
سُرخ خندق (افسانہ)
از، آسیہ ججّہ
میں محمد ابتسام حسن! تیرہ سال مسلسل درگاہوں پہ مانگی گئی دعاؤں کا ثمر۔ چاچاجی جو میرے ابو جی کو اپنی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے بیٹوں کی طرح عزیز تھے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے میرے سگے والدین سے بڑھ کر مَنتیں مان رکھی تھیں۔ اس کے علاوہ دادی جی، امی جی، ابوجی کو جس کسی نے جونسخہ، ٹوٹکا، دَم دارو بتایا انھوں نے من و عن وہی کیا۔ اور پھر ایک دن سجدے میں گری دادی جی کو ہانپتے، کانپتے چاچا جی نے آ کر وہ مژدہ سنایا جو سننے کو ان کے کان پچھلے تیرہ سالوں سے ترس رہے تھے۔ گاؤں کے لوگ آج بھی اُس وقت کو بڑے رشک سے یاد کرتے ہیں جب ابو جی اور امی جی مجھے لے کر گھر پہنچے تھے۔ ایسی شہنائیاں کہ چودھریوں کے بیٹے کی بارات میں بھی نہ بجی ہوں۔ جگ مگ جگ مگ کرتا پورا گھر، جیسے سارے ستارے آسمان سے اسی آنگن میں کود آئے ہوں۔ حلوائی پورا ہفتہ حویلی میں ڈیرے ڈالے خالص گھی میں نُچڑتے موتی چُور کے لڈو بناتا رہا۔
——–
دروازہ بے ڈھنگی سی آواز کے ساتھ کھلا اور نحوست زدہ چہرے کے ساتھ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ لڑکوں کے درمیان کچھ پھینک کریوں پلٹ گیا جیسے مرغیوں کو چوگا ڈالا ہو۔ لڑکوں نے ایک نظر غائب ہوتے آدمی اور پھر کینٹینر کے گارے زدہ، گندے فرش کو دیکھا۔ جہاں پانچ سات ڈبل روٹیاں بے ترتیب پڑی تھیں کہ جن کی رنگت کچھ سبزی مائل تھی۔ لڑکوں کی نظریں ان پھپھوندی اور اب کیچڑ زدہ ڈبل روٹیوں سے ہوتی ہوئیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور پھر نظروں ہی نظروں میں جیسے فیصلہ ہو گیا اور بے جان پڑے وجود پوری طاقت سے پِل پڑے۔ کسی کے ہاتھ روٹی لگی تو کسی کے ہاتھ پھپھوندی اور باقیوں کی قسمت میں صرف گارہ۔
———
“یار! ابتسام نے میرے سارے کبوتر اڑا دیے ہیں۔ خالہ!ابتسام میری ہنڈیا میں مٹھی بھرمٹی جھونک آیا ہے۔ بھائی صاحب! ابتسام نے مجھے رکوع میں گئے ہوئے کو دھکا دیا ہے۔ بہن! ابتسام نے میرے جمالے کا نیا کرتا، سارا لِیرَو لِیر کر دیا ہے۔ “غرض میں جس سمت سے بھی گزرتا، ابتسام ابتسام کے نعرے ہی گونجتے۔ چاچا جی تو شکایت لانے والے کے گریبان تک کو آ جاتے۔ دادی جی بھی خوب تسلی کرا کے بھیجتیں۔ ابو جی تک ایک تو شکایتیں پہنچتی کم تھیں اور دوسرا وہ بس ذرا سی سرزنش پر ہی دادی جی کی ایک گھوری سہہ کر چُپ ہو جاتے۔ مسئلہ صرف امی جی کا تھا۔ اول اول تو پیار سے سمجھاتی تھیں لیکن جیسے جیسے میرے اعمال ناموں کا دفتر وسیع ہوتا گیا، امی جی کا پارا بھی چڑھتا گیا۔ لیکن وہ صلواتوں کے سوا کر بھی کیا سکتی تھیں۔ ہاتھ تو دادی جی اٹھانے نہیں دیتی تھیں۔ اس پر مستزاد وہ ہفتوں امی جی کو مجھے ڈانٹنے پر اٹھتے بیٹھتے کوستی رہتیں۔ جھڑکی یا گالی تو دور کی بات، کسی کو میرا نام تک بگاڑنے کی اجازت نہ تھی۔
