سپرنووا افسانوی مجموعہ از الیاس دانش

supernova aikrozan web

سپرنووا افسانوی مجموعہ از الیاس دانش

تبصرۂِ کتاب از، نعیم بیگ 

مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب میں نے تقریباً ایک دھائی پہلے الیاس دانش کا افسانہ پہلی بار فیس بک پر پڑھا۔ شاید کسی فورم پر افسانوی عالمی مقابلہ سا تھا اور میں فکشن نگار ہونے کے ناتے اپنا افسانہ قارئین کو پیش کرنے علاوہ دیگر دوستوں کے افسانوں پر تبصرہ کرنے پر بھی مامُور تھا۔

الیاس دانش میرے لئے نیا نام تھا، لیکن جوں جوں افسانہ پڑھتا گیا میں مصنف کے عمیق مشاہدے اور اس کی خوب صورت نثر کا قائل ہوتا گیا۔ 

میرے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ نو آموز افسانہ نگار کس قدر شُستہ اردو میں مشّاق ہے، جو گہرے تجربے کی آنچ کو افسانے میں برت رہا ہے۔ میں نے افسانے پر تبصرہ کیا سو کیا، لیکن فوری طور پر معلوم کیا کہ یہ نوجوان کون ہے؟ 

معلوم ہوا کہ روزنامہ جنگ، ملتان میں ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ میرے ذہن میں غلام عباس اور ان کے کئی ایک معروف افسانے گھوم گئے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ عموماً صحافی دوست خبری انداز میں افسانہ لکھتے ہیں، لیکن کچھ دوست واقعتاً افسانے کی ٹریٹمنٹ اور زبان و بیاں کا اس قدر خیال رکھتے ہیں کہ کہانی دِلوں کو موہ لیتی ہے۔ 

اسی لیے میں غلام عباس کا نام لیا۔ میں کئی ایک اپنے عہد کے ایسے افسانہ نگاروں کو جانتا ہوں جو صحافی ہونے کے با وجود فکشن رائٹنگ میں اپنی بہترین نثر کو قارئین کے سامنے فکری انداز میں سامنے لاتے ہیں۔ ان نام گِنوانے بیٹھا تو موضوع سے دور ہو جاؤں گا۔ الیاس دانش ان میں سے ایک نو جوان ہے۔ 

کل جب مجھے الیاس دانش کا افسانوی مجموعہ ’’سپرنووا ‘‘ بہ ذریعہ ڈاک ملا تو مجھے الیاس کے فیس بک پر پڑھے ہوئے بیش تر افسانے یاد آئے جن پر گاہے بہ گاہے چند لفظی گفت گو بھی ہوتی رہی ہے۔

الیاس کو میں نئے عہد کا روایت شکن کہانی کار سمجھتا ہوں کہ موضوعاتی سطح پر وہ سماجی المیوں کو جن فکری و علمی حوالوں سے دیکھتے ہیں وہ اب اردو ادب کا نیا حوالہ بن رہے ہیں۔ عہد اپنے ارتقاء سے آگے جس تیزی سے سفر میں ہے وہاں بہت کچھ بدل رہا ہے۔

میں نے اس مجموعے کے پہلے تین افسانے پڑھے تو بے اختیار رک گیا۔ ان افسانوں میں جو کچھ میں پڑھا، سوچا آپ سے اگر فوری طور پر شئیر نہ کیا تو نہ صرف وہ سب کچھ ذہن سے نکل جائے گا جو پہلے ردِّ عمل کے طور پر میرے احساسات کا پرتاؤ ہے‘ بَل کہ میں بلا وجہ ایک تقویمی پراسیس سے بھی بچ جاؤں گا جو مجھے ارادی طور پر کرنا ہو گا۔ 

ایک وقت تھا کہ بہ حیثیتِ فکشن رائٹر میں افسانے کی روایتی لطافت کو زیادہ اہم جانتا اور مانتا تھا۔ وقت گزرتا رہا میرے قارئین جانتے ہیں کہ جمالیات کے لطیف دائرے سے نکلتا ہوا میرا افسانوی رنگ اور اس کا شعری آہنگ اب اپنے ارتقاء کے عروج پر لفظوں کی صوتی معنویت سے نکل کر وسیع تر معانی میں ڈھل چکا ہے۔ 

سچ پوچھیے آج الیاس دانش کے پہلے تین افسانے ’’مٹھی بھر مٹی‘‘ ’’ ۶۰ فٹ روڈ ‘‘ اور “سپرنووا” پڑھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ موجود معاشرے میں ہماری (اردو ادب کی) سوچ کا دائرہ کس قدر وسیع فکری موضوعات کا متقاضی ہے۔ 

فطرت کی موسیقیت میں جب معاشرتی موضوعات کے حقیقی اور مقصدیت سے بھر پُور آہنگ کو پُر اثر اور پُر سوز نثر میں ڈھالا جائے تو انسانی احساسات کی وہ دنیا آشکار ہوتی ہے جو تھکے ہوئے اجسام میں مقید بوجھل روحیں مستقبل کی روشنی کی تلاش کا پہلا پیغام بن جاتی ہے۔ 

