سید انشا اللہ خان انشا کی شاعری کا اہم پہلو
از، نصیر احمد
سید انشا اردو شاعری میں ایک اہم شاعر ہیں۔ ان سے اردو دانوں کے کا یہی گلہ ہے کہ انھوں نے اپنا علم و فضل اور کمال سخن سعادت یار خان کی مصاحبت میں ہزل، ابتذال، پھکڑ پن اور تمسخر میں ضائع کر دیا۔ یہ گلہ بھی اپنی جگہ درست ہے مگر ہماری ثقافت میں ہنسی خوشی اور لطف و سرور کے ایک خلاف ایک تعصب بھی ہے۔ مصاحبت تو دکھیاروں نے بھی کی ہے لیکن اس مصاحبت سے اردو دان اکثر چشم پوشی کر جاتے ہیں اور علم و فضل اور کمال سخن وہاں بھی ضائع ہوا ہے لیکن دکھیاروں کی مصاحبت سے ایک لگاؤ ہے جس کی وجہ سے توازن بگڑ جاتا ہے۔
در اصل غم کو حیات و کائنات کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اور انجیل کے اقوالِ زریں کے مصنف کی طرح یہ کہا جاتا ہے کہ علم و فضل کے نتائج غم و اندوہ میں اضافے کی صورت میں نمو دار ہوتے ہیں۔ مرزا غالب بھی کچھ اسی طرح کی بات اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں:
صاف دردی کش پیمانہ جم ہیں ہم لوگ
وائے کہ وہ بادہ کہ فشردہ انگور نہیں
ایسے میں علم و فضل اور کمال سخن کچھ لطف و سرور کا رخ اختیار کر لیں تو وہ کچھ اجنبی سے لگنے لگتے ہیں۔ خوشی پر یہ اعتراض بھی ہوتا ہے کہ اسے دوام نہیں (جو کہ غم کو بھی نہیں) اس لیے وہ زندگی کی گہرائیوں سے نا آشنا رہ جاتی ہے اور اس وجہ سے اوچھی، شُہدی اور سِفلی ہو جاتی ہے اور انشا اس اعتراض کو ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ غم بھی جب سیاسی شکل میں نمو دار ہوتا ہے تو غم بھی جوشیلا سا چھچھورا ہی ہوتا ہے اور بہت زیادہ بے رحم بھی۔ ہمارے خیال میں مسئلہ زندگی کے بارے میں ہمارے ہاں کے تصورات ہیں جو زندگی کے بارے میں ایک ایسی تفہیم نہیں بننے دیتے جس میں انسانی صلاحیتوں کا ذرا بہتر اظہار ہو سکے۔ اور یہ نظریات ایک قسم کا بندی خانہ بن جاتے ہیں جس میں آشفتگی بھی نامراد رہ جاتی ہے اور شگفتگی بھی۔
وہ کیا کہتے ہیں، البیرونی، خارجی، خارجیت پسند یا بیرون پسند، ہم بیرون پسند کو ترجیح دیں گے۔ اب انسانوں کی طبیعتیں ہوتی ہیں کوئی مشاہدہ و تجربہ کو زیادہ پسند کرتا ہے، اور کوئی مجاہدہ و مراقبہ کو۔ اور ہر انسان میں دونوں پائی جاتی ہیں، کبھی سیر باغ کی تمنا، کبھی حجرے میں گڑھا سا کھود کے بیٹھے رہنا۔ اور ہمارے ہاں کا نظریاتی نظام غم کو وجہ حیات و کائنات سمجھتا ہے، اس لیے مشاہدہ و تجربہ کے خلاف ایک تعصب سا بن جاتا ہے۔
اسی وجہ سے شاعری میں بھی ہم دکھیاروں کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اور غم پر مبنی یہ تصوّرِ حیات قائم رکھنے کے لیے ثقافتِ غم میں مسلسل اضافہ کرتی رہتی ہے اور خوشی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ خوشی کا نام تو سنا مگر خوشی نہیں ہوئی۔
لیکن ہم غم کی عظمت کے جتنے بھی گیت گائیں، خوشی ایک انسانی کیفیت ہے، جس کو درد و اندوہ کی پرستش کرنے والے نظریات مسخ تو کر سکتے ہیں اور اپنا تابع فرمان بھی کر لیتے ہیں لیکن اس کی راہ نہیں بند کر سکتے۔
گفتم کہ بر خیالت راہ نظر ببندم
گفتا کہ شب رو است او از راہ دیگر آید
کہ ہم نے کہا تیرے خیال کے راستے روکتے ہیں اور وہ کہنے لگے کہ خیال تو اپنے راستے بنا لیتے ہیں۔
