عالمی افسانوی بیانیے کے ارتقاء کا اجمالی جائزہ اور ناول انواسی (حصۂِ اوّل)
تبصرۂِ کتاب از، منیر فیاض
کسی بھی تخلیقی فن پارے کی تفہیم اور تنقید کے لیے جہاں ادبی معیارات اور فنی جمالیات کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے وہاں یہ پہلو بھی بنیادی نوعیت اور اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ وہ فن پارہ اپنے ارد گرد کے معاشرے اور اس میں بسنے والے انسانوں کی زندگی کے مسائل اور سوالات سے کتنا متعلق ہے، اور کتنی درُوں بینی کے ساتھ ان مسائل اور سوالات کو قاری پر منکشف کرتا ہے۔
بڑے ادب کی پہچان یا اس کا litmus test یہی ہوتا ہے کہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ غیر متعلق نہیں ہو جاتا، بَل کہ اس کی relevance بڑھتی رہتی ہے۔
ایسا یقیناً اس لیے ہوتا ہے کہ بڑا تخلیق کار کردار، واقعات اور رویوں کو سطحی طور پر نہیں دیکھتا بَل کہ وہ ان کے پسِ پردہ محرکات کو مکمل طور پر ذہن میں رکھتا ہے اور اپنے بیانیے کو ہر سطح پر درُوں بینی اور تخلیقی بصیرت کے ساتھ بُنتا ہے۔
ایسا کرنے سے کردار، واقعات اور رویوں میں فطرت سے ایسی مطابقت پیدا ہو جاتی ہے جو احوال و مقامات سے بالا تَر ہو کر بنیادی انسانی فطرت کے قریب ہو جاتی ہے اور ہر دَور کے اور ہر جغرافیے کے انسان سے علاقہ پیدا کر لیتی، نتیجتاً آفاقی ہو جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کلاسیکی یونانی ادیبوں سے زیادہ آفاقیت کسی اور زمانے اور جغرافیے کے حصے میں نہیں آئی۔ یونانی ادیبوں کا بنیادی مسئلہ انسان اور تقدیر (fate) کی آویزش تھا۔ اس آویزش کے نتیجے میں حتمی تباہی (catastrophe) انسان کی ہی ہوتی ہے، مگر انسان کی عظمت یہی ہے کہ وہ اس یقینی تباہی سے آگاہی کے با وُجود اپنی بقاء کی جنگ لڑتا ہے۔ یہی جنگ اسے ہیرو بناتی۔
بقاء کی یہ جنگ جو یونانیوں کے ہاں انسان اور تقدیر کے درمیان ہے بعد ازاں اپنی شکل بدلتی رہی۔ اس میں انسان تو مستقل رہا مگر تقدیر کے متبادلات آتے رہے۔ یہ متبادلات کبھی خارجی عوامل کی شکل میں ہوتے ہیں اور کہیں داخلی۔
واقعیت پسندوں اور حقیقت نگاروں کے ہاں معاشرتی عوامل اور قوتیں جو انسان کی وجودیت یا being کو متأثر کرتی ہیں خارجی عوامل کا مظہر ہوتی ہیں؛ جب کہ نفسیاتی حقیقت نگاروں کے ہاں یہ داخلی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ ان کے بَین فطرت پسندوں کے ہاں تقدیر کا نعمُ البدل فطرت، انسانی رویوں کے ساتھ معاندانہ، یا مسابقانہ تعامل میں نظر آتی ہے اور زندگی اور ذہن کو دونوں طرح سے متأثر کرتی ہے۔ داخلیت یا خارجیت مکمل طور پر داخل یا خارج میں وقوع پذیر نہیں ہوتی۔