———
شاید ہی دنیا کی کوئی غلیظ گالی بچی ہو جو وہ ان سب کے لیے بَک نہ چکا ہو۔ جھلسی رنگت والا وہ دیوہیکل نما آدمی، پچھلے دو گھنٹوں سے مسلسل کسی نہ کسی لڑکےکو چکنائی زدہ کپڑوں کی طرح راڈ سے پٹک پٹک کر دھو رہا تھا۔ اور وہ سب فرش پر بچھے پڑے تھے۔ کسی ایسی فصل کی طرح جو کٹائی سے دو دن پہلے آندھی کی زَد میں آ جائے۔
————
دو گھر چھوڑ کر ان کا گھر تھا۔ دادا جی کے چھوٹے بھائی، جنھوں نے دادا جی کی وفات کے بعد ہمارے گھر کو کبھی کسی بزرگ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ اور وہ ان کی پوتی تھی۔ پتا نہیں کیوں؟ پر میں چاہ کر بھی باقی لڑکیوں کی طرح اُس کی چوٹی کھینچ نہیں پاتا تھا۔ نہ کبھی اُس پر کوئی نقلی چھپکلی پھینک کر تماشا دیکھنے کا حوصلہ ہوا۔ ایک بار، بس ایک بار، گلی میں کھیلتے بچوں کے کانچے اٹھا کر بھاگتے ہوئے میرا پَیر پھسلا اور اُس کو جا لگا۔ جب لوگوں نے بڑھ کر ہم دونوں کو اٹھایا تو میں نے ایک سُرخ لکیر دیکھی۔ وہ اس کے ریشم بالوں سےنکلتی، ماتھے سے ہوتی، دیکھتے ہی دیکھتے پلکوں کے کنارے چھوتی ہوئی تھوڑی تک پہنچنے لگی۔ لمحہ بھر میں مجھے یوں لگا کہ اُس کے سیاہ بالوں میں کہیں سُرخ شراب کا کوئی سوتا پھوٹ پڑا ہے۔ اور اُس کی مُنی سی تھوڑی کے درمیان جو ذرا سا گڑھا تھا وہ شراب انڈیلتی سُراحی بن گیا۔ اس کے علاوہ میں کچھ دیکھ نہ پایا۔ لیکن اُس کے بعد گھر میں مرغا بھی ذبح ہوتا تو مجھ سے چھپا کر کیا جاتا۔ اور میرے دیکھنے سے پہلے خون صاف کر دیا جاتا۔ بہ صورتِ دیگر مجھے کم از کم دو دن ہسپتال رہنا پڑتا۔
———
ساری رات، ایک لڑکے کے زخم سے خون رستا رہا۔ اتنا رِسا کہ فرش پر دراز ہر لڑکے کو گاڑھی نمی کا احساس ہوتا رہا۔ کراہتے سب لڑکوں میں سے اُس ایک کی بکاہ منفرد تھی۔ یوں جیسے اُس کے اعضا، دل، جگر تحلیل ہو ہو کر کمر میں لگے پَھٹ کے راستے بہتے چلے جا رہے ہوں، اور صبح ہوتے ہی ایک آخری ہچکی کے ساتھ وہ خود بھی تحلیل ہو گیا۔ دو آدمی روبوٹ کی طرح اندر آئے اور اُسے دونوں بازوؤں سے کھینچتے ہوئے لے گئے اور وہ جھولتی گردن کے ساتھ کینٹینر کے فرش کوصاف کرتا، کھِنچتا چلا گیا۔
——-
