(علی توقیر شیخ )
دیکھنے کی کوئی قیمت نہیں چکانی پڑتی لیکن اگریہ سرے سے دیکھے ہی نہ جائیں تو بہت ہی بھاری قیمت چکانی پڑ جاتی ہے۔ اتنی بھاری کہ شاید آنے والی نسلیں بھی ادا نہ کر سکیں! موجودہ حکومت اس انتخابی وعدے پر برسرِاقتدار آئی کہ 2018 تک لوڈ شیڈنگ کا قلع قمع کر دے گی۔ اندھیروں میں ڈوبی قوم کی آنکھیں روشنی سے چندھیا جائیں گی۔ بڑی بات ہو گی اگرایسا ہو جائے مگرچتوڑ کا قلعہ پھر بھی فتح نہیں ہونے کا۔
مثلاً یہ کہ کیسے پانچ فیصد سے اوپر اقتصادی ترقی (economic growth) کا ہدف حاصل کیا جائے جو متعین تو شب بھر میں کر لیا گیا مگرتیاری برسوں بیت جانے کے باوجود نہ ہو سکی۔ حل سیدھا سادا ہے اگرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ صرف ایک عدد درست پالیسی کی ضرورت ہے جس پر عمل کر کے یہ ملک ترقی کی دوڑ میں ایشیا کے تمام ممالک کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ توانائی پیدا کرنے کے نت نئے وسائل جو بیرونِ دنیا میں کوئی عجوبہ نہیں، برﺅے کار لائے جائیں۔ سارے عوام کو توانائی تک رسائی ہوسکتی ہے اگر اس کے ضیاع اور چوری پر قابوپا لیا جائے۔ نئے وسائل کے ساتھ توانائی کا نرخ نامہ (tariff) بھی بدلنا ہو چکا جو کہ ہر قسم کے صارف کی دسترس میں ہو گا۔ لیکن معاملہ کچھ ایسا ہے کہ نہ تو وفاقی اور نہ ہی کسی بھی صوبائی حکومت نے ان معاملات پر سنجیدگی سے غور وفکر کیا، کوئی پالیسی مرتب کی ، کسی قسم کی سرمایہ کاری کی طرف قدم بڑھایا یا ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے اقدامات کئے۔ سمجھدار قومیں مشکل وقت سے نمٹنے کیلئے طویل المدت منصوبہ بندی کرتی ہیں اور ہم ڈنگ ٹپاﺅٹائپ قسم کا جگاڑ وہ بھی جب سر پر آن پڑتی ہے۔
اس حکومت نے عوام کے غیظ و غصب کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر ہبڑ دبڑ میں تھوک کے حساب سے توانائی کے منصوبے چالو کر دیے۔ یہ سوائے ہاتھ کی صفائی کے اور کچھ نہیں جسے حکمران اپنی کامیابی گردانتے ہیں۔ ان تمام منصوبوں میں شاید ہی کوئی ہماری معیشت یا ماحولی تبدیلی پر کسی قسم کا پائیدار اور مثبت اثرچھوڑے جس کے ثمرات طویل عرصے تک سمیٹے جا سکیں۔ یہ وقت سے قبل شدید گرمی کی لہروں سے نمٹنے سے قاصر ہیں جو کہ عصرِ حاضر کا انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے۔ گردشی قرضے(circular debts) جوں کے توں اپنی جگہ قائم ہیں۔ توانائی کی تمام اشکال مثلاً بجلی ، پانی گیس وغیرہ غیر حقیقی حد تک گراں ہیں۔ ترسیلی لائنوں میں سرمایہ کاری، معیاری گرڈ، توانائی کے ضیاع اور گھریلو، تجارتی و صنعتی صارفین کے ہاتھوں بجلی کی چوری سے روک تھام جیسے نازک معاملات جوں کے توں پڑے ہیں۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اگر لوڈ شیڈنگ کا جن دوبارہ بوتل میں بند بھی کر لیا تو ماحول دوست توانائی کا تواتر سے حصول پاکستان کے لئے خواب ہی رہے گا۔
کہاں سے شروع کریں اور کہاں ختم کریں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ سب سے پہلی بات ہماری توانائی کی پالیسی بین الاقوامی رجحانات سے تال میل ہی نہیں کھاتی۔ دنیا بھر میں شمسی و پون توانائی کی(solar and wind energy) کی قیمتیں باقابلِ حد تک گر چکی ہیں۔ سب ہی اس موقعے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں سوائے ہمارے۔ پڑوسی ممالک قابلِ تجدید توانائی کے ذریعے اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ د ے رہے ہیں۔ ماحول دوست روزگار پیدا کر رہے ہیں۔ صنعتکاری ، تیاری اور خدمات کے شعبے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ کاش ہم بھی یہ سمجھ لیں کہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل صرف اسی صورت میں تابناک ہو سکتا ہے جب ہم معدنی ایندھن (fossil fuel) کو خیرباد کہہ کے اپنا سرمایہ قابلِ تجدید توانائی کے وسائل کو بروئے کار لانے میں استعمال کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ آیا حکومت ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ قطعاً نہیں! حکومت کو نجی شعبے کے ساتھ ساجھے داری کرنا ہو گی۔ اس ضمن میں ہمیں اپنے اس دوست کی پیروی کرنی چاہیے جو ہمارے لئے ہمالیہ سے بھی قد آور اور شہد سے بھی میٹھا ہے۔