روسی حقیقت نگاروں میں مرکزی بیانیہ گو کہ خارجی ہوتا ہے، مگر اس میں کرداروں کے نفسیاتی پہلو بھی شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح نفسیاتی حقیقت نگاروں کے ہاں مرکزی بیانیہ گو نفسیاتی ہوتا ہے، مگر اس میں کرداروں کے معاشرتی اور عمرانی پہلو بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
ان کے درمیان فطرت پسندوں (Naturalists) کے ہاں تقدیر کے متوازی فطرت کا طاقت ور مظہر بھی ملتا ہے جو بَہ ذاتِ خود ایک کردار کے طور پر خاموشی سے اپنی میکانیات کے ذریعے مرکزی بیانیے کو متأثر کرتا رہتا ہے۔
فطرت تقدیر کے ایک طاقت ور متبادل کے طور پر سامنے آ تی ہے۔ کلاسیک کے بر عکس جہاں جبرِ تقدیر ما ورائی قوتوں کا ہتھیار ہوتا ہے، فطرت پسندوں کے ہاں یہ اتفاقات کی شکل میں ملتا ہے جو فطرت__ جو کہ ایک خود مختار طاقت سمجھی جاتی ہے __ اس کے آزادانہ اور خود کار میکانیات کا حصہ ہوتا ہے۔
اسی طرح سماجی تفاعلات کے ذریعے متشکل ہونے والے رویے اور واقعات، اور انسانی نفسیات بھی ایسی ہی طاقت بنتے ہیں جو انفرادی اور اجتماعی ارادے اور انتخات کی آزادی سے متصادم ہوتے ہیں۔
اب تک کا عالمی افسانوی بیانیہ انسان اور ان متصادم قوتوں کے درمیان بقاء کے لیے مسابقت کی داستان سناتا ہے۔ یہ داستان تہذیبوں کی پیدائش سے لے کر ان کے فنا ہونے کا اِحاطہ کرتی ہے اور انسانی فکری اور علمی ارتقاء کی جھلکیاں دکھاتی ہے۔
یہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ ہیئت اور اُسلُوب کے تحت سوالات اور مسائل اپنی شکل متعین نہیں کرتے، بَل کہ مسائل اور سوالات کے تحت ہیئت اور اسلوب مرتب ہوتے ہیں۔
ہر دور نے اپنے مسائل کے مطابق بیانیے کی نوعیت کا انتخاب کیا۔ ان کے متشکل ہونے میں انسانی علوم میں ارتقاء اور اضافے کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ اساطیر سے آغاز پا کر قرونِ وُسطیٰ، نشاۃِ ثانیہ، صنعتی انقلاب، نفسیاتی انکشافات، عالمی جنگیں، سرد جنگ اور ما بعد کے ادوار کے افسانوی بیانیے اپنے اپنے طور پر انسان کی اپنی گرد و پیش کی طاقتوں سے نبرد آزمائی کی داستانیں ہیں اور اپنے اندر تہذیبی ارتقاء کے تسلسل کی جھلک دکھاتے ہیں۔
زندگی جتنی پیچیدہ اور نا قابلِ فہم ہوتی گئی، یہ بیانیے اتنے ہی پیچیدہ اور متنوّع ہو گئے۔ بیسویں صدی کی آخری دھائیوں میں ایسا فکشن دیکھنے کو ملا جس نے اپنے سے پہلے والے تمام بیانیوں کو اپنے اندر سمو لیا، اسے آج polyphonic (کثیر صوتی یا کثیر اسلوبی) انداز کہا جاتا ہے۔ چیک مصنف میلان کنڈیرا جو اب فرانس میں مقیم ہیں، اسی طرزِ تحریر کے نمائندہ ہیں۔
کچھ سال قبل نوبیل انعام حاصل کرنے والی بَیلارُس کی مصنفہ سویتلانا الیگزیاوچ کو بھی اسی طرزِ تحریر کا نمائندہ کہا جاتا ہے۔ ان کے نوبیل انعام کے اعلان نامے میں بھی یہ لکھا تھا کہ چَرنوبَل حادثے پر ان کی polyphonic تحریروں کی وجہ سے وہ نوبیل انعام کی حق دار قرار پائی ہیں۔
