ممنوعات کا ناول : چار درویش اور ایک کچھوا، از سید کاشف رضا
تبصرہِ کتاب: از، خضرحیات
سیّد کاشف رضا میرے لیے اگرچہ نیا نام تھا مگر جب مجھے پتہ چلا کہ اجمل کمال نے ‘آج’ رسالے میں ان کا ناول چھاپا ہے تو میں متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ معلوم ہوا کہ یہ کاشف رضا کا پہلا ناول ہے اور اس سے پہلے وہ شاعری لکھتے رہے ہیں۔ ناول موصول ہوتے ہی اسے پڑھنے شروع کیا تو جیسے ایک حیرت انگیز سلسلہ شروع ہوگیا۔ ناول کے اندر موجود کہانیوں کے تانے بانے نے مجھے یوں جکڑا کہ مصنف کے تخلیق کردہ کردار ہر لحظہ مجھے اپنے اردگرد چکر کاٹتے محسوس ہونے لگے۔ میں خود کو غیر مرئی طور پر ناول کے پلاٹ میں ہی موجود پانے لگا۔ مصنّف کی بنائی ہوئی دنیا دھیرے دھیرے میری حقیقی دنیا میں خلط ملط ہو رہی تھی۔ یہ یقیناً ایک پُر اسرار کیفیت تھی۔
سیّد کاشف رضا کا پہلا ناول ‘چار درویش اور ایک کچھوا’ ممنوعات کا ناول ہے جس میں ایسے موضوعات کو کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے جن پر ہمارے معاشرے میں کھل کر بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ ناول ہمارے منافقانہ معاشرتی رویوں پر کھلے لفظوں میں تنقید کے تیر برساتا ہے اور ہمارے دُہرے معیار کی پیوند زدہ چادر کو الٹا کے رکھ دیتا ہے۔ جنس اور جنسی عمل، انتہاپسندی اور دہشت گردی کے تانے بانے، پاکستان میں بسنے والی غیر ایک غیر مسلم اقلیت کے احساسات اور چند دیگر ایسے ہی موضوعات جن پر لب کشائی اب جان سے جانے کی انتہا تک لے جا سکتی ہے، ان پر مصنف نے بڑے واضح اور دلچسپ انداز میں گفتگو کی ہے۔
سیکس کو ہمارے معاشرے میں ٹیبو سمجھا جاتا ہے مگر مصنف نے تمام کرداروں بالخصوص اقبال محمد خان، جاوید اقبال، کلثوم، ام سلمٰی، زرینہ، مشعال اور جنرل رانی کی مدد سے سیکس کی نفیسات سے متعلق ایک تفصیلی بحث فراہم کی ہے۔ محبت کیا ہے؟ سیکس کی خواہش کیا ہوتی ہے؟ کیا محبت بھی سیکس ہی ہے؟ مرد عورتوں میں کیا پسند کرتے ہیں اور عورتیں مردوں کو کن بنیادوں پر پُرکشش سمجھتی ہیں۔
الگ الگ ثقافتی اور سماجی پس منظر کے لوگوں میں جنس کی یہ خواہش کیسے پیدا ہوتی ہے اور کیسے اپنا نکاس ترتیب دیتی ہے۔ ریالٹی کی تشکلیل میں جنسی عمل کس طرح اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ سب تفاصیل ناول میں نہایت خوبصورتی سے پیش کی گئی ہیں۔ ناول کے تمام کرداروں کا انتخاب دانستہ طور پر مختلف طبقات سے کیا گیا ہے۔ اتنے مختلف طبقات کے کرداروں کے اتنے مختلف انداز کا مشاہدہ کرنا پھر انہیں ناول کے پلاٹ میں جگہ دینا اپنی جگہ بے مثال مہارت کا نمونہ ہے۔
کچھ پڑھنے والے شاید اس ناول کو محض جنس سے گُندھی ہوئی تحریر یا جنسی گائیڈ کے طور پر دیکھیں مگر یہ امر اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جنسی رُجحانات، ممنوعات اور ممکنات کے خمیر سے مصنّف نے ایسی کہانی اٹھائی ہے جو اندر تک ہمیں اپنے رویّوں کا جائزہ لینے پر مجبور کرتی ہے۔ فرانسیسی فلسفی رینے ڈیکارٹ کے مشہور زمانہ فلسفے ‘میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں’ کو مصنف نے اپنا مقدمہ مضبوط کرنے کے لیے قدرے تحریف کے ساتھ ناول میں یوں لکھا ہے: ‘میں چو*تا ہوں، اس لیے میں ہوں’۔
دوسرا موضوع جس پر اس ناول میں بحث کی گئی ہے وہ مذہبی انتہاپسندی کا موضوع ہے جسے بڑی نفاست کے ساتھ چھوا گیا ہے اور اسی نفاست کے ساتھ ملکی سیاست کی چند جھلکیاں بھی دکھائی گئی ہیں۔
