از خودی نوٹسوں پر چلتا ملک
از، عرفانہ یاسر
آج ٹی وی لگایا تو معمول کے مطابق سپریم کورٹ کے ٹِکرز فلیش ہو رہے تھے۔ صرف آج کی بات نہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے ہر آج اور کل ایک جیسا نظر آتا ہے: سنسنی، اونچے لحن میں ادا کیے مکالمے جنہیں عدالتی زبان میں آبزرویشنز کہتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں نواز شریف اور مریم نواز کی عدلیہ مخالف تقاریر کے از خود نوٹس کی سماعت چل رہی تھی۔ اس موقع پر چیف جسٹس صاحب کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی خبر کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ ان کی تقاریر پر پابندی عائد کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ صحت مند تنقید سے کبھی نہیں روکا۔ اس خبر کو توڑ موڑ کر چلایا گیا ہے۔ یہ تازہ ترین سو موٹو ہے جس پر رواں ہفتے کے منگل کے روز سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔
سو موٹو ہے کیا؟ سو موٹو کا مطلب ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدالت کسی بھی ایسی چیز کا نوٹس لے سکتی ہے جس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہو۔ مشہور قانون دان بابر ستار نے دسمبر 2013 میں ایک کالم لکھا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افتحار چوہدری کے سو موٹو کا بہت چرچا تھا۔ اس کالم میں بابر ستار کا کہنا تھا:
”سپریم کورٹ دفعہ 184(3) کے تحت اپنے دائرہ اختیار کی وسعت اور طریق کار پر نظر ثانی کرے- اہمیت اس بات کی ہے کہ ان امور کو واضح کیا جائے جن کا از خود نوٹس لیا جا سکتا ہے اور یہ کہ طریق کار کی نوعیت کیا ہوگی جو اس اختیار کو استعمال کرنے کا نتیجہ ہو سکتی ہیں۔ اس بات کو لازم بنایا جائے کہ از خود نوٹس لینے کے اختیارات کو انتظامیہ کے دائرہ اختیار کو غصب کرنے کے لیے یا فرد کے حقوق کو گھٹانے یا قانونی اور کاروباری بے چینی پیدا کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔”
بابر ستار نے پانچ سال بعد فروری 2018 میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت کے سوموٹو پر ایک بار پھر کالم لکھا جس میں وہ کہتے ہیں ہ:
“اگر آرٹیکل 184(3) کے استعمال کی بابت کوئی حدود و قیود تھیں تو اب کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ نہایت چابک دستی سے ہر معاملہ بنیادی انسانی حقوق کے رنگ میں رنگ کر عوامی مفاد کی سند پاتا ہے۔ ہم نے چیف جسٹس آف پاکستان کو اسپتالوں کے دورے کرتے دیکھا ہے۔ وہ نہ صرف آپریشنز کی جانچ کرتے دیکھے گئے، بَل کِہ محترم نے طبی عملے کو صائب ہدایات دینا بھی ضروری سمجھا۔ بصد احترام، اُن کے پاس ایسا کرنے کے لیے کیا اتھارٹی ہے؟ کیا یہ آئین میں درج ہے؟ کیا یہ سپریم کورٹ کے قوانین سے مطابقت رکھتا ہے؟”
اگر آپ ٹی وی کا لگا کر دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ آدھے سے زیادہ خبریں سپریم کورٹ کی ہوتی ہیں۔ اخبار کو اٹھا کر دیکھا جائے تو اخبار کا پہلا صفحہ سپریم کورٹ کی خبروں سے بھرا ہوتا ہے۔ اس سے سابق چیف جسٹس افتحارچوہدری کا زمانہ بھی یاد آ جاتا ہے جب ٹی وی کا پیٹ بھرنے کے لیے سپریم کورٹ کی بے انتہا خبریں ہوتی تھیں۔ سو موٹو کا لفظ بھی ان کے دور میں سننے کو زیادہ ملا۔