چاچاجی کی شادی میں، مَیں شہ بالا بنا تھا اور ہم چاچے بھتیجے نے ہمیشہ کی طرح خوب ہلہ کیا۔ پر مہینے بھر بعد چاچی جی نے ایک دن کسی بات پر مجھے جھڑک دیا۔ لو بتاؤ بھلا۔ مجھے تو صرف امی جی کی جھڑکیوں کی عادت تھی وہ بھی ایسے کے امی جی مجھے ڈانٹتیں اور دادی جی، امی جی کو۔ پر یہ انہونی ہوئی۔ چاچی جی نے نہ صرف مجھے ٹوکا بل کہ دادی جی کو بھی ٹکا سا جواب دے دیا۔ میں وہیں سے روتا ہوا چاچا جی کو ڈھونڈ کر لایا اور چاچا جی نے آتے ساتھ ہی چاچی جی کو پیٹنا شروع کر دیا۔ پھر وہ چلی گئیں۔ اور جس دن واپس آئیں اُس دن گھر میں نصیر مستری بھی آیا، اور دیوار بن گئی۔ ابو جی اور دادی جی کو دیوار دیکھ کر بڑا قلق ہوتا تھا لیکن مجھے کیا؟ میرا تو سب صحیح جا رہا تھا۔ بس ایک دیوار ہی تو پھاندنی پڑتی تھی اور کیا۔ لیکن میرے اور چاچا جی کے درمیان اصل دیوار کی پہلی اینٹ ‘وہ’ ثابت ہوا۔ اُس دن پہلی بار ہوا تھا کہ میں چاچا جی کی طرف لپکا اور انھوں نے مجھے اٹھا کر منھ سر نہیں چوما۔ اٹھاتے بھی کیسے گود میں وہ جو تھا۔ وہ تھا اور پھر وہی رہا۔ کیا تھا جو چاچا جی کو بھی اولاد تیرہ سال بعد ملتی، کہ شاید میں تب تک اس صدمے کو سہنے کا متحمل ہو چکا ہوتا۔ یا کیا تھا اگر وہ کبھی اس دنیا میں آتا ہی نہیں۔ اورمیرے چاچا جی ہمیشہ میرے چاچا جی ہی رہتے۔ فرقان کے ابو جی نہ بنتے۔ میں پھر بھی سب ٹھیک ہوجانے کی خوش فہمی میں تھا۔ لیکن اُس دن چاچا جی کے اُس تھپڑ نے ہمارے درمیان دیوار چھوڑ خندق کھود دی، جسے پھر میں کبھی پار کر پایا ہی نہیں۔ گاؤں کا شاید ہی کوئی بچہ ہو جس کو پریشان کرنے پر چاچا جی نے مجھے شاباشی نہ دی ہو۔ لیکن وہ گاؤں کا نہیں چاچا جی کا بیٹا تھا۔ ذرا سی جھڑکی پر ٹسوے بہانے والا میں چاچا جی کے بھاری ہاتھ کا تھپڑ کھا کر لُڑھک گیا۔ پر آنسو چھوڑ ایک سانس تک نہ نکلی۔ جب روح ہی نکل جائے تو آہ کیسی؟ ظاہر ہے میں تو بس ایک کھلونا تھا۔ جب چاچا جی کو اپنا ایک نیا نکور کھلونا مل گیا تو مجھے پھینک دیا۔
——
بیچ سمندر، کشتی ہچکولے کھا رہی تھی۔ دور دور تک کسی چرند، پرند کا نام و نشان تک نہ تھا۔ آسمان کے کنارے، سمندر کی نیلاہٹ میں ڈوبتے معلوم ہوتے تھے۔ اور پھر ایک ذرا سا چھپاکا ہوا اور بے رحم سمندر کسی ماں کے جوان جگر گوشے کو آرام سے نگل گیا۔ جسے کشتی والوں نے ردی کے کسی کاغذ کی مانند مَسل کر پھینک دیا۔ لمحہ بھر میں لہریں پھر معمول پہ آ گئیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ یوں کُل ملا کر پانچ زندہ سلامت لڑکوں کو یکے بعد دیگرے سمندر مہاراج کی بھینٹ چڑھایا تب کہیں جا کر کشتی کی روانی بہ حال ہوئی۔
——-
