یاد آئی ہیں باتیں کتنی
بیٹھ کے اس ساحل پر
بالکل ایساہی منظر ہے جس میں کتنی ہی بھولی بسری یادیں لوٹ آتی ہیں۔ سیڑھیوں پربیٹھا میں سو چ رہاہوں اس گھاٹ پر کیسے کیسے لوگ آئے ہوں گے۔ سکھر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ کراچی اور حیدرآباد کے بعد سندھ کا تیسرا بڑا شہرہے جودریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ پرانے شہر کی قدیم تاریخ ہے۔
نیا سکھر ہندوستان میں برطانوی حکومت کے عہد میں تعمیر کیا گیا۔ یہ قدیم اور جدید کا حسین امتزاج ہے۔ یہاں مسجدوں کے مینار اور گنبد بھی نظرآتے ہیں اور مندروں کے کلس بھی۔
ایک طرف سکھر بیراج، لنز ڈاؤن برج، اور سرکٹ ہاؤس کی عمارت ہے اوردوسری طرف بوسیدہ عمارتیں، مزار اور مقابر۔ یہاں راجہ داہر کے قلعے کے آثاربھی ہیں اور محمدبن قاسم کی بنائی ہوئی مسجد بھی۔
کہتے ہیں سکندرِ اعظم کوملتان میں زہر آلود تیر لگا اور وہ سکھر اور کراچی سے ہوتا ہوا مکران پہنچا جہاں اس کی وفات ہوئی۔ سکھر کا ایک اور سیاحتی مرکز یہاں کی تفریح گاہ لبِ مہران ہے جہاں دریا زمین سے مس کرتا گزر رہا ہے۔ شاید یہیں بیٹھ کر ہمارے دوست اور منفرد لہجے کے شاعرحارث خلیق نے’ لبِ مہران ‘کے نام سے ایک خوبصورت نظم لکھی تھی۔
یہ محبت اور پیار کرنے والوں کا شہر ہے۔ کیسے کیسے نام ور لوگ سکھرسے وابستہ رہے، چند نام یاد آ رہے ہیں۔ مشہور سندھی شاعر اور دانش ور شیخ ایاز کا تخلیقی دور سکھر میں گزرا، نامور مورخ رحیم داد مولائے شیدائی، پیرحسام الدین راشدی، مشہور شاعر اور وکیل فتاح ملک، سندھ کے سابق وزیراعلیٰ عبدالستار پیرزادہ، معروف وکیل حفیظ پیرزادہ، مشہور مزاحمتی کردار دین محمد وفائی اور ہیموکالانی کاتعلق بھی سکھر کے ساتھ تھا۔
ہیموکالانی انگریزوں کے خلاف لڑتے لڑتے آخرکار پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔ عہدِ موجود میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ صاحب کا تعلق بھی سکھر سے ہے۔ شاہ صاحب کی شخصیت نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو سے عبارت ہے۔ میں جن لوگوں سے بھی ملا انہیں تعلیم اور صحت کے حوالے سے شاہ صاحب کی خدمات کا معترف پایا۔
میں سکھر پہلی بار آیا تھا۔
میری خوش قسمتی کہ یہاں میری ملاقات نوجوان صحافی، کہانی نویس اور ڈرامہ نگار ممتازبخاری سے ہوگئی۔ ممتاز ایک معروف میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہے اور کتابوں کا رسیا ہے۔ سکھر شہرکے ہرکونے میں اس کے جاننے والے موجود ہیں۔ میں نے سکھربیراج دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا توممتاز میرے ہمراہ ہولیا، ہم سکھربیراج کے کنٹرول روم میں پہنچے تووہاں کے انچارج عبدالعزیز سومرو سے ملاقات ہوئی۔
سومرو صاحب ایک مہربان اور خلیق شخص ہیں۔ ان کے دفتر میں دیوار پر مختلف سکرینوں پر بیراج کی تازہ ترین صورتحال نظر آ رہی تھی۔ سومرو صاحب نے بتایا کہ انجینئرنگ کے اس شاہکار بیراج کا تصور 1868 میں مسٹر فائف کے ذہن رسا میں ابھرا۔ 1923 میں کام کا آغاز ہوا اور 1932 میں اس کی تکمیل ہوئی۔