پھر کچھ عرصہ اس لفظ کا استعمال رک گیا۔ افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس تصدق حسین جیلانی، ناصر الملک، جواد ایس خواجہ اور انور ظہیر جمالی کی عدالتیں سو موٹو پر کچھ خاموش رہیں۔ لیکن پھر دوبارہ سے اس لفظ کی گونج سننے کو ملتی ہے۔
ہر روز کوئی ایسا کیس چل رہا ہو تا ہے جس پر سو موٹو لیا گیا ہوتا ہے۔ انہیں سو موٹو کے درمیان میں سپریم کورٹ نے ریلوے کے خسارے پر از خود نوٹس بھی لے رکھا ہے۔ اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق عدلات میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے خواجہ سعد رفیق کو روسٹرم پر بلایا اور کہا لوہے کے چنے بھی ساتھ لے کر آئیں۔ ان کا یہ کہنا خواجہ سعد رفیق کہ اس بیان کی طرف اشارہ تھا جو انہوں نے کچھ عرصہ پہلے ایک تقریر میں کہا تھا۔ (غضب ہے کہ چیف جسٹس صاحب کی یاد داشت اس قدر اچھی ہے، یا پھر وہ شعوری طور پر یاد داشت کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔) خواجہ سعد رفیق روسٹرم پر آئے اور انہوں نے کہا کہ ان کے مذکورہ بالا الفاظ سیاسی مخالفین کے لیے تھے عدلیہ کے لیے نہیں۔
کیا ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس کو ایک سیاست دان سے ایسی باتیں اور ان لہجوں میں کلام کرنا زیب دیتا ہے؟ ہم ان موسموں میں سوالوں کے جھرمٹ میں خود سوال بنتے جا رہے ہیں۔
اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ مسلم لیگ ن کے وزراء عدلیہ کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کر رہے ہیں لیکن پھر بھی ایک بہت عالی منصب پر بیٹھے شخص کو سیاست دانوں کی طرح کی باتیں کرنا زیب نہیں دیتا۔ ہمیں بطور محب وطن پاکستانی اپنے اداروں کے وقار پر بہت صدمے سہنے پڑ رہے ہیں۔
لیکن یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کی عدالت میں ہر کسی کو سنا جاتا ہے۔ اگر آپ عدالت گئے ہیں اور کچھ کہنا چاہتے ہیں تو روسٹرم پر آ پ کو بلا لیا جاتا ہے اور سنا بھی جاتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا کہ چیف جسٹس صاحب بذات خود آپ سے پوچھیں کہ آپ کا کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے لوگوں کو انصاف مل رہا ہے اور وہ بھی بغیر کسی تاخیر کے۔ مشہور مقولہ ہے کہ انصاف میں تاخیر کا مطلب ہے کہ انصاف نہیں مل رہا۔ عدالتوں میں لاکھوں کیس ایسے ہیں جو تاخیر کا شکار ہیں اور فائلوں میں دبے ہوئے ہیں۔ لیکن چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت میں انصاف بہت تیزی سے فراہم کیا جا رہا ہے۔
قصور میں زنیب زیادتی کیس ہو، یا مردان کی اسماء کا کیس، یا پھر کوہاٹ کی عاصمہ رانی کا کیس ہو، ہر ایشو پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تو کام تیزی سے ہوا۔ صحت کے مسائل ہوں یا پانی یا کراچی میں کچرا اٹھانے کا مسئلہ ہو، ہر کیس عدالت میں چل رہا ہے۔
