شامی بحران اور عالمی طاقتوں کی رسہ کشی
از، حسین جاوید افروز
شام کو بلاشبہ اس وقت اس کرہ ارض کا دہکتا ہوا خطہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ 2011 کے عرب بہار کے ہنگاموں سے پھوٹی خانہ جنگی نے اس عظیم الشان اور تقریبا تین ہزار سال پرانی تہذیب کے حامل ملک کو ایسی نظر لگائی کہ انسانیت بلبلا اٹھی۔ دسمبر 2017 میں داعش کے انہدام کے بعد شامی باشندوں نے سکھ کا سانس لیا ہی تھا کہ 2018 ان کے لیے مزید مصائب لیے نمودار ہوا۔ جب شام عالمی طاقتوں کی باہمی رسہ کشی کی دلدل میں مسلسل دھنستا ہی چلا گیا۔ کیا سات سال کی خونریز خانہ جنگی اور داعش جیسے خون آشام عفریت ہی کافی نہیں تھا جس نے پانچ لاکھ انسانوں کو موت کے مُنھ میں دھکیل دیا اور اب ایک بار پھر شام میں انارکی کے شعلے سلگنا شروع ہوگئے ہیں۔
تازہ ترین بحران اس وقت شروع ہوا جب 7 اپریل کو دوما میں سارین اور کلورین گیس کے ذریعے مہلک کیمیاوی حملے کے نتیجے میں سو سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے اور مغربی طاقتوں نے بشارالاسد کو اس کارروائی کا ذمہ دار قرار دیا۔ ابھی اس الم ناک حادثے پر صیحح طریقے سے تحقیقات بھی شروع نہیں ہوپائی تھیں اور اسلحہ انسکپٹروں نے متاثرہ جگہوں کا معائنہ بھی نہیں تھا کہ 14 اپریل کو امریکہ، فرانس اور برطانیہ کے مشترکہ حملوں کے نتیجے میں بھی سو سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔
اگرچہ یہ بات قابل غور ہے کہ امریکی کروز میزائل کی آدھی تعداد روس کے نصب کردہ S400 ڈیفنس سسٹم کے سبب تباہ ہوگئے۔ مگر اس سے ماسکو اور واشنگٹن اب بہت تیزی سے سرد جنگ کے ایک نئے دور میں داخل ہوچکے ہیں یوں ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگ بھی زوروں پر شروع ہوچکی ہے۔
ان حملوں کے فورا بعد ہی سیماب صفت امریکی صدر ٹرمپ کا ٹوئیٹ منظر عام پر آ گیا کہ’’مشن مکمل ہوگیا ہے۔ یہ تو ابھی صرف ایک ٹریلر ہی دکھایا ہے‘‘۔ افسوس اس کشیدگی بھرے ماحول میں ان عالمی طاقتوں نے نہ تو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام کسی اتفاق رائے تک پہنچنے کا انتظار کیا اور نہ ہی دوما کیمیاوی حملے کے حوالے سے کسی جامع تحقیقات کا انتظار کرنا مناسب سمجھا۔ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ ہمیشہ کی طرح بے اثر اور بے سمت ہی محسوس ہوئے۔
دوسری جانب روسی صدر پیوٹن نے بھی واضح پوزیشن لی اور کہا کہ کیمیاوی حملوں کی آڑ میں یہ مشترکہ کارروائی خاصی مشکوک دکھائی دیتی ہے۔ یہاں یہ سوال بہت اہم ہے آخر کیا حالات تھے کہ جن کی بناء پران تینوں ممالک نے انتہائی عجلت میں یہ حملے کیے؟ دراصل امریکی صدر ٹرمپ پہلے ہی امریکی انتخابات میں روسی کردار، جنسی سکینڈلز اور گن کلچر کو قابو نہ کرنے کی بدولت دن بدن اپنی مقبولیت کا گراف کھوتے جارہے ہیں۔ لہذا عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ کارروائی ان کو بہت سوٹ کرتی تھی۔ جبکہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے شروع دن سے ہی ایک کمزور وزیر اعظم کے طور پر سامنے آئیں۔ بریگزٹ سے اٹھے مسائل ہوں یا روسی ایجنٹ کی برطانوی سرزمین پر پرسرار موت۔ برطانوی رائے عامہ ان کے خلاف ہوتی جارہی ہے۔