شاید آج کے انسان کے مسائل اور اس سے نبرد آزما مخالف طاقتیں ہمہ جہت اور متنوع ہو گئی ہیں، اسی لیے اس بیانیے نے جنم لیا۔
محمد حفیظ خان کے دونوں ناول ادھ ادھورے لوگ اور انواسی اپنے اندر یہی اسلوبیاتی اور فکری تنوُّع لیے ہوئے ہیں اور آج کے انسان سے داخلی اور خارجی دونوں سطحوں سے گہرا علاقہ رکھتے ہیں۔
ادھ ادھورے لوگ کا مرکزی کردار فیاض کا ہے۔ یہ ایسا کردار ہے جو ہماری زمین سے جڑے ہوئے وجودی سوال اٹھاتا ہے۔ فیاض ایک ایک کر کے اپنی شناخت کے ان سارے حوالوں کو رد کرتا جاتا ہے جو اس کے ارد گرد کے معاشرے سے اسے ملے ہوتے ہیں۔
ہمارے دیہی بَل کہ شہری معاشرے میں بھی انسان کا کسب اس کی پہچان بنتا ہے اور عموماً یہ کسب اسے میراث میں ملا ہوتا ہے۔ فیاض اپنے باپ کا پیشہ اختیار کرنے سے انکار کرتا ہے۔ وہ اس معاملے میں ایسی محبتوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا جو دوسرے اس سے اپنے ذاتی جذبے یا خواہش کے تحت کرتے ہیں۔ وہ محبت بھی ایسی چاہتا ہے جس میں کسی اور کا نہیں اس کا اپنا اثبات نظر آئے۔
فیاض کے وجودی سوال مکمل طور پر ہماری زمین سے متعلق ہیں اور ہمارے انسان کے ہیں۔ اس بیانیے میں گو کثیر اسلوبی انداز نہیں، مگر اپنے فلسفیانہ استفسارات اور فنی سہولت کاری کی بَہ دولت نیا ذائقہ ضرور موجود ہے۔
کثیر اسلوبی بیانیے میں بنیادی طور پر واقعاتی اور نفسیاتی بیانیے کا امتزاج ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ اس میں دیگر علوم جیسے تاریخ، فلسفہ، بشریات، فلم، ڈرامہ اور شاعری وغیرہ کا بھی امتزاج ہوتا ہے۔ مگر محض یہ سب باتیں بیانیے میں شامل کر لینے سے شاہ کار تخلیق نہیں ہوتا۔ بڑا تخلیق کار ان اجزائے ترکیبی کو فن کارانہ تناسب میں استعمال کرتا ہے۔ یہ حسنِ تناسب ہی ہوتا ہے جو نئے جمالیات کی تخلیق کرتا ہے اور فن پارے کو شاہ کار بنا دیتا ہے۔
ایسا نہیں کہ اردو میں یہ انداز نیا ہے۔ اس کی جھلکیاں نظر آتی رہی ہیں۔ ابھی عصری حوالے ہی میں اختر رضا سلیمی کے دونوں ناولوں میں یہ طرزِ تحریر نظر آتا ہے۔ جاگے ہیں خواب میں کا زمان اور جندر کا ولی خان واقعاتی اور نفسیاتی دونوں سطحوں پر زندہ رہتے ہیں۔ سید کاشف رضا کا ناول چار درویش اور ایک کچھوا بھی کثیر اسلوبی ہے۔ اس میں جدید فلم کی تکنیک کا جان دار استعمال ہے جہاں مختلف کہانیاں ایک دوسرے کو overlap یا intersect کرتی ہیں۔ عاطف علیم کا گردباد بھی اسی انداز کا حامل ہے۔ محمد حفیظ خان نے انواسی میں اس سے مختلف کام کیا۔
اپنے محدود مطالعے میں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اس اسلوب میں اس ساخت کی کہانی پہلے کہیں میری نظر سے گزری ہو۔ محمد حفیظ خان ایک زمانی اور جغرافیائی اکائی میں دو متوازی بیانیے تخلیق کیے ہیں۔ ان میں سے ایک بیانیہ بستی آدم واہن کا ہے اور دوسرا بیانیہ اس سے دو کلومیٹر سے بھی کم کے فاصلے پر موجود انڈس ریلوے کمپنی کے کیمپ آفس کا ہے۔