تقدیر کا کھیل بھی نرالا ہے، منڈی بہاؤالدین کے مضافات میں عالمگیر کے گھر میں تحصیل دار اقبال محمد خان کا پیدا ہونے والا ناجائز بچہ، بالا، کس طرح مجبور ہو کر گھر سے بھاگ کر دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور پھر کیسے وہ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے قافلے پر کراچی اور راولپنڈی میں ہونے والے دونوں خودکش دھماکوں میں مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے موت کو گلے لگاتا ہے، یہ کہانی بہت معنی خیز ہے۔
خودکش دھماکوں کے لیے تیار کیے جانے والے لڑکوں کی تربیت کس ماحول میں ہوتی ہے اور کس طرح کی تقریریں انہیں جنت میں جانے کے لیے بے قرار کر دیتی ہیں، یہ سب بھی ناول کے صفحات میں کاشت کر دیا گیا ہے۔
ان دو کے علاوہ تیسرا موضوع جو آج کل اگرچہ ایک مرتبہ پھر زیرِ بحث تو ہے مگر اس پر بحث کرنے والا کب ملک دشمن اور قابلِ تلافی مخلوق بن جائے کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ایک غیر مسلم اقلیت کو پاکستان میں رہتے ہوئے کس کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔
نفسیاتی طور پر وہ اپنے شب و روز میں کس طرح کا دباؤ محسوس کرتے ہیں، انہیں شادیوں اور مرنے کے وقت کسی قسم کی الجھنوں کا شکار ہونا پڑتا ہے ناول نے اس پہلو کی صورت گری نہایت دکھ بھرے انداز میں کی ہے۔ یونیورسٹی میں پڑھانے والے پروفیسر پر اس کے بعد کیا گزرتی ہے جب اسے احمدی ہونے پر استعفیٰ دینا پڑتا ہے اور پھر ایک مسلمان لڑکی سے شادی کے وقت اس کے کیا جذبات ہوتے ہیں، یہ کہانی بلاشہ ناول خوبصورت حصہ ہے۔
‘چار درویش اور ایک کچھوا’ کے شروع میں ہی فرانسیسی دانشور ژاں بودریاغ کا ایک قول نقل ہے جس سے یہ اندازہ ہوگیا کہ آگے چل کر حقیقت کی تشکیل، حقیقت کی حقیقت اور حقیقت کو پیش کرنے کے مختلف انداز اور زاویے زیر بحث آئیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ ناول پڑھتے ہوئے کئی جگہوں پر مصنف کے تخیل پر مرزا اطہر بیگ کا اثر بھی محسوس ہوا۔ مختلف زمان و مکان میں الگ الگ بسنے والے کرداروں کی کہانیوں کا بیان مجھے کسی حد تک ‘حسن کی صورت حال’ سے مشابہ لگا۔ اور پھر جس طرح راوی کا راستہ روک کر مصنف خود بھی براہ راست کہانی میں داخل ہو جاتا ہے اس سے مجھے ‘حیرت کی ادارت’ والے مرزا صاحب کے مدیر کا خیال آنے لگا۔
ناول کے پانچ کرداروں میں سے ایک تحصیل دار اقبال محمد خان کی عادات اور خصائل کا کچھ رنگ ڈھنگ بیٹوں میں بھی منتقل ہوتا ہے اور جب جاوید اقبال اپنے والد کی طرح کی ہی ایک کشمکش میں الجھ کر کہتا ہے کہ مجھے صرف جنس کی خواہش نہیں ہے، یہ میرا پیار کرنے کا انداز ہے اور مجھے دراصل بس محبت چاہیے۔ اس وقت مجھے مرزا اطہر بیگ کا ‘غلام باغ’ میں لکھا ایک باب ‘ارذل نسلوں کی اساطیر’ بھی یاد آنے لگا۔ اس میں درج تھا کہ کچھ مخصوص عادات کس طرح ایک نسل سے دوسری میں منتقل ہوتی رہتی ہیں اور نسلوں تک انسانوں کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ یہاں بھی بیٹے جب باپ جیسی کسی صورت حال میں پھنس جاتے ہیں اور پھر انجانے میں اپنے باپ جیسے ہی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں تو ہمیں عادات و خصائل کے اس پر اسرار بہاؤ پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑتا ہے۔
اقبال محمد خان کی ڈائری میں لکھے جُملے
‘Why you had to do this Alamgir’
سے لے کر اس کے بیٹے آفتاب اقبال کے
‘Why you had to do this Umme Salma’
لکھنے تک کا سفر یقیناً پراسرار ہے۔ شاید تقدیر ایسے ہی اپنا کام کرتی رہتی ہے۔
ناول میں ہمیں ہالی وُڈ فلموں اور کچھ عظیم مصنّفین کی کہانیوں کے حوالے بھی ملتے ہیں۔ مختلف ادوار میں لکھی کہانیوں اور ناولوں کو جس مہارت سے اس ناول کی کہانی کے کرداروں کے حالات سے جوڑا گیا ہے، یہ مشق اردو ناول نگاری میں بہت کم دیکھنے میں آئی ہے۔