جبکہ لاغر معیشت بھی تھریسا مے کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ لہذا ان کو بھی ایسی ہی کارروائی درکار تھی تاکہ ان کو سانس لینے کا موقع مل سکے۔ اب آتے ہیں فرانسیسی صدر امانویل میکرون کی جانب جو آغاز میں تو خاصے مقبول تھے مگر فرانس میں اپنی معاشی پالیسیوں کے سبب ان پر کڑی تنقید شروع ہوگئی۔ اس کے علاوہ فرانس میں ائر سروس اور ریلوے کی ہڑتالوں نے بھی میکرون کی مقبولیت کو خاصا متاثر کیا۔ جبکہ ٹریڈ یونینز کو دبانے اور بیروزگاری کے عفریت سے نبٹنے میں ناکامی بھی میکرون کو گھٹنوں پر لے آئی۔
بحیثیت مجموعی ان لیڈران کے داخلی مسائل نے انہیں مجبور کیا کہ شام میں سرعت رفتاری سے ایکشن کیا جائے اور داد سمیٹی جائے۔ ان حملوں پر روز بروز شکوک و شبہات کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں کیونکہ ہم نے 2003 میں بھی دیکھا تھا کہ کیسے ٹونی بلےئر اور جارج بش نے عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا واویلا مچا کر عراق کو تختہ مشق ستم بنا دیا تھا۔ اور بعد ازاں ثابت ہوا کہ صدام حسین کے پاس ایسے WMDs ہرگز موجود نہیں تھے۔
اس وقت مغرب اور محمد بن سلمان کے تناظر سے دیکھا جائے تویہ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ بشار الاسد تیزی سے غیر اہم کھلاڑی بن جائے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ صدر ٹرمپ جو شام میں تعینات دو ہزار امریکی فوجیوں کی واپسی کا عندیہ دے چکے تھے اب محمد بن سلمان کے اصرار پر سعودی خرچے پھر دوبارہ ان فوجیوں کو شام میں رہنے کی ہدایت کرچکے ہیں۔ لیکن سعودی حکمرانوں کو بھی شام کے حوالے سے اپنے مقاصد میں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ کیونکہ نہ تو وہ بشار الاسد کا دھڑن تختہ کر سکے اورنہ ہی ایرانی اثرورسوخ میں کوئی کمی لاسکے۔
دوسری طرف روسی مرد آہن ولادی میر پیوٹن ایک مضبوط شام کے خواہاں ہیں تاکہ روس مشرق وسطیٰ میں اپنی جاندار موجودگی کو جاری رکھ سکے۔ کیونکہ پہلے ہی روسی فوج طرطوس اور لطاقیہ کے فوجی مستقر میں مقیم ہے جہاں سے وہ بشار الاسد کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے۔ لیکن اس وقت سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اسرائیل اور ایرانی افواج پہلی بار شامی سرحد پرآنکھوں میں آنکھیں ڈالے آمنے سامنے موجود ہیں۔ اور کسی بھی وقت سخت کشیدگی کا یہ ماحول ایک خوف ناک تنازعے کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔
اسرائیل آغاز سے ہی لبنان میں حزب اللہ کی موجودگی اور اس کو دستیاب ایرانی اعانت سے نالاں رہا ہے۔ لیکن کسی پراکسی جنگ کا سہارا لیے بغیر ایرانی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمان، لبنان اور شام میں ایرانی افواج کو براہ راست طور پر تعینات کرچکے ہیں جس سے ایران کو شام میں حربی گہرائی نصیب ہوئی ہے۔ نیز اب ایران بحیرہ روم تک بھی رسائی حاصل کرچکا ہے جس کے بعد وہ مشرق وسطیٰ میں سنی عرب ریاستوں اور اسرائیل پر نظر رکھ سکتا ہے۔ جبکہ ایک گائیڈڈ میزائل فیکٹری اور ائیر بیس تکمیل کے مراحل میں ہے جس سے ایران کو مزید تزویراتی استحکام حاصل ہوگا۔
یاد رہے عرب اسرائیل جنگوں میں بھی تہران اور تل ابیب کا ٹکراؤ کبھی نہیں ہوا۔ افسانوی شہرت کے حامل ایرانی جنرل قاسم سلیمان، بغداد، دمشق، صنعا اور بیروت سمیت چار اہم ترین دارالحکومتوں پرگہرا اثر رکھتے ہیں۔ جبکہ تہران ایک ایسے مستحکم دمشق کا خواہاں ہے جو معاشی طور پر ایران پر بوجھ نہ بنے اور عرب سنی ریاستوں اور اسرائیل کے عزائم پر بھی نگاہ رکھے۔ اس کشیدہ ماحول میں جب حسن نصر اللہ اور ایران کی اسرائیل کے لیے سیکورٹی خطرات کا سبب بن رہے ہیں تو کیا تل ابیب خاموش رہے گا؟ یہ سوال کئی سنجیدہ مضمرات کا حامل ہے۔