پہلا افسانہ ‘مٹھی بھر مٹی‘ اشرافیہ کے ایک سپوت کی علامتی کہانی ہے جسے ہر جسم کو روندنا آتا ہے۔ 

مٹی کی کیا خواہش ہے؟ 

دو جملے ملاحظہ کریں۔ 

’’اپنی بے رِیا اور بے شکن وفا کے بدلے آپ کی زندگی میں اپنی جگہ ڈھونڈی تھی۔‘‘ 

’’میں نے تمھاری خدمت کو اپنا دھرم، کرم مانا۔ اپنا وجود مٹا کر تمھارے لیے ڈھلتی، گھٹتی اور بڑھتی رہی۔ اپنے اندر تک تمھیں ایسا اتارا کہ خود کو خالی کر دیا مگر تم پتھر کے پتھر نکلے۔‘‘

 صرف اتنا ہی کہوں گا کہ پدر سری سماج کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے ایک بھر پُور افسانہ جو اپنے اظہار میں علامتی اور ابلاغ میں مکمل۔ الیاس کا یہ اسلوب ہمیشہ مجھے پسند رہا کہ وہ علامت میں گنجلک پُرپیچ علامتی نظام کو نہیں باندھتے، بَل کہ وسیع معنیاتی جال میں قاری کو گھیر لاتے ہیں، جہاں لطف و عنایت و ابلاغ و اظہار کی پوری دنیا آباد ہوتی ہے۔ 

دوسرا افسانہ ’۶۰ فٹ روڈ ‘ اشرافیہ کا دوسرا رنگ آشکار کرتے ہوئے جہاں جذبۂِ عبودیت تحلیل ہو کر نغمۂِ جاودانی بن جائے۔ کائنات کے بھنور میں کون کسے سہارا دے اور یقین سے ما وراء بے یقینی کا سفر دکھ کا عجیب و غریب اور پُر سوز راستہ اختیار کرے۔ یہ اس افسانے کا موضوع ہے۔ وجودیت کے قرضِ یک لحظہ راحت سے پرے آباد دنیا کو خلوص کے کرب سے بے اعتنا کرتی ہوئی ایک سڑک کی کہانی۔ 

’’تم خود کو ادھورا کہتے ہو، میں آپنے آپ کو نا مکمل سمجھتی ہوں۔ شاید سب کے دکھ سانجھے ہیں۔‘‘

’’راستہ عدم سے وجود کا ایک سفر 

راستہ فنا سے بقاء کی کش مکش 

راستہ تکمیل ادھورے پن کے درمیان ایک شکستہ لکیر‘‘ 

الیاس بہت خوب۔ وجودیت سے مقصدیت کا سفر مبارک ہو۔ اس افسانے کی آخری تین سطریں پڑھنے لائق ہیں۔ 

تیسرا افسانہ ’’سپرنووا‘‘

یہ افسانہ عالمی معیار کے افسانوں میں شمار کیا جانا چاہیے۔ پہلا جملہ ہی کس قدر علامتی ہے۔ 

’’اپنی صلاحیت، اہمیت اور طاقت کھو دینے کے بعد ستارے بھجتے چلے گئے۔ بڑے سے بڑے اور قدیم سے قدیم ستارے بھی تباہ ہو گئے اور سپرنووا آج بھی جاری ہے۔‘‘ 

ٹیکنالوجی کی ترقی اور بتدریج ارتقاء انسانی زندگی کو اثباتی اور منفیت کے اس نظام کی طرف لے جا رہا ہے جہاں چراغوں سے ہوا کا مشورہ اب ممکن نہیں رہا۔ عہد کی غم ناکی اور اضمحلال روح کے اضطراب کو سکون نہیں دیتا۔ اس افسانے میں بیان ہوتا کربِ ذات اور انسانی انحراف کی شکل میں سامنے نہیں آتا، بَل کہ انسانی وجود کے اسباب و نفی کا سوال بن کر سامنے آتا ہے۔ 

ان تین افسانوں کی قرأت کے بعد قاری کو اپنی سماجی اور تہذیبی رشتوں کی سپردگی کے روایتی انظام کو اب نئے سرے سے دیکھنے کی بصیرت کا اہتمام کرنا ہو گا۔ یہ سپردگی کسی شکست یا نفی کا نتیجہ نہیں، بَل کہ انسان کی داخلیت کا وہ پہلو ہے جسے کُل میں تحلیل ہونے کی ضرورت کا احساس ہونے لگا ہے۔ 

 اِس لمحے میری دانستہ کوشش ہے، بَل کہ یوں کہیے کہ میری خواہش ہے کہ احباب بقیہ افسانے خود پڑھیں اور فکر کی حرارت کے ساتھ لطافت اور تخلیقیت کے پُراسرار عمل کو اپنے شاعرانہ و فکری استغراق سے جانچیں۔ 

الیاس دانش نئے افسانہ نگاروں میں پڑھنے لائق ہیں۔ وہ قاری کو کثافتوں کی دنیا سے نکال کر وجدانی ندرت اور اظہار کی دل پذیری سے رُو شناس کراتے ہیں۔ 

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