ایک عرصہ ہوا، سب کے پوچھنے کے باوجود میں نے چاچا جی کی دیوار پھلانگنا چھوڑ دی تھی۔ پھر وہ میرے مدار میں بار بار کیوں آتا تھا؟ کلاس میں مَیں فیل ہو جاؤں یا مر مر کر پاس، ہمیشہ دادی جی کا ابتسام ہی رہا۔ لیکن جس دن دادی جی مجھے امی جی، ابو جی کی جھڑکیوں سے ہمیشہ کی طرح بچانے کی بجائے فرقان کو انعام میں ملا میڈل دیکھنے چلی گئیں۔ اُس دن میں سمجھا، پرچوں میں فیل ہو جاؤ تو چلتا ہے پر رشتوں میں سپلی آ جائے نا تو بندہ کسی جوگا نہیں رہتا۔ میرا بھی یہی حال تھا۔ پر میرا دُکھ تو یہ تھا کہ سارا سال انھی استادوں نے مجھے کھلی چھوٹ دے رکھی، ایک لفظ تک نہ پڑھایا اور اب یہی مجھے بھر بھر کے لال انڈے دیے جا رہے تھے۔ “ارے فرقان اور ابتسام ایک ہی کلاس میں؟ ہاں نا! فرقان نے تو خیر سے ایک سال میں دو جماعتیں پڑھ لیں اور ابتسام دو سال لگا کہ ایک بھی نہ پڑھ پایا۔ اپنا فرقان تو خیر سے حفظ پہ لگ گیا ہے۔ نہیں نہیں! ابتسام کا تو ابھی ناظرہ بھی مکمل نہیں ہوا۔ فرقان کو وظیفہ ملا ہے۔ نہیں ابتسام کو داخلہ نہیں ملا، نمبر کم تھے نا۔ بھئی بیٹا ہو تو فرقان جیسا!” وہ میرے مدار میں اتنا گھس آیا تھا کہ کبھی کبھی اپنا دم گھٹتا محسوس ہوتا۔ لیکن دو گھر چھوڑ کر وہ رہتی تھی نا جس کی چاپ میرے رُکے سانس بھی بہ حال کر دیتی۔ جس کے دھرتی پہ پڑتے قدم میرے دل میں ساز بکھیر دیتے۔
————
بھاری بوٹوں کی بھدی آواز سیدھا ان سب لڑکوں کے دل پر پڑ رہی تھے۔ اور سانس روکے ذرا سے اُس ڈبے میں ذبح شدہ جانوروں کی باقیات کے ساتھ وہ لڑکے اپنی آسان موت کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ کیوں کہ یہ واضح نہ تھا کہ آیا چیکنگ والوں کے ہاتھوں بد ترین تشدد اور پھر حیوانوں سی موت مریں گے یا اُن کے ڈر سے اپنے ہی لوگ ڈبے میں کرنٹ چھوڑ دیں گے۔ اس لیے فی الحال آسان موت کی دعا یہاں سے بچ نکلنے کی دعا سے کہیں زیادہ ضروری تھی۔
——–
کوئی دعا کام نہ آئی۔ اور میں ایک آخری پرچے میں بھی فیل ہوگیا۔ فیل کیا؟ الیکشن ہوتے تو کہتے، ضمانت ضبط ہو گئی ہے۔ صرف انکار ہی جان لیوا تھا۔ پر اُس کے گھر والوں نے تو کوئی تازیانہ چھوڑا ہی نہیں۔ رات دن کی تمیز کیے بغیر جب آواز پڑتی میں دوڑا چلا جاتا۔ پھر چاہے وہ نُکڑ کی دکان سے ماچس کی ڈبیا لانا ہو یا دو گھنٹے سفر کر کے چھوٹے دادا جی کی دوا۔ سب اُس کے لیے کیا۔ پر آج وہ کہتے ہیں میں کرتا کیا ہوں؟ ہر بات اُس سرکار لڑکی کے صدقے معاف کر دیتا۔ پر اس حرام زادے کا کیا کروں جو آج میرے مدار میں ایسا گُھسا کہ میرے ہر سیارے کا زائچہ ہی بدل دیا۔ “ابتسام کی بجائے اگر فرقان ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔” اور وہ بے غیرت کہتا ہے “مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں۔”