دوسری طرف چیف جسٹس پر تنقید بھی ہو رہی ہے کہ وہ انتطامیہ کے کام میں مداخلت کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر انتظامیہ اپنا کام ٹھیک کرے تو وہ مداخلت نہیں کریں گے۔ یہ بات ان کی کسی حد تک درست بھی ہے اگر انتظامیہ نے اپنے ہسپتالوں میں صحت کی تمام سہولیات دی ہوتیں اور ہسپتالوں کی حالت ایسی ہوتی کہ چیف جسٹس وہاں جا کر انتظامیہ کو شاباش دیتے تو شاید آج حالات یہ نہ ہوتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چیف جسٹس بہت زیادہ کام کر رہے ہیں۔ اب وہ ہفتے اور اتوار کا دن بھی کورٹ میں ہوتے ہیں اور کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک سوموٹو میں انہوں نے نہ صرف صوبائی اور وفاقی محکموں کے افسران کے استعمال میں لگژری گاڑیوں کی تفصیل طلب کی ہے بَل کِہ ہائی کورٹس کے ججز کے استعمال میں گاڑیوں کی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ لیکن اس سب سے ایک تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ اس ملک میں ایک عدلیہ ہی کام کر رہی ہے۔ باقی اداروں میں سے کوئی بھی کام نہیں کر رہا۔
ایک ٹی وی کے ادارے میں کام کرنے کے ناتے ہم بھی اس بات سے خوش ہیں کہ چیف جسٹس اچھا کام کر رہے ہیں کیوں کہ انہوں نے میڈیا ورکرز کی تنخواہوں میں تاخیر کا نوٹس بھی لیا اور تمام اداروں کے لیے حکم جاری کیا کہ جو ادارے تنخواہ نہیں دیتے وہ چینل بند کر دیں۔ اس خبر کے بعد میڈیا ہاؤسز میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس کے علاوہ انہو ں نے رپورٹرز کی کم تنخواہ کا بھی نوٹس لیا اور کہا کہ اتنی کم تنخواہ پر رپورٹر دن رات کیسے کام کرتا ہے۔ وہ میڈیا ورکرز کے لیے بہت کر رہے ہیں۔
ان کے اور بہت اچھے اچھے کام ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی انہوں نے ایک غیر ملکی ماں کی فریاد بھی سنی اور اس کے بچوں سے ملوایا۔ ان کی وجہ سے مشعال کیس آگے بڑھا اور اس کے گھر والوں کو انصاف ملا۔ یہ چیف جسٹس ہی ہیں جن کی وجہ سے شاہ رخ جتوئی کو دوبارہ گرفتار کیا گیا جب کہ وہ وکٹری کا نشان بنا کر جیت چکا تھا۔ یہ چیف جسٹس ہی ہیں جن کی وجہ سے راؤ انوار گرفتار ہوا۔ یہ چیف جسٹس ہی ہیں جن کی وجہ سے دودھ نُما (tea whitener) بنانے والی کمپنیوں کو کہا گیا کہ آ پ اس پر لکھیں کہ یہ دودھ نہیں ہے۔ یہ سب کام انہوں نے مفاد عامہ کے لیے ہی کیا۔
لیکن اس کے بعد یہ تاثر ملتا ہے کہ اس ملک میں عدالت ہی عدالت ہے۔ سیاسی حکومتوں کا کوئی کام نہیں ہے۔ اس میں کسی حد تک سیاسی حکومتوں کی ناکامی بھی ہے۔ لیکن جب آپ ان کو کام نہیں کرنے دیں گے تو وہ کیسے کام کریں گی۔ جب آ پ وزیروں کو روز عدالت میں بلا لیا کریں گے تو وہ کیسے کام کریں گے۔
ہر ادارے کا اپنا ایک کام اور دائرہ کار ہے اس کو اس دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ ایک ادارے کو دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ کچھ ہے جس سے تاثر ملتا ہے کہ ہیجان برپا ہے: چینلوں کے نمبر آگے پیچھے ہو جاتے ہیں اور ریگولیٹر کی طرف سے ایسے کسی جوازی حکم نامے یا مراسلے سے انکار کیا جاتا ہے؛ اخبارات میں لوگوں کے مضامین کی سنسر شپ کی بابت اس طور کی باتیں سامنے آ رہی ہیں کہ جیسے کوئی دورِ ایوبی لوٹ آیا ہو، یا پھر یوں کہ حرکاتِ ضیائی قبروں سے اٹھ آئی ہوں۔ نا معلوم افراد کا کردار بڑھتا ہی جا رہا ہے اور بنیادی حقوق وہاں ہونٹ سِلے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں۔ مختصر کہنا ہے: ہم سب کو آئین پاکستان کی پاسداری کرنا ہو گی؛ تب ہی یہ ملک صیح معنوں میں ترقی کر سکتا ہے۔ ایک آئینی پاکستان ہی ایک خوب صورت وفاق اور مہذب و ترقی یافتہ ملک کی ضمانت بن سکتا ہے۔