چین قابلِ تجدید توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت میں حیرت انگیزاضافہ کر چکا ہے۔ اس کام میں وہ ساری دنیا کا گرو ہے۔ پن بجلی اپنی ضرورت سے 10 گیگاواٹ زائد پیدا کر رہا ہے۔ اس کی شمسی اور حیوانی کمیت (biomass) کے ذریعے توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت تین سال بعد دس گنا بڑھ جائے گی۔ ماحول کو نقصان پہچانے والی گیسوں کے (green gasses) اخراج میں کمی کے ثمرات تو وہ سمیٹے گا ہی مگر اب سرحدوں کے علاوہ توانائی کو بھی انتہائی محفوظ بنا چکا ہے۔ معدنی وسائل تو اب معدومعیت کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کے حصول میں سیاسی مجبوریاں بھی آڑے آ جاتی ہیں۔ بعض اوقات جنگ و جدل سے بھی کام لینا پڑتا ہے مگر قابلِ تجدید توانائی بنا کسی دِقت حاصل کی جا سکتی ہے اگر آپ کے سر پر سورج چمک رہا ہو، آپ کے پاس پانی ہو یا آپ کے گالوں پر ہوا کے تھپیڑے پڑ رہے ہوں! اس سے بڑھ کر یہ کہ چینی حکومت قابلِ تجدید توانائی پیدا کرنے والوں کی بھر پور سرپرستی کرتی ہے۔ یہ سب پاکستان کے لئے مثال ثابت ہو سکتی ہیں۔ لیکن ہم تو ابھی تک کوئلے کی ہی دلالی کر رہے ہیں۔ یعنی توانائی ہاتھ منہ کالا کئے بغیر حاصل نہیں کرنی! کوئلے کے پلانٹ پر پلانٹ لگائے جا رہے ہیں جبکہ ہمارا لازوال دوست چین اس سے کب کا منہ موڑ چکا ہے۔ ہمار ے اور چین کے مسائل بالکل ایک ہیں۔ چین کے ساتھ ہمارے دیرینہ مراسم ہیں۔ قابلِ تجدید توانائی کے حصول کے لئے درکار ٹیکنالوجی ہمیں چین سے با آسانی سے مل سکتی ہے اگرپاکستان چینی حکومت کی مدد سے اس کے نجی شعبے (private sector) کے ساتھ کام کرے۔
G7 معدنی توانائی پر سرکاری مراعات سے بتدریج ہاتھ کھینچ رہا ہے۔ لہذا توانائی کے یہ ذرائع آنے والے وقتوں میں ہماری پہنچ سے باہر ہوں گے۔ اگر ہم صرف دو چیزیں کر لیں تو اس مسئلے سے نمٹنا ممکن ہو سکتا ہے۔ اول، گرڈ سے جان چھڑا لیں۔ اس کی اشد ضرورت ہے۔ اب تونہ صرف کمپنیاں بلکہ عام صارفین بھی توانائی کی ضروریات ایسے طریقوں سے پورا کر رہی ہیں کہ گرڈ کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ دوئم، شمسی توانائی میں سرمایہ کاری آسان بنانے اور اسے صارفین کی دسترس میں لانے کے لئے حکومت ایک رعائتی پیکج متعارف کرائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو صارفین حکومت کو بجلی بیچ سکیں گے۔ اس طریقہ کار کو ریورس میٹرنگ کہتے ہیں۔ کتنا حسین لگے گا یہ ملک جب اس کے پچاس لاکھ گھروں کی چھتوں پر شمسی پینل لگے ہونگے۔ ٹیکس میں چھوٹ مقامی سطح پر فوٹو وولٹائک پینل تیار کرنے کی صنعت پیدا کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جس کے تحت توانائی پیدا کرنے والی کمپنیاں اور صارفین ایک دوسرے سے براہِ راست توانائی کی خرید و فروخت کا لین دین کر سکیں۔ ایسا کرنے سے کے۔الیکٹرک کی کارکردگی مزید نکھر جائے گی۔ ایسا کرنا صارفین کا حق ہے۔ کمپنیوں میں تو یہ رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے کہ اپنی توانائی اور اخراج کے معیار خود ہی متعین کریں اور ایسا قابلِ تجدید توانائی جس میں گرڈ کا کوئی کردار نہ ہو کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ گوگل اور ایپل جیسی بڑی بڑی کمپنیاں ایسا ہی کر رہی ہیں۔ ایسا ہمارے یہاں بھی ہو سکتا ہے اگر سرکار چاہے ! موجودہ نظام کے تحت اگر لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو بھی جائے تب بھی پاکستان کے ہر شہری کوبجلی تک رسائی میسر نہ ہو گی۔ حل صرف یہ ہی ہے جو اوپر بیان کیا جا چکا ہے!
اب گیند حکومت کی کورٹ میں ہے۔
ڈان اخبار پر 29 اکتوبر کو شائع شدہ اس مضمون کی ترجمہ شدہ شکل کے جملہ حقوق “ہم سب ڈاٹ کام” کے ہیں۔ ادارہ ایک روزن ماحولیات و موسمی تغیرات کو اردو زبان میں بحث و مکالمہ کا موضوع بنانے کو ایک اہم سماجی، انسانی اور زندگی کی پائیدار مستقبلیات کے لئے اہم فرض سمجھتا ہے۔