آدم واہن کے بیانیے کا بیش تر حصہ واقعاتی ہے جب کہ کیمپ آفس کے بیانیے کا بیش تر حصہ نفسیاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدم واہن کے مکینوں کے مسائل خارجی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں اور کیمپ آفس کے کرداروں کے مسائل نفسیاتی الجھنوں اور اندرونی سازشوں سے متعلق ہیں۔
ان دونوں بیانیوں کو محمد حفیظ خان نے الگ الگ ہی رکھا ہے۔ دونوں بیانیے juxtaposed ہیں، مگر intertwine نہیں کرتے، یعنی ایک دوسرے سے الگ اپنی اپنی جگہ پر دو مکمل کہانیاں ہیں۔ ان دونوں کہانیوں کو بغیر کسی زیادہ دِقّت کے الگ کیا جا سکتا ہے اور یہ دو مکمل بیانیوں کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔
ان کے کردار ایک دوسرے کے علاقے میں خود آتے جاتے نہیں، مگر ان کی خبریں یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں پہنچتی رہتی ہیں۔
مقامی لوگوں کے صرف دو کردار کیمپ کے اندر نظر آتے ہیں، ایک مولوی، اور دوسرا خانہ بَہ دوش لڑکی جو دو انگریز فوجی افسروں کی زیادتی کا نشانہ بنی ہوتی ہے۔
اسی طرح انگریز کیمپ کے کردار اس وقت آدم واہن میں نظر آتے ہیں جب وہ وہاں شب خون مارتے ہیں۔ یہ دونوں بیانیے ایک دوسرے کے وقوعے کا پسِ منظر بناتے ہیں۔ مشہور مستشرقی مصنف E M Forster کے ناول A Passage to India میں بھی ایسی ہی دو تہذیبیں ایک جغرافیائی اور زمانی اکائی میں یک جا ملتی ہیں۔ وہاں ناول کے دونوں مرکزی کردار عزیز اور فیلڈنگ جو دو مختلف، متضاد اور متصادم تہذیبوں کے نمائندہ ہیں، ایک دوسرے کے علاقے میں آتے جاتے رہتے ہیں اور ایک ہی مرکزی بیانیے کا حصہ بنتے ہیں جو کہ واقعاتی بیانیہ ہے مگر محمد حفیظ خان کے انواسی کے دونوں بیانیے ایک دوسرے سے ٹوٹ کر بھی اپنی اپنی جگہ اپنا مکمل اظہاریہ بناتے ہیں۔
یہ بات اس ناول کو نیا بناتی ہے اور ایسا کرنے کے لیے جو تخلیقی فطانت اور ریاضت درکار ہوتی ہے جو بلا شبہ محمد حفیظ خان کے پاس موجود ہے۔
انواسی کے یہ دونوں بیانیے مرکزی طور پر دریائے ستلج پر بنائے جانے والے ریل کے پل Empress Bridge کے دائیں بائیں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ آدم واہن کے بیانیے کا مرکزی کردار سنگری ہے جو انواسی کے طور پر ناول کے عنوان میں موجود ہے۔ ناول کی دوسری انواسی خانہ بَہ دوش لڑکی ہے مگر اس کا کردار بہت کم ہے۔
کیمپ کے بیانیے کا مرکزی کردار جان برنٹن ہے جو انگریز انجینئر ہے اور دریا پر پل باندھنے کے کام کا ماہر اور انچارج ہے۔