خوشی کا بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ چند دوستوں نے ایک دفعہ سازش کی کہ ایک دعوت میں کوئی خوش طبع آدمی اچھے کھانوں سے لطف اندوز نہ ہو سکے لیکن جو معتبر مہمان تھے انھوں نے ان خوش طبع آدمی کو بہ ذاتِ خود بلوا لیا اور وہ آدمی اپنے ناقدین کو کہنے لگے، اب یہ آسمانی چھپر اگر تم بند کر سکتے ہو تو یہ بھی کوشش کر لو۔
شخصیت کے رجحان بن جاتے ہیں اور اگر دنیا دیکھنے کا رجحان بن گیا ہے اور اس سے کچھ لطف منسلک ہو گیا ہے تو نظریات اس لطف پسندی پر کچھ شرمندہ تو کر دیتے ہیں لیکن جسے دنیا دیکھنا پسند ہوتا ہے وہ دنیا دیکھ لیتا ہے۔
انشا کا ایک شعر ہے
کہانی جو سنائی ایک ہیر رانجھا کی
تو اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
ہیر رانجھا کا جو قصہ سید وارث شاہ نے لکھا ہے اس میں بھی انشا کی کش مکش نظر آتی ہے کہ سید وارث شاہ کی طبعیت بیرون پسند ہے لیکن نظریے کی وجہ سے وہ دُرُوں بینی پر مجبور سے ہیں۔ جو زندگی دیکھی، سنی، دیکھی، چکھی، چھوئی، سونگھی اور سمجھی ہے وہ پورے جوش و خروش سے کتاب میں چمکتی اور دمکتی ہے۔ کتاب وارث شاہ کی ہیروئین جیسی ہے
کہ اَنگ اَنگ جَٹّی دا بولدا جیویں راگ نکلے زیل دی تار وچوں
ویسے تو رقص کو اعضا کی شاعری کہا جاتا ہے، یہاں اس قتالۂِ عالم کا خرام اعضا کی موسیقی بنا ہوا ہے۔ ویسے سید وارث شاہ حِسّی تجربوں سے لطف کی جمال سازی کا کمال ہیں۔ لیکن چُوں کہ کوئی اور بات ان کے زمانے میں موجود نہیں تھی، اس لیے کچھ نیا سوچنا اتنا آسان نہیں تھا، اس لیے قصے کے آخر میں زندگی نظریات کو حِسّی تجربات پر کچھ شرمندہ ہو کر تاویلات دیتی پھرتی ہے۔ اور خوش خرام روح بن جاتی ہے اور دیگر زندگی میں دیکھے ہوئے کردار علامتیں بن جاتے ہیں۔
خیر وارث شاہ سید انشا سے بہت بڑے شاعر ہیں، لیکن انشا کے ہاں بھی زندگی اور نظریے کی کش مکش ہے۔ نظریہ بند باندھتا رہتا ہے اور زندگی اپنی سر خوشی کے لیے راہیں ڈھونڈ لیتی ہے۔
جو شاعر زیادہ اندرونی ہو جاتے ہیں اور غم پرستی کے نظریات کی وجہ سے زیادہ مقبول بھی ہو جاتے ہیں ان میں جسے ڈیوڈ ہیوم بہ راہِ راست تاثر کہتے ہیں اس کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ساری زندگی ٹینچ بھاٹہ میں گزری ہو لیکن باتیں سوئٹزر لینڈ کی پہاڑیوں کی چل رہی ہوتی ہیں۔ ہم جیسے سادہ دلوں کے ساتھ یہ چکر چل جاتا ہے مگر جو سوئٹزر لینڈ میں رہتا ہو اور ان پہاڑیوں کی سیر کو بھی جاتا رہا ہو، اسے تو دو چار باتوں میں ہی پتا چل جاتا ہے کہ بھائی اندرونی کہیں نہیں گیا۔
اور جب اندرونی پریوں سے ملتے ہیں، اپسراوں کے ساتھ سبھائیں سجاتے ہیں، حوروں سے اختلاط کرتے ہیں تو جو دنیا دار ہوتے ہیں وہ سمجھ جاتے ہیں کہ کوئی پری شری نہیں بَل کہ اپنی نوشی کے حسن کے سلسلے میں مبالغے کیے جا رہے ہیں۔ اندرونی ہوں یا بیرونی، شاعروں میں تو یہ مبالغے بہت ہوتے ہیں اور شاید دل بہلانے کے لیے یہ اچھا بھی ہے لیکن بہ ہر حال صداقت کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔
سید انشا کے ہاں مظاہرِ فطرت اور معشوقوں سے معاملات بندی کے حوالے سے حِسّیاتی تجربات کثرت سے ملتے ہیں۔ مظاہرِ فطرت کے حوالے سے شاعری کی پردیس میں بڑی عزت ہے۔ احساسات اور خیالات کے میں اس کا رچاؤ ہو جائے تو ایسی شاعری کو بڑی عزت کی جاتی ہے۔ اور کبھی یہ صرف سیدھی سادی منظر کشی ہو تب بھی اس کی عزت نہیں گھٹتی۔ لیکن رومانوی تحریک کے زیر اثر کے یہ بیرون پسندی بھی کبھی جعلی اور مصنوعی لگنے لگتی ہے۔