اس سال فروری میں بھی کشیدگی اس وقت بڑھی جب ایک ایرانی ڈرون، اسرائیلی اپاچی ہیلی کاپٹر کے ہاتھوں تباہ ہوگیا۔ تاہم جب رواں ماہ ۹ اپریل کو شام کی ٹومار اےئر بیس پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں سات ایرانی فوجی اہلکار جاں بحق ہوئے تو اس سے تل ابیب اور تہران میں تناؤ آسمان کو چھو گیا۔ یوں اب اسرائیل کے دفاعی حکام بھی یہ اندیشہ ظاہر کرچکے ہیں کہ ایران اس کا بدلہ کسی بھی وقت لے سکتا ہے۔
یہاں بہت ضروری ہے کہ اب ہم ذرا 2018 میں شام کی جغرافیائی حیثیت کا جائزہ لیں کہ کون سا فریق کس کس پوزیشن پر فائز ہے؟ اسوقت تقریبا 45 فیصدشام، بشار الاسد کی عملداری میں آتا ہے جبکہ 30 فیصد کے قریب حصے پر کرد قابض ہیں۔ علاوہ ازیں15فیصد حصے پر حکومت مخالف انتہاپسند جنگجو گروپس قابض ہیں۔ جبکہ باقی ماندہ 10 فیصد رقبہ القاعدہ اور داعش کی باقیات کے زیر تسلط ہے۔ دسمبر میں داعش کے خاتمے کے بعد ترکی، روس اور ایران، شام کی تعمیر نو، بشار الاسد کے مستقبل اور شامی پناہ گزینوں کی واپسی جیسے پیچیدہ معاملات طے کرنے میں مصروف عمل تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ غوطہ پر دمشق کے قبضے کے بعد شام میں اس لاحاصل خانہ جنگی کا سلسلہ تھم جائے گا۔
مگر افسوس دوما کے کیمیاوی ہتھیاروں کے سانحے نے شامی منظر نامے میں قیام امن کے امکانات کو دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت کسی فریق کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ شام میں طوائف الملوکی اور انتشارکو بشار الاسدکی موجودگی یا عدم موجودگی میں کیسے قابو کیا جائے؟ کیونکہ بشار الاسد قوم پرستوں کے لیے نجات ہندہ ہے تو دوسرے فریقین کے لیے ایک مکروہ کردار۔ گویا بشار ایک ایسی گولی کی مانند ہے کہ جو نہ جسم سے تکلیف کی شدت کو کم کر پا رہی ہے اور نہ ہی جسم کو بے جان ہونے دے رہی ہے۔
لیکن افسوس ارض شام توجیسے وینٹی لیٹر پر ہے اور کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف مغربی قوتوں کی تازہ ترین یلغارسے بھی شام میں قیام امن کے امکانات کو مہمیز نہیں مل سکے گی اور نہ ہی شامی مہاجرین کی پرامن واپسی ممکن ہوسکے گی۔ معصوم بچوں کے لاشے کیمیاوی ہتھیاروں یا گولیوں کی بوچھاڑ میں بے گور و کفن عالمی ضمیر کی بے حسی کا ماتم کرتے رہیں گے۔
’’شام‘‘ آئے روز مایوسی، کشت و خون اور بے یقینی کے نئے بلیک ہول میں غرق یاب ہوتا جارہا ہے۔ شائد کوئی فریق بھی شام کا حل نہیں چاہتا۔ ہر کوئی اپنے مفادات کی روش پرشامیوں کو ہانکے چلا جا رہا ہے؟ مغربی استعمار کو اپنا اسلحہ مشرق وسطیٰ کے آمروں کو فروخت کرنا ہے کیونکہ اسے مشرق وسطیٰ میں ہر قیمت پر وار تھیٹر درکار ہے۔ یہ ایک تلخ اور تاریخی حقیقت ہے کہ مغربی بموں نے ہمیشہ ہر دور میں عرب آمروں کے اقتدار کو طوالت بخشی۔ جب اقلیتی فرقے کو اکثریتی آبادی کا حاکم بنایا گیا۔ اور مزاحمت کے نام پر اٹھنے والی ہر کوشش کو بزور کچلا گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے مغربی بساط سے تشکیل دی گئی غیر فطری جغرافیائی تقسیم مشرق وسطیٰ کے عوام کے لیے سوہان روح بنی رہے گی۔