———-
وہ کسی حاتم طائی سے لہجے میں کہہ رہا تھا کہ اگر کوئی لڑکا الگ ہونا چاہے تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ بد ہئیت پچکے گالوں والا شخص، مصنوعی ہم دردی جتاتے ہوئے اپنی مشکلات بتا رہا تھا۔ کیا وہ یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ ایسا سلوک کہ شاید بغداد والوں کے ساتھ ہلاکو نے بھی نہ کیا ہو، وہ اپنی مجبوری اور لڑکوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے کر رہے تھے؟ اور الگ ہونے کے بات کر بھی رہے تھے تو کہاں؟ ان گھنے جنگلات کے بیچو بیچ کہ جہاں ہر درخت دوسرے کا آئینہ معلوم ہوتا ہے۔
———
کہتے ہیں، نیامت درزی کو ہمارے خاندان سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ لیکن مجھے تو وہ ہمیشہ بڑے پیار سے ملتا ہے۔ اور باتیں بھی کام کی بتاتا ہے۔ پر ابوجی کے مطابق وہ کسی دن مجھے لے ڈوبے گا۔ خیر چھوڑو! بات تو اس دن بھی پتے کی اُس نے کی۔ میرے دُکھ سن کر وہ کہتا ہے مجھے باہر چلے جانا چاہیے۔ سعودیہ وغیرہ نہیں کہ وہاں تو ہر للّو پنجو چلا جاتا ہے۔ اصل ٹَور تویونان والوں کی ہوتی ہے۔ بات بھی صحیح ہے۔ اب سعودیہ تو گاؤں کے کتنے لڑکے گئے ہیں پر بشارت کی بات تو اور ہے نا۔ نو سال بعد گاؤں آیا، توآن بان دیکھنے والی تھی۔ جو اُس کے پچھلے کرتوت لوگ بھول گئے سو الگ۔ باہر کا سُن کر کوئی بھی اپنی بیٹی دے دیتا ہے۔ چھوٹے دادا جی کیا چیز ہیں۔
اول اول تو گھر میں کسی نے سنجیدہ نہیں لیا۔ لیکن جیسے جیسےمیرا احتجاج بڑھتا گیا، امی جی کے آنچل پر آنسوؤں کے دھبے، اور ابو جی کے ماتھے کی شکنیں دونوں بڑھتی گئیں۔ پر مجھ پر تو اب کچھ کر گزرنے کی دُھن سوار تھی۔ دادی جی اب کچھ سننے سمجھنے کی حد سے گزر چکی تھیں۔ ہاں ایک امید تھی، چاچا جی روکیں گے تو تھم جاؤں گا، ورنہ نہیں۔ برسوں بعد میں دیوار کے اُس پار گیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہاں وہ رہتا ہے جسے میں ایک قتل معاف ہونے کی صورت میں پہلی فرصت میں ماروں گا۔ لیکن اُسی پار ایک وہ بھی تو رہتے ہیں، جن کو میرے سو خون معاف ہیں اور جن کے لیے میں ہزار خون بھی چھوڑ سکتا تھا۔ چاچا جی۔ جب میں نے ان کے سامنے اپنے باہر جانے کا قصہ چھیڑا تو مجھے لگا وہ ایک جھٹکے میں اٹھیں گے اور اپنے کم زور پڑتے ہاتھوں سے کھینچ کے مجھے ایک تھپڑ دے ماریں گے کہ” یہ کیا بکواس کر رہا ہے تُو؟ کوئی ضرورت نہیں خجل خراب ہونے کی۔ نِرا جان کا خطرہ ہے۔ “تھپڑ کھا کر میں ایک بار پھر لُڑھک جاؤں گا۔ لیکن اب کی بار لُڑھکا تو خندق پار کر جاؤں گا، جو ان کے پہلے تھپڑ نے کھودی تھی۔ پر میں تو وہ یوسف نکلا کہ جسے اپنے ہی یعقوب نے اندھے کنویں میں پھینک دیا۔ “ٹھیک ہے پُتر! جیسے مناسب لگے۔ یہاں بھی اب کچھ نہیں رکھا۔ قسمت آزمانے میں کیا حرج ہے؟ او فرقان پُتر! کاغذ پَتر پورے کر لینے تھے۔ سویرے انٹرویو تگڑے ہو کے دینا، رب نے چاہیا تو نوکری تجھے ہی ملے گی۔ قسمت آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔ “
———–
کاش اس آزمائش کی کوئی حد ہوتی۔ ہوا اور پتوں کو چیرتی ایک گولی اس کے کان کی لو کو چُھوکر گزر گئی۔ گُھپ اندھیرے جنگل میں وہ منزل کا تعیّن کیے بغیر بھاگ رہا تھا۔ اب تو موت کے چُنگل سے بچ نکلنے کی عادت سی ہو گئی تھی۔اُسے اپنا انگ انگ فالج زدہ لگا۔ پیر میں چُبھتے نوکیلے کانٹےاور چُرچُراتے پتے، بدن چھیلتی آڑی ترچھی لکڑیاں اور ہڈیوں کے آرپار ہوتی یخ بستہ ہوا، تعاقب کرتے باؤلے کُتے اور ابابیلوں کی کنکریوں جیسی اندھا دھند آتی اندھی گولیاں، وہ کچھ بھی محسوس کرنے سے قاصر تھا۔
وہ بس بھاگ رہا تھا۔ کس سے، کیوں؟ یہ سوال کرنے کے لیے بھی تو ذہن چاہیے ہوتا ہے جو کہ اب تک مکمل مفلوج ہو چکا تھا۔ پھر وہ رقیبِ جاں اب تک ذہن میں کُنڈلی مارے کیوں بیٹھا تھا؟ “ابتسام بھائی! بات کو سمجھو! ایسا ہی نیکی اور فائدے کا کام ہے تو نیامت درزی آپ کی بجائے اپنے بیٹے کو باہر کیوں نہیں بھیج دیتا؟ اُسےتو وہ اپنے ساتھ دکان پہ ہُنر سکھا رہا ہے۔” “ظاہر ہے فرقان صاحب کیوں چاہیں گے کہ کوئی ان سے زیادہ کام یاب ہو جائے۔” اس نے اب بھی نحوست سے یہی سوچا تھا۔
یکا یک فالج زدہ جسم میں کسی نے روح پھونک دی۔ ہلکی سی خراش سے لے کر پیپ زدہ زخموں تک ہر گھاؤ ایک ساتھ فریاد کُناں ہوا۔ پر اس سب سےکچھ مختلف بھی تھا۔ کچھ ایسا جو تیر کی مانند مسام چیرتا، جسم کے آر پار ہو گیا۔ اور وہ زمین پر ایسے ڈھے گیا، جیسے برسوں بعد ماں کی گود نصیب ہوئی ہو۔ “ہاں! باہر جانے کی بات سن کر امی جی بھی ایسے ہی کلیجہ تھامے ڈھے گئے تھیں۔”
کُتے اب اپنے اگلے پنجے فتح کی علامت کے طور اُس پر رکھےجا بہ جا اپنے دانت گھاڑ چکے تھے۔ “ہاں! غیر قانونی طریقے کا جان کر ابو جی کا رنگ بھی ایسے ہی نُچڑا تھا۔” خون میں لتھڑا لال بدن، لہو سے چپچپاتے سُرخ پتے، کُتوں کے جبڑوں سے ٹپکتا لال لہو، گہری اترتی سُرخ شام سب مل کر بھی دو گھر پار رہنے والی کے عروسی لباس کی سُرخی کا مقابلہ نہ کر سکے۔ “ہاں! آج روح قبض ہونے کی تکلیف اُس دن دل مر جانے کی اذیت جتنی شدید ہر گز نہیں۔”