ان دونوں کرداروں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ ان دونوں کرداروں پر بعد میں تفصیلی بات ہو گی۔ ریلوے پل بنانے کے قضیے میں دونوں بیانیوں کی مرکزی کہانی جنم لیتی ہے مگر دونوں طرف اس پل سے بننے والی کہانی دونوں طرف کے کرداروں کی زندگیوں کے انداز اور اطوار کی بھر پُور عکاسی کرتی ہے جو کہ ایک دوسرے سے یک سر مختلف، متضاد اور متصادم ہیں۔ ان کرداروں کا آپس میں نہ ملنا Forster, Kipling اور Conrad جیسے مصنفین کے اس استخراج کو قوی کرتا ہے کہ مشرق اور مغرب کی دنیائیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور یہ ایک دوسرے کے قریب آ ہی نہیں سکتیں، چاہے ایک ہی زمانی اور جغرافیائی اکائی میں بندھی ہوں۔
اس بات کو تہذیبی ارتقاء کے تناظر میں دیکھا جائے تو یوں سمجھ میں آتی ہے کہ ہر تہذیب کا ایک سٹیٹس-کَو ہوتا ہے۔ اس سٹیٹس-کَو کے اندر جمود (inertia) ایک ایسی قوت کے طور پر موجود ہوتا ہے جو دوسری تہذیبوں کے اثرات کو پرے دھکیلتا ہے۔ تہذیب خود کار میکانیات کے تابع ہوتی ہے اور دوسری تہذیبوں سے ان کے صرف وہ حصے کشید کر کے حاصل کرتی ہے جو اس کے اپنے ماحول ecology کا جزوِ بن سکیں۔
ایسے اجزاء کے علاوہ اگر کوئی چیز کسی تہذیب میں زور زبر دستی سے داخل ہو بھی جائے تو اوّلاً وہ چیز، خواہ وہ کوئی مادی چیز ہو یا رویہ، یا تو کچھ عرصہ بعد خود ہی نکل جاتی ہے، یا کچھ زیادہ عرصہ کے بعد تبدیل شدہ شکل میں اس تہذیب کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔
ان کے علاوہ ایک تیسرا راستہ بھی ہوتا ہے اور وہ فطرت کی طاقت کا ہے۔ فطرت دو متضاد تہذیبوں کو اپنے کسی مظہر کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب کر دیتی ہے جہاں سے ایک یا کئی نئی تہذیبوں کا آغاز ہوتا ہے۔
انواسی کے آخر میں سیلاب ایسا ہی ایک مظہرِ فطرت ہے جس کے بعد بیانیوں اور تہذیبوں کے کردار یک جا ہو جاتے ہیں مگر یہاں ایک جگہ اکٹھے ہونے کے با وُجود وہ منفصل رہتے ہیں۔
For East is East and West is West
And never the twins shall meet.
Rudyard Kipling
آج جب عالَم گیریت اور ما بعد جدیدیت کا دور دورہ ہے اور عالمی گاؤں کی تیسری دنیا ابھی جدیدیت کے ثمرات سے بھی مستفید ہونے کی اہل نہیں ہوئی، انواسی کا لوکیل اور تہذیبی شناخت کا سوال تیسری دنیا کے بنیادی انسانی مسائل کی تفہیم کے لیے نیا اور جامِع تناظر مہیا کرتا ہے۔
ادب اور تاریخ کے تقابل کی روایت بہت پرانی ہے۔ ارسطو نے کہا کہ مؤرخ واقعات کو ویسے دکھاتا ہے جیسے کہ وہ ہوئے ہوتے ہیں جب کہ شاعر، یا تخلیق کار اُنھیں اس طرح سے دکھاتا ہے جیسے اُنھیں ہونا چاہیے تھا، یا ہو سکتے تھے۔