سکھر بیراج اس علاقے کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بیراج سے 8 ملین ایکڑ سے زیادہ علاقہ سیراب ہوتاہے۔ اس کے دائیں طرف سے تین اور بائیں طرف سے چار نہریں نکلتی ہیں۔ بیراج کے اوپر چلتے ہوئے ہوا ہمارے چہروں کو مس کررہی تھی۔ میں نے پُل کی ریلنگ تھامے نیچے دور دور تک پھیلے پانیوں کو دیکھا، ان پانیوں میں مختلف جگہوں پر بھنور پڑرہے تھے اور ان بھنوروں سے ڈالفن ہوا میں ابھرتیں اور قلابازی لگا کر واپس پانیوں میں اتر جاتیں۔
بیراج کے قریب ہی ایک میوزیم ہے جو لائیڈ بیراج میوزیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں بیراج کاایک خوبصورت ماڈل رکھا ہے ایک شوکیس میں اُن اشیاء کے نمونے رکھے ہیںجوبیراج کی تعمیرمیں استعمال ہوئیں۔ ہم نے سومرو صاحب کا شکریہ ادا کر کے رخصت لی۔
ہماری اگلی منزل ایک جزیرے میں واقع سادھو بیلا کا قدیم مندر تھا۔ کشتی سے اُتر کر میں مندر کی سیڑھیوں پر دیر سے بیٹھا آسمان اور سمندر کی وسعتوں کو دیکھتا رہا۔ میں جانے کب تک یہاں بیٹھا رہتا لیکن ممتاز نے کہا آئیں مندر کی عمارت دیکھتے ہیں۔
میں سیڑھیوں سے اٹھ کر سیاحوں کے ساتھ مندر کی طرف چل پڑتا ہوں۔ ایک وسیع محراب نما دروازے کے اوپرایک بڑی گھنٹی لٹکی ہوئی ہے۔
مندر کی عمارت خوب صورت سنگِ مرمر سے بنی ہے جس میں مہارت سے کندہ کاری کی گئی ہے۔ ہر سال جون کے مہینے میں یہاں میلہ لگتا ہے جس میں دور دور سے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ یہاں بھی ممتاز بخاری کا حلقۂ رفاقت کام آیا۔ مندر کا پجاری راجیش کمار اس کا جاننے والا نکل آیا۔
راجیش نے بتایا کہ یہ مندر بن کھنڈی مہاراج سے منسوب ہے جو 1763 میں یہاں آئے اور چالیس سال تک یہاں عبادت میں مصروف رہے۔ انہوں نے ساری عمرشادی نہیں کی۔ ایک ہال میں بھنڈارا تقسیم ہو رہا تھا۔ مندر کا ایک حصہ کونج گلی کہلاتا ہے۔
آخرمیں ہم لائبریری میں گئے جہاں الماریوں میں بوسیدہ کتابیں پڑی تھیں۔ راجیش نے مہمانوں کی کتاب میرے سامنے رکھ دی۔ میں نے دیکھا یہاں بہت سے نام ور لوگوں کے تاثرات درج تھے۔
سندھ حکومت کا محکمہ داد کے قابل ہے کہ اس مندر کی دیکھ بھال بہت اچھے طریقے سے ہورہی ہے۔ مندر کے احاطے میں قدیم درخت موجود ہیں جو نہ جانے کتنے سالوں سے یہاں آنے جانے والے لوگوں کو دیکھ رہے ہیں۔
اب ہم پھر کشتی کے انتظار میں مندر کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ دریا کا پانی ہمارے پاؤں کو چھوتا ہوا گزر رہا ہے۔ دور ایک کشتی ہمارے طرف آرہی ہے۔ جو کچھ مسافروں کو یہاں اتارے گی اور ہمیں دوسرے کنارے پر لے جائے گی۔ میں نے نیلے آسمان پر نگاہ کی جس کی نیلاہٹ میں اب اضافہ ہو گیا تھا۔ کچھ ہی دیر کی بات ہے یہ لمحے بھی ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔ مجھے منیر نیازی کی نظم کی آخری سطریں یاد آنے لگیں۔
یہ منظر بھی یاد آئے گا
اور کسی موسم میں
اور کسی دریا کے کنارے
اور کسی عالم میں