رومانوی تحریک پر ہم کوئی بیس سال پہلے کچھ لکھ چکے ہیں، اگر وہ تحریر کہیں مل گئی تو آپ سے شیئر کر دیں گے۔ بہ ہر حال، ہمارے ہاں معاملات مَن و تُو، بَل کہ تو، کیا کہیں معاملات من کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اور سید انشا کی فطرت بینی یکتائی کے بحرِ بے کراں میں کہیں کھو گئی ہے۔ ہم نے ان کے کچھ شعر پڑھے، اس میں ان کی معاملات بندی میں صداقت اور ان کا فطرت کا مشاہدہ و تجربہ اچھا لگا، چند شعر آپ کی نذر کر دیتے ہیں۔
بھلا آپ شرمائے کس واسطے
کبوتر کا جو باہم جوڑا لگا
پاسباں چاند رہا تا بہ سَحَر چاندنی میں
رات جو سو رہے ہم اس ماہِ تاباں سے لپٹ
جوں گلی میں مجھے آتے ہوئے دیکھا تو وہ شوخ
اپنی چوکھٹ سے اچک جھٹ سے گیا پٹ سے لپٹ
موج بہار لالہ خود رو نے اے نسیم
کچھ آگ سی لگائی ہے آ کوہسار پر
سو سو طرح کی شکل دکھاتا ہے کیا کروں
عکس شگوفہ ہے جو پڑا آبشار پر
یہ لہریں لیتی ہے آئینے میں وہ زلفِ سیاہ
کہ لہریں لیوے پڑا جیسے ناگ پانی پر
جاتے ہو تو یاد رکھیو مجھ کو
مت کیجیو مہر باں فراموش
انشا نہیں جو ہم دم کوہ کوئی اس کا
ہے کبک کی فریاد ہی فریاد رس کبک
داماں کو میرے ہاتھ سے اس رات مت جھٹک
تجھ کو سحر کے چاک گریباں کی قسم
گھر سے باہر تمھیں آنا ہے اگر منع ہے تو آپ
اپنے کوٹھے پہ کبوتر تو اڑا سکتے ہیں
کھڑی جھانکتی ہے وہ پری نہیں اس میں شبہ واقعی
وہ جو عِطرِ فتنہ کی باس تھی سو رچی ہوئی ہے کواڑ میں
انشا تو اینڈتے ہیں پڑے میکدے کے بیچ
کہیو سلام زاہد شب زندہ دار کو
اس طرح کے تجربات پر مبنی انشا کے بہت سارے اشعار ہیں۔ ویسے اندرونیوں کے شعر بھی تجربوں پر مبنی ہوتے ہیں مگر وہ ان تجربوں کا denial کر رہے ہوتے ہیں یا ان کو رخ کسی اور سمت موڑ دیتے ہیں۔ اور کچھ ایسی صورتِ حال ہو جاتی ہے کہ
روندی یاراں نوں لے لے کے بھراواں دا ناں
انشا کے ہاں تصوف کے مضامین بھی بہت ہیں لیکن انشا بہت دفعہ جیسے زندگی دیکھی ہوتی ہے، اس کی منظر کشی کر رہے ہوتے ہیں۔ بدلتی ہوئی زندگی پہ اتنی گہری نظر نہیں ہے اور معاشرے کا تجزیہ بھی کم نظر آتا ہے۔
میرزا رفیع سودا انشا کے مقابلے میں زیادہ بیرون پسند ہیں۔ وہ بتاتے رہتے ہیں کہ شہر میں کیا ہو رہا ہے، رئیس کیسے ہیں، کوتوالی میں کیا چل رہا ہے۔ نظیر اکبر آبادی بھی ہیں جو اپنے ماحول کے بارے میں بہت ساری باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اپنا یہ لطف لوگوں سے بانٹتے بھی ہیں۔
ہمارا بھی مشن ہے کہ لوگ حجروں سے نکلیں، دنیا دیکھیں، کچھ دنیا سے لطف اندوز ہوں اور کچھ ہم دردی کے جذبے جاگیں تو شاید بات جمہوریت، شہریت اور سائنس کی طرف چل پڑے اور حجروں کے نتیجے میں ذہنوں جو بادیے بن گئے ہیں، وہ کچھ گُل زار ہوں اور مسائل کے حل ہونا شروع ہو جائیں۔
کِشف و کرامات اور افسانہ و افسوں کی رنگینیوں اور حیرت ناکیوں کے با وجود ہمیں البیرونی زیادہ پسند ہیں کہ انھوں نے معاملات کی تفہیم کی کوشش کی۔ اس لیے ہمیں جب بھی کوئی بیرون پسند آتا ہے تو خارجی دنیا کی عزت و منزلت بڑھانے کے لیے اس کی خوبیوں کی طرف توجہ دلانے لگتے ہیں۔ مگر علم و مسرت کا حِسّیات سے کچھ ناتا ایسے ٹوٹا ہے کہ بات بن نہیں رہی۔