پھر ناول کا اختتام اس قدر دلفریب ہے کہ مجھے ہالی وُڈ کی ایک فینٹسی فلم ‘بِگ فش’ یاد آ گئی۔ اس فلم کا مرکزی کردار بھی ہمارے ناول کے مرکزی کردار اقبال محمد خان (یہ مرکزی کردار والی پخ خالصتاً میری ذاتی ہے، مصنف نے ایسے کسی بھی اشارے سے اجتناب برتا ہے) کی طرح کا ہی ایک دلفریب کردار ہوتا ہے۔ دونوں عظیم کرداروں کا موت سے آمنا سامنا بھی معمولی حالات میں نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ دونوں کرداروں کا جھیل کنارے ڈرامائی اور افسانوی انداز میں مرنا مشابہ بھی ہے اور دلفریب بھی۔ اس کے علاوہ اقبال محمد خان کا آرکیالوجی کا شوق، شعر و ادب سے لگاؤ، سیکس کے لیے ترتیب دیا گیا معیار اور اس کے حصول کا اہتمام، عورتوں کو زیر کرکے تسکین پانے والی حِس، سُلطانہ سے اس کی بے پناہ محبت یہ وہ چیزیں ہیں جو اس کردار کو قابل رشک بنا دیتی ہیں اور انہیں کی بنیاد پر میں نے اسے مرکزی کردار سمجھا ہے۔
کردارنگاری کی بات کی جائے تو کہانی کا ہر کردار ہی دلفریب ہے اور دوسرے سے بازی لے جانے کی ضد میں ہے۔ ناول پڑھتے ہوئے میں جس بھی کردار کے بارے میں پڑھنے لگتا تھا وہ میرا پسندیدہ کردار بن جاتا تھا۔ یہاں تک کہ نیا کردار کہانی کے پلاٹ میں وارد ہوتا اور میری تمام تر پسندیدگی کا محور اب نیا کردار بن جاتا۔ ناول کا ہر کردار اپنی تمام تر شخصیت اور نفسیات کے ساتھ ایک بھرپور انداز میں ہمارے سامنے آتا ہے اور اسی بھرپور انداز میں ہر موڑ پر اپنے وجود کی وکالت کرتا نظر آتا ہے۔
یہ ماننے کی بات ہے کہ اقبال محمد خان، جاوید اقبال، آفتاب اقبال، بالا، زرینہ، صادق بھائی، کلثوم، سلمٰی، مشعال، ام سلمٰی، عالمگیر اور کچھوے کی صورت میں تخلیق کردہ کرداروں کی تشکیل نے ناول کی اس دنیا کو کچھ ایسے انداز میں ترتیب دیا ہے کہ ان کے چہرے اور رنگ ڈھنگ دیکھ کر تخلیق کار کے فن پر رشک آئے بِنا نہیں رہتا۔ کچھوے کے کردار کو جہاں تک میں سمجھا ہوں وہ ایک علامتی کردار ہے۔
یہ ایک ایسا کردار ہے جو موجود تو ہر جگہ ہوتا ہے، جسے ہر کہانی معلوم ہوتی ہے مگر نہ وہ نظر آتا ہے اور نہ اس کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔ یہ پاکستانی منظر نامے کا ایک مستقل کردار ہے جو سب کچھ دیکھتا ہے مگر خود کسی کو نظر نہیں آتا۔ دوسری ممکنہ صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کچھوے کو ہر کردار کے ہمزاد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جو باتیں انسان کسی کے ساتھ نہیں کرتا وہ اپنے آپ کے ساتھ کرتا ہے اور اس کا یہ ہمزاد اسے ہر وقت مشاہدے میں رکھتا ہے۔
ان کرداروں کے ذریعے مصنف نے کئی موضوعات پر ٹارچ کی روشنی گرائی ہے اور بس ایک ہی جھلکی میں اس موضوع کے نین نقش دکھا کر مصنف آگے گزر جاتا ہے مگر قاری کو سوچنے، سمجھنے اور غور کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ معاشرے کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟ محبت کیوں ناکام ہوتی ہے؟ محبت حاصل ہو جائے تو کچھ عرصے بعد بوریت کیوں پیدا کرنے لگتی ہے؟ اور ایسے ہی دیگر موضوعات کو ناول کا حصہ بنایا گیا ہے۔ مرزا اطہر بیگ کے ناول جب منظرعام پر آئے تھے تو ہمیں ان میں ایک نئے انداز، ایک نئے پن اور ایک جدیدیت کا احساس ہوا تھا۔
سیّد کاشف رضا نے بھی مرزا صاحب کی طرح ہی ایک نئے اور اچھوتے انداز سے کہانی کہی ہے اور کئی روایتی اسالیب سے ہٹ کر نئے اسلوب کو اختیار کیا ہے۔ یہ ناول پاکستانی ادب کی فہرست میں ایک معتبر نام کا اضافہ ہے اور امید ہے کہ بہت سے پڑھنے اور لکھنے والوں کو لمبے عرصے تک متاثر کرتا رہے گا۔