بات یہاں سے آگے بڑھ گئی۔ تخلیق کار تاریخ میں خلا تلاش کرتا ہے اور اس خلا کو تخلیقی ادب سے اس طرح پُر کرتا ہے کہ تاریخی اور تہذیبی ارتقاء پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا ادراک کیا جا سکے۔ کارلائل کے بَہ قول تاریخ صرف 25 مربع میل کی داستان سناتی ہے اور اس سے ہمیں اس عہد میں ایک بڑی اکثریت کے طرزِ بود و باش، مسائل اور فکری رویوں کا علم نہیں ہو سکتا۔ اس بنیاد پر کارلائل تاریخ کے ایک بڑے حصے کو رد کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ حکم رانوں اور ان کی مہمات کی تاریخ لکھنے کی بَہ جائے مؤرخ کو چاہیے کہ وہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ بہت سارے عام لوگوں کی مختصر سوانح تحریر کرے۔
یہ کام ادیب کرتا ہے۔ ایک فن پارے میں واقعات اور کرداروں کے ذریعے تاریخ کے متوازی ادبی تاریخ لکھی جا رہی ہوتی ہے جو داستان، کہانی، افسانے یا ناول کی شکل میں ہوتی ہے۔ ساتھ ہی اس عہد کے انسان کی جذباتی اور محسوساتی تاریخ بھی لکھی جا رہی ہوتی ہے، جو شاعری کی شکل میں ہوتی ہے۔
محمد حفیظ خان نے تاریخ کے ایک ایسے دور کا انتخاب کیا جہاں ایک طرف ایک ایسا زرعی معاشرہ ہے جس میں primitive معاشرے کے انسان کی تہذیب کی باقیات دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ معاشرہ مذہبی توہم پرستی اور قبائلی طرز کی سماجی طاقت کے زیرِ اثر ہے۔ اس معاشرے میں مذہبی اشرافیہ بھی بہت طاقت ور ہے۔ دوسری طرف استعماری طاقتیں ہیں جو صنعتی قوت کے بل بُوتے پر اس تہذیب کے وسائل کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں اور شناخت کو مٹانا چاہتی ہیں۔
پہلی تہذیب کا anaphora (ما قبل) پتھر کے عہد کا انسان ہے، اور دوسری تہذیب کا cataphora (ما بعد) آج کے صنعتی دور کا انسان۔ درمیان میں انواسی ایسی جغرافیائی اور زمانی اکائی بنتا ہے جہاں ایک عہد دوسرے کو کچل کر آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
اکیسویں صدی میں یہ منظر نامہ خاص اہمیت کا حامل ہے، اس کش مکش میں محکوم تہذیب میں ایسے با اثر عناصر موجود ہوتے ہیں جو طاقت کے بدلتے توازن کو دیکھتے ہوئے اپنا وزن طاقت ور کے پلڑے میں منتقل کر دیتے ہیں۔
مقتدر مذہبی اشرافیہ ہمیشہ طاقت ور کے قدموں میں ہی بیٹھی ہے۔ اس طبقے کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بقاء طاقت کے زیرِ سایہ رہنے میں ہی ہے۔ انواسی کے تینوں مولوی اسی سماجی طاقت کے مظہر ہیں۔
یہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ اولاً مذہب کی ترویج اشتراکی بنیادوں پر ہوتی ہے اور ہر نئے مذہب کو قبول کرنے والے لوگ غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، مگر بعد ازاں وجود میں آنے والا مذہبی اشرافیہ طاقت ور کی خوش نودی حاصل کرنے میں لگ جاتا ہے۔ ہندو مت، عیسائیت اور اسلام سمیت بہت سے مذاہب کی یہ مشترکہ کہانی ہے۔
محمد حفیظ خان نے تاریخ کا ایک ایسا دور چنا جس میں ایک کم زور تہذیب ایک طاقت ور تہذیب کی زَد میں ہے۔ اس طرح اس ناول کا انسان سے علاقہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ مذہبی اعتقادات، رسومات اور عبادات زرعی دور کی پیداوار ہیں۔ خدا کے اساطیری تصور کا آغاز بھی اسی دور سے ہوا۔ جیسے جیسے زراعت کی تہذیب آگے بڑھتی گئی اور اس تہذیب کے زیرِ سایہ دیگر علُوم پروان چڑھے تو خدا کے تصور میں بھی ترامیم ہوئیں۔
ایسے معاشرے میں جو طبقاتی تقسیم نظر آتی ہے اس میں جاگیر دار اور مولوی، پادری، یا پنڈت بہت طاقت ور ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی ڈھال کے طور پر کارِ فرما رہتے ہیں۔ یہ دونوں طاقتیں اپنے گرد اعتقادات اور وسائل کی طاقت سے ایسا مضبوط اور محفوظ حصار باندھ لیتے ہیں جس سے عامۃُ الناس ان سے دور رہتے ہیں اور کوئی سوال نہیں کر سکتے۔ بستی آدم واہن کا بیانیہ اسی کش مکش سے متعلق ہے۔
آدم واہن کا لفظی مطلب آدم کی گزرگاہ، یا ایسا علاقہ ہے جہاں آدم کے آنے جانے سے تہذیبوں کے بنتے بگڑتے رہنے کے آثار ملتے ہوں۔ یہ معنی خیز نام اس کرۂِ ارض کا بھی ہو سکتا ہے۔
آدم واہن کا بیانیہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اگر اس میں سے کچھ اشارے مثلا لالٹین کی آمد وغیرہ حذف کر دیے جائیں تو یہ آج کے جنوبی پنجاب کے کسی گاؤں کی کہانی بن سکتا ہے۔
یہ تیسری دنیا کا کوئی بھی ایسا گاؤں ہو سکتا ہے جہاں آدم کی اولاد اس کی گزر گاہ میں ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اپنی بقاء کی خاطر Hobbes کے الفاظ میں اپنے ارد گرد کی ہر چیز سے حالتِ جنگ میں ہے۔
محمد حفیظ خان نے اپنے کرداروں کے منظر نامے کے لیے زندہ ماضی کا انتخاب کیا ہے۔ یہ ایسا ماضی ہے جس کے حالات و واقعات اور مسائل حال سے اس سے زیادہ متعلق ہیں جتنا آج کے میڈیا مذاکرات اور خبر نامے۔ دریا کے اس طرف کے بیانیے کے قرائن البتہ سِنہ 1872 ہی کے ہیں۔
انگریز کیمپ کے بیانیے کے معاشرتی رویے اور نفسیاتی مسائل ان لوگوں کی ترجیحات کے آئینہ دار ہیں جو اپنی وفا داریوں کے نتیجے میں بیرونی آقاؤں کی مراجعت کے بعد مسندِ اختیار سنبھال لیتے ہیں۔
یہ لوگ آج بھی طاقت اور سازش کے زور پر آدم واہن جیسی اکثریتی آبادی پر حکومت کر رہے ہیں۔ طاقت کا یہ انتقال ما بعد نو آبادیاتی مطالعے اور نو استعماری رویے کی شناخت میں معاون ہے۔ ان دونوں بیانیوں کے juxtapose ہونے سے inter-textual اور cross cultural مطالعے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ polyphonic طرزِ تحریر کا مقصدہی یہ ہے کہ ادبی متن کو اکہرے مطالعے کی علت سے باہر نکالا جائے اور مشل فُوکو اور ایڈورڈ سعید کی طرز پر ادبی متن کے ذریعے معاشرتی، تاریخی، تہذیبی، علمی، جذباتی، نفسیاتی اور تقابلی جائزے اور مطالعے کی سہولت پیدا کی جائے۔
ایسا ادبی متن تخلیق کرنا افرادِ مطالعہ و مشاہدہ فرد کا کام ہے کیوں کہ اس کے لیے جس واقعیت کی ضرورت ہوتی وہ مطالعے کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ محض مطالعے اور مشاہدے سے بھی بات نہیں بنتی کہ ایسے ادبی متون بھی دیکھنے کو ملے ہیں جہاں تخلیق کار کا کثیر جِہتی مطالعہ اتنا دِق کرتا ہے کہ قاری اس سے مرعوب تو ہو جاتا ہے، مگر مرکزی بیانیے کی طاقت اور جمالیات کہیں دور رہ جاتے ہیں۔
کچا فن کار digression میں الجھ کر مرکزی بیانیے سے دور ہو جاتا ہے اور اپنے خواندہ علم کی بوچھاڑ سے بیانیے کو بوجھل بنا دیتا ہے۔ حقیقی فن کار وہی ہوتا ہے جو بیانیے میں دیگر علوم کا واجب امتزاج اس طرح سے کرے کہ وہ بیانیے کا نامیاتی حصہ بن کے سامنے آئیں۔
ایسا تخلیق کار خواندہ علم کی نقل سے تخلیق کو کم زور نہیں بناتا، بَل کہ ان علوم سے کشید کیے گئے نتائج کو اپنے کرداروں کے ذریعے بیانیے میں شامل کر کے اس کی تہہ داری میں اضافہ کرتا ہے۔
محمد حفیظ خان ایک ایسے ہی صاحبِ مطالعہ آدمی ہیں جنھوں نے زندگی کا مشاہدہ بہ نظرِ غور کر رکھا ہے۔ ان کمرۂِ عدالت میں ہر کیس کے اندر کئی کہانیاں موجود ہوں گی اور اُنھیں کرداروں کی حقیقی زندگی کے مسائل کا اندازہ ہما شما سے یقیناً زیادہ ہو گا۔
یہ مشاہدہ اور مطالعہ فن سے ان کی لگن کے نتیجے میں انواسی میں فنی جمالیات کے ساتھ جا بَہ جا جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ تجربے، مشاہدے اور مطالعے کی اہمیت تخلیق کار کے لیے خام مال کی سی ہوتی ہے۔ اُنھی کی بنیاد پر تخلیق کار کسی فن پارے کا آغاز کرتا ہے مگر محض تجربے، مطالعے اور مشاہدے سے فن پارہ تخلیق نہیں ہوتا۔ ان اجزاء کے درمیان حسنِ تناسب کی موجودگی جزوِ اعظم ہے۔
یہ جزو تخلیق کار کی جمالیاتی حِس کے تابع ہوتا ہے۔ اس حسنِ تناسب کا ادراک فن کے ساتھ آپ کے طویل اور مخلصانہ انسلاک کے ساتھ مشروط ہے۔ اس طویل اور مخلصانہ انسلاک کے نتیجے میں غیبی اور الہامی تخلیقی طاقتیں تخلیق کار کی رہ نمائی کے لیے دخل اندازی کرتی ہیں۔
فن پارے کی تخلیق کا آغاز کرنے اور اس کی راہ پر کچھ دیر چلنے کے بعد تخلیق کار کو جب آگے کا راستہ سجھائی نہیں دیتا تو اسے الہامی اشارے کا انتظار کرنا چاہیے اور ان کی کارِ فرمائی کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔
اسے اپنے تجربے، مشاہدے اور مطالعے کو فنی الہام __ جو کہ اشارے کی صورت میں ہوتا ہے__ کی رہ نمائی میں سونپ دینا چاہیے اور اس کے پیچھے سر جھکائے چلتے رہنا چاہیے۔ یہ طاقتیں فن پارے میں روح پھونکتی ہیں اور اسے پھلنے پھولنے کی طاقت دیتی ہیں۔ فن پارے کو آزاد چھوڑ دینے سے وہ اپنی تخلیق کا حجم اور سمت خود متعین کرنے لگتا ہے۔
تجربہ مشاہدہ اور مطالعہ اس کی مصاحبت میں چلتے ہیں۔ یہ طاقتیں فن پارے کو حسنِ تناسب عطا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے تاثیر اور برکت عنایت کرتی ہیں۔
چند گاہش گام آہو درخورست
بعد ازاں خود ناف آہو رہبرست
… یہ مضمون باقی کی دو اقساط میں